Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نقش فریادی جولائی تا ستمبر 2022 > سیمیں کرن کے افسانوں میں سماجی و تہذیبی عکس

نقش فریادی جولائی تا ستمبر 2022 |
پنجاب لٹریری فورم
نقش فریادی جولائی تا ستمبر 2022

سیمیں کرن کے افسانوں میں سماجی و تہذیبی عکس
Authors

ARI Id

1695778069724_56118351

Access

Open/Free Access

Pages

۷۶

سیمیں کے افسانوں میں سماجی و تہذیبی عکس

انعم زاہد

بڑے ادیب کی پہچان اس کی تخلیقی انفرادیت ہوتی ہے اور یہ ہی انفرادیت اسے دوسرے ادیبوں سے تشخص عطاء کرتی ہے اس کے فن کی خوبیاں اس کے بعد آ تی ہیں بلاشبہ سیمیں کرن موجودہ دور کے ادیبوں میں ایک جانا پہچانا نام ہیں آ پ اردو ادب میں فکشن نگاری ،تبصرہ نگاری ،اور کالمز لکھنے میں پیش پیش ہیں ۔۔۔۔۔

      خالدہ حسین نے کہا تھا کہانی لکھنے کا عمل میرے لیے اپنے وجود سے رشتہ قائم رکھنے کی ایک کوشش کا نام ہے تو جب میں اپنا وجود خطرے میں محسوس کرتی ہوں تو خود کو لکھنے پر مجبور پاتی ہوں ۔۔۔۔۔! بلکل یہ ہی رشتہ سیمیں کا کہانیوں کے ساتھ ہے ان کے نزدیک ادب زندگی کے حبس اور گھٹن میں ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہے ادب ایک ایسی کھڑکی ہے جو اندر باہر کھلتی ہے وہ کہتی ہیں کہ میں کہانی کب لکھتی ہوں وہ مجھے خود گلے آ ملتی ہے کسی سہیلی کی طرح ۔۔۔۔۔۔کسی کردار کی صورت ۔۔۔۔اور میرے کان میں سرگوشی کرتی ہے کہ مجھے پڑھو مجھے لکھو۔۔۔۔۔۔! اب تک مصنفہ کے 3 افسانوی مجموعے،  2 ناول اورمختلف سماجی و سیاسی موضوعات پر کالمز تبصرے چھپ چکے ہیں آ پ نے ہر صنف ادب میں طبع آزمائی کی ہے اور کامیاب ہوئی ہیں۔

  ادیب ،ادب ،اور سماج کا آپس میں گہرا تعلق ہوتا ہےایک ادیب بہت حساس طبیعت کا مالک ہوتا ہے معاشرے کے اندر بگاڑ پیدا کرنے والے عوامل اسے ہمیشہ بے چین رکھتے ہیں اور لکھنے پر آ مادہ کرتے ہیں سیمیں کرن بار بار سنی سنائی کہانیاں پیش نہیں کر تی ہیں ان کے ہاں نمایاں ترین موضوعات میں تانیثیت ،سیاست اور دیگر موضوعات میں رومانیت ،نفسیات ،سماجی حالات کا عکس، قدیم وجدید تہذیب یا یوں کہہ سکتے ہیں مٹتی ہوئی اقدار کی کہانیاں ،فلسفے اور تصوف کے حوالے سے کہانیاں ملتی ہیں ایک ادیب ہی ہوتا ہے جو معاشرے کی اخلاقی ،اعلی انسانی اقدار کو آ گے بڑھا سکتا ہےاور  اپنی روایات کو ساتھ لے کر چلتا ہے " کسی قوم ،خطےکے لوگوں کے رہن سہن ،رسم ورواج ،اقدار کے مجموعے کو ہم تہذیب کہتے ہیں اس قوم کا عقیدہ ،الات واوزار ،پیداوار کے طریقے ،اس قوم کا فکر و ادب ،اپس میں سماجی تعلقات کس طرح کہ ہیں یہ سارہ کچھ تہذیب میں شامل ہوتا ہے۔۔۔ دیکھا جائے تو سیمیں کرن نے اپنی تحریروں میں قدیم وجدید تہذیب کو ایک لڑی میں پرو دیا ہے خواہ اسلامی تہذیب ہو یا پھر سیاسی رویوں کا تذکرہ ۔۔۔۔۔۔۔ان کے ہاں تہذیب کے حوالے سے بے شمار ایسے پہلو ملتے ہیں۔

مثال کے طور پر افسانہ "شناختی کارڈ" میں انہوں نے ہمارے سیاسی کلچر کو پیش کیا ہے اس افسانے میں وہ ایک سیاسی جلسے کا احوال بیان کرتے ہوئے ہمارے سیاست دانوں کے مکرو فریب ،مفاد پرستی اور دوغلے پن کو بے نقاب کر دیتی ہیں انہوں نے قیام پاکستان سے لے کر اب تک کی تمام حکومتوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے وہ لکھتی ہیں کہ

         "کیا آپ میں سے کسی نے الطاف خان اور اس کی پلوشہ کو دیکھا ہے ؟؟؟سٹرسٹھ سال ہو گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انقلاب کی سیڑھیاں اترتے چڑھتے ۔۔۔۔۔۔۔خداراہ اس دائرے کے سفر سے اسے نجات دیجئے ۔"

افسانہ " پیڑ بھاشا " اقدار کے دھندلا جانے کی کہانی ہے ۔کہانی کا اصل موضوع وہ اقدار ہیں جو ہم سے جانے کب اور کہاں چھوٹ گئیں اور ہمیں اس بات کا احساس تک نہیں ہوا کہ آ ج درخت گھروں سے اکھاڑ دیے گئے ہیں آ نگن سونے ہو گئے ہیں آ ج نانی دادی کی گھر میں موجودگی کے باوجود بچے اپنی کہانیاں موبائل ،نٹ آ ئی پیڈ پر سننے سنانے لگے ہیں اور آ ج دادی وہ پیڑ بن گئی ہے جسکی چھاؤں میں دھوپ کا گمان ہو اور مسافر بیٹھنے کے لیے اور ٹھکانے ڈھونڈنے لگیں ۔۔۔!

"چاچا نا شکرا" افسانے کے اندر دیہاتی زندگی کا عکس نمایاں ہے ہوٹلوں پر چائے پینے کے لئے اکٹھے ہونا ،بیٹھکوں میں مل بیٹھ کر سیاسی ، سماجی اور خاندانی مسائل پر بحثیں آ ج بھی ہمارے دیہاتی کلچر کا حصہ ہیں" گھروں کی دیواروں کی سانجھ ،دلوں کی سانجھ ،دکھ سکھ کی سانجھ یہ سب ہماری دیہاتی تہذیب کی بنیادیں ہیں "افسانے سے اقتباس ملاحظہ کریں:

"بابو ہوٹل کی چارپائیاں اور منشی صاحب کی بیٹھک چاچے اور اس کے ساتھیوں کے دو مرغوب ترین اڈے تھے جہاں گرما گرم محفلیں جمتیں ،کبھی سیاست پر بات ہوتی ،کبھی خاندانی مسائل اور کبھی معاشرتی رویے زیر بحث آ جاتے اور آ خر میں آ خری جملہ چاچے ناشکرے کا ہوتا او چھڈو جی ۔۔۔۔۔۔۔بندے دی کی گل کرنی اے او تے ہے ای تھوڑ دلا تے ناشکرا۔۔۔۔۔۔۔"

   " بھید " افسانے کا موضوع موجودہ درو میں ہونے والی دہشت گردی سے پیدا ہونے والی عدم تحفظ کی صورتحال ہے اس کہانی میں مصنفہ نو حہ کناں ہے کہ قدریں کیسے بدل جاتی ہیں مصنفہ کا انداز استفسارانہ ہے کہ آ خر ان اقدار کے انہدام اور بے قدری میں قصور کس کا ہے ؟ ابھی کل کی بات ہے لوگ ایک دوسرے کا احساس کرتے تھے لحاظ رکھتے تھے مگر آ ج یہ کیسا احساس ہے کیسی اقدار ہیں کہ محض اپنے مفاد کے لیے بے گناہ لوگوں کو بے دردی سے دھماکوں میں اڑا دیا جاتا ہے اور پھر ڈھٹائی سے ذمہ داری بھی قبول کر لی جاتی ہے یہ کیسی انسانیت ہے ؟ یہ کیسی اقدار ہیں ؟؟؟

     " گلی کے اس پار " افسانہ آ ج ہمارا معاشرہ جس نہج پر کھڑا ہے اس کی حقیقی تصویر پیش کرتا ہے ۔سیمیں کرن نے ہر سماجی پہلو ،رشتوں اور تہذیبوں کا گہرائی سے مطالعہ کر رکھا ہے ان کے پاس ہر مسئلے ،بات کے ہر پہلو کو قاری تک  بڑے معیاری انداز میں پہنچانے کا ہنر موجود ہے یہ 11 سالہ فاطمہ کی کہانی ہے جو اپنے سگے رشتوں ماموں اور چچا کے ہاتھوں حراساں ہوتی ہے اور پھر جب گھر سے باہر نکلتی ہے تو معاشرے کی گندی ہوس بھری نظریں اس معصوم پری کا تعاقب کرتی ہیں۔

" اسے کون بتاتا کہ یہ گدھ انسان کا  روپ اوڑھے رکھتے ہیں ،رشتوں ناطوں کا ماسک بھی پہن لیتے ہیں اور جو ں  ہی کسی کمزور کو ۔۔۔۔۔۔۔۔کسی کم سن کو تنہا دیکھتے ہیں یہ اپنے اصلی روپ میں نو چنے کو فوراً آ موجود ہوتے ہیں! "

افسوس کے ساتھ ہم اخبارات اور ٹی وی چینلز پر روزانہ ایسی خبریں سنتے دیکھتے ہیں۔۔۔ دنیا جس قدر ایڈوانس ہو گئ ہے انسانی سوچ اسی قدر پست اور رویے گر گئے ہیں مصنفہ کی یہ تحریر ہمارے معاشرے سے ایک سوال ہے اور اس سے بھی بڑھ کر معاشرے کے منہ پر طمانچے کی ایک صورت ہے ۔

  " بصارت کی سماعت"  افسانےکا موضوع آ ج ملک کے اندر لا قانونیت ہے  یہ افسانہ تمثیل کے انداز میں بڑی خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے خیال کی ندرت کے ساتھ ساتھ مصنفہ کے فن کی تمام خوبیاں اس افسانے میں یکجا ہو گئی ہیں۔ کہانی کا اسلوب ،اندازہ بیان سب کچھ قابل تحسین ہے افسانےکا اسلوب سادہ طنز و مزاح اور تکلف سے بھر پور ہے سیمیں کرن نے اس موضوع کو تلخی پیدا کیے بغیر بڑی کامیابی سے پیش کیا ہے اس افسانے سے اسلوب کے حوالے سے ایک مختصر مثال ۔۔۔۔۔کہ       "  اب باری منتظمہ رانی کی تھی ۔۔۔۔۔مگر آ ج رانی جی جیسے اپنے جاہ و جلال کو کہیں رکھ کر بھول آئ تھیں! دربار میں تخت و تاج ،دستار وپوشاک کی ممانعت تھی شاید تو آ ج رانی جی بڑی عام اور عوامی دکھائی پڑ رہی تھیں کہاں جاہ و چشم کا یہ عالم کے اپنے گرد اپنے آ ئنے میں سوائے خود کے کچھ دکھائ ہی  نہیں پڑتا تھا اور جو  دکھتا تھا وہ حقیر مکوڑوں سے بھی کم تھا! مقدمہ والزام رانی جی پر بھی بصارت کا ہی تھا.۔

           غرض کہ سیمیں کرن کے ہاں ہر سماجی اور ثقافتی پہلو کا عکس نمایاں نظر آتا ہے خواہ عقیدے کی بات ہو ،اج کے دور میں ہونے والی مذہبی فرقہ واریت کا ذکر ہو یا پھر پتھر شہر کی سوئی ہوئی کہانی جیسے موضوعات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔انکی تحریروں میں ہمیں گزرے ماضی ،بیتے ہوئے دنوں کی یادوں کا ذکر جا بجا ملتا ہے۔ دیہات کے لوگوں کی سادگی ،خلوص ،انکی اپنایت،مہمانوں کی آ مد پر جشن کا سا سماں ،خاںدانی تکلفات ،رکھ رکھاو ،درختوں سے انسان دوستی کے قصے ،گھر میں بزرگوں کی اہمیت و حیثیت اور ساتھ ساتھ آ ج کے دور میں لالچ ،حسد ،جلن دوسروں کو پیچھے چھوڑ جانے کی خواہش ،اسلامی تہذیب کا عکس، موجودہ عالمی اور ملکی صورتحال جیسے ( مردہ آ نکھوں کا شہر ،شناختی کارڈ )جیسے افسانے ۔۔۔۔۔غرض کہ مصنفہ نے ہر موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔۔۔۔۔۔۔!  کیونکہ ایک لکھاری ہی اپنی تہذیبوں اور روایتوں کا محافظ ہوتا ہے اور سیمیں کرن اس ذمہ داری کو بڑی خوبی سے اور مسلسل نبھا رہی ہیں۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...