Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نقش فریادی جولائی تا ستمبر 2022 > کہانی آوارہ ہوتی ہے: تنقیدی جائزہ

نقش فریادی جولائی تا ستمبر 2022 |
پنجاب لٹریری فورم
نقش فریادی جولائی تا ستمبر 2022

کہانی آوارہ ہوتی ہے: تنقیدی جائزہ
Authors

ARI Id

1695778069724_56118350

Access

Open/Free Access

Pages

۷۳

سلیم اختر ڈھیرہ صاحب کی تصنیف : کہانی آوارہ ہوتی ہے : کا تنقیدی جائزہ

محفوظ احمد ثاقب

دل چسپ تصنیف : کہانی  آوارہ ہوتی ہے   : اطالوی لوک داستانوں  کے اردو تراجم پر مبنی  ہے۔ یہ تصنیف نوجوان شاعر، ادیب و مصنف  پروفیسر سلیم اختر ڈھیرہ کی شب و روز کی عرق ریزی کا جوہر ہے۔ نامور مصنف پروفیسر سلیم اختر ڈھیرہ  شعبہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ جنابِ سلیم اختر ڈھیرہ کا تعلق چنیوٹ کی زرخیز و شاداب  زمین سے ہے۔ زیرِ تبصرہ تصنیف مصنف کی دوسری  کاوش ہے اس سے قبل مصنف  کی انگریزی شاعری پر مبنی کتاب : PALE LEAVES  : بھی  اپنی مقبولیت  کا لوہا منوا چکی ہے۔ یہ کتاب حکومتِ پاکستان سے نیشنل ایوارڈ برائے انگریزی ادب سالِ 2017ء  بھی حاصل کرچکی ہے۔ نامور مصنف  جناب پروفیسر سلیم اختر ڈھیرہ صاحب  انگریزی علمی و ادبی  کاوشوں کے اعتراف میں حکومتِ چین کی طرف سے سرکاری اعزازو احترام کے ساتھ چین کا دورہ بھی کرچکے ہیں۔ زیرِ تبصرہ کتاب : کہانی آوارہ ہوتی ہے :  کو فیصل آباد کے علم و ادب سے شغف رکھنے والے سپوت جنا ب عابد مثال نے شائع کیا ہے۔ گہرے نیلے رنگ کی خوبصورت و دیدہ زیب سرِ ورق سے مزین     مجلد کتاب  کل 180 صفحات پر مشتمل ہے۔  کتاب کا فلیپ  نامور ادیب  ڈاکٹر انوار احمد اور جناب ڈاکٹر ناصر عباس نیر صاحب نے لکھا ہے۔ ان دو عظیم ادبی شخصیات  نے بڑا عالمانہ اور فاضلانہ تبصرہ فرما یا ہے جو  مذکورہ تصنیف  کے مقبولِ عام ہونے کے لیے سند ہے۔ اپنی اس کتاب کا انتساب پروفیسر سلیم اختر ڈھیرہ نے اپنی والدہ ماجدہ کے نام کیا ہے۔

  کتاب کا عنوان : کہانی آوارہ ہوتی ہے:   صنف اور موضوع کے حوالے سے کلی طور پر دال ہے۔ چونکہ تصنیف : اطالوی لوک داستانوں کے اردو تراجم پر مبنی ہے۔ لوک داستان یا لوک کہانی قدیمی ادب کی دل چسپ صنف ہے۔ اس صنف  کو بامِ عروج تک پہنچانے میں فورٹ ولیم کالج کے مصنفین کا ہاتھ ہے۔ داستان ایسی صنفِ نثر ہے جو ایک نسل سے دوسری نسل تک  اپنے مخصوص جغرافیائی خدو خال، بودوباش، تہذیب و تمدن،رسوم و رواج اور مذہبی افکارو خیالات  میں ترمیم و اضافہ کے ساتھ منتقل ہوتی رہتی ہے۔ ماضی کا انسان فارغ البال اور بے فکریِ مدام کے عالم میں  شب وروز بسر کرتا تھا۔ اس کے پاس وقت گزاری کا  کوئی خاص  مصرف نہ تھا چنانچہ لوک داستان نے حضرتِ انساں کو یہ سامانِ فراواں بہم پہنچایا۔ لوک داستان یا لوک کہانی کے  اولین مصنفین کا ہمیں علم نہیں ہوتا۔ ہم یہ بات   وثوق سے ہرگز نہیں کہہ سکتے کہ فلاں داستان کا فلاں مصنف  اولیٰ تھا۔ یہ ایک نسل سے دوسری نسل تک بڑے اہتمام کے ساتھ آوارگی کا سفر طے کرتی ہے۔ مصنف یہ اپنی تصنیف  کے زریں عنوان میں لفظ : آوارہ: شامل  کرکےلوک داستان  کی صنف اس کی ہئیت، اسلوب سے کماحقہ پردہ  چاک  کرنے کی کوشش کی ہے۔ گویا آوارگی علامت ہے  تہذیب و تمدن کی، رسوم و رواج کی، افکارو خیالات کی، عقائد و نظریات  کی ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقلی کی۔  مصنف  نے زیرِ تبصرہ تصنیف کا دیباچہ  مرزا نوشہ کے شہرہ آفاق مصرع : ابنِ مریم ہوا کرے کوئی : کے عنوان سے  شاملِ تصنیف کیا ہے۔ مصنف نے  دیباچے میں  حضرتِ انسان کی تخلیق سے لیکر  اس کے افکار و خیالات  اور جذبات کے اظہار کےلیے کہانی کے چناؤ اور تشکیل کا تانا بانا بڑی دل چسپی سے جوڑا ہے۔ کہانی کا انسان سے کیا رشتہ تھا اور اب یہ رشتہ مشینی دور کی زد میں کس طرح  کمزور ہوا ؟  ان سوالات کا جواب قاری پہ چھوڑتے ہوئے اس کے  مردہ ضمیر کو جنجھوڑ کر غالب کے مصرع پہ  کلمات َ یاس و حراس کے ساتھ ختم کیا ہے۔ زیرِ نظر کتاب میں کل  30 دل چسپ کہانیاں  ہیں۔ تمام کہانیاں اطالوی لوک ادب   کا اردو تراجم ہیں ۔  زیرِ نظر کتاب کی  پہلی کہانی : لاوارث بچہ :  ہی  اس قدر دل چسپ ہے کہ قاری جوں جوں  اس کا مطالعہ کرتا ہے اس کا تجسس اور ذوق بڑھتا جاتا ہے۔ کہانی اپنے اندر حیرت کا سمندر لیے ہوئے۔ کہانی کا مرکزی کردار ایک لاوارث بچہ ہے جو ایک خدا ترس کسان کو کھیتوں سے نومولود حالت میں ملتا ہے۔ بچہ جوان ہوکر نیک و پارسا بنتا ہے۔ جو حضرتِ عیسیٰ ؑ کی طرح گرجا میں اپنی جان  قربان کرتا ہے۔ نامور مصنف مذکورہ کہانی میں  یہ تاثر دینے میں کماحقہ کامیاب رہے ہیں کہ جولوگ نیک و پارسا ہوتے ہیں ان کی روح   بڑی آسانی سے جسدِ خاکی  سے عالم ِ ارواح کی طرف سفر کرتی ہے۔ مذکورہ کہانی  عیسائیت کے افکار وخیالات کی عکاس ہے۔ زیرِ نظر کتاب کی ابتداء اس قدر دل چسپ  ہے کہ قاری ایک ہی نشت میں اس کا  مکمل مطالعہ کرنے کا شوق اپنے سر پہ سوار کرلیتا ہے۔

گو یا تصنیف مصنف  کی طبع زاد نہیں ہے مگر مصنف نے اس قدر عرق ریزی اور جاں فشانی کے ساتھ اس کا ترجمہ کیا ہے کہ ترجمہ نہیں بلکہ مصنف کی ذاتی تصنیف  لگتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر سرِ ورق پہ اطالوی لوک کہانیوں کا ترجمہ والے الفاظ حذف کردیے جائیں تو ترجمہ نگاری کی جگہ مصنف کی ذاتی کاوش  لگنے لگے۔ مصنف نے کہانی کے اسلوب  پر حتی الوسع پورا اترنے کی کوشش کی ہے۔ ہر کہانی کا آغاز ایک دفعہ کا ذکر ہے ، کئی سوسال پہلے کا ذکر ہے، کہتے ہیں کہ جیسے  الفاظ سے شروع ہورہا ہے۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ نہ صرف مصنف ترجمہ نگاری کے فن سے آشنا ہے  بلکہ لوک کہانیوں کے اسلوب، تکنیک اور ہئیت سے بھی کلی طور پر آشنا ہے۔  مصنف نے ترجمہ کرتے وقت سادہ و سلیس زبان استعمال کی ہے۔ مشکل اور ثقیل زبان سے  تابہ مقدور گریز کیا ہے۔ جملے برجستہ، برمحل اور مختصر ہیں۔  مصنف نے کہانیوں  کی بنت کے لیے جو عنوان تجویز کیے ہیں ۔ کہانیاں ان عنوانات پر پوری  اترتی ہیں۔ مصنف نے زیر مطالعہ کتاب میں صرف انھی کہانیوں کو جگہ دی ہے  جو رسوم ورواج ، تہذیب و تمدن، اخلاق و عادات، معاشرتی فکارو خیالات اور مذہبی عقائد کی اشاعت  ترویج میں معاون ہوسکیں۔ یوں مصنف نے ایک زبردست مصلح کا بھی کردار نبھایا ہے۔

  مصنف کی شخصیت چوں کہ ہمہ جہت ہے۔  آپ بیک وقت ترجمہ نگار، ادیب، مصنف اور شاعر ہیں۔ اس لیے نثر کو رنگین و رعنا بنانے کے لیے جگہ جگہ مکالماتی انداز میں  شعری کاوشیں بھی بروئے کار لائی گئیں ہیں۔ گویا کہانی بیک وقت نظم و نثر کا خوبصورت مرقع معلوم ہوتی ہے۔  کہانی گڈریا میں مارچ کے مہینہ پہ خوبصورت شعری کاوش ملاحظی کیجیے :

؎ اے مارچ  بنے پھرتے ہو نڈر  معصوم بھیڑیوں کے لیے باعثِ ڈر

مارچ، مارچ، ہا             ہا    ہا  ! مجھے نہیں اب خوف اک ذرا

مذکورہ شعر میں مصنف نے چھوٹی  بحر میں خوبصورت شعر کہے ہیں۔

لوک کہانیوں میں اساطیری عناصر شروع سے ہی غالب رہے ہیں۔ مصنف نے اساطیری  عناصر مثلاً جن، بھوت، دیوتا، دیو کا بھی ذکر کیاہے۔ مصنف نے اساطیر پر مشتمل کہانیاں : دیو اور دیوانہ، شیطان، جادوئی پرندہ، پروں والا دیو  : کمال مہارت سے لکھی ہیں۔ گو مصنف کی کتاب میں شامل تمام کہانیاں ہی دل چسپ ہیں  مگر جنت کی سیر، تین یتیم، خوش باش آدمی،  شرط، جادوئی پرندہ :  موضوع، تخیل اور اسلوب کے حوالے سے شاہکار کہانیاں ہیں۔ مذکورہ کہانیاں اپنے اندر یہ خوبی سموئے ہوئے ہیں کہ  چشمِ زدن کے لیے بھی اپنی نظریں کتاب کے صفحے سے آگے پیچھے نہیں کرتا۔ کہانی دل چسپ،  رنگین و رعنا  اور جاذبِ نظر ہے۔ مذکورہ کہانیاں قاری کی انگلی پکڑ کر اسے  اپنے ساتھ ساتھ وادیِ گلفام  اور کون و مکاں کی سیر کراتی ہیں۔ جگہ جگہ جملوں میں اس قدر نشتریت ہے کہ  جملے نگاہوں کے راستے دماغ میں اور دماغ سے سیدھا  دل میں اتر جاتے ہیں۔ جملوں میں اس قدر برجستگی اور جذباتیت ہے کہ قاری اس کے بہاؤمیں بہہ جاتا ہے۔ مصنف نے  آج کے بھولے بسرے انسان کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ کہانی سے جس قدر منھ موڑوگے اپنی اقدارو ایات ، رسوم و رواج اور تہذیب و تمد ن سے دور ہوتے جاؤ گے ۔  الغرض مصنف کی یہ کاوش اردو ادب کے افق پر ایک  تابناک  اضافہ ہے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...