Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نقش فریادی جولائی تا ستمبر 2022 > اردو تفسیر نگاری کا پس منظر اورتفہیم القرآن کی خصوصیات

نقش فریادی جولائی تا ستمبر 2022 |
پنجاب لٹریری فورم
نقش فریادی جولائی تا ستمبر 2022

اردو تفسیر نگاری کا پس منظر اورتفہیم القرآن کی خصوصیات
Authors

ARI Id

1695778069724_56118345

Access

Open/Free Access

Pages

۵۴

              بر صغیر پاک و ہند میں اردو میں ترجمہ و تفاسیر کا آغاز سولھویں صدی عیسوی میں ہوا لیکن یہ متفرق سورتوں اور پاروں سے آگے نہ بڑھ سکا۔ اردو زبان میں سب سے پہلا تشریحی ترجمہ حکیم محمد شریف خان بن محمد اکمل خان(م۱۲۲۲ھ) نے لکھا۔ یہ ترجمہ شائع نہیں ہوا اور ان کے خاندان میں محفوظ ہے۔ ہندوستان میں پہلی اردو تفسیر، چراغ ابدی ہے جو مولوی عزیز اللہ ہمرنگ  اورنگ آبادی نے ۱۲۲۱ھ میں لکھی۔ یہ صرف تیسویں پارے کی تفسیر ہے۔ اسی طرح شاہ مراد اللہ انصاری سنبھلی کی تصنیف خدائی نعمت بہ معروف تفسیر مرادی بہت مقبول ہوئی۔ یہ بھی تیسویں پارے کی تفسیر ہے اور تین سو صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ۱۱۸۵ھ میں مکمل ہوئی۔

              ہندوستان کے معروف محدث شاہ ولی اللہ کے فرزند شاہ رفیع الدین (م۱۲۳۲ھ۱۸۱۷ء )نے ۱۲۰۰ھ میں قرآن مجید کا ترجمہ لکھا جو کہ مختصر اور جامع لفظی ترجمہ ہے۔ شاہ رفیع الدین کے چھوٹے بھائی شاہ عبدالقادر (۱۲۳۰ھ، ۱۸۱۵ء ) نے ۱۲۰۵ھ میں موضح قرآن کے نام سے اردو زبان میں قرآن کا ترجمہ اور حواشی لکھے۔ شاہ صاحب کا یہ ترجمہ اپنے دور کے لحاظ سے بہترین ترجمہ ہے۔ اس میں عربی الفاظ کے مناسب ترین اردو اور ہندی مترادفات کو استعمال کیا گیا ہے۔ شاہ عبدالقادر کی اس تصنیف کو اردو زبان کی پہلی مکمل تفسیر قرار دیا جا سکتا ہے۔ سر سید احمد خان (۱۸۱۷ء۔ ۱۸۹۸ء)کی تفسیر"تفسیر القرآن" بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں خصوصی اہمیت رکھتی ہے۔ اس کی پہلی جلد ۱۸۸۰ء میں شائع ہوئی۔ سرسید احمد خان کا دور مسلمانوں کے انحطاط اور انگریزی غلبے کی وجہ سے کش مکش کا دور تھا۔ جدید تہذیب کے زیر اثر عقلیت پسندی اور قدیم روایات  سے انحراف کی کئی مثالیں سامنے آ رہی تھیں۔ اس عہد کی تفاسیر  میں اس فکری کش مکش کی جھلک واضح نظر آتی ہے۔ یہ دور عقلیت اور سائنسی طرز فکرسے مرعوبیت کا دور تھا، جس کی جھلک اس تفسیر میں نظر آتی ہے۔ پہلی جلد کی اشاعت کے ساتھ ہی سرسید کے نظریات پر شدید تنقید ہونے لگی۔ انھوں نے اسلاف کی روش سے ہٹ کر قرآنی آیات کی تاویل اپنے نکتہ نظر سے کی۔ مولانا الطاف حسین حالی کے بقول:"اگرچہ سرسید نے اس تفسیر میں جا بجا ٹھوکریں کھائی ہیں اور بعض بعض مقامات پر ان سے نہایت رکیک لغزشیں ہوئی ہیں، بایں ہمہ اس تفسیر کو ہم ان کی مذہبی خدمات میں ایک جلیل القدر خدمت سمجھتے ہیں۔ "

               سرسید کے بعداسی طرح کی جدیدیت اور سلف کی روش سے انحراف علامہ غلام احمد پرویز(۱۹۰۳ء۔ ۱۹۸۵ء)کی فکر میں بھی نظر آتا ہے۔ اسی زمانے میں مولانا عبدالحق دہلوی(م۱۹۰۰ء)نے تفسیر فتح المنان المعروف تفسیر حقانی  لکھی۔             لیکن یہ تفسیر دور نو  کے فکری غلبے کا شکار نظر نہیں آتی، بلکہ اس تفسیر میں تقابل ادیان عربی گرامر اور احادیث کے حوالوں کے ساتھ ساتھ سرسید احمد خان کے فکری انحراف پر گرفت کی گئی ہے۔ یہ تفسیر اپنے اسلوب کے اعتبار سے منفرد اور عالمانہ ہے۔ سید امیر علی کی تفسیر  مواہب الرحمن کا اسلوب انتہائی دقیق اور زبان پرانی ہے۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری کی تفسیر ثنائی  محدود مباحث کے باوجود عمدہ کوشش ہے۔ مولانا اشرف علی تھانوی کی تفسیر بیان القرآن کا انداز بیان بھی عربی فارسی الفاظ اور بکثرت اصطلاحات کے استعمال سے بوجھل ہو گیا ہے۔ فقہی اور کلامی مباحث، تصوف کے اسرار ور موز کے سبب یہ تفسیر جدید تعلیم یافتہ طبقے کی علمی ضروریات پوری کرنے سے قاصر رہی ہے۔ عبد الماجد دریا بادی (۱۸۹۲ء۔ ۱۹۷۷ء)نے اپنی تفسیر تفسیر ماجدی کے ذریعے قرآنی اشکالات کو دور کرتے ہوئے قاری اور قرآن کے درمیان تعلق میں اضافہ کیا ہے۔ اس تفسیر کا اسلوب عمدہ اور حواشی مختصر ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ تفسیر قبول عام حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔

              مولانا ابو الکلام آزاد (۱۸۸۸ء۔ ۱۹۵۸ء)کی تفسیر ترجمان القرآن نامکمل اور صرف اٹھارہ پاروں کی تفسیر ہے۔ اس میں دانش ور اور جدید طبقہ کو مد نظر رکھا گیا ہے۔ مولانا ایک طرف ڈارون ازم سے متاثر ہیں تو دوسری طرف اشتراکیت کو بھی بطور نظام زندگی اہمیت دیتے ہوئے آزمانے کا موقع دینے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔ اس تفسیر کا انداز تحریر عمدہ تاثر قائم نہیں کرسکا۔ مولانا عبید اللہ سندھی (۱۸۷۲ء۔ ۱۹۴۴ء)کی تفسیر المقام المحمود  کا انداز اتنا الجھا ہوا ہے کہ اس سے عام آدمی تو کیا کسی ادیب اور مفکر کے لیے بھی استفادہ مشکل ہے۔ مولانا اشرف علی تھانوی کی تفسیربیان القرآن، علماء کے مطالعے کے لیے تحریر کی گئی۔ مولانا احمد رضا خان بریلوی (۱۸۵۶ء۔ ۱۹۲۱ء)کی تفسیرکنزالایمان، مولانا مفتی محمد شفیع (۱۸۹۶ء۔ ۱۹۷۶ء)کی تفسیر معارف القرآن اور پیر محمد کرم شاہ الازہری (۱۹۱۸ء۔ ۱۹۹۸ء)کی تفسیر ضیاء القرآن کا شمار اپنے دور کی نہایت عمدہ تفاسیر میں کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ان میں بھی ایک  مخصوص فکر کی جھلک نظر آتی ہے۔ مولانا حمید الدین فراہی(۱۸۶۳ء۔ ۱۹۳۰ء)نے نظام القرآن کے نام سے تیسویں پارے کی کچھ سورتوں کی تفسیر لکھی۔ بعد ازاں ان کی فکر سے متاثر ان کے شاگرد مولانا امین احسن اصلاحی (۱۹۰۴ء۔ ۱۹۹۷ء)نے تدبر قرآن کے نام سے سنجیدہ اور علمی انداز میں تفسیر لکھی ہے جس میں فقہی، جماعتی اور گروہ بندی سے بالاتر ہو کر، عالمانہ انداز میں نظم قرآن، قراآت، الفاظ و اصطلاحات کی تحقیق پیش کی ہے۔

               اردو تفاسیر کے سرسری جائزے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ہر عالم دین، مفسر قرآن نے اپنے اپنے حالات، علمی رجحانات، بدلتے تقاضوں، عصر حاضر کی فکری ضروریات کے تحت پورے اخلاص و جانفشانی کے ساتھ تفاسیر لکھی ہیں اور انھیں زیادہ سے زیادہ مفید بنانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اسے کیا کہیے کہ کلامی تفاسیر میں اعتقادی بحثیں چھائی رہیں، فقہی تفاسیر میں اختلاف مذہب توجہ کا مرکز بن گئے۔ عارفانہ تفاسیر میں روحانی پہلو غالب آ گیا اور ادبی تفاسیر الفاظ کے حسن اور قرآن کے ادبی اعجاز کو موضوع بحث بنا سکیں۔ ان تفاسیر میں اگر کہیں قرآن کا پیغام ابھرا بھی تو وہ قرآن کے مرکزی موضوع کے مطابق اسلام کے ایک مکمل دین ہونے کا واضح نقشہ نہ مرتب کر سکا۔ اور  اگر کسی نے ایسی کوشش کی بھی تو ایسی بھاری بھر کم مذہبی اصطلاحات اور عربی تراکیب و الفاظ استعمال کیے کہ عام قاری یہ سمجھنے پر مجبور ہو گیا کہ قرآن پاک کے پیغام کو سمجھنا اس کے بس کی بات نہیں یہ صرف علما کرام کی ذمہ داری ہے۔ چنانچہ اس زمانے میں  ایک ایسی تفسیر کی ضرورت تھی جو ایک طرف علمائے کرام لیے بھی قابل قبول ہو اور دوسری طرف عام پڑھے لکھے طبقے کی ضرورت کو بھی پورا کرسکے۔ جو قرآن کے پیغام کی تفہیم اس رخ پر کرے کہ قرآن کے آفاقی پیغام کی معنویت ہر قاری پر اس انداز میں واضح ہو جائے کہ قرآن پوری انسانیت کے لیے مشعل راہ بن جائے۔ اس تفسیر میں جہاں عقائد و ایمانیات کا ذکر ہو وہاں عصری افکار و تحریکات کا تجزیہ بھی ہو۔ اس کی زبان دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق، اتنی آسان سہل سادہ اور دل نشین ہو کہ قرآن مجید عام پڑھے لکھے مسلمانوں کے ذہنوں کو متاثر کرسکے اور غلافوں سے نکل کر سینوں سے ہوتا ہوا زندگی کے تمام گوشوں پر محیط ہو جائے۔

تفہیم القرآن:

            یہ ایک حقیقت ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے خیالات، رسم ورواج، معاشرت، معاملات اور اقدار تک میں تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے۔ یہی معاملہ زبانوں اور لہجوں کے ساتھ پیش آتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ زبان و بیان کے انداز  بدل جاتے ہیں۔ روزمرہ بول چال کے الفاظ، معانی، محاورات، لہجات اور مفاہیم میں بھی کئی نئے رنگ پیدا ہو جاتے ہیں۔ جدید دور کے بعض لازمی تقاضے صدیوں سے قائم نظریات و عقائد تک کو تبدیل کر دیتے ہیں۔ اردو زبان کی جن تفاسیر کا ذکر ہم نے کیا ہے وہ سب اپنے دور کی ضروریات کو کسی حد تک پورا کرتی تھیں۔ ان میں سے کوئی تفسیر بھی دور حاضر کے تقاضوں کوپورا نہیں کرسکتی تھی۔ بعض کی زبا ن مشکل تھی تو بعض میں تسلسل اور روانی نہیں تھی۔ ان مذکورہ تفاسیر کے تناظر میں، سیدابوالاعلیٰ مودودی کے ذہن میں بھی یہ خیال موجود تھا کہ یہ تفاسیر اب بدلتے ہوئے زمانے کا ساتھ نہیں دے رہیں۔ وہ دور حاضر کے تقاضوں کو پورا کرتی ہوئی، ایک ایسی مدلل، ہمہ جہت، اور آسان انداز میں لکھی گئی تفسیر کی ضرورت محسوس کر رہے تھے جو مغربی افکار و تصورات اور فلسفیانہ توجیہات کو ردّ کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام کے جامع نظام زندگی ہونے کا تصور بھی پیش کرے۔ ۱۹۲۶ء  میں جب سید مودودی اپنی اوّلین جامع تصنیف الجہاد فی الاسلام کی تخلیق کے لیے اسلامی لٹریچر کا مطالعہ کر رہے تھے۔ تو مطالعہ قرآن کے دوران میں انھیں احساس ہوا کہ قرآن محض تلاوت کی کتاب نہیں بلکہ تحریک کی کتاب ہے۔ اس لیے اسی کو بنیاد بنا کر دنیا میں اسی طرح عالم گیر تحریک قائم کی جا سکتی ہے جیسے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کی تھی۔

             اگست ۱۹۴۱ء میں سید مودودی نے اپنے اس احساس کو عملی شکل دیتے ہوئے، جماعت اسلامی کے نام سے اسلامی تحریک کی بنیاد رکھی۔ اس موقع پر اس نوزائیدہ تحریک کی فکری رہنمائی فراہم کے لیے قرآن مجید کی ایک جامع اور عام فہم تفسیر کی ضرورت اور زیادہ شدت سے محسوس ہوئی۔ چنانچہ سید مودودی نے فروری ۱۹۴۲ء میں   ترجمان القرآن  کے صفحات پر تفسیر قرآن کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اگرچہ آپ کو مختلف وجوہات کی بنا پر چار مرتبہ (چار سال، سات ماہ، انیس دن کے لیے ) جیل جانا پڑا اور بیرون ملک دوروں کے ساتھ ساتھ  اندرون ملک تنظیمی امور بھی انجام دیتے رہے لیکن تفسیر کا یہ سلسلہ بلا تعطل جاری رہا۔ سید مودودی کہتے ہیں :" اس کتاب کے لکھنے کا سلسلہ میں نے اس وقت شروع کیا تھا جب میری زندگی کا سب سے طوفانی دور شروع ہوا تھا۔ آپ کو معلوم ہے کہ جماعت اسلامی اگست ۱۹۴۱ء میں قائم ہوئی تھی اور میں نے یہ تفسیر فروری ۱۹۴۲ء میں لکھنی شروع کی۔ "

             جس دور میں سید مودودی نے تفسیر لکھنے کا ارادہ کیا اس وقت مغربی فلسفے کے زیر اثر پروان چڑھنے والی تہذیب اور تعلیم نے مسلمانوں کو علمی و فکری اعتبار سے منتشر کر رکھا تھا۔  دین سے بیزاری  اور الحاد نے فیشن کا روپ دھار لیا تھا۔ جدت پسندی، روشن خیالی اور آزادی نسواں کی آڑ میں عریانی، فحاشی، بے حیائی اور بے پردگی کو رواج دیا جا رہا تھا۔ ۔ سرمایہ دارانہ اور استحصالی نظام معیشت کے زیر اثر سود معاشی ترقی کے ایک ذریعے کا روپ دھار چکا تھا۔ مغربی ممالک کی معاشی ترقی سے متاثرمسلمان مفکرین اس خوش حالی کو ان ممالک کی مذہب سے بیزاری اور ا لحاد کا ثمر سمجھ رہے تھے۔ کثیر الملتی کمپنیاں اپنے کاروبار کے فروغ اور مارکیٹ کی توسیع کے لیے تمام پس ماندہ ممالک میں ایک خاص قسم کی تہذیب اور اقدار کے فروغ کے لیے کوشاں تھیں۔ مسلمانوں کی نوجوانوں نسل ان فتنوں سے مرعوب ہو کر اشتراکیت، قومیت، مغربی تہذیب، انکار حدیث جیسے فکری سیلاب میں بہہ رہی تھی۔ سید مودودی نے ان تمام افکار کی تہہ تک پہنچنے اور نوجوان نسل کے شک و شبہات دور کرنے کے لیے تمام تعصبات سے بالاتر ہو کر ان افکار کا خصوصی طور پر مطالعہ کیا۔ آپ نے ہندو مذہب، بدھ مت، مسیحیت، یہودیت، دہریت اور مادہ پرستی کے افکار و نظریات کا مطالعہ کیا۔ اس سلسلے میں آپ نے ان مذاہب و افکار کی بنیادی کتب اور ان کے زعماء کی سوانح کا بغور مطالعہ کیا۔ اس کے بعد پھر قرآن و سیرت کا مطالعہ کرنے کے بعد آپ شعوری طور پریکسو ہو کر اس نتیجے پر پہنچے کہ اسلام سے زیادہ معقول اور مدلل مذہب اور پیارے نبی حضرت محمدﷺ سے زیادہ مکمل رہنما اور کوئی نہیں ہے۔ بقول سید مودودی:"میں محض دین آباء ہونے کی وجہ سے اسلام کا معتقد نہیں ہوا، بلکہ اپنی تحقیق سے، خوب جانچ پڑتال کر کے میں اس دین پر ایمان لایا ہوں۔ "اس کے بعد آپ نے جو کچھ اپنی تحقیق و تلاش کے نتیجے میں سمجھا اسے اصلاح امت کی خاطر عوام الناس تک منتقل کرنے کی کوشش کی۔ لیکن آپ کو محسوس ہوا کہ جو طریقہ انھوں نے اختیار کیا ہے وہ زیادہ سود منداور نتائج کے اعتبار سے بہتر نہیں ہے۔ چنانچہ آپ نے اپنی حکمت عملی کو تبدیل کرتے ہوئے قرآن مجید کو اپنی دعوت کا مرکزو محور بنانے کا ارادہ کیا۔ فرماتے ہیں :"مگر بالآخر اس نتیجہ پر پہنچا کہ یہ دین پوری طرح لوگوں کی سمجھ میں نہیں آ سکتا جب تک کہ براہ راست قرآن کے ذریعہ سے اسے نہ سمجھایا جائے۔ "

            سید مودودی نے جب تفسیر نگاری کا کام شروع کیا تو ان کے پیش نظر قرآن پاک کی مختصر تفسیر لکھنا تھا لیکن جیسے جیسے قرآنی مضامین کی وضاحت شروع کی تو تفصیلات بڑھتی چلی گئیں اور یہ تفسیر چھ جلدوں میں مکمل ہوئی۔ پہلی جلد ۱۹۵۱ء میں مکمل ہوئی اور آخری ۱۹۷۲ء میں شائع ہوئی۔ پہلی جلد قدرے مختصر ہے۔ دوسری اور تیسری جلداس سے  زیادہ مفصل ہے۔ اسی طرح بالترتیب ہر اگلی جلد پہلی جلدسے زیادہ  تفصیل کے ساتھ لکھی گئی ہے۔ اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ پہلی جلد ساڑھے سات پاروں کی تفسیر ہے جب کہ آخری صرف ایک سورت اور دو پاروں کی تفسیر پر مشتمل ہے۔ سید مودودی کی تفسیر نگاری کی صلاحیتیں تیسری جلد سے اپنے عروج پر نظر آتی ہیں۔ اس جلد اور مابعدساری جلدوں میں قرآنی موضوعات پر وضاحت اور تفصیل سے  بحث کی گئی ہے۔ سید صاحب کے نزدیک اس تفسیر کا بنیادی مقصد عام پڑھے لکھے افراد کی ضروریات کو پورا کرنا تھا۔ آپ نے تفہیم القرآن کے دیباچے میں اس مقصد کا اظہار کرنے ہوئے لکھا ہے :"اس کام میں میرے پیش نظر علما اور محققین کی ضروریات نہیں ہیں اور نہ ان لوگوں کی ضروریات جو عربی زبان اور علوم دینیہ کی تحصیل سے فارغ ہونے کے بعد قرآن مجید کا گہرا تحقیقی مطالعہ کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے حضرات کی پیاس بجھانے کے لیے بہت کچھ سامان پہلے سے موجود ہے۔ میں جن لوگوں کی خدمت کرنا چاہتا ہوں وہ اوسط درجہ کے تعلیم یافتہ لوگ ہیں جو عربی سے اچھی طرح واقف نہیں ہیں۔ "

              اس مقصد کے پیش نظر آپ نے تفسیر کا انداز عام فہم اور زبان سلیس رکھی، لیکن اس سب کے باوجود آپ کی نثر زوردار ہے اور ادبی رنگ میں بھی کہیں کمی نظر نہیں آتی۔ قرآن کے لفظی تراجم کے برعکس آپ نے آزاد ترجمانی کا طریقہ اختیار کیا۔ فرماتے ہیں : "میں نے اس کتاب میں ترجمے کا طریقہ چھوڑ کر آزاد ترجمانی کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ "

آزاد ترجمانی کے اس اسلوب کو اختیار کرنے کا مقصد آپ کے نزدیک یہ تھا کہ عام قاری قرآن مجید کے مطالعے کے دوران میں طویل لغوی، کلامی اور فقہی بحثوں سے دور رہ کر، اس کا مفہوم و مدعا صاف صاف سمجھتا جائے۔ قرآن مجید کا زور بیان، اعجاز کلام، روانی، بلاغت زبان اور تاثیر کلام بھی متاثر نہ ہو اور قرآن قاری  پر جو اثر ڈالنا چاہتا ہے، وہ  اسے پوری طرح سے قبول کرے۔

  منفرد طرز استدلال:

            سید مودودی کے ہاں استدلال کا ایک خاص رنگ پایا جاتا ہے جو اس سے پہلے ہمارے دینی اور تفسیری ادب میں کم ہی نظر آتا ہے۔ اکثر مفسرین اور علما نے یا تو جدید مسائل سے بالکل تعرض نہیں کیا یا ان کو بیان کرنے کے لیے روایتی انداز اختیار کیا۔ آپ نے قرآن کی تفسیر میں استدلالی انداز اس لیے اختیار کیا کہ نئی نسل ہر چیز کو دلائل کی بنیاد پر پرکھنے کی عادی ہو چکی تھی۔ آپ کے طرز استدلال کی بنیاد زورِ بیان یا جوش جذبات پر نہیں تھی، بلکہ دلائل کو اس انداز میں ترتیب دیا ہے کہ قاری کی ذہنی عقلی اور فکری تشفی ہو۔ آپ اپنی تحریر میں نکات کو ایسے ترتیب دیتے ہیں کہ قاری ان کی رائے سے اتفاق کر لیتا  اور ان کے دلائل کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔  مثال کے طور پر آپ لکھتے ہیں : "کسی کو معبود بنانے کے لیے لا محالہ کوئی معقول وجہ ہونی چاہیے۔ ایک معقول وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ اپنی ذات میں معبودیت کا کوئی استحقاق رکھتا ہو۔ دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ آدمی کا خالق ہو اور آدمی اپنے وجود کے لیے اس کا رہین منت ہو۔ تیسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ آدمی کی پرورش کا سامان کرتا ہو اور اسے رزق یعنی متاع زیست بہم پہنچاتا ہو۔ چوتھی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ آدمی کا مستقبل اس کی عنایات سے وابستہ ہو اور آدمی کو اندیشہ ہو اس کی ناراضی مول لے کر وہ اپنا انجام خراب کر لے گا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ ان چاروں وجوہ میں سے کوئی وجہ بھی بت پرستی کے حق میں نہیں ہے بلکہ ہر ایک خالص خدا پرستی کا تقاضا کرتی ہے۔ "

           سید مودودی کے دلائل بالکل واضح ہوتے ہیں۔ آپ پہلے ایک مقدمہ قائم کرتے ہیں اور پھر بتدریج اس کے نتیجے کی طرف بڑھتے ہیں۔  پھر آخر میں نہایت محکم اور متاثر کن دلائل سے بات قاری کے ذہن میں اتار دیتے ہیں۔ لکھتے ہیں :"سوال یہ ہے کہ کیا دنیا میں کوئی انسان کبھی اس بات پر قادر ہوا ہے یا ہو سکتا ہے کہ سال ہا سال تک دو قطعی مختلف اسٹائلوں میں کلام کرنے کا تکلف نباہتا چلا جائے اور کبھی یہ راز فاش نہ ہو سکے کہ یہ دو الگ اسٹائل دراصل ایک ہی شخص کے ہیں۔ عارضی اور وقتی طور پر تو اس قسم کے تصنع میں کامیاب ہو جانا ممکن ہے لیکن مسلسل ۲۳ سال تک ایسا ہونا کسی طرح ممکن نہیں ہے ۔"

          سید مودودی اپنے طرز استدلال کو موثر بنانے کے لیے بعض اوقات نہایت دل چسپ مثالیں بھی پیش کرتے ہیں۔ مثلاً ایمان اور عمل صالح کی بحث میں لکھتے ہیں :"ایمان وہی معتبر اور مفید ہے جس کے صادق ہونے کا ثبوت انسان اپنے عمل سے پیش کرے۔ ورنہ ایمان بلا عمل صالح محض ایک دعویٰ ہے جس کی تردید آدمی خود ہی کر دیتا ہے جب وہ اس دعوے کے باوجود اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے طریقے سے ہٹ کر چلتا ہے۔ ایمان اور عمل صالح کا تعلق بیج اور درخت کا سا ہے جب تک بیج زمین میں نہ ہو کوئی درخت پیدا نہیں ہو سکتا۔ لیکن اگر بیچ زمین میں ہو اور کوئی درخت پیدا نہ ہو تو اس کے معنی ہیں بیج زمین میں دفن ہو کر رہ گیا۔

        آپ جو مثالیں بیان کرتے ہیں وہ نہ صرف عام فہم سہل سادہ اور دلچسپ ہوتی ہیں بلکہ ہمارے اردگرد کے ماحول سے تعلق رکھتی ہیں۔ آخرت کے تصور کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :"آخرت کے معاملات کو ٹھیک ٹھیک سمجھ لینا ہمارے لیے اس سے زیادہ مشکل ہے جتنا ایک دو برس کے بچے کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ازدواجی زندگی کیا ہوتی ہے۔ حالانکہ جوان ہو کر اسے خود اس سےسابقہ پیش آنا ہے۔ "

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...