Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نقش فریادی جولائی تا ستمبر 2022 > اقبال بحیثیت مفکر تعلیم

نقش فریادی جولائی تا ستمبر 2022 |
پنجاب لٹریری فورم
نقش فریادی جولائی تا ستمبر 2022

اقبال بحیثیت مفکر تعلیم
Authors

ARI Id

1695778069724_56118353

Access

Open/Free Access

Pages

۷۹

اقبال بحثیت مفکر تعلیم

فریدالدین مسعود برہانی(ایڈووکیٹ)

حقیقت یہ ہے کہ حضرت علامہ کی شخصیت کئی حیثیتوں کا مجموعہ تھی۔ وہ بیک وقت شاعر بھی تھے، مفکربھی، معلم بھی اور فلسفی بھی۔اپنے دورِ طالبعلمی کے بہترین طالبعلم اور بطور استاد، بہترین استاد۔ ان کی شاعری میں استادانہ بصیرت کی جھلکیاں جابجا نظر آتی ہیں۔ یہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ قومی تعمیر کی خشتِ اول تعلیم ہی ہے۔ اگر یہ ٹیڑھی ہو تو قوم کے حالات درست اور مستقبل کا راست ہونا ناممکن ہو گا۔ آج قوم کی نشاۃِ ثانیہ کے موجودہ مرحلے پر اقبال کی یہ استادانہ بصیرت اس خشتِ اول کو سیدھا رکھنے والے معمار کا کام انجام دے گی۔ اقبال کے نزدیک وہی طالبعلم کامیاب ہے جو النفس وآفاق کا علم حاصل کرے۔ اس دنیا میں قابلِ فکر دو ہی چیزیں ہیں ایک تو ذہنِ انسانی ہے یعنی نفس اور دوسرے ذہن انسانی سے باہر جو کچھ ہے یعنی آفاق۔ کامیابی کی کنجی ان ہی دو کا علم ہے۔ علم النفس و علم الآفاق یہی دو بنیادی علوم ہیں۔ علم الآفاق کو آثارِ کائنات یا جدید اسطلاح میں سائنس قرار دے لیجیئے۔ دنیا کے تمام علوم انہی دو کے خسانے ہیں۔

اقبال سیکولر تعلیم کے مخالف

1933ء  میں افغانستان اعلیٰ حضرت نادر شاہ نے ڈاکٹراقبال، سلیمان ندوی اور سر راس مسعود کو افغانستان کے نظامِ تعلیم اور افغانستان یونیورسٹی  کے قیام کے سلسلہ میں مشورہ دینے کیلئے دورہ افغانستان کی دعوت دی اس دوراہ پر روانہ ہونے سے قبل 19 اکتوبر 1933 ء کو علامہ اقبال نے اخبار میں ایک بیان دیا جس میں انہوں نے کہا"شخصی طور پر میں یقین رکھتا ہوں ک تعلیم کو مکمل طور پر لا دینی (Secular) بنا دینے سے کہیں بھی اور خصوصاً مسلم ممالک میں اچھے نتائج برآمد نہیں ہوتے۔ بحثیت مجموعی یورپ نے اپنے باشندوں کی تعلیم و تربیت میں مذہب کا عنصر حذف کر دیاہے اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس بے لگام انسانیت کا کیا حشر ہو گا۔ شاید ایک نئی جنگ کی صورت میں وہ اپنی ہلاکت کا باعث خود ہی ہو" ہمارے سامنے یہ مسئلہ درپیش ہے کہ روحانی اور مادی امور کو کس طرح یکجا کیا جائے۔ علامہ اقبال نے مندرجہ بالا اقتباس میں سیکولر تعلیم کی مخالفت کی ہے۔ سیکولر تعلیم وہ طریقہ تربیت ہے جس سے معینہ مذہبی تعلیم خارج کر دی گئی ہو۔ اقبال کا مذہب ایک  " کلہے     "  جزو " نہیں۔ وہ روح و مادہ کی یکتائی اور دین و دنیا کی یگانگت کے حامی ہیں۔

سائنس کے بارے اقبال کہتے ہیں :

"اسلام کا دشمن سائنس نہیں بلکہ اسلام کی پوزیشن سائنس کے خلاف نہایت مضبوط ہے،وہ دن دور نہیں کہ مذہب اسلام اور سائنس میں ایسی ہم آہنگیوں کا انکشاف ہو جو سردست ہماری نگاہوں سے پوشیدہ ہیں "

سیکولر زم کا مطالبہ یہ ے کہ مذہبی مراسم کو چھوڑ کر باقی زندگی میرے حوالے کردو اسلام کا مطالبہ یہ ہے کہ چھوڑو کچھ بھی نہیں پوری کی پوری زندگی میرے سپرد کر دو سیکولر مسیحت کی ہاں میں ہاں ملا کر کہتا ہے کہ جو کچھ خدا کا ہے یعنی روحانی امور وہ خدا کو دے دو اور جو کچھ قیصر کا ہے یعنی دنیاوی معاملات وہ مجھ کو دے دو۔اسلام کہتا ہے کہ یہاں جو کچھ بھی ہے وہ ایک اللہ کا ہے قیصر کے لیے سرے سے کچھ نہیں۔ اس لیے تم اپنے تمام معاملات میرے حوالے کر دو یہی وہ نکتہ ہے جہاں سے اسلام اور سیکولر ازم میں آویزش شروع ہوتی ہے۔

سیکولر تعلیم کا مفہوم یہ ہے کہ علوم کو چاہے علوم طبعی ہو ں یا علوم عمرانی، اس انداز سے پڑھایا جائے کہ ان پر ہر کسی مذہب کی پرچھائی بھی نہ پڑنے پائے۔ مسئلہ علم طبعیات میں اگر مادہ کے متعلق تعلیم دینی ہو تو اس کی قسمیں، اس کے خوائص وغیرہ کا تفصیلی مطالعہ مشاہدہ اور تجزیہ و تحلیل کیا جائے لیکن اس کے متعلق یہ نہ بتلایا جائے کہ اسلام یا مذہب نے اس کے آغازو انتہا کے متعلق کیا خیال پیش کیا ہے۔ باالفاظ دیگر مظاہر کائنات میں سے ہر مظہر یا اس کے کسی جز کا مطالعہ معروضی انداز میں کیا جائے۔ یہ حال سیکولر انداز سے علوم عمرانی سیکھنے اور سکھانے کا ہے۔ یہاں بھی کسی مسئلہ سے اس امر سے قطعی تعرض نہ کا جائے کہ مذہب کیا کہتا ہے مثلاً علم معاشیات میں اس امر کا مطالعہ کیا جاتا ہے کہ انسان نے اپنی غیر محدود ضروریات و خواہشات کو پورا کرنے کیلئے کس طرح اپنے محدود وسائل سے کام کیا ہے اور اس کا اس تمام جدو جہد میں کس قسم کا طرزِ عمل رہا ہے اور اس نے کون کون سے ادارے بنائے ہیں اور ان سے کیا کیا کام لیا ہے۔ اس مطالعہ میں اس امر سے بالکل اغماض برتا جائے گاکہ انسان کی اس جدو جہد کو مذہب نے کس رخ اور کس نہج پہ ڈالنے کی کوشش کی اور کشمکش حیات کے اس شعبہ میں اس کی کیا راہنمائی کی۔ یہ مطالعہ بھی بالکل معروضی (Objective) ہو گا۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ عصرِ حاضر کے دوبدو چیلنجز کا سامنا کرنے کیلئے قوم کا اٹھنا ہو گا۔ اقبال شیر مردوں کے انتظار میں ہیں۔ مرغوں کی طرح ریت میں منہ چھپانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔

شیر مردوں سے ہوا بیشہء تحقیقی یہی

رہ گئے صوفی و ملا کے غلام اے ساقی

علومِ طبیعی کی سیکولر تعلیم اور اقبال

جہاں تک علوم طبیعی کی سیکولر تعلیم کا تعلق ہے اسلام ان علوم کی ہمت افزائی کرتا ہے۔ اسلام مشاہدہ فطرت پہ زور دیتا ہے اگر علوم طبیعی یعنی سائنس کی تعلیم ازاول تا آخر بالکل سیکولر انداز میں دی جائے اور مذہب کی کوئی بھنک تک طالبعلم کے کان میں نہ پڑنے پائے تو پھر اس سے ایک ایسے ذہن کے پیدا ہونے کا خطرہ ہے جو لازماً انسان کو الحاد کی طرف لے جائے گا، یا تو وہ رب اور مذہب کے وجود کا ہی انکار کر بیٹھے گا یا پھر اللہ و مذہب کو غیر اہم قرار دیکر ان سے فرار کی راہ اختیار کر گا۔

مولانا اکبر الٰہ آبادی موجودہ عقلی زندگی پر نظر ڈالنے کے بعد کہہ اٹھتے ہیں۔

شیخ و مرحوم کا یہ قول مجھے یہ یاد آتا ہے

دل بدل جائیں تعلیم بدل جانے سے

سائنس کی سیکولر تعلیم کے ان اثرات کا اقبال نے نظر ی طورپر ایک اندازہ ہی نہیں لگایا بلکہ عملی طور پر انہیں تجربہ بھی ہوا۔ مجھے رہ رہ کر یہ رنج دہ تجربہ ہوا ہے کہ مسلمان اپنی قوم کے عمرانی، اخلاقی و سیاسی تصورات سے نا بلد ہے۔ روحانی طور پر بمنزلہ ایک بے جان لاش ہے اور اگر موجودہ صورتِحال مزید 20سال قائم رہی تو جو اسلامی روح قدیم اسلامی تہذیب کے چند علمبرداروں کے فرسودہ قالب بھی اب تک زندہ ہے، ہماری جماعت کے جسم سے بالکل ہی نکل جائے گی۔

اقبال نے مشہور ماہر تعلیم خواجہ غلام الدین کے نام ایک خط میں لکھا جس میں  اقبال نے کہ میری نظر میں بنی نوع انسان کا خادم وہی شخص ہو گا جو شخص اس وقت قرآنی نکتہ نگاہ سے زمانہ حال کےJurisprudenceہر ایک تنقیدی نگاہ ڈال کر احکامِ قرآنیہ کی ابدیت کو ثابت کرے گا اور وہی اسلام کا مجدد ہو گا اور وہی بنی نوع انسان کا سب سے بڑا خادم ہو گا۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...