1695778069724_56118348
Open/Free Access
۶۵
مذہبی، سماجی اور ثقافتی بیانیے: تشکیلیت، ردِ تشکیلیت اور تارڑ کا ناول ’’قلعہ جنگی‘‘(ایک مابعد جدید مطالعہ)
"Religious, Social and Cultural Narratives"Construction, Deconstruction and Tarar's Novel Qala-i-Jangi (A Post Modern Study)
یوسف نون، پی ایچ ڈی سکالر شعبہ اردو، بہاء الدین زکریا یونیورسٹی، ملتان
بیانیہ (Narrative) کی اصطلاح کو سب سے پہلے رولاں بارتھ نے متعارف کرایا، انہوں نے اپنے ایک مضمون Introduction to the Structural Analysis میں ان بیانیوں کو نشان زد کیا جن پر ہماری ثقافت کا انحصار ہے۔ رولاں بارتھ بیانیوں کی بے شمار تعداد بتاتا ہے۔ وہ کھڑکیوں اور رنگ دار شیشوں کو بھی ایک بیانیہ شمار کرتا ہے، جو اس دنیا کو بامعنی بناتے ہیں۔ لیوتار مابعد جدیدیت کے بنیاد گزاروں میں سے ہیں۔ وہ مہابیانیوں (Grand Narrative) اور چھوٹے بیانیوں (Little Narratives) میں تمیز کرتا ہے۔ لیوتار علم کی دو قسمیں بتاتا ہے ایک سائنس دوسرا بیانیہ ہے۔ لیوتار سائنس اور بیانیہ کو دو حریفوں کی شکل میں دیکھتا ہے۔ لیوتار سائنس اور ٹیکنالوجی کی بھیڑ کے درمیان بیانیہ کا وجود لازم قرار دیتا ہے۔ سائنس کو اپنی صادقت ثابت کرنے کے لیے ثبوت کی ضرورت ہوتی ہے اور بیانیہ اس سے مبرا ہوتا ہے۔ سائنسی روایت اپنی صداقت ظاہر کرنے کے لیے بیانیہ کا سہارا لیتی ہے۔ اب سائنس بھی ایک بیانیہ کا روپ دھار چکا ہے۔سائنس اپنی معروضیت اور دیانت داری کو پیچھے چھوڑ کر طاقت ور کا آلہ کار بن چکا ہے۔ مہابیانیہ آخر ہے کیا؟ مہابیانیہ ہر وہ آفاقی تھیوری ہے جو خود کو کائناتی سچ قرار دیے جانے پر مصر ہے۔ مہابیانیے کائناتی سطح پر خود کو مستند تصور کرتے ہوئے کائنات کے نظام کی تشریح اور اس میں اپنے کلیدی کردار ادا کرنے کے دعویدار ہوتے ہیں۔ اس طرح مابعد جدیدیت مہابیانیوں کے بارے میں بے یقینی اور بے اعتمادی کے مؤقف کا علامیہ بن کر سامنے آتی ہے۔ یہ مہابیانیے مذہبی، سیاسی، سماجی اور ثقافتی کے ساتھ ساتھ کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے متعلق ہوسکتے ہیں۔ مابعد جدیدیت ان تشکیلی بیانیوں کی ردتشکیل (Deconstruction) یا تکثیریت (Pluaralism) کی قائل ہے۔
مابعد جدیدیت ایک ایسا طرز فکر و نظر ہے جس نے جدید عہد کے ہر نظریے کو مسترد کرتے ہوئے اس پر تشکیک سے سوالات قائم کرنے کا خاصا مضبوط جواز فراہم کیا ہے۔ کئی مذہبی، سماجی، سیاسی، استعماری، مذہبی، سائنسی اور دیگر موضوعیت کے ایسے نظریات ہیں جنہیں گزرتے وقت کے ساتھ منہ کی کھانی پڑی ہے۔ ایسے مہابیانیوں کی ناکامی اور شکست و ریخت سے مابعد جدید فکر کو بطور خاص تقویت ملتی ہے۔ تصور کامل، آفاقی سچ، مکمل ضابطہ حیات، بہبود و ترقی، عدل و انصاف، امن و محبت، رواداری، ہمہ گیریت اور بھائی چارہ سے متعلقہ کئی مہابیانیے بے نقاب ہو کر اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں۔ ڈاکٹر اقبال آفاقی مہابیانیے سے متعلق لیوتار کے حوالے سے رقم طراز ہیں:۔
’’مہابیانیہ سے مراد وہ مفروضہ سچائی ہے جس کو کوئی بھی تہذیبی اکائی ناقابل تردید اور آفاقی حقیقت ناقابلِ تردید عقیدے کا درجہ دے دیتی ہے اور پھر اس پر لڑنے مرنے کے لیے تیار ہوجاتی ہے۔ اپنے اس عقیدے کو جب بھی خطرے میں دیکھتی ہے تو جنگ و جدال پر اتر آتی ہے۔ تمام توسیع پسند اپنے اپنے عقائد کو حتمی جان کر دنیا بھر میں اقتدار کے پرچم لہرانے کے خواب دیکھتے ہیں۔ اس قسم کی مفروضہ سچائیاں بالعموم تہذیبوں کو معروضی جواز فراہم کرتی ہیں۔‘‘
تارڑ کا ناول ’’قلعہ جنگی‘‘ اور اس کے سات مرکزی کردار ایسی کسی مفروضہ سچائی یا تصور کامل کے متلاشی ہیں یا پھر وہ اپنے اس تصور کامل کو درپیش خطرے سے پیش نظر اسے بچانے نکلے ہیں، مگر آخر میں اسی مہابیانیے کی ردتشکیل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ تارڑ کا یہ ناول افغان جنگ کے پس منظر میں تخلیق کیا گیا ہے۔ یہ وہ جنگ ہے جو اسلام کے نام پر غیراسلامی طاقتوں کے ایما پر لڑی گئی۔ یہ جنگ جو دراصل دو بڑی طاقتوں روس اور امریکہ کی تھی۔ امریکہ اور اس کے حلیفوں سعودیہ اور پاکستان نے اس جنگ کو مذہبی بیانیے کا لبادہ اوڑھوا کر اسے جہاد افغان کے نام سے موسوم کیا، اس جنگ میں بطور ایندھن کام آنے والی افرادی قوت مجاہدین اسلام یا طالبان کے نام سے جانے پہچانے گئے۔
ردتشکیل کیا ہے؟ ردتشکیل متن میں موجود افتراقات کو تلاشتی ہے اور معنی کے مسلسل التوا پر اصرار کرتی ہے۔ردتشکیل کا کام متعینہ روایتی معنی کو بے دخل کرنا اور توڑنا ہے۔ ردتشکیل کے امام کے طور پر دریدا کو جانا جاتا ہے۔ ردتشکیل یا پس ساختیات کے ضمن میں ۱۹۶۶ء کو جان ہاپکنز یونیورسٹی میں ساختیات کے موضوع The Languages of critics science of mind پر منعقدہ کانفرنس میں دریدہ کا مقالہ بعنوان ’’Structure sign and play in discourse of human science‘‘ ایک واقعہ ثابت ہوتا ہے، دریدا کا یہ مقالہ ساختیات کے آغاز ہی سے اختتام ٹھہرتا ہے۔(۷) دریدا کسی بھی لفظ یا اس کے مقررہ معنی کو مرکزیت دینے کی بجائے اسے ناپائید قرار دیتا ہے۔ دریدائی فکر بولی جانے والی زبان سے کہیں زیادہ لکھی ہوئی تحریر یا متن کی اہمیت کی قائل ہے۔ وہ زبان کے بدیہی اور استعاراتی نظام کی بنیاد پر معنی کی مضبوط بنیادوں کا تصور محال قرار دیتا ہے جس سے متن کی معیناتی موجودگی اور سیاق و سباق سے جڑا معنی کے تعین کا نظریہ رد اور فضول ہو کر رہ جاتاہے۔ اس طرح معنی کی موجودگی اور عدم موجودگی مساوی ہو کر رہ جاتے ہیں۔ دریدا لفظ مرکزیت (Logocentrism) اور معنی کی مطلقیت کو ان کے خلاف دلائل سے چیلنج کرتا ہے۔ زمانہ قدیم میں معنی خیزی کا اصل ماخذ Logos کو گردانا جاتا تھا، دریدا اس نظریہ کی ردتشکیل کرتے ہوئے روایتی معنی کے جبر کو توڑ کر معنی کی تکثیریت سے ادب کو حقیقت کی تلاش میں فلسفہ کی سطح تک لے آتا ہے۔ ردتشکیل مابعد جدیدیت کا ایک اہم پہلو تو ضرور ہے مگر اسے مابعد جدیدیت کے ہم معنی یا مساوی ہر گز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ مابعد جدیدیت اس معنوی تکثیریت کو متن تک محدود نہیں ہونے دیتی۔ اس کا دائرہ کار ادب، تعمیرات، موسیقی، آرٹ اور دیگر فنون کے ساتھ ساتھ زندگی کے تمام شعبہ ہائے جات اور فکر و فلسفہ تک وسیع ہے۔’’قلعہ جنگی‘‘ کا کردار جانی واکر ہر عقیدے کو برین واشنگ قرار دیتا ہے جو کسی دوسرے مہابیانیے یا عقیدے کی ردتشکیل پر قائم کھڑی ہوتی ہے۔ جانی واکر ایک مہابیانیے کے رد اور اس سے گلو خلاصی پانے کے لیے ایک اور مہابیانیے میں پناہ لیتا ہے۔
’’ہر عقیدہ ایک برین واشنگ ہی تو ہے ڈیڈی۔ اگر ایسا نہ ہو تو مذہبی تاریخ میں کوئی نیا عقیدہ کبھی قبول نہ کیا جائے۔ موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام نے بھی یہی کیا اور پھر ہمارے پیغمبر نے بھی جو گزشتہ خیال اور بت تھے انہیں ذہنوں سے واش کرتا ہے۔"ہر مذہب کا حلال و حرام اور جائز و ناجائز کا اپنا ایک الگ تصور اور فلسفہ ہے۔ ہر مذہب اپنے پیرو کاروں کے لیے کھانے پینے اور کرنے کرانے کے معاملات میں کچھ حدود کا تعین کرتا ہے۔ ان حدود سے تجاوز سرکشی شمار ہوتی ہے اور اسے کسی طور برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ بھوک اور مزید بڑھتی بھوک سے قریب ہوتی موت حلال و حرام کے بیانیے کی ردتشکیل کردیتی ہے۔ ’’قلعہ جنگی‘‘ کے تہہ خانے میں چھپے سات نفوس بھوک کے راستے سے قریب آتی موت کو بھانپ لیتے ہیں۔ وہ شہادت کی موت سے مرنے کی بجائے جینا چاہتے ہیں۔ جان و جسم کا رشتہ قائم رکھنے کے لیے کھانے پینے کا عمل ناگزیر ہے۔ وہاں تو ان جیسے انسانوں کی لاشوں کے سوا کچھ موجود نہیں، گل شیر ولی کا ذہن اوپر پڑی لاشوں کی طرف دوڑتا ہے۔ گھوڑے کی ہنکار سب کے من میں جینے کی ماند پڑتی امنگ جگا دیتی ہے۔ وہ اوپر جاکر گھوڑے کو قابو کرکے تہہ خانے میں لے آتے ہیں۔ گھوڑے کو کھانے کے مقصد کے لیے قابو کرنے سے پہلے وہی حلال و حرام کا مذہبی بیانیہ آڑے آتا ہے، مگر بھوک اور موت کا خوف حلال و حرام کے بیانیے پر غالب آجاتاہے۔
’’ گھوڑا حلال ہوتا ہے؟‘‘ ’’اگر نہیں بھی ہوتا تو کیا تم نہیں کھاؤ گے۔۔۔‘‘ ’’کھاؤں گا‘‘۔۔۔ ’’مجھے بھوک نہیں۔۔۔ پیاس لگی ہے۔‘‘۔۔۔۔ ’’یہ پیاس بھی بجھ سکتی ہے۔‘‘ ’’کیسے بھائی مرتضیٰ؟‘‘ ’’گھوڑے کا خون بھی تو پیا جاسکتا ہے۔‘‘ ’’خون تو حرام ہوتا ہے۔۔۔۔‘ ’’نہیں پیو گے؟‘‘ ’’پیوں گا۔‘‘
چھے نفوس تو گھوڑے کے گوش کے کچے پارچے کراہت کے ساتھ نگلتے ہیں، مگر جانی واکر جو نو مسلم ہے وہ اپنے عقیدے میں کچھ زیادہ ہی پختہ ہے، حرام کھانے پر موت کو ترجیح دیتا ہے۔ اسے بھی ناول میں دو حرام افعال میں مبتلا دکھایا گیا ہے۔ جب گھوڑا کھینچ تان کر تہہ خانے میں لایا جاتا ہے تو وہ پیشاب کردیتا ہے۔ جانی واکر اس کے گرم گرم پیشاب میں لوٹنے لگتا ہے، تاکہ گھوڑے کے پیشاب کی اینٹی سیپٹک خصوصیات سے اس کے خراب ہوتے زخم مندمل ہوجائیں۔ دور کہیں شمالی والے ’’قلعہ جنگی‘‘ کے معرکے کو سر کرنے کی خوشی میں ساز و سرود کی محفل برپا کیے ہوئے ہیں، جس کی آواز جانی واکر کے اندر تک اتر جاتی ہے۔ وہ اس ان جانی اور نامانوس دھن میں مگن ہوجاتا ہے اور سردھننے لگتا ہے۔ ’’حالت کفر میں مبتلا بدنی نظام اسے بے اختیار کرتا ہے۔‘‘
ناول میں ہاشم میر کے والد کا کردار ایک مذہبی منافق کردار ہے جو مذہب میں اپنے مفاد اور من پسند کے پہلو اپنا لیتا ہے، ایسے کئی کام جن کے لیے مذہب نے حدود مقرر کی ہیں، انہیں اپنے مفادات کے بیش نظر رد کردیتا ہے۔ وہ دکھاوے کے تمام کام پورے خشو ع و خضوع سے انجام دیتا ہے۔ وہ باقاعدہ نماز ادا کرتا ہے، مقامی مسجد کی تعمیر میں حصہ ڈالتا ہے۔ خود بھی شراب نہیں پیتا اور دوسروں کو بھی بیئر پینے سے منع کرتا ہے۔ گوریوں کا رسیا ہے۔ گوریوں سے مسلسل ہم بستری کو عیسائیت پر اسلام کی برتری گردانتا ہے۔ ایک سٹور میں سے اپنا حصہ اس لیے نکال لیتا ہے کہ وہاں سور کا گوشت اور شراب فروخت کی جاتی تھی۔ ٹکٹ چیکر کے کی عدم موجودگی میں خرید کر ٹرین میں سفر کرنے کی اخلاقی جرات کبھی نہیں کی۔ بریڈ فورڈ میں مولویوں کو مدعو کرتا، ان کا واعظ خود بھی سنتا اور بچوں کو بھی ساتھ لے جاتا ہے۔ غیر قانونی تارکین وطن کو تہہ خانے میں جگہ دیے ہوئے ہے، ان سے کام لیتا اور ان کا استحصال کرتا ہے جب کبھی وہ چوں چرا کرنے لگتے تو انہیں قانون کے حوالے کیے جانے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ وہ اپنی تمام تر انرجی برطانوی ویل فیئر سے پورے طور پر استفادے کے لیے صرف کردیتا ہے۔ روزگار ہونے کے باوجود اپنے آپ کو بیکار ڈکلیئر کراکے چیکوں کا حصول جائز سمجھتا ہے۔ والدہ کو اپاہچ قرار دلوا کر معاشرتی بہبود کی انجمنوں سے رقم اینٹھتا ہے۔ مگر ہے وہ پکا سچا مسلمان۔دراصل یہ سارا تضاد تشکیلیت (اٹل) سے جا جڑتا ہے۔
موت شاید انسان کو کچھ زیادہ حقیقت پسند بنا دیتی ہے، کیونکہ خود موت ایک حقیقت ہے۔ اب وہ تمام اس قابل ہیں کہ مہابیانیوں پر بھی سوال قائم کرسکیں۔ ایسے مہابیانیوں کو چھیڑنا موت کو دعوت دینے کے برابر ہے۔ ایسے مہابیانیوں کے اسیر کسی کو اس حوالے سے سوال اٹھانے کی ہر گز اجازت نہیں دیتے۔ ان ساتوں کے سروں پر موت منڈلارہی ہے، اب اس سے بڑا ڈر تو ہے نہیں کہ جو انہیں ایسے مہابیانیوں کو چیلنج کرنے سے باز رکھ سکے۔ بات بامیان کے زائد المعیاد خداؤں کی طالبان کی طرف سے عملی ردتشکیل سے شروع ہوتی ہے اور جس کی تان آج کے خداؤں پر آن ٹوٹتی ہے۔
مابعد جدیدیت عظیم مہابیانیوں پر سوال قائم کرنا اور انہیں چیلنج کرنا سکھاتی ہے۔ گزرے وقت کے ساتھ ساتھ مہابیانیوں کی شکست و ریخت، ان کا زائد المعیاد ہو کر متروک ہونا مابعد جدید رویے کو تقویت دیتا ہے۔ مذکورہ وہ بالا مذہبی مہابیانیے ہیں، جن کی حقانیت پر سوال اٹھانا تو درکنار اس سے متعلق بات کرنا بھی ممنوعہ موضوع ہے۔ مابعد جدیدیت نے ہر مہابیانیے کو رد کیا ہے۔ ہمہ گیر مہابیانیوں کی جگہ تکثیریت کے حامل چھوٹے چھوٹے مقامی، ثقافتی بیانیے متعارف کرائے ہیں۔ ناول میں مہابیانیوں کی جگہ چھوٹے بیانیے جگہ بناتے نظر آتے ہیں۔ اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے جو تمام عالم اسلام کو ایک ملی وحدت کی لڑی میں پروتا ہے۔ ہر رنگ نسل، زبان اور علاقائی تقسیم سے بالاتر ہے۔ عملی طور پر زندگی میں اس سے برعکس معاملات کثرت سے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اکثر دفعہ رنگ نسل علاقہ یا زبان مذہب سے بھی پہلے کی چیزیں بن کر سامنے آتی ہیں۔ جانی واکر امریکی سفید فام ہے، جس کی زبان انگریزی ہے۔ وہ باقی چھے میں سے سب سے زیادہ ہاشم کے نزدیک رہتا ہے۔ ہاشم برطانوی نژاد پاکستانی ہے مگر برطانیہ کے ماحول و ثقافت میں پلا بڑھا ہے۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے مزاج شناس ہیں۔ ان دونوں کا الگ ہو کر انگریزی بولنا، الگ مزاج و حس مزاح کا حامل ہونا باقیوں کو کھٹکتا ہے۔ جانی واکر اپنا سب کچھ چھوڑ کر آیا ہے۔ دھن دولت ملک عقیدہ مذہب سب کچھ، مگر پھر بھی باقی لوگ اسے ایک امریکی گورے سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے جانی سے اختلاف رائے سے زیادہ کہیں زبان، ملک اور نسل کا امتیاز روا رکھے ہوئے ہیں۔
ناول میں کئی سماجی و عوامی و ثقافتی اور شعری بیانیوں کی رتشکیل بھی کی گئی ہے۔ ہمارے ہاں کچھ خاص قوموں اور ذاتوں سے جڑے بیانیے عام ہیں۔ انہیں ان بیانیوں کی روشنی میں دیکھا بھالا اور پرکھا جاتا ہے۔ کئی ذاتوں کو بہادر، دلیر، کئی کو ڈرپوک اور کئی کو کنجوس یا بے وقوف گردانا جاتا ہے۔ ان سے متعلق کئی طرح کے لطائف گردش میں ملیں گے۔ پٹھانوں کو غیور طاقت ور اور مضبوط تصور کیا جاتا ہے۔ مقامی سطح پر یا کسی مستشرق نے اس قوم کی تاریخ رقم کی تو انہیں ایسے ہی القابات سے ہی نوازا ہے۔ دیر سے تعلق رکھنے والا کردار گل شیر ولی اس بیانیے کی کچھ یوں ردتشکیل کرتا ہے۔
’’یہ باہر کا انگریز لوگ جب ہمارے بارے میں کہانی بناتا ہے تو لکھتا ہے کہ یہ پٹھان قوم بہت طاقت اور مضبوط ہوتا ہے اور کسی کے سامنے جھکتا نہیں تو اس بیٹی چوکو کیا پتہ کہ دو چار پٹھان تو ایسا ہوتا ہے پر باقی سب نواب اور خان کے سامنے جھکتا ہے۔ ویسا ہی ہوتا ہے جیسے بنگال کا بھوکا اور غریب ہوتا ہے۔۔۔۔ ان میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔۔۔ باہر بیٹھ کر کہانی بناتا ہے۔ کبھی میرے جیسا اصطبل والا لوگ کو نہیں ملا۔ ‘‘
ایک بیانیہ یہ بھی ہے کہ جنگیں ہتھیاروں سے نہیں بلکہ ناول میں طالبان کے مہابیانیے کا شکار سمجھ بوجھ رکھنے والے اور اندھی تقلید کرنے والے، دونوں نظر آتے ہیں۔ سمجھ بوجھ رکھنے والوں میں عبدالوہاب، میر ہاشم اور جانی واکر ہیں۔ یہ وہ کردار ہیں جو زندگی کے کسی ایک مہابیانیے سے چھٹکار ا پانے کے لیے، یا سابقہ زندگی کے کفارے کے لیے طالبانائزیشن کے انسان سوز مہابیانیے میں آن پناہ لیتے ہیں۔ مرتضیٰ پاکستانی جہاد افغان چلانے والے ایک جرنیل ارتضیٰ کا بیٹا ہے جو جہاد کے نام پر کھڑی ہونے والی انڈسٹریل ایمپائر اور سیف ہاؤس ایسے عیاشیوں کے اڈوں سے مستفید ہوچکا ہے۔ زندگی کی لایعنیت کی خلش اسے یہاں تک لاتی ہے اور وہ اپنی زندگی کو جواز دینا چاہتا ہے۔ سابقہ زندگی کے کفارے کے لیے یہاں تک پہنچا ہے، مگر علم نہ تھا کہ اسے اس قدر بھاری خراج دینا ہوگا۔ میرہاشم اور جانی واکر بھی تمام سہولیات کو تج کر زندگی داؤ پر لگا کر سابقہ زندگی کا کفارہ ادا کررہے ہیں۔ مگر یہاں پہنچ کر ان کی آنکھیں کھلتی ہیں کہ یہ کیسا تصور کامل ہے جو اپنے ہم شبیہ اور ہم مذہب اور ہم عقیدہ لوگوں کے قتل کو جہاد کا نام دیتا ہے۔ خود قتل ہوں تو شہید اور جنت کا مژدہ سنایا جاتا ہے اور مخالف قتل ہو کر جہنم واصل ہوتا ہے۔ جانی کا باپ طالبان کے انسانیت سوز مہابیانیے کی ردتشکیل کرتا ہے۔ طالبان وہ وحشی ملاں ہیں جنہوں نے انسانیت کو پتھر کے دور میں دھکیل دیا ہے جہاں رباب بجانا جرم ٹھہرتا ہے، کھلاڑیوں کے سرمونڈھے دیے جاتے ہیں، کہ ان کی نکروں سے نظر آتی ٹانگوں سے ملاؤں کے ایمان خراب ہوتے ہیں۔ عورت کا حال سب سے برا ہے، انہیں برقعوں میں دفن کردیا گیا ہے۔ ہسپتالوں میں لیڈی ڈاکٹروں سے علاج کرانا خلافِ شرع قرار دے کر ان کی چھٹی کرادی گئی ہے۔ اب وہ بھوکوں مرتی اور برقعے اوڑھے کابل کی گلیوں میں بھیک مانگتی پھرتی ہیں۔ عورت کے ٹخنے نظر آجائیں تو اسے سربازار پیٹا جاتا ہے، گالیاں دی جاتی ہیں۔ مردوں کی ڈاڑھیاں پکڑ کر ہاتھوں میں بھینچی جاتی ہیں۔ بال مٹھی سے باہر نہ نکلیں تو انہیں بید سے مارا جاتا ہے۔ فوٹو گرافی کی ممانعت ہے، ٹیلی ویژن توڑ دیے گئے ہیں۔ صنعت تجارت اور تعلیم سب ختم کردی گئی ہے۔ صرف اللہ کا نام باقی ہے۔ افغانستان پہنچ کے عبدالوہاب، میر ہاشم اور جانی واکر ایسے متلاشیوں کا کا تصور کامل برابر پاش پاش ہوچکا ہے۔
جذبوں سے بڑی اور جیتی جاتی ہیں۔ مومن بے تیغ سپاہی ہو تو وہ نہیں بلکہ اس کا حوصلہ اور جذبہ لڑتا ہے۔ ہتھیاروں پر تو صرف کافروں کا یقین ہوتا ہے۔ اس کا سبب اس کا خدا پر کمزور ایقان ہے۔ اس بیانیہ کو تقویت دیتا محمد اقبال کا مشہور زمانہ شعر بھی ہے۔ جسے ایسے مقاصد کے حصول اور ہوش پرجوش کے غلبے کے حصول کے لیے برتا جاتا رہا ہے:۔
کافر ہے تو شمشیر پ کرتا ہے بھروسا
مومن ہے تو بے تیغ لڑتا ہے سپاہی
اردو ناول نگاری میں ایک خاص رجحان عام ہے کہ کہانی کی بنیاد کسی خاص مہابیانیے کو بنایا جاتا ہے، پھر تمام ناول کا پلاٹ اس مہابیانیے کے دفاع، توضیحی و تشریح اور حمایت پر قائم کیا جاتا ہے۔ جہاں فن کا مہابیانیوں کو تقویت پہنچانے میں اہم کردار نظر آتا ہے وہیں مابعد جدیدٹ ایسے مہابیانیوں کو سرعام چیلنج بھی کرتی ہے۔ ’’قلعہ جنگی‘‘ ناول ایک ایسے واقعہ پر بنیاد رکھتا ہے جو ایک خون آشام واقعہ ہے۔ اس واقعہ کا تعلق ۲۵ نومبر سے یکم دسمبر ۲۰۰۱ء کے سات دنوں سے ہے۔ قندوز میں شمالی اتحاد کے جنرل رشید دوستم کے سامنے حریف طالبان ہتھیار ڈال دیتے ہیں اور انہیں قلعہ جنگی میں لے جایا جاتا ہے، جہاں وہ بغاوت کردیتے ہیں ۔ اس بغاوت کو کچلنے کے لیے امریکی طیارے آسمان سے ڈیزی کٹر بمب گرا کر اس قلعہ کو لاشوں کے صحرا میں بدل دیتے ہیں۔ اس ساری صورت حال میں سات خوش قسمت، جنہیں خوش قسمت سے زیادہ بدقسمت کہیں تو بے جانہ ہوگا، تہہ خانے میں پناہ لیتے ہیں۔ تارڑ نے اپنے ناول کی بنیاد ہی ایسے بیانیے پر رکھی ہے جو پہلے ہی رد کیا جاچکا ہے۔ اس ناول کے ساتوں کردار شکست خوردہ ہیں، جن میں بھڑکتے مہابیانیوں کی آنچ ٹھنڈی ہوچکی ہے۔ وہ قلعہ جنگی کے تہہ خانے میں ان عظیم مہابیانیوں کے بخیے چاک کرتے ملتے ہیں۔ تارڑ کا ناول ’’قلعہ جنگی‘‘ نوتاریخیت اور بیانیوں کی بے رحمانہ ردتشکیل کے سبب اردو کے اہم مابعد جدید ناولوں کی صنف میں جا شامل ہوتا ہے۔
Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
۶ | |||
۸ | |||
۱۸ | |||
۲۶ | |||
۲۸ | |||
۳۷ | |||
۴۱ | |||
۴۶ | |||
۵۱ | |||
۵۴ | |||
۶۲ | |||
۶۵ | |||
۷۱ | |||
۷۳ | |||
۷۶ | |||
۷۹ | |||
Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |