Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نقش فریادی جولائی تا ستمبر 2022 > روہنگیا زبان وادب کا تذکرہ

نقش فریادی جولائی تا ستمبر 2022 |
پنجاب لٹریری فورم
نقش فریادی جولائی تا ستمبر 2022

روہنگیا زبان وادب کا تذکرہ
Authors

ARI Id

1695778069724_56118343

Access

Open/Free Access

Pages

۴۶

میانمار(برما) ایک کثیر القومی ، کثیر المذہبی ، کثیر الثقافتی ملک ہے ۔ میانمار کی ریاست اراکان(موجودہ رکھائن) کے باشندے روہنگیا کہلاتے ہیں جہان صدیوں سینکڑوں سال  تقریباً 48  مسلم بادشاہوں نے حکومت کی ۔لیکن عصر حاضر میں روہنگیا  دنیا  کی کمزور ترین  اور مظلوم  ترین  مسلم اقلیت ہے۔. ریاست اراکان(موجودہ راکھائن) میں روہنگیا سب سے بڑا گروہ ہے ۔ روہنگیا دورِ حاضر میں بے ریاست لوگوں کا سب سے بڑاگروہ ہے ۔روہنگیا قوم دنیا کی ان دس اقوام میں شامل ہے جن کا وجود دنیا سے مٹ جانے کا خطرہ ہے۔روہنگین تہذیب ایک منفردتہذیب ہے ۔ اراکانی زبا ن وادب اسلامی تہذیب وتمدن کے بل بوتے پر پروان چڑھتےرہے۔روہنگیاایک قدیم زبان ہےجو بنگلہ دیش کی چٹاگانگی زبان سے ملتی جلتی ہے ۔یہ زبان میانمار اور اس کی ریاست راکھائن میں بولی جانے والی دوسری زبانوں سے مختلف ہے۔یہ نہ صرف بنیادی طور پر فارسی،اردو ،ہندی اور عربی زبانوں کے الفاظ  کا مرکب ہے بلکہ کسی حد تک انگریزی زبان کے کچھ الفا ظ  بھی اس میں شامل  ہیں۔ تاریخ کی کتب میں اس بات کا ذکر ملتا ہے کہ1429ءمیں جنرل ولی خاں نے اراکان میں  فارسی بطورسرکاری زبان رائج کی جو 1845 ء تک ریاستی زبان کے طور پر جاری رہی۔قدیم دورسےمسلمان مصنفین اور شاعر روہنگیا زبان میں فارسی اور عربی حروفِ تہجی کااستعمال کیا کرتےتھے۔ایسی ہی ایک کتاب کا ذکر  روہنگیا کے  مشہور ومعروف مصنف طاہر باتھاکے ہاں ملتاہے۔اس کے علاوہ اراکان کےتاریخی سکےفارسی اورعربی میں نقش کنندہ الفاظ سےمزین ہوتےتھے۔روہنگیاادب محبت کےگانوں، لوک کہانیوں، بارہ ماسہ، صوفیانہ گیتوں، محاورات،غزلوں، پہیلیوں اورلوریوںسےبھرپورہے۔ بارہ ماسہ  روہنگیا  ادب کا مقبول حصہ ہے۔یہ ایک   ایسی صنفِ سخن ہے جس میں ایک  دکھی عورت اپنے  محبوب کی جدائی کو  بیان کرتی ہے۔وہ اس کے فراق میں ماہی بےآب کی طرح تڑپتی ہے۔ہر مہینے میں موسم کی بدلتی ہوئی  کیفیت کے ساتھ اُسے یاد کرتی ہے اور اپنے دل کا حال بیان کرتی ہے۔ ایسا کرتے کرتے 12 ماہ بیت جاتے ہیں ۔

بہت سے ایسے شاعر اور مصنف ہیں جو اراکانی بادشاہوں کے دربار میں پھلے پھولے۔اراکانی بادشاہوں  کے بنگالی سلاطین سے  خوشگوار تعلقات تھے ۔اراکانی بادشاہوں کے اکثر  درباریوں کا تعلق ہمسایہ   سرحدی علاقے بنگال یا چٹا گانگ سے تعلق  تھا اس لئے انہوں نے یہاں پر بنگالی زبان کی تخم ریزی  میں اہم کردار ادا کیا۔  بہت سے شعراءاور مصنفین   کا تذکرہ ملتا ہے جنہوں نے بنگالی زبان  میں لکھا  ۔ان کا قابلِ ذکر ادبی ذخیرہ دریافت ہو چکاہے۔اراکانی دربار میں  پنپنے والے  مشہورشاعراحمدو مِن یو، شاہ بریدخان، عبدالکریم خندکر، قریشی ماگن، دولت قاضی، مردان اور شاہ الاوّل وغیرہ ہیں ۔

اراکان کی مٹی بہت زرخیز ہے، چاول کی کاشت کے لئےیہاں کی آب وہوا انتہائی موزوں ہے۔ روہنگیا کی کل آبادی کا بیشترحصہ زراعت کےشعبہ کےساتھ منسلک ہے ۔ اس کےعلاوہ لکڑی سےسامان بنانے، ماہی گیری، تمباکو سےبننےوالی چیزوں اورنمک کی کان کنی کےپیشہ کوبھی معاشی اہمیت حاصل ہے۔عام  طور پر روہنگیا    مرد  خاندان  کی ضروریات  زندگی   پورا کرنےکے لیے  کام کاج   کرتے ہیں  جبکہ  روہنگیا   خواتین    امورِ خانہ داری  کے ساتھ ساتھ  مرغبانی، باغبانی اور کھیتی باڑی وغیرہ   میں بھی اپنے مردوں کا  ہاتھ بٹاتی  ہیں ۔اگرچہ اراکان (رکھائن) میں سرکاری سطح پر حیوانی نسل کشی کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا لیکن گائے، بھینس،بکری،مرغی،کبوتر،بطخ وغیرہ ان کے پالتو جانور ہیں۔ روہنگیا لوگ زراعت  کے علاوہ  معمولی تجارت  ، ماہی گیری ، مزدوری  وغیرہ  سے اپنا پیٹ پالتے  ہیں ۔ اراکان کا خطہ ماہی گیر ی کے حوالے سے خاص پہچان رکھتا ہے۔یہاں کے ساحلی  علاقے  ماہی  پروری  کے لیے مثالی  ہیں ۔اراکان(رکھائین) کا 360 میل لمبا ساحل اور اس میں  پائے جانے والے دریا مختلف قسم کی   مچھلیوں   کی پرورش کےلئے انتہائی موزوں  ہیں۔ تاہم  مسلمان  ماہی گیروں پر حکومت کی طرف سے  پابندیاں عائد ہیں جس کی  وجہ سے  سالانہ آمد ن  انتہائی کم ہے ۔ دریائے  ناف  اور دریائے  کلادان   کے  مدوجزر  والے  دہانوں  پرماہی  پروری  کے بند بہترین  قسم  کی مچھلیاں  پیدا کرتے ہیں ،  جن میں سریم چھلی بہت ہی لذیذ اور  مشہور ہے۔میٹھے پانی میں پائی جانے والی مچھلیوں کی  35 اقسام ہیں جبکہ نمکین پانی  کی   مچھلیوں  کی 120 اقسام ہیں۔ جن کا تفصیلی تذکرہ سیف اللہ   حامد نےاپنی کتاب  "ضلع اکیاب (ارکان) کا جغرافیہ" میں بھی کیا ہے۔لیکن  میانمارکی    حکومت  نے مسلمانوں سے ماہی پروری  کے یہ تمام بند  چھین لیے ہیں   اس لئے مچھلی کی  پیداوار انتہائی کم ہو  گئی ہے ۔

اراکان کے باشندوں روہنگیا کی خوشحالی اور فارغ البالی شہر ہ آفاق تھی کہ اطرافِ عالم سے مزدور اور غریب  لوگ اپنی غربت اور افلاس  کو دور کرنے کے لئے یہاں آتے تھے تاکہ محنت مزدوری کر کے اپنی قسمت آزمائی کر سکیں ۔فصل کی کٹائی اور دوسرے مشاغل کے لئے تقریباً 50 ہزار مزدور ہر سال آتے تھے  اور بہت قلیل مدت میں یہ خوشحال اور متمول ہو جاتے تھے۔کیونکہ 1950ء میں اکیاب (اسٹیوے) ملوں اور فیکٹریوں کا شہر رہا ہے۔اراکان کا سکہ ریال اور ڈالر سے کم نہیں ہوتا  تھا اس لئے بیوی اور اہل و عیال کی فرقت کی تکلیف کو بھی برداشت کر لیتے تھے۔اس لمبے سفر اور فرقت کی تکلیف کا انداز ہ اس لوری سے ہوتا ہے جو خواتین اپنے بچوں کو سلاتے وقت  سنایا کرتی تھیں،اس لوری کا متن ان کی  مادری زبان روہنگین میں حسبِ ذیل ہے:

بوانگ بوانگ روحانگرٹیاں  برونافان

ترما ں رے خویسدے نخاندے فان

ترجمہ"ابتدائی برسات میں نئے پانی میں چلانے والے مینڈک آواز لگاکر فرقت اور جدائی کی آگ میں جلنے والی بیویوں کو تسلیاں دے رہے ہیں کہ اراکان کا سکہ دیگچی کے ڈھکن کے برابر ہے یعنی بہت قیمتی ہے ،اے بچو!تمہاری والدہ کو کہہ رہے ہیں کہ نہ روئے کیونکہ عنقریب تمہارا   باپ موٹی رقم لے کر آئے گا۔"

روہنگیا اپنی علیحدہ حیثیت اور شناخت  کے حامل ہیں۔ یہی وجہ ہےکہ وہ ان علاقوں میں اقلیت کی بجائےجزولاینفک   تسلیم کئے جاتے ہیں۔ ،ان کی ثقافت اس قدرجاندار  رہی ہےکہ وہ دیگراقوام کی سیاست اور جبر کے باوجود اپنی ذاتی شناخت برقرار رکھے ہوئے ہیں چاہے وہ اپنے آبائی وطن میں ہوں یا دنیا کے کسی کونے میں پناہ لینے پر مجبور ہوں۔تمام روہنگیا مسلمان اوراسلامی روایات کےپیروکارہیں۔ ہر گاؤں میں مساجد اورقبرستان موجود ہیں۔ کبھی یہاں مذہبی تہوار بڑےجوش وخروش سے منائے جاتے تھے۔عیدین کی نماز عیدگاہوں میں ادا کی جاتی تھی۔ مساجدکو معاشرتی اکائی سمجھا جاتا تھا ۔ معاشرے کےسب سےمتقی فرد کو معاشرتی سربراہ مقرر کیا جاتا تھا ۔ عمائدین کی طرف سےتمام معاشرتی تنازعات مساجد میں حل کئے جاتے تھے۔ روہنگیا مسلمانوں کےلباس میں مردوں کےسر پر ٹوپی یا سفید کپڑےکی پگڑی شامل ہے۔ لمبی بازوؤں والی قمیض جسے "بازو" کہاجاتاہےوہ بالائی حصےکوڈھانپتی ہے جبکہ زیریں حصہ کو "لنگی" نامی کپڑےسےڈھانپاجاتاہے ۔خواتین  بالائی حصے  پر پوری آستین  کی قمیض " سولی " پہنتی  ہیں  جبکہ زیریں  لباس  کے طور پر مردوں  ہی کی طرح  لنگی  استعمال کرتی ہیں ۔   جس کا نام  " تھامی " ہے۔  تھامی اور لنگی میں نمایاں  فرق  نقش و نگار  اور رنگوں  کا ہوتا ہے ۔ لنگی عام طو ر  پر سادہ اوردھاری دارہلکے  رنگوں  سے   یا   چیک دار کپڑے سے   بنی ہوتی ہے ، اس کے برعکس  تھامی  کا رنگ  شوخ  اور گہرا  ہوتا ہے اور اس پر  مختلف   پھول  پتے  اور بیل  بوٹے  بنے ہوتے ہیں ۔ خواتین  عمومی طور پر  تھامی  پر  کمر بند  استعمال  کرتی  ہیں۔خواتین سر  اور بازو  ڈھانپنے  کے لیے  ایک مناسب  طول  و عرض  کا کپڑا  لازمی استعمال  کرتی  ہیں جسے "رومال "کہا جاتا ہے ۔ گھر سے باہر نکلنے کی صورت  میں برقع اوڑھتی  ہیں   ۔ اردو دائرہ معارف اسلامیہ  کا مقالہ نگار لکھتاہے کہ  شادی شدہ مسلم خواتین چہرے پر نقاب نہیں ڈالتیں۔

آج کے میانمارمعاشرے   میں  اسلامی شریعت پر پوری طرح عمل درآمد ممکن نہیں ہے۔  بد ترین  قسم کے تعصب اور مذہبی  منافرت  کے شکنجے  میں کسے ہوئے ہونے کے باوجود  روہنگیا  مسلمانوں  نے اس امر کی کامیاب  کوشش کی ہے کہ اپنی اسلامی ثقافت  و روایات  کی پاسبانی کریں ۔ یہ اس لیے  ممکن ہوا کہ وہ اسلام  کے سچے پیروکار ہیں ۔  اور اپنی  ثقافتی  و دینی  شناخت  کو  زندہ رکھنے  کی خاطر  جان و مال  کی قربانی  دیتے چلے آرہے ہیں۔عام طور پر  روہنگیااپنے بچوں کے  نام عربی زبان میں رکھتے ہیں۔ کچھ روہنگیا نام کے دوسرے حصے کے طور پر  برمی ناموں یا راکھین مگھ  ناموں  کو ترجیح دیتے ہیں  کیونکہ اسکولوں میں زیادہ تر اساتذہ  مگھ ہیں جوان کے اسلامی  نام  کاصحیح تلفظ  ادانہیں کرسکتے ہیں۔بعض دونوں نام رکھتے ہیں  جیسے صالح تون سین ،احمدموآنگ موآنگ وغیرہ ۔ یہ  کام بہرطور اچھا نہیں ۔ حالانکہ مسلمانوں کو اس بات پر فخر ہونا چاہیے کہ اراکان کے بادشاہ اسلامی القابات استعمال کیا کرتے تھے۔اس بات سے دو پہلوؤں کی نشاندہی ہوتی ہے۔

1۔  روہنگیا مسلمان امن پسند ہیں اورمعاشرہ میں  باہمی آہنگی کی خاطر ہر ممکن کرتے ہیں۔

2۔ روہنگیا اس قدر معاشرتی اور ریاستی جبرکا شکار ہیں   کہ وہ اکثریت میں ہوتے ہوئے بھی اقلیتوں کی طرح زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔

روہنگیا لوگ مزاجاً بھلے لوگ ہیں اور  ان کے اندر دیانتداری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔  وہ ظلم کرنا پسند نہیں کرتے  اورنہ ہی  ظلم کو برداشت کرتے ہیں۔ وہ اپنے لوگوں کا دفاع کرتے ہیں یہاں تک کہ  اپنی  جان کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔ وہ بہادر اورذہین لوگ ہیں۔دوسری جنگ عظیم کے دوران   برما کی آزادی کے لئے انہوں نے اپنی جانیں لڑا دیں اور بے مثال بہادری کا مظاہرہ کیا۔اگرچہ جاپانیوں نے بڑی آسانی سے چند ہی ایام میں جنوبی اراکان جہاں مگھ اکثریت میں تھے، فتح حاصل کرلیا۔ لیکن روہنگیا ؤں نے اپنی  بہترین دفاعی حکمت عملی اور بہادری کے باعث  نہ صرف مزید پیش قدمی سے روکا بلکہ بہادری  کے ایسے جوہر دکھائے کہ جاپانی فوجیوں کے دانتوں تلے پسینہ دلا دیا۔ بہادری اور جان نثاری کے ان واقعات کو میانماررکھائن رزاوِن میں ضرور ریکارڈ ہونا چاہئے تھا جن کا ذکر ہاروے نے بھی کیا ہے۔ چونکہ  روہنگیالوگوں ہمیشہ سے  نظرانداز کیا گیا ،اس لئے  ان کی بہادری اور جدوجہدکو  سرکاری طور پر کبھی ریکارڈ پر نہیں لایاگیا۔ روہنگیاقوانین کی پاسداری کرنےوالے اورامن پسند  لوگ ہیں۔اراکان میں روہنگیا کی رہائشگاہیں لکڑی کےکھمبوں، بانس، کھجور کےپتوں کےساتھ بنی ہوتی ہیں۔کھجور کے پتوں کومون سون کی بارشوں اورسیلاب کےخلاف ڈھال کےطور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔

روہنگیا معاشرہ میں اپنے کنبے یا قبیلے میں ہی  شادی کا رواج ہے۔روہنگیاکا خیال یہ ہےکہ اس سے آپس کےتعلقات کوتقویت ملتی ہے۔ جب تک روہنگیا کاایک فرد بری یا بحری تجارت کے تین مختلف ادوار سےنہیں گزر جاتاتب تک اس کو بیٹی کا رشتہ دینا یااس کی شادی کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔روہنگیاکبھی بھی غیرمسلم کوبیٹی نہیں دیتے ۔روہنگیا   اپنی بیٹیوں کی شادی جلدی کر دیتے ہیں ۔ ان میں کثرتِ ازواج   یعنی ایک سے زائد شادیاں کرنے  کا رواج ہے  جس کی وجہ سے ان کی آبادی تیزی سے  بڑھ رہی ہے۔ روہنگیا معاشرہ عشقیہ تعلقات کی سختی سےمذمت کرتاہے ۔ دولہا اوردلہن کو شادی سےقبل ملنےکی اجازت نہیں دی جاتی ۔ والدین اورسرپرستوں کےمابین تعلقات کی خرابی رشتے ٹوٹنے کاسبب بنتی ہے۔ دولہن اور دولہا، دونوں کی رضامندی کےبعدرشتہ طےکیاجاتاہے۔ شادی بیاہ کی تقریبات نہایت جوش وخروش سےمنعقدکی جاتی ہیں ۔ ضیافت کا اہتمام لڑکی والوں کی طرف سے ہوتا ہےاور کم ازکم ایک کھانے کےذریعےتواضع کی جاتی ہے۔شادی کی تقریبات میں عموماً بکری،مٹن،گائے،بھینس اورمرغی کاگوشت کھلانے کا اہتمام کیاجاتاہے۔ شادی کی تمام رسوم جوش و خروش سے منائی جاتی ہیں ۔دولہا دلہن کی نئی زندگی کی شروعات نیک خواہشات اور تمناؤں سے کی جاتی ہے۔روہنگیا مسلمانوں میں طلاق کی شرح بہت کم ہے۔

چاول روہنگیا مسلمانوں کا بنیادی غذا تصور کی جاتی ہے۔ روہنگیا کی خوراک سادہ چاول، مچھلی اور سبزیاں ہیں ۔ لڈی فیدا ایک قسم کی فلیٹ بریڈ ہے جسے روہنگیا باقاعدگی سے مذہبی مواقع پر کھاتے ہیں ۔  بولا فیدا روہنگیا کا ایک مشہور روایتی ناشتا ہے  جوچاول کی سویّوں سے تیارہوتا ہے۔ روہنگیا پان کے پتے بڑے شوق سے کھاتے ہیں  جو  وہاں پر  فان کے نام سے معروف ہیں۔ راکھائن چونکہ حرام کھانوں کا استعمال کرتے ہیں مثال کے طورپرسؤر کا گوشت  وغیرہ  یہی وجہ ہے کہ روہنگیا ان کو ناپسندیدگی کی  نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ 

کسی بھی معاشرے کی نوجوان نسل کے لئے کھیلوں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے ۔ان کے بغیر بچوں ،نوجوانوں  کی زندگی  ادھوری ہوتی ہے۔کھیلوں سے جہاں جسمانی و ذہنی نشوونما ہوتی ہے  وہاں فرض شناسی ،حسنِ انتظام،صبر،تحمل مزاجی،قناعت ، دشمن کو شکست دینے کے جذبات ،قائدانہ صلاحیتیں اور اخلاقی محاسن پیدا ہوتے ہیں  اس کے علاوہ اپنے مخالف سے مرعوب نہ ہونا،مایوسی کے باوجود ہمت نہ ہارنا ،مشکلات میں ثابت قدم رہنا ۔یہ سب اوصاف محض کھیلوں سے  بیدارہوتے ہیں ۔اس لئے قوموں کی عظمت اور شناخت کھیلوں سے وابستہ ہے۔مشہور مقولہ ہے:جس ملک میں کھیل کے میدان آباد  ہوں گے وہاں کے ہسپتال ویران ہوں گے۔اورجس ملک میں کھیل کے میدان ویران  ہوں گے وہاں کے ہسپتال آبادہوں گے۔میانمار  کے ہسپتالوں میں تو روہنگیا کو اماں نہ مل سکی  لیکن بے شمار گمنام  اجتماعی قبریں  ضرور وجود میں آگئیں ۔ہرمعاشرے کی  طرح روہنگیاکھیلوں کا تعلق بھی مختلف  موسموں(  سرما ،گرما ،برسات )سےوابستہ رہا ہے۔بوٹ ریسنگ (Ghari-Khela)،ریسلنگ(Boli-Khela)،قونڈاخیلہ (Qunda Khela) وہاں کے معروف کھیل ہیں۔ دیگرروہنگیاکھیلوں کےنام ان کی مقامی زبان میں حسبِ ذیل ہیں: دان خیلہ(Dan Khela)،کیار خیلہ(Ciyar Khela)،لک –پالانی خیلہ(Luk-palani Khela)،فونی خیلہ(Phoni Khela)،مال-پاٹ خیلہ(Mal-pat Khela)،باق-گرو خیلہ(Bak-goru Khela)،بوس -گیا  بوری خیلہ(Bosgyaburi Khela)، الو-خیلہ(Ulu Khela)، مرانی -خیلہ، موریش خیلہ(Morish Khela)، باتخیلہ (Bat Khela)، کالا تور خیلہ(Kalatur Khela)، ڈوپ- مرانی خیلہ (Dope-marani Khela)-سوسر ، فٹ بال  اور تیراکی کےمقابلوں کاانعقادبھی کیاجاتا تھا۔جب روہنگیا  میں زندگی کی رمق  موجود تھی تو  وہ مقامی کھیل کھیلا کرتے تھے۔

روہنگیافنونِ لطیفہ  کے رسیا ہیں۔ان کےمقامی گیت ہیں جن میں ھولا (Howla)، بٹیالی گیت(Bitayali)،جاری گیت(Jari) اور غاضرگیت(Gazir)اپنی مدھراوررس بھری موسیقی کی بنا پر بہت مقبول ہیں ۔کبھی برما براڈ کاسٹنگ (BBC)سروس سے روہنگیا آرٹ سے متعلق پروگرام  شروع ہوا کرتے تھے۔جو کہ اب  قصہ پارینہ بن چکا ہے۔جب زندگی اپنے پورے جوبن پر تھی اور جہانِ امن کے کینوس پر اپنے رنگ بکھیر رہی تھی اور بدھا کے دیس میں نفرتوں کی آبیاری کرنے والا کوئی نہ تھا۔جب محبت کے گیت گائے جاتے تھے۔ہاں اسی دیس میں اب صرف فوجی بوٹوں کی چاپ ہے ---معصوم روہنگیا کی جلی  لاشوں کی کی راکھ ہے اور بس !!!بقول ناصر  کاظمی:

وہ ساحلوں پہ گانے والے کیا ہوئے
وہ کشتیاں چلانے والے کیا  ہوئے
وہ   صبح   آتے آتے  رہ گئی   کہاں
جو قافلے آنے والے تھے کیا ہوئے
میں ان کی راہ دیکھتا ہوں رات بھر
وہ روشنی دکھانے والے کیا ہوئے

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...