Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نقش فریادی جولائی تا ستمبر 2022 > بائیں پہلو کی پسلی : ایک جائزہ

نقش فریادی جولائی تا ستمبر 2022 |
پنجاب لٹریری فورم
نقش فریادی جولائی تا ستمبر 2022

بائیں پہلو کی پسلی : ایک جائزہ
Authors

ARI Id

1695778069724_56118340

Access

Open/Free Access

        تخلیق‘تخلیق کار کی تخلیقی حِسیّت کی پہچان ہوتی ہے اور تخلیقی حِسیّت کی تشکیل میں عصری حِسیّت کا احساس بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ عصری حِسیّت کے شعور سے ہی نئی تخلیق میں تازگی نمو پاتی ہے۔اس تناظر میں جناب احمد رشید کی تصنیف”بائیں پہلو کی پسلی“کے افسانوں کی قرات کے بعد یہ ضرور محسوس ہوتا ہے کہ احمدرشید(علی گڑھ)ایک ایسے باشعور تخلیق کار ہیں‘جن کے بیشتر افسانوں میں تخلیقی حِسیّت کا احساس بھی موجود ہے اور عصری حِسیّت کا شعور بھی نظر آتاہے۔زیر نظر مجموعہ کا پہلا افسانہ”کہانی بن گئی“میں تخلیق کار کی تخلیقی فکر‘موضوعات کی فراوانی اور معاصر زندگی میں کہانی کی ضرورت اور قاری کے میلانات وغیرہ موضوعات کو موضوع گفتگو بنایا گیا ہے۔افسانے کی کہانی تجزیاتی فکرکے استفہامیہ بیانیہ پر تخلیق ہوئی ہے۔تجزیاتی فکر کا یہ استفہامیہ انداز مرکزی کردارکے لب و لہجہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے۔ افسانے کی کہانی ریلوے اسٹیشن کے منظر سے شروع ہوتی ہے اور بعد میں استفہامیہ انداز سے ایک انٹرویوکی صورت اختیار کر جاتی ہے۔ اس طرح افسانے کے بیشتر پلاٹ میں انٹرویوکی تکنیک اپنائی گئی ہے۔ افسانے کے فرضی کردار بصورت راوی وغیرہ کے جذبات و احساسات کابیان دلچسپ فنی برتاؤکی عکاسی کررہے ہیں‘جس میں طنز ملیح بھی نظر آتا ہے اور تخلیقی سروکارکے اتار چڑھاؤکو بھی موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ افسانے کی ابتدا ریلوے اسٹیشن کے سین سے ہوتی ہے جہاں پر مرکزی کردار بڑی بے چینی سے ٹرین کا انتظارکرتا ہے۔ٹرین کی آواز سنتے ہی لوگ اپنا سامان لیکر ادھر ادھردوڑنے میں لگ جاتے ہیں لیکن اس ہلچل میں مرکزی کردار کی مشاہداتی حِس بیدار ہوجاتی ہے اور وہ اسٹیشن پر موجود ایک کتّے کے شرم پسند فعل کا موازنہ اخلاقی طورپر مریض دماغوں کے ایک بے شرم قانون سے کرتے ہوئے تجزیاتی انداز سے طنز کرتاہے:

”قریب ہی ایک کتّا جو کچھ دیر پہلے اپنی ٹانگوں میں دم دبکائے امریکہ کے ہم جنسی قانون کا مذاق اڑا رہا    تھا۔میں سوچ رہا تھا انڈین ڈوگس کتنے کلچرڈ ہیں کہ اپنا ننگ پن دم سے چھپاتے ہیں۔“ کہانی بن گئی۔ص۱۲                                                                                                                                                 

  ۲۱جون کو عالمی سطح پر چائلڈ لیبر ڈے منایا جاتا ہے۔سرکاری و غیر سرکاری سطح پر بچہ مزدوری کو روکنے کے لئے بلند بانگ دعوے کئے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہر جگہ بچے مزدوری کرتے نظر آتے ہیں۔ فاضل افسانہ نگار نے بھی اس اہم انسانی مسئلے کی طرف افسانے میں اشارہ کیا ہے اور ریلوے اسٹیشن پر ایک بچے کواخبار بیچتے ہوئے بچہ مزدوری روکنے کے قانون پر طنز کا تیر یوں چلایا ہے:

“زندگی کے بوجھ میں دھنسا بچہ زور زور سے آواز لگارہا تھا۔آج کی تازہ خبر بچوں سے مزدوری کرانا اپرادھ ہے۔“   کہانی بن گئی۔ص۱۲                                                                                                                                                                                     

   اس افسانے کا بنیادی موضوع فن کار کا تخلیقی تجربہ ہے اور اسی تخلیقی تجربے کی مختلف جہات کو مکالماتی انداز سے موضوع بحث بنایا گیا۔یہ مکالمہ دو تخلیق کاروں کے مابین ہوتاہے جو افسانے کی مرکزی کردار عورت اور دوسرے مرد کردار کے باہمی احساسات اور تجربات کی تخلیقی فکر کا اظہاریہ بن جاتا ہے۔عورت کی سوچ پر فلسفیانہ اثر نمایاں ہے اور مرد بھی تجزیاتی نقط نگاہ سے ہر سوال کا جواب فلسفیانہ اور تخلیقی تجربے کے احساس سے دیتا ہے۔مرکزی کردار جب حیات وکائینات کے تناظر میں انسان کوسمجھنے کی کوشش تخلیقی تجربہ سے جوڑتی ہے تو مرد کردار کسی بھی تجربے کے اظہارکو فن کار کی سوچ کا زائدہ قراردیتے ہوئے کہتا ہے:

”زندگی کا کوئی تجربہ ہو یا احساس‘فنکار اپنی ذات میں انگیزکرتا ہے‘اپنے ہی حوالے سے اپنی سوچ کا اظہار کرتا ہے۔“                                                                                                                        (کہانی بن گئی۔ص۴۲)

       تخلیقی تجربے کے تعلق سے یہ بات صحیح ہے کہ کوئی بھی فنکار کسی بھی تجربے کو اپنی سوچ کے مطابق ہی تخلیق میں پیش کرتاہے۔اگر ایسا نہیں ہوتا تو ہر جگہ یکسانیت کا غلبہ نظر آجاتا۔اسی طرح سماجی ارتباط اور تہذیبی اختلاط کے مابین تصادم کو فنی کارگزاری کے عمل اور رد عمل کے استفہام پر مرد کردار اظہار خیال کرتے ہوئے کہتا ہے:

  ”جی ہاں‘رد عمل ہی تخلیق کی بنیاد ہے۔عمل کی کھوج میں‘قانون داں‘صحافت داں اور دیگر علوم کے ماہرین کرتے ہیں۔“                                                                                                                                                     (کہانی بن گئی۔ص۴۲)  

افسانے میں کہانی کی عصری معنویت اور موضوعات کے مسئلے پر دلچسپ مکالمہ پیش ہوا ہے اور افسانہ نگار نے عمدہ خیالات سے نئے لکھنے والوں کا حوصلہ بڑھایا ہے۔کہانی کی معنویت اور موضوعات کی فراوانی کے تعلق سے کہا گیا ہے کہ انسان کی زندگی کے ساتھ کہانی بھی زندہ رہے گی اورکہانی کے موضوعات کا معاملہ زندگی کے تئیں رویے اور برتاؤ سے منسلک ہے کیونکہ ”زندگی کے رویوّں کا حقیقی اظہار ہی فنی جمال ہے۔“اس افسانے کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں افسانویت کے ساتھ ساتھ کہانی پن بھی موجود ہے اور کرداروں کی سوچ اور زبان وبیان کا مناسب خیال رکھا گیا ہے۔اس سب کے باوجود افسانے میں چند دعو یٰ نما خیالات سے اختلاف رائے کی گنجائش بھی نکلتی ہے۔ انسان کی اعلیٰ و ارفع کیفیتوں کے بیان کو فن کی معراج قرار دیتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ”زندگی کی اعلیٰ و ارفع کیفیتوں کا اظہار عورت ہی کرسکتی ہے‘ ورنہ زندگی کی پستی اور ادنیٰ کیفیتیں‘فن کا موضوع بنانے کے لئے میرے جیسا فن کار چاہئے۔“اگر چہ یہ مکالمہ فرضی کرداروں کے درمیان ہورہا ہے لیکن یہاں پر افسانہ نگار کا نقطہ نظر بھی سامنے آرہا ہے۔دراصل‘زندگی کی اعلیٰ وارفع یا پستی اور ادنی کیفیات کے فنی اظہار کے لئے قوت تخیل یا تخلیقی توانائی کا جواز ہی مناسب معلوم ہوتا ہے‘جو مرد یا عورت کے قوت تخیل کے مابین امتیاز کرنے سے کوئی واسطہ نہیں رکھتا ہے۔ دونوں جنس کی تخلیقی نگارشات میں زندگی کی متنوع کیفیات کا اعلیٰ تخلیقی بیان ظاہر ہوسکتا ہے۔

       امتیازجنس فکشن کا ایک اہم موضوع رہاہے۔اس موضوع میں عام طور پر مرد کی حاکمیت اور عورت کی محکومیت کو ڈسکورس بنایا جاتا ہے۔ حقوق نسواں کے تناظر میں دیکھیں تو نسائی تحریکوں کا اثر کسی نہ کسی صورت میں شعر وادب پر بھی پڑتا رہااور نسائی مسائل وموضوعات کامکالمہ تانیثی تھیوری کی صورت اختیار کر گیا۔زیر نظر مجموعے میں افسانہ”بائیں پہلو کی پسلی“کی کہانی بھی تانیثی ڈسکورس پر تخلیق ہوئی ہے۔ افسانے کی کہانی نسائی مسائل و موضوعات کا ایک ایسا تخلیقی منظر نامہ ہے جس میں عورت کی تخلیق سے لیکر عصر ی عہد تک کے زمانے کا احاطہ کیا گیا ہے۔ افسانے کاپلاٹ ایک عورت کی ذہنی کیفیات اور نفسیاتی الجھنوں پر تشکیل ہوا ہے۔کہانی میں چونکہ ایک عورت ہی مرکزی کردار کی حیثیت سے موجود ہے‘ اس لئے کہانی کی ابتدامرکزی کردار کی احساس کمتری سے شروع ہوکر مختلف ادوار کے معاشرتی‘عائلی اور مذہبی معاملات اور مسائل کا احاطہ کرتی ہوئی اختتام کو پہنچتی ہے.ایک طرح سے یہ افسانہ تانیثی موضوعات کا ایسا فنکارانہ اظہار ہے جس میں فلیش بیک تکنیک کے توسط سے قدیم دور سے لیکر جدید دور کے بنیادی نسائی مسائل کوموضوع بحث بنایا گیا ہے اور تواریخی انداز سے کئی ادوار کے منفی اور مثبت اپروچ کی دلچسپ افسانوی عکاسی کی گئی ہے۔افسانے کا بنیادی موضوع عورت کا وہ نفسی تناؤ  (Psychic Tention) ہے جو تواریخی طورپر ہر دور کی عورت کی نفسیاتی جبریت  (Psychological Determinism)  کا افسانوی احاطہ کررہا ہے۔ افسانے میں عورت کے اس نفسی تناؤکی شروعات شجر ممنوعہ جو کہ ایک مذہبی قصہ ہے‘سے کی گئی ہے اور مرکزی کردار کی زبان سے تناؤ کے اس ابتدائی مرحلے کی عکاسی یوں کی گئی ہے:

”مجھ کم عقل کی مت ماری گئی۔لالچ اور خواہش میں آگئی....ایک عجیب تذبذب کا عالم تھا.....ہاں یا نا کی کشمکش تھی....صبر اور خواہش کی اس جنگ میں صبر ہارگیا۔شجرممنوعہ کے کھانے کا انجام یہ ہوا کہ ستر کھل گئے۔الزام میرے سر گیا۔

(بائیں پہلو کی پسلی۔ص۶۳)

      افسانے میں عورت کی داستان کو منطقی انداز سے بیان کیا گیا ہے اور کہانی کوتواریخی نقطہ نگاہ سے ہندوسماج‘عیسائیت وغیرہ کے منفی رسم ورواج اور اسلام کی مثبت تعلیم کے ساتھ ساتھ دورجدید کے حقوق نسواں کی تحریکوں کے پس منظر میں موجودہ دور کی تعلیم یافتہ عورت کی استحصال احساس سوچ اور فکری الجھاؤئکے دائرے میں مکمل کیا گیا ہے۔اس افسانے کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ افسانے کا بیانیہ مابعد جدید افسانے کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ اس میں صرف ایک کردار کاواقعہ بیان نہیں ہوا ہے بلکہ آزادانہ طورپر ایک جنس کی تواریخی روداد بھی پیش ہوئی ہے۔اب افسانے کے پلاٹ کی بات کریں تو کئی جگہوں پرکہانی میں صحافتی اسلوب کے زیر اثرسنسی خیز ماحول بنانی کی کوشش نظر آتی ہے جو کچھ حد تک کہانی کے تسلسل کو متاثر کررہا ہے۔ مثلاََ:

”ڈاکٹری زندگی کو موت کے منہ سے چھیننے کا پیشہ ہے لیکن ڈاکٹر موت کا دوسرا نام ہے۔“”عرب بہاریہ“جلی خبر....لبنان میں انقلاب....شام میں انقلاب کی دھمک........“

      بحرحال‘مجموعی طور پر یہ افسانہ تانیثی فکشن کی عمدہ مثال قرار دیا جاسکتا ہے‘کیونکہ اس کی کہانی میں تانیثی مسائل و موضوعات کی بہترین افسانوی عکاسی کی گئی ہے۔

     پیش نظر کتاب کا ایک افسانہ”بھورے سید کا بھوت“ہاررفکشن  (Horror Fiction)  کے زمرے میں آتاہے‘کیونکہ افسانے میں ایک خوف انگیزسماجی توہم پرستی کوموضوع گفتگو بنایا گیا ہے۔مرکزی کردار کی نفسیات پر بچپن میں بھورے سید کے بھوت کا خوف اثر انداز ہوتا ہے اوراس کی نفسیات پرتاعمر توہم پرستی کا یہ خوف چھایا رہتا ہے۔ لیکن افسانے کے کلائمکس میں توہم ترستی پر طنزآمیز نشتر چلانے سے کہانی دلچسپ موڈ لیتی ہے اوراس کے منفی اثرات سے بچنے کی راہ بھی ہموار کرتی ہے۔ رات کے سناٹے میں جب مرکزی کردار قبرستان کے راستے سے گھر لوٹتا ہے تووہ معمولی آہٹ سن کر بھی خوف زدہ ہوجاتا ہے۔چلتے چلتے اس کی نظر ایک کالے سائے پرپڑتی ہے اور سایہ کے سکڑتے ہی اس کے جسم پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے۔ایسے بھیانک منظر سے حافظہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے اور وہ بڑی مشکل سے معوذتین کا ورد شروع کردیتا ہے تاکہ خوف سے نجات پاسکے۔اس کے بعد افسانہ نگار نے کلائمکس میں نہ صرف کردار کے خوف بلکہ بین المتن توہم پرست افراد کی مریضانہ سوچ کو ڈرامائی انداز سے یوں بے نقاب کیا ہے:

   ”بشیر صاحب! اتنی رات گئے کہاں سے آرہے ہیں.“فضا میں ایک آواز گونجی.خوف کی وجہ سے میری گِھی گِھی بن گئی. چاروں طرف نظر دوڑائی‘جواب دینے کے بجائے میرے اوپر سکتہ طاری ہوگیا۔

وہ سایہ دو قدم آگے بڑھا....میرے شانہ کو زور سے حرکت دی.”کہاں کھو گئے میں آپ ہی سے پوچھ رہا ہوں.“

”ہوں“میں نے چونک کر دیکھا”ارے سعید صاحب آپ ہیں.“

”ہاں‘پیشاب کرنے آیا تھا....آپ کو دیکھ کر رُک گیا.“

ایک ہی لمحہ وہ خوفناک منظر میری نگاہوں سے غائب ہوگیا۔۔۔“

 (بھورے سید کا بھوت۔ص۶۵)

افسانہ ”سہما ہوا آدمی“ایک ایسے سماجی موضوع پر تخلیق ہوا ہے جو فساد کی آگ کے انسانیت سوز نتائج کو قاری کے سامنے لاتا ہے۔فسادات پر اگرچہ پارٹشن کے وقت بھی دل دوز افسانے تحریر ہوئے ہیں لیکن آج بھی یہ خوفناک آگ کسی نہ کسی صورت میں ضرور بھڑکتی رہتی ہے۔یہ افسانہ بھی اسی آگ کی تباہ کاریوں کا افسانوی منظر پیش کررہا ہے۔افسانہ ایک فرضی کردار یعنی سہما ہوا آدمی کے گرد گھومتا ہے اور افسانہ نگار نے اس کردار کی مذہبی شناخت کو پوشیدہ رکھا ہے تاکہ قاری کو یہ مثبت پیغام مل سکے کہ فساد کی آگ کسی کے بھی گھر کو جلا سکتی ہے۔ افسانے کی ابتداء فساد کی وجہ سے شہر میں پھیلے ہوئے خوف وہراس کے منظر سے کی گئی ہے اور مرکزی کردار کو غیرجانبدار رول میں دکھایا گیا ہے‘کیونکہ وہ جب پہلے ایک لاش کو دیکھتا ہے تو اس کی کے منہ سے بے اختیار نکلتا ہے کہ”ارے یہ تو رحیم کی لاش ہے.“اور اس کی آنکھیں آنسوؤں سے نم ہوجاتی ہیں۔اسی طرح وہ دوسرے شخص کی لاش دیکھ کرتڑپ اٹھتا ہے کہ ”رام کا خون بھی رحیم کی طرح لال ہے‘مگر یہ کیوں مارے گئے.“ غیرجاندار ہونے کے باوجود بھی وہ نفرت کی آگ کا شکار ہوجاتا ہے اور فسادیوں کے بے رحم ہاتھ اس کی پیٹ میں خنجر پیوست کردیتے ہیں. اس طرح سے افسانہ نگارنے بڑی بڑی ہنرمندی سے یہ پیغام دیا ہے کہ فسادپسند لوگ کسی مذہب یا نسل کی پروا نہیں کرتے ہیں‘وہ صرف حیوانیت کے اسیر ہوتے ہیں‘کیونکہ افسانے کا اختتام ایک اخباری خبر کو بنیاد بنا کریوں ہوتا ہے:

”پولیس کی اطلاع کے مطابق مرنے والوں کی تعداد تین بتائی جاتی ہے لیکن ان میں ایک لاش ایسی بھی پائی گئی جس کا منہ  جھلسا ہوا تھا....اور عضو تناسل بھی غائب تھا‘اس لئے صحیح پہچان نہیں ہوسکی کہ وہ کون تھا؟“

زیر نظر افسانوی مجموعہ ”بائیں پہلو کی پسلی“کے افسانوں میں ایک بات قابل ستائش ہے کہ فنی طور پر یہ ایک صاحب شعور افسانہ نگارکی فنی ہنر مندی کا بین ثبوت فراہم کررہے ہیں‘کیونکہ ان افسانوں کی ساخت میں افسانویت کے ساتھ ساتھ کہانی پن بھی موجودہے اور فنی لوازمات کاتخلیقی برتاؤ بھی ٹھیک طرح سے نظر آتا ہے جو کہ فن افسانہ نگاری کے لئے لازمی ہے۔ان خوبیوں کی جانب پروفیسرصغیر افراہیم صاحب پیش لفظ میں اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

  ”احمد رشید نے اپنے افسانوں کو اعتدال کی راہ دی ہے جن میں بھر پور افسانویت‘تخلیقی ذائقے‘علامتوں اور استعاروںپرگرفت‘ترسیل اور ابلاغ کی آسانیاں ملتی ہیں۔“(احمد رشید کی افسانہ نگاری۔ص۹)

ان خوبیوں کے باوجودچند باتوں کا ذکر شاید بے جا نہ ہوگا کہ اس مجموعہ کے بیشتر افسانے تانیثی موضوعات پر تخلیق ہوئے ہیں جو کہ اپنی جگہ اہمیت تو رکھتے ہیں لیکن یہ روایتی موضوعات سبھی قارئین کے ذوق مطالعہ کی تازگی میں کوئی اضافہ کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں اور کئی افسانوں میں کہانی کی غیر ضروری طوالت نے پلاٹ کو بھی متاثر کیا ہے۔جیسے افسانہ”فیصلے کے بعد“وغیرہ۔بہرحال‘احمد رشید(علی گڑھ)کایہ افسانوی مجموعہ”بائیں پہلو کی پسلی“ایجیوکیشنل پبلیشنگ ہاوس (دہلی)سے ۴۱۰۲؁ء میں شائع ہوا ہے۔ مجموعے کا پیش لفظ معروف افسانہ نگارجناب پروفیسر صغیرافراہیم نے لکھا ہے۔ ۴۶۱صفحات پر مشتمل مذکورہ مجموعے میں درجہ ذیل اکیس افسانے شامل ہیں:

”کہانی بن گئی“”ویٹنگ روم“”بائیں پہلو کی پسلی“”بھورے سید کا بھوت‘‘”ایک خوبصورت عورت“ ”فیصلے کے بعد“ ”نیلم“  ”مداری“”دھواں دھواں خواب“’’دھوئیں کی چادر“”حاشیہ پر“”’وہ لمحہ“”چھت اڑگئی“”سہما ہوا آدمی“”ہاف بوٹل بلڈ“”اندھا قانون‘‘”بی بی بولی“”رینگتے کیڑے“”کرب کا سمندر“”ناخدا“”سفید لباس‘سیاہ راتیں“۔

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...