Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نقش فریادی جولائی تا ستمبر 2022 > تانیثیت اور اردو شاعری

نقش فریادی جولائی تا ستمبر 2022 |
پنجاب لٹریری فورم
نقش فریادی جولائی تا ستمبر 2022

تانیثیت اور اردو شاعری
Authors

ARI Id

1695778069724_56118342

Access

Open/Free Access

Pages

۴۱

عربی لفظ ’تانیث‘’تانیثیت‘سے مشتق انگریزی متبادل’Feminism‘لاطینی اصطلاح ‘Femina’ کا مترادف ہے۔ معنیٰ ومفہوم تَحرِيکِ نِسواں ، نَظَرِيَہ ،حَقُوقِ نِسواں اور نِسوانِيَت کے ہیں۔عتیق اللہ رقم طراز ہیں’’تانیثیت کا موقف اُس عورت کوDeconstructکرناہے جو اپنی ذات ہی سے بے خبر نہیں تھی بلکہ اس سماجی تہذیبی منظر نامے سے بھی نا بلد تھی جس کے جبرنے اُسے مجہول حقیقت میں بدل کر رکھ دیا تھا۔‘‘(عتیق اللہ ،تعصّبات ،ایم ۔آر۔پبلی کیشنز،ص۱۱۳، نئی دہلی،۲۰۰۵)

تانیثیت ایسی تحریک ہے جس میں لڑکی کی پیدائش سے موت تک در پیش ہونے والے مسائل حل کرنےسے متعلق جو کوششیں کی جا رہی ہیں وہی ثانیثیت ہے۔اس کادائرہ بہت وسیع ہے۔اردو ادب میں بھی متعددخواتین قلم کاروں نے تانیثی فکر کو موضوع بنایا ۔جن کے چند اہم نام اللّہ عارفہ،عصمت چغتائی،قرۃ العین حیدر،فہمیدہ ریاض،پروین شاکر، کشورناہید، شہنازنبی، فرخندہ نسرین، شفیق فاطمہ،ساجدہ زیدی،سارہ شگفتہ،رفیعہ شبنم عابدی،بلقیس ظفیرالحسن،صالحہ عابد حسین،ترنم ریاض اور عنبری رحمٰن قابل ذکر ہیں جنہوں نے خواتین کی نجی زندگی اور سماج میں ان کا صحیح مقام دلانے کے لیے بذریعہ تخلیقات احتجاج کیا۔

نسائی شعور دراصل مابعد جدید پوسٹ ماڈرن رویوں کے آگہی کا نام ہے جوہماری فکر کا مکمل حصہ نہیں بن سکا کیوں کہ ہماری قدریں روایتی طورپر مردوں کی فکر کی تابع رہی ہیں،ان میں عورت کا حصہ نہ ہونے کےبرابر ہے اب صورت حال یہ ہے کہ عورتیں مرد کی حاکمیت اور ان کےتابع رسم و رواج سے آزاد ہو کر اپنے آپ کو اس آئینے میں دیکھ رہی ہیں جو ان کا اور ان سے متعلق معاشرے کا سچا اور اصلی روپ سامنے لاسکے۔)کراچی ،اکادمی  بازیافت،جنوری تا جون،2003ء،ص21) (ضمیر علی بدایوانی    ،فاطمہ حسن ،نسائیت کی تحریک اور اردو ادب،مکالمہ ،(کتابی سلسلہ(10)

اردو میں مختلف ادبی تحریکات،رجحانات اور نظریات کی طرح تانیثیت نے بھی نثر ونظم میں اپنی ایک ایسی منفرد شناخت قائم کرلی ہے جسے اب نظرانداز کرنا ممکن نہیں ہے۔دراصل تانیثیت اُن افکار ونظریات کا مجموعی اظہار ہےجو خواتین کو عزت ووقار کے ساتھ اُن کے حقوق کو یقینی بناتا ہو۔مساوات کی حمایت اور عصبیت کی مخالفت کی بدولت آج یہ سب سے طاقت ور نظریہ فکر وعمل ثابت ہورہا ہے۔وہ اس لیے کہ عورت نے اپنے آپ مخصوص صلاحیتوں کو پہچان لیا ہے۔بقول نوشی گیلانی وقت بدل گیا ہے:

زندگی سے نباہ کرتے رہے                                               شعر کہتےرہے سلگتے رہے

عورتوں کے ساتھ ناانصافی کے ردعمل نے ایک تحریک کی شکل اختیار کرلی ہے جسے بطور اصطلاح تانیثیت کا نام دیا گیا ہے۔ہمارے ہاں ورجیناوولف کی طرح وہ شدت نہیں ہے جو عورت کے کرب کے اظہار کے لیے ضروری ہے۔بقول ورجینا وولف :

"Only jane austen did it and emily bronly......The wrote as women write not as men write."

 )سیما صغیر،ڈاکٹر،تانیسیت اور اردوادب،نئی دہلی:براون پبلی کیشنز،٢٠١٨ء،ص،١٠(

خواتین اردو ادب میں تانیثیت کی سب سے پہلی واضح آواز عصمت چغتائی کی ہے ۔عصمت کا لب و لہجہ ،ان کا آہنگ ،ان کا انداز تحریر خالص تانیثی ہے ۔اردوشاعری کے میدان میں خواتین شاعرات نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے، جنھوں نے تانیثی شاعری کے حوالے سے اپنی ایک الگ شناخت بنائی اورشاعری میں اداجعفری،پروین شاکر، فہمیدہ ریاض ،کشور ناہیدسارہ شگفتہ ،تنویر انجم ،عذرا عباس، ،گلنار آفریں ،رفعیہ شبنم عابدی ،فرخ زہرا گیلانی ،رضیہ کاظمی،فرزانہ اعجاز ،نوشی گیلانی ،زہرا نگاہ ، اور شبنم شکیل جیسے کئی نام لیے جاسکتے ہیں۔'' نسائی ادب کی اہمیت و افادیت کو اُجاگر کرنے کے ساتھ ادب میں ان کی حصہ داری اور مقام و مرتبے کو متعین کرنے اور نسائی حسیت اور تانیثی رحجان کے مختلف جہتوں کی نشاندہی کی جا سکے اور ان بکھرے مضامین کو ایک لڑی میں پرو کر اہل علم و ادب کے رو برو پیش کیا جاسکیں۔اس کے علاوہ میں نے اپنی اس کتاب میں مشہور و معروف ادیبوں کے علاوہ نئے لکھنے والوں کو بھی شامل کیا ہیں،تاکہ عورتوں کے متعلق ان کے نظریات و خیالات کو منظرعام پر لایا جاسکیں۔"(اردو ادب میں تانیثیت کی مختلف جہتیں:ص،۰۲۔۱۲۔)

اردو شاعری میں تانیثی شعور کی اشاعت کا کام کشور ناہید ،فہمیدہ ریاض اور پروین شاکر اور انکی ہم عصر شاعرات نے کیا۔نسائی ادب کے حوالے سے فہمیدہ ریاض کی شاعری ایک نئے طرز احساس کی جانب سفر کرتی نظر آتی ہے جس میں عورت کے اپنے وجود کا بھرپور احساس نمایاں ہے۔عہد موجود کی شاعرات میں نسائیت کی تحریک کی ترجمانی کرنے والی شاعرہ فہمیدہ ریاض ہیں۔ اس تحریک کے براہ راست اثرات میں فہمیدہ ریاض کے یہاں بغاوت یعنی سماج کی ان روایات سے بغاوت کا رجحان بلکہ اعلان پایا جاتا رہا ہے جو مفہمیدہ ریاض اور دیگر نے اپنی شاعری کے ذریعے عورت کی مظلومیت کا ذکر کیا، فاطمہ حسن کی شاعری کا اسلوب ان کے بیان کا ایک فطری عمل ہے، انہوں نے شاعری میںانہوں نے صرف عورت ہی کے ذہنی اور روحانی کرب کو پیش نہیں کیا بلکہ وہ اپنے عہد کے حالات سے بھی بخوبی واقف ہیں ، اپنی تہذیب ، معاشرت ، سیاست ، قومی و بین الاقوامی معاملات و مسائل سے بھی آگاہ ہیں۔فہمیدہ ریاض کی شاعری میں عورتوں کے حقوق اور ان کے مصائب کا تذکرہ کرتے ہوئے کشور ناہید کہتی ہیں کی فہمیدہ نے عورت کے فطری جذبات کی پوری طرح ترجمانی کی یہاں تک کہ انہوں نے عورت سے وابستہ جنسی رحجانات پر بھی لکھا۔اُن کی شاعری میں عورت کا وجود اس کا احساس اور اسی کی آواز گونجتی ہے۔اپنی شاعری میں ایسے نسوانی جذبات اور مسائل کا برملا اظہار کیا ہے جنہیں بیان کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔اُن کی شاعری میں عورت کا وجود اس کا احساس اور اسی کی آواز گونجتی ہے۔فہمیدہ ریاض کی شاعری کی معنویت اورایک عورت کے جرأت مندانہ اظہار کے راز وا ہوتے ہیں۔

حضور میں اس سیاہ چادر کا کیا کروں گی                    

یہ آپ کیوں مجھ کو بخشتے ہیں بصد عنایت

نہ سوگ میں ہوں کہ اس کو اوڑھوں                     

غم و الم خلق کو دکھاؤں

نہ روگ ہوں میں کہ اس کی تاریکیوں میں خفت سے ڈوب جاؤں

نہ میں گناہ گار ہوں نہ مجرم

کہ اس سیاہی کی مہر اپنی جبیں پہ ہر حال میں لگاؤں

اگر نہ گستاخ مجھ کو سمجھیں

اگر میں جاں کی امان پاؤں

تو دست بستہ کروں گزارش

کہ بندہ پرور

حضور کے حجرء معطر میں ایک لاشہ پڑا ہوا ہے

نہ جانے کب کا گلا سڑا ہے

یہ آپ سے رحم چاہتا ہے

حضور اتنا کرم تو کیجے

سیاہ چادر مجھے نہ دیجئے

سیاہ چادر سے اپنے حجرے کی بے کفن لاش ڈھانپ دیجئے

(نظم ”چادر اور چار دیواری“ سے اقتباس)

ہمارے عہد کی شاعرات میں ادا جعفری ،کشور ناہید،فہمیدہ رہاض،پروین شاکر وغیرہ اہم ہیں۔ان شاعرات کی غزلیں نسائی حیسیت کے باعث نمایاں ہیں۔استحصالی نظام کی شکار عورتوں کے مسائل ان کے خاص مواضوع ہیں۔تووادا جعفری وہ پہلی شاعرہ ہیں جنہو ں نے اپنے مکمل نسائی وجود کے ساتھ زمانے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کراپنی شخصیت کا برملا اظہار کیا۔

ادا جعفری کی غزلیں تانیثی رویہ اور لب ولہجہ کے اظہار میں خوداعتمادی ہے۔چند اشعار ملاحظہ کیجیے:

ادا ادا نے چلائے ہیں بے دھڑک نشتر

سنبھل سنبھل کے نگاہوں نے زخم کھائے ہیں

صدیوں سے میرے پاوٴں تلے جنت انسان

میں جنت انسان کا پتہ پوچھ رہی ہوں

پروین شاکر کی مقبولیت کا بڑا سبب نازک نسوائی احساسات کے اظہار سے لبریز شاعری تھی مگر مختصر نظم میں بھی پروین شاکر کو اختصاص حاصل تھا۔جس شاعرہ کے ہاں غزل نے سراپا نسائیت کی شکل اختیار کی وہ پروین شاکر ہیں۔اُن کی نسائی حیثیت مختلف ہے وہ اپنے رومانوی انداز شعری کی بدولت ایک نمایاں آواز بن کر اُبھری ہیں۔اُن کی رومانویت شدید تر جذبات واحساسات کی حامل ہیں۔انکی غزلوں سے کچھ اشعار ملاحظہ کیجیے:

یوں تری شناخت مجھ میں اترے

پہچان تک اپنی بھول جاوٴں

فیصلے سارے اسی کے ہیں ہماری بابت

اختیار اپنا بس اتنا کہ خبر میں رہنا

عورت پر استحصالی نظام نے جبرو استبداد روا رکھا ہے ،اس استحصال کے خلاف نعرہ بلند کیا ۔یہ تانیثی شعور بڑھا تو مرد وعورت کو ایک دوسرے سے دور کردیا۔بقول کشور ناہید:

اب ایک عمر سے دکھ بھی کوئی نہیں دیتا

وہ لوگ کیا تھے جو آٹھوں پہر رلاتے تھے

’عورت اس کے ہاں استحصال زدگی کا ایک علامتی پیکر ہے جس کے ذریعے وہ بیک وقت مرد کی روایتی بالا دستی اور پورے طبقاتی نظام کی جڑوں پر حملہ آور ہوتی ہے، اور یہ جو کسی نے کہا ہے کہ جدید سامراج اس وقت تک آرٹ اور لٹریچر کو کچھ نہیں کہتا جب تک وہ اس کی جڑوں   پر حملہ آور نہ ہو، اور چونکہ کشور کی شاعری براہِ راست ان جڑوں پر حملہ کرتی ہے اس لیے دائیں اور بائیں بازو کے وہ تمام دانشور جو طبقاتی  نظام کے خلاف بھی ہیں اور آزادیٔ نسواں کی باتیں بھی کرتے ہیں ، اس کے خلاف ہیں‘‘۔

(رشید امجد ،کشور ناہید۔ایک چیلنج، مشمولہ نئے زمانے کی برہن از مرتب اصغر ندیم سید ۔افضال احمد،سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۱۹۹۰ئ، ص۲۰۶)

کشور ناہید نہ صرف مساوات کی قائل ہیں بلکہ کسی بھی قسم کی جابرانہ حاکمیت کو تسلیم نہیں کرتیں۔

ستم شناس ہوں لیکن زبان بریدہ ہوں

میں اپنی پیاس کی تصویربن کے زندہ ہوں

علاج حرف شنیدہ کا کس سے ہو پائے

ورق ورق ہوں مگر حسرت رمیدہ ہوں

شہید جذبوں کی قبریں سجا کے کیا ہوگا

کشور ہوں ،قامت شب ہوں ،بدن دریدہ ہوں

کشور ناہید نے اس غزل میں عورت کے جذبات کی کشاکش ،شناخت اور زخمی احساسات کو تغزل کا لب ولہجہ عطاکردیا ہے جس میں عورت کے درد وکرب کی تصویر قاری کے ذہن میں ابھرتی ہےاور یہ کہہ کر کہ ستم شناس ہوں لیکن زبان دریدہ ہوں۔اس غزل میں عورت کی محرومی اور بے بسی کی داستان کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔انداز میں تلخی مگر لہجے میں نرمی ہے۔ذاتی کرب کا احساس قاری کو بہت آہستگی سے کرایا گیا ہے۔پہلے ہی شعر میں احساس دلادیا گیا ہے۔کہ عورت کی کتاب میں تمام اوراق حسرت ویاس سے خستہ ہیں۔ان کی تانیسیت پر لکھی ایک عمدہ نظم ملاحظہ کیجیے:

ہم گنہگار عورتیں ہیں

جو اہل جبّہ کی تمکنت سے نہ رعب کھائیں

نہ جان بیچیں

نہ سر جھکائیں

نہ ہاتھ جوڑیں

یہ ہم گنہگار عورتیں ہیں

کہ جن کے جسموں کی فصل بیچیں جو لوگ

وہ سر فراز ٹہریں

نیابت امتیاز ٹہریں

وہ داورِ اہل ساز ٹہریں

یہ ہم گنہگار عورتیں ہیں

کہ سچ کا پرچم اٹھا کے نکلیں

تو جھوٹ سے شاہراہیں اٹی ملے ہیں

ہر ایک دہلیز پہ سزاؤں کی داستانیں رکھی ملے ہیں

جو بول سکتی تھیں وہ زبانیں کٹی ملے ہیں

یہ ہم گنہگار عورتیں ہیں

کہ اب تعاقب میں رات بھی آئے

تو یہ آنکھیں نہیں بجھیں گی

کہ اب جو دیوار گر چکی ہے

اسے اٹھانے کی ضد نہ کرنا

یہ ہم گنہگار عورتیں ہیں

جو اہل جبہ کی تمکنت سے نہ رعب کھائیں

نہ جان بیچیں

نہ سر جھکائیں

نہ ہاتھ جوڑیں

المختصر،آج اردوادب کا ایک جہاں تانیثیتFeminism بھی ہے۔جو اردو ادب کی دوسری اصناف کی طرح اردوشاعری میں بھی نمایاں ہے۔اس پر شاعرات نے خوب لکھااور باقاعدہ شائع بھی ہوا اور ہورہا ہے۔

وجودزن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...