Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نقش فریادی جولائی تا ستمبر 2022 > تانیثیت کا نظریاتی پس منظر اور اردو کا نسوانی ادب

نقش فریادی جولائی تا ستمبر 2022 |
پنجاب لٹریری فورم
نقش فریادی جولائی تا ستمبر 2022

تانیثیت کا نظریاتی پس منظر اور اردو کا نسوانی ادب
Authors

ARI Id

1695778069724_56118341

Access

Open/Free Access

Pages

۳۷

ثانیثی  ادب  اور تنقید مخصوص جنسی گروہ کے لیے قلم بند کی جاتی ہے۔ جس کے لکھنے والے اور قاری مخصوص جنسی  گروہ سور رجحان سے وابستہ ہوتے ہیں۔  کیونکی اس جنسی گروہ کا معاشرے میں مخصوص کردار ہوتا ہے۔ 1960 میں یہ روئیے جدید  رنگوں مین  ایک عمرانیاتی  شعور کے ساتھ  ہمارے مطالعوں اور سوچوں کا حصہ بنے۔ثانیثیت {FEMINISM} کے معاشرتی اور ادبی نظریاتی مطالعات میں جنسی تعصّبات کے حوالے سے بہت حساس رہا ہے۔اس کے سکہ بند تصورات پر سوالات بھی اٹھاتی ہے۔ ثانیثی تنقید میں مارکسی، فرائدین، ساختیاتی پس ثانیثی تنقید، رد ثانیثی تنقید، نئی ثانیثی تنقید، نسلی اور مذھبی ثانیثیت تناظر میں اپنی اپنی تعبیرات اور تفاسیر بیان کی گئی ہیں۔ اس کو عورت کی مزاحمت اور احتجاج کا نظریہ بھی کہا جاتا ہے۔ جو عورتوں کے بارے میں تصورات، مفروضات کو منفرد سیاق و سباق عطا کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے ثانیثی ادب کے متن میں کچھ امور اور معاملات ایسے ہوتے ہیں جن کو اسے صرف عورت ہی سمجھ سکتی ہے۔اور سمجھا سکتی ہے۔ کیونکہ عورت کے تجربات اور حساسیّت کو مرد کلی طور پر سمجھ نہیں پاتا۔ مارکسی فکریات میں ثانیثیت سے کچھ زیادہ دلچسپی اور ہمدردی کے جذبات نظر نہیں آتے کیونکہ یساریت پسند فکریات میں طبقاتی درجہ بندی میں خواتین کا علحیدہ وجود تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح فرائڈ کی فکر میں انسانی تعلقات کے عمل کیمیائی و انسلاکات اور بین العمل میں مرد کا آلہ تناسل کو ثانیثی تجزیات سے منسلک کردیتا ہے۔ جو شارح اور رہنما بھی ہے۔ جو قوت مقتدر بھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ثانیثی تنقید اور مطالعوں کے زریعے عورت اپنے مادّی نظام کی گم شدہ شجرہ نسب کو دریافت کرسکتی ہے۔ حیدرقریشی نے  رقم طراز ہیں " صدیوں سے انسانی معاشرہ میں عورت کو کم تر درجہ دیا گیا لیکن یہ بھی درست ہے کہ عورت کو مرد کے برابر لانے کے لیے تدریجاََ کام بھی ہوتا آرہا ہے۔اور اب تو یہ کام بس تھوڑے سے فرق کے ساتھ رہ گیا ہے۔مرد حضرات کھڑے ہو کر سہولت کے ساتھ پیشاب کر سکتے ہیں جبکہ خواتین ایسا نہیں کر سکتیں۔سو مرد کی اتنی سی فضیلت تو ابھی باقی ہے۔جب یہ بھی عملاََ چیلنج ہو گئی تب دونوں کی حیثیت برابر ہو جائے گی۔’’عورت اور لغات‘‘میں عورت کی جو حیثیت سامنے لائی جاتی رہی ہے،اس کے بیشتر حصے بہر حال افسوس ناک ہیں۔یہاں اردو اور انگریزی لغات سے چند مثالیں عبرت کے طور پر پیش کر رہا ہوں۔

فرہنگِ آصفیہ: عورت۔آدمی کے جسم کا وہ حصہ یا ؑ ضو جس کا کھولنا موجب شرم ہے۔(مجازاَ) زن، استری،ناری،جورو،بیوی،زوجہ۔(ص۔۱۳۸۲)

لفظ زنانہ صفت کے اعتبار سے ان معنوں کا حامل ہے۔ نامرد، ڈھیلا،سست، زن صفت، بزدل۔(ص ۱۰۸۰)نوراللغات(جلد سوم):عورت۔وہ چیز جس کے دیکھنے دکھانے سے شرم آئے۔ناف سے ٹخنہ تک جسمِ انسان کا حصہ۔زوجہ۔بیوی،آدمی کے جسم کا وہ حصہ جس کا کھولنا موجبِ شرم ہے جیسے ستر عورت،یعنی شرم کے مقام کا چھپانا

ضرب الامثال:عورت کی ذات بے وفا ہوتی ہے۔عورت سے وفا نہیں ہوتی۔عورت کی عقل گدی کے پیچھے۔عورت بے وقوف ہوتی ہے۔عورت کی ناک نہ ہوتی تو گُو کھاتی۔ عورت ناقص العقل ہوتی ہے۔(نوراللغات ص۵۷۵)فیروز اللغات: عورت اور گھوڑا ران تلے (ص۔۹۰۶) ۔۔۔۔ { "ثانیثی تنقید" : ایک روزن  20  اکتوبر 2017}

حامدی کاشمیری لکھتے ہیں" موجودہ شعری صورت حال پر (فی الوقت شعری صورت حال ہی پیش نظر ہے ) جو کم و بیش مغرب کے ساتھ ساتھ مشرق میں بھی موجود ہے۔ایک نظر ڈال کر تنقیدی تناظر میں تانیثیت کے حولے سے کئی سوالات سر اُٹھاتے ہیں،مثلاً :

۱۔ تانیثی ادب / تانیثی تنقید کی اصطلاحات وضع کرنے کا کیا جواز ہے ؟

۲۔ کیا خواتین کی تخلیقی حسیت مردوں سے مختلف ہے ؟

۳۔ قدیم ادوار میں عورتوں نے مردوں کی طرح قلم ہاتھ میں کیوں نہیں لیا ؟

۴۔ کیا خواتین کے لکھنے کے محرکات مردوں سے مختلف ہیں ؟

۵۔ کیا خواتین قلم کار مروجہ زبان میں جو مردوں کی زبان ہے، ترسیلیت کا حق ادا کرتی ہیں ؟

۶۔ خواتین، تنقید نگاری میں مردوں سے پیچھے کیوں ہیں ؟

۷۔ کیا مرد نقاد،نسوانی تخلیقات کا غیر جانب دارانہ اور منصفانہ احتساب کر سکتے ہیں ؟

ان سوالات اور اس نوع کے دیگر سوالات کا جواب تلاشنے سے قبل (جس کی کوشش آگے کی جائے گی ) خواتین قلم کاروں کے مجموعی Output کی تنگ دامنی کو ذہن میں رکھنا ہو گا۔یہ بھی یاد رکھنا ہو گا کہ جس طرح قدیم زمانے سے مرد تخلیق کار ذہنی تحفظات اور امتناعات سے ماورا ہو کر،آزادی نفس کے ساتھ لکھتے رہے ہیں،خواتین ایسے خطوط پر لکھنے سے محترز اور معذورہی ہیں۔اس کا سبب جاننے کے لیے ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ معاشرتی،تمدنی اور معاشی پس منظر میں مردوں کے معاشرے میں عورت کا کیا مقام رہا ہے،اور وہ کس حد تک اپنی شخصیت کی تخلیقی انرجی کا ادراک، تحفظ،استحکام اور اظہار کرتی رہی ہے۔یہ گویا عورت کا گھریلو، ازدواجی، سماجی اور تمدنی حیثیت اور اس سے بڑھ کر اس کی تخلیقی انفرادیت کو دریافت کرنے کا عمل ہے۔ { "عورتوں کا ادب:کچھ پرانے اور کچھ نئے سوال" ایک روزن،  16 جنوری 2017}

 یہ مرد کی معاشرتی مرکزیت اور مقتدریت کو بڑا چیلنج تھا۔ کیا اب حوّا کو اتنی آسانی سے جنّت سے باہر نکالا نہیں جاسکتا۔ سوال یہ ہے کہ مرد ،عورت کے متنّون کی حساسیّت کی افقی،عمودی اور افقی سطح پر بیاں، تشریح اور اس کی تفھیم کرسکتا ہے؟ اصل میں ثانیثی  ادب  عورتوں کی آزادی، احتجاج ، مزاحمت سے منسلک ہے۔جہاں ان کے معاشرتی حقوق حاوی " مقولہ" ہے۔ جیاں عورت کو "شے " یا کھلونا" سمجھا جاتا ہے۔ رافد اُویس بھٹ اپنے مضمون " نسوانی تنقید" میں لکھتے ہیں" ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ عورت طبقہ پر ہمیشہ مرد طبقہ کی بالادستی رہی ہے اور عورت کو مرد سے کم تر تصورکیا گیا ہے۔ہوسکتا ہے کہ عورت پہ بالا دستی جنسی تعصبات کی وجہ سے بھی ہوسکتی ہے۔کیو نکہ عورت کو صنف نازک متصورکر کے ’’نازک دلی‘‘’’رقیق القلبی‘‘اور’’شرم وحیا‘‘جیسی خصوصیات کا لیبل لگا کے ہمیشہ مردانہ اقتدار اور مردانہ طاقت عورت طبقہ پر غالب رہی ہے۔عورتوں کو مر د کے مقابلے میں ایک کمتر مخلوق تصور کیا گیا ہے اور اس وجہ سے ہمیشہ ’’مادرانہ نظام‘‘ کے مقابلے میں’’ پدرانہ نظام‘‘ غالب رہا ہے اور نتیجتاًعورت کے بارے میں جو تصورات،مفروضات اور نظریات پیش کئے گئے ہیں وہ سب مردوں کے متعین کردہ ہیں اور عورت ثقافتی،جنسی اور صنفی تعصبات کا شکار ہوکر ثانوی جنس متصورہوئی"۔

جانثار مومن نے لکھا ہے "عربی لفظ ’تانیث‘’تانیثیت‘سے مشتق انگریزی متبادل’Feminism‘لاطینی اصطلاح ‘Femina’ کا مترادف ہے۔ معنیٰ ومفہوم تَحرِيکِ نِسواں ، نَظَرِيَہ ،حَقُوقِ نِسواں اور نِسوانِيَت کے ہیں۔ ابتدا1871ًء میں فرنچ میڈیکل ٹکسٹ میں لفظFeminist نسوانیت والے مردوں کے لیے استعمال کیا گیا تھا ۔ مغرب میں تحریک آزادی نسواں حامیوں کو بھی کہا گیا۔بعد میں باقاعدہ لفظ’Feminism‘تحریک  نسواں کی اصطلاح بن گیا ۔اور ’حقوق نسواں‘ ، آزادی نسواں‘ یا ’ناری آندولن‘ سے جانی جانے والی تحریک کے بنیادی نظریات میں سیاسی، سماجی، معاشی ، معاشرتی،تعلیمی، اخلاقی اور تہذیبی طور پر دونوں جنس کے لیے مساویانہ حقوق کے ہیں ۔بالخصوص نسائی حقوق سے جڑی تمام فکروں کا مرکب ہے۔ اس تحریک کی خواتین علمبر داروں کے لیے’Womanist’ اصطلاح مستعمل ہے ۔لفظ’ کا ز’بھی تانیثی مسائل کے لیے انہیں ناقدین کےاستعمال میں ہے ۔ اس کے برعکس عورت پسندی’Womanism’ہےجو خواتین میں رجولیت نازَن پسندی’Feminism’ ہے۔ یہ دونوں مختلف مکاتب کی فکریں ہیں۔اس تحریک کا مقصدخواتین کےوہ تمام مسائل جو آنسوؤں سے لیکرمسکراہٹ تک در پیش آتے ہوں۔اس ضمن میں ایلین شو والٹرنے تانیثی تنقید کی چاراہم جہات کی نشاندہی کی’’۱۔حیاتیاتی۲۔لسانیاتی۳۔تحلیلِ نفسی ۴۔کلچرل تنقید۔‘‘لیکنFeminismکی علمبرداربھی اس تحریک کی مناسب اصطلاح یا لفظ کی تلاش میں نظر آتی ہیں۔”تحریک نسواں کی حامی فکر یہ ہیں آخر جب’عورت’کے لیے کس لفظ کا استعمال ہونا چاہیے’ویمن’ کا استعمال تو مسئلہ پیدا کرتا ہےیہ بعض اوقات ‘ویمن'(عورت) استعمال میں ہےاس کا مطلب’تمام خواتین’ نہیں ہوتی۔” ”یہی خیالJudith Event کا بھی ہے ”نہ عورت،نہ مرد۔تحریک نسواں کا ہدفAndrogynous یعنی دونوں کے جنسی امتیازات مٹا کرلفظ جنس(Gender) تمام اختلافات کا بدل یا اَہداف ہے۔موجودہ حقوقِ نسواں کی ناقدین ۔اصطلاح Feministہےاورتحریک آزادی نسواں کے لیےFeminismہے"۔چند "  ثانیت" عورت پن یا نسوانیت نہیں ہوتی  جو شعور جنس اجتماعی ہے۔جس کی مثال کےطور پر، رابعہ بصری ،  خالدہ ادیب  خانم، بوشیدہ جہان خانم،  عطیہ فیضی ، سلویا پاتھ،  روجینا ولف ،اینا سیکٹن، ایریکا ژوگ، خیر النسا  جعفری، عطیہ داود، عصمت چختائی،  ممتاز شیریں کشور ناہید،  خالدہ حسین ، خیر النسا جعفری  فہیمدہ ریاض،  ثمینہ راجا، سارہ شگفتہ  وغیرہ کی  تخلیقی اور تنقیدی  تحریریں ملتی ہیں۔۔ کوئر نظرئیے کے حوالے ثانیثی  تصارات کو اجاگر کیا گیا جن میں  ایوا سیڈوک،، جیوڈتھ بٹلر پیش پیش ہیں۔  چند اردو کے ادبی رسائل نے  ثانیثی حوالے سے بڑی اچھی تحریروں کو  اپنے منرجات میں شامل کیا۔مثلا لاس انجلیس، کیلے فورنیا ،امریکہ سے ایک زمانے میں اردو کا ادبی جریدہ "مشاعرہ" چھپا کرتا تھا اب یہ رسالہ چھپنا بند ھوگیا ھے۔ اس کی مدیرہ نیر جہاں ہوا کرتی تھیں۔ اس کو جریدے کو مدیر نے اسے سوئینر کا نام دیا ۔ یہ خوب صورت رسالہ تھا۔ یہ خصوصی نمبر لاس انجلیس کے افسانہ نگاروں پر مشتمل ھے۔ اس میں7 خواتین افسانہ نگار شامل ہیں ، ایک بھی مرد افسانہ نگار اس شمارے میں نظر نہیں آتے۔۔ یہ نومبر 1999 میں چھپا تھا۔ اس پرچے میں افسانہ نگاروں اور افسانوں کی فہرست یوں بنتی ھے:

۱ منجور(نیمہ ضیا الدین)

۲۔ مہندی کے دورنگ ( نیر جہاں)

۳۔ من حرامی تےحجتاں دے ڈھیر( روبینہ نورین)

۴۔اور سورج ڈوب گیا (لالی چوہدری)

۵۔ صفحہ سات کالم چار(آصفہ نشاط)

۶۔ چنے کی دال(روحی فرخ)

۷ یہ تہذیب(صفیہ سمیع احمد)

 ایسی ہی کیفیت جیلانی بانو کے نوال " ایوال غزل میں ملتی ہے "اردو ادب میں خواتین کے مسائل پر بہت کچھ لکھا گیا ۔ نثر ہو یا شاعری ان کی زبوںحالی اور ان کی تعریف پر ہر شاعر اور فکشن نگار نے قلم اُٹھا یا ہے ۔ جیلانی بانو نے بھی اپنے دونوں ناولوں میں سماجی و سیاسی سطح پر خواتین کے ساتھ ہونے والی ظلم و زیادتی کو پیش کیا ہے ۔ جیلانی بانو نے خواتین پر ہونے والے گھریلو تشدت کو بے باک انداز میں پیش کیا ہے ۔ ان کے ناولوں میں کم سن لڑکی ، نوجوان خاتون ، بیوی ، ساس اور ہر وہ  خاتون رشتہ جو کسی نہ کسی طرح انسانی رشتوں سے منسلک ہو تا ہے پریشان ، تکلیف دہ نظر آتا ہے ۔ ان کے ناولوں کی خواتین کر دار گھریلو زندگی ،خاندانی سازیشوں، سماجی نہ برابرگی کا شکار ہیں جو فرسودہ معاشرے اور مطلب پرست گھریلو و خاندانی نظام کی پول کھولتی ہیں ۔

جیلانی بانو نے اپنے زورِ قلم سے  ۱۹۷۲ء  میں  ناول   ’  ایوانِ غزل‘‘  تحر یر کیا ۔ناول کا مو ضوع معاشرتی و  سیاسی ہے جس میں  مسلم گھرانوں میں خواتین کے ساتھ ہونے والی نسلی و جسمانی تشدد کی داستان بیان کی گئی ہے ۔ جیلانی بانو مسلم گھرانوں میںپنپنے والے ان مسائل کو بے پردہ کیا ہے جو شائد بیسویں صدی کے وسط میں منظرِ عام پر نہیں آتے تھے ۔ اور نہ ہی کسی اخبار یا رسائل کی جلی سرخی بنتے تھے۔ { عبد المغنی ' جیلانی بانوکے ناول ’’ایوانِ غزل ‘‘ میں نسوانی کر دار" ادبی ڈائری،  روزنامہ سیاست،  حیدرآباد۔25 جولائی 2015}

ان تما م کہانیوں میں تہذیبی انحطاط، اقدار کی توڑپھوڑ، امریکہ میں بسنےوالے پاک ہند کے خاندانوں کے خلفشار اور مسائل کے ساتھ ان افسانوں میں ناسٹجیائی روئیے اور ثانیثی مزاحمت اور احتجاج بھی نظر آتا ھے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...