Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

نقش فریادی جولائی تا ستمبر 2022 |
پنجاب لٹریری فورم
نقش فریادی جولائی تا ستمبر 2022

اور حُسن ہار گیا
Authors

ARI Id

1695778069724_56118355

Access

Open/Free Access

Pages

۸۲

”اور حُسن بھی ہا ر گیا“

سیمیں کرن

کچھ روز سے میں اِک عجیب سے مخمصے سے دو چار ہوں۔ با ت کرتے کرتے کہیں کھو جا تی ہوں۔ میری حا ضر جوا بی و شگفتہ بیا نی جیسے مفقود ہو کررہ گئی ہے۔ اِک عجیب سی پز مر دگی سی چھائی ہو ئی ہے یوں کچھ کھو گیا ہو جو دھو نڈنے پر بھی مل کر نہ دے رہا ہو۔ اِک بے چینی نے میرے و جود کا احاطہ کر رکھا ہے۔ میں نا قا بلِ بیان اذ یت میں ہوں شکست و ریخت کے عمل سے دو چا ر ہوں۔ در اصل ہُوا یوں کہ ___مگر نہیں یوں آپ سمجھ نہیں پائیں گے پہلے میرا تعا رف ضروری ہے۔ میں ایک پینتیس چا لیس سا لہ نو جوا ن خا تون ہوں۔ پینتیس چا لیس سا لہ اورنو جوا ن۔ میرے اِس متضا د بیا ن پر یقینا ہنس رہے ہوں گے۔ آپ اپنی ہنسی میں حق بجا نب ہیں اور اپنے بیا ن میں مَیں بھی غلط نہیں۔ در اصل آپ نے مجھے دیکھا نہیں اگر دیکھ لیتے تو یقینا میرے بیا ن کی صحت پر ایما ن لے آتے۔ آپ اسے میری خو ش فہمی سمجھئے یا مجھے احساسِ بر تری سے ما ری ہو ئی حُسن کے زعم میں گُم کو ئی مغرور حسینہ مگر سچ یہی ہے کہ میں خود شنا س ہوں۔ میں جا نتی ہوں کہ میں اُن چند خوا تین میں سے ہُوں جن کے حُسن و جوا نی پر وقت جیسے آکر ٹھہر سا جا تا ہے اوراس صو رتِ حا ل سے میں اِ ک طویل مدت سے لطف اندوز ہو رہی ہوں۔ مجھے دیکھ کر لوگ پو چھتے ہیں:" Are you miss or mrs"اور جب میں بتا تی ہوں کہ میں دو بچوں کی ماں ہوں تو حیرت سے گنگ سے ہو جا تے ہیں۔تخلیقی مرا حل سے گزرنے کے با وجود میرا بدن لچکیلی شا خ کی مانندچھریرا ہے۔ جلد شگفتہ، چہرے پر کم سنی اور معصومیت! یہ تمام عنا صر میری شخصیت کو عجب دلکشی و رعنا ئی عطا کرتے ہیں۔ڈاکٹر کے پاس جا ؤں تو وہ بغیر پوچھے پر چی پر میری عمر پچیس سا ل لکھ دیتا ہے اور میری تصیح پر حیرت سے ہو نٹ سکو ڑتے ہو ئے بے سا ختہ کہہ اُٹھتا ہے۔ "oh you do not look like that"تو میرا دِل سر شاری سے بھر جا تا ہے کیو نکہ میں جا نتی ہوں کہ آپ سا ری دُنیا سے اپنی عمر چھپا ئیے مگر اپنے ڈا کٹر سے نہیں ورنہ چند سالوں میں ہی اپنی جوا نی کھو دیں گے کہ آپ کا ڈا کٹر ہی جا نتا ہے کہ آپ کے پچیس یا پچا س سا لہ دِل کو کیا درکار ہے۔ بہر حا ل یہ تو بر سیل تذکرہ یو نہی ذکر ٓاگیا بات تو ہو رہی تھی بلکہ بات تو میری ہی ہو رہی تھی کہ میں کس قدر سر سبز و شا دا ب اور سدا بہا ر جوا نی کی حا مل ہوں حتیٰ کہ میرے میاں بھی جو اب قدرے گنجے اور چھوٹی سی توند کے ما لک ہیں میرے سا تھ نکلنے سے گریز کر نے لگے ہیں کہ کئی دفعہ ہُوا کہ دکا ندار نے کہا:”صا حب جی! گڑیا کے لیے شا پنگ نہیں کریں گےاور میرے صا حب بھِنا کر احتجا جاً غصے سے گا ڑی میں جا بیٹھے اور مجھ پر خواہ مخواہ ہی غصہ اُتا رنے لگے۔

یہ تم کیا یو نہی چھمک چھلو سی بنی پھرتی ہو ذرا سو بر سا رویہ اختیار کرو آخر دو بچوں کی ماں ہو تمتو میں بے اختیار کھلکھلا کر ہنس پڑی اور معصومیت سے آنکھیں پٹپٹا تی ہو ئی بولی:”ارے اب میں نے کیا کیا ہے میں نے تھوڑی اسے کہا تھا کہ …………بھئی میں تو آپ سے مکمل طور پر وفا دار ہوں۔ اَ ب آپ جیسے بھی ہیںاور یہ واقعی سچ ہے کہ اس طرح کی صورتِ حا ل سے میں وقتی طور پر لطف اندوز ضرور ہو تی ہوں لیکن دلی، ذہنی اور جسما نی طور پرمیں مکمل طور سے اپنے شو ہر کی وفا دا ر ہوں۔ میرے اس بیان پر وہ مزید کھسیا گئے مگر میں نے بغیر پرواہ کئے اپنی بات جاری رکھی۔

آپ نے بھی تو خود سے بالکل لا پروا ہی بر ت رکھی ہے بندہ تھوڑی سی اور excerciseکرلے۔ تھوڑا اپنے اوپر دھیا ن دیا کریں نہ جب پہلو میں مجھ سی حسین بیو ی ہومیرے یوں اترا کر کہنے پر انہوں نے نظر بھر کر مجھے دیکھا اِ ن نگاہوں میں جذ بوں کی حدت فخر مان ستا ئش سب کچھ تھا اور سچ تو یہ ہے کہ کسی بھی حسین عورت کا حُسن دو آتشہ اپنے شوہر کی محبت پا کر ہی ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ ایک دِن کی توحد ہی ہو گئی چند خواتین میری سا س کے پاس میرا رشتہ لے کر آگئیں۔ عجیب مضحکہ خیز اور گھمبیر سی صورتحال ہو گئی تھی۔ میرے سا س نے بڑے کڑوے لہجے میں غصے اور سرد نگا ہوں سے مجھے اور اُن خوا تین کو گھورتے ہو ئے انہیں کہا:

وہ اس کا وا لی وا رث کھڑا ہے اُسی سے مانگ لو رشتہ اِس کاوہ حیرا نگی سے بولیں:”اس چھوٹے سے کھیلتے بچے سے۔ یہ اس کا وا لی وا رث ……کیا مطلبمیری ساس پھر اسی طرح بو لیں:”ہاں نہ بیٹا ہے اِس کا اس وقت یہی گھر ہے اور میرا بیٹا اِ س کا خا وند کا م پر گیا ہے۔وہ خوا تین ایسے بھا گیں کہ پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا۔ میرا قہقہہ بے سا ختہ تھا اور دور تک اُن کے پیچھے گیا نہ میں نے اپنی سا س کی نا را ضگی کی پروا کی اور نہ اس کے نتائج کی اور سچ تو یہی تھا کہ ایسی کو ئی بھی صورتحال مجھے عجیب کمینی سی خوشی سے دو چا ر کردیتی تھی۔ میرا دِل ان دیکھی مسرت سے دو چا ر ہو جا تا۔ آپ اسے سستی، گھٹیا با زا ری کہیں مگر سچ تو یہی ہے کہ میرا دِل خوشی سے بھر جا تا۔ میں آئینے میں خودکو دیکھ کر خود پر نثا ر سی ہو جا تی کہ میں اس عمر میں دو بچوں کی ماں ہو تے ہو ئے بھی اِ س قا بل ہو ں کہ کو ئی مجھے دیکھ کرپا گل ہو جا ئے۔ میری طلب میں مچل اُٹھے۔ میں محسوس کر سکتی ہوں کہ میری سوچ کے اس رُخ سے آپ کراہت ا ور اُکتا ہٹ سی محسوس کررہے ہو ں گے کہ میرا یہ قصیدہ آخر اور کتنا طویل ہو گا اور اپنے حُسن کی یہ بے سر و پا تعریف آخر چہ معنی دارو! مگر یہ سب بیا ن کرنا اور بتانا آپ کو ضروری تھا کیو نکہ جب تک آپ کے ذہن کے پردے پر میری اَن دیکھی تصویر نہ بنتی آپ مجھ سے صحیح طر ح سے آگا نہ ہو تے توآپ میرے مسئلے کو کیسے سمجھ سکتے تھے؟ میرے مسئلے  میری تکلیف میری اذیت کو آپ اسی وقت محسوس کر سکتے ہیں جب آپ مجھ سے آگاہ ہو پائیں۔ اس لئے آپ مجھ سے اُکتائے بغیر میرے احساسات کو سمجھنے کی کو شش کریں۔میں کوئی بدکردار اخلا قیا ت سے عا ری عورت نہیں ہوں۔ بس اپنے حُسن سے آگاہ ہوں یا یوں کہئیے کہ اپنے حُسن کے نشے میں گُم اور چور چور ہوں۔ مجھے یہ محسوس ہوتا تھا کہ میں سر سبز و شا داب اور سدا بہار حُسن کی ما لک ہُوں اور یہ کہ اس سدا بہار جوا نی کے موسم پرکبھی خزا ں نہیں آئے گی اور اَب سے کچھ عرصے پہلے تو سب ٹھیک تھا اور آئینہ میرے اس زعم کی بھر پور گوا ہی دیتا تھا۔ میرا تنا ہُوا بدن، بے داغ کم سنی و معصو میت کا بھو لپن لئے تیکھے نقوش کا حا مل چہرہ۔ سچ تو یہ ہے کہ آئینہ بھی مجھے دیکھ کر شر ما جا تا ہے۔ جی تو میں آپ کو بتا رہی تھی کہ کچھ عرصہ پہلے توسب ٹھیک تھا اور مجھے یہ لگتا تھا کہ یہ سر سبز موسم ہمیشہ یو نہی رہے گا مگر ہُوا یہ کہ …………جی ہُوا یہ کہ مجھے خزاں کے آنے کا احساس ہو نے لگا مگر کیسے؟

وہ ایسے کہ میری بیٹی اس دن اپنے با با کے سا تھ چیو نگمز لے کر آئی دو تین مختلف برانڈ تھے۔ اُن میں سے ایک دو نے مجھے میرے بچپن میں پہنچا دیا۔ بچپن سے لوٹ کر جب میں اپنے حا ل میں لو ٹی تو میں نے بڑے شوق سے اپنی بیٹی کو بتایا کہ اس طرح کی ایک ببل گم میں دس پیسے اور ایک چار آنے، پچیس پیسے کی لے کر آیا کرتی تھی …………تو میری بیٹی نے بڑی حیرت سے مجھے دیکھا:”مما! یہ کیا ہوتا ہے اور یہ کو ن سے پیسے ہوتے ہیں؟تو میرے بیٹے نے بڑا سمجھ دار بن کر کہا:”بیب وقوف یہ Coinsہو تے ہیں۔ مماکے زمانے میں ایسے ہی پیسے ہو تے تھےتو میری بیٹی مزید بھو لپن سے بو لی:”تو کیا مما اَب یہ وا لے Coinsانڈر گرا ؤنڈ چلے گئے ہیں جیسے مختلف Civilizationکے چلے جا تے ہیںمیں جو ایک صدمے کی سی کیفیت میں تھی۔ بڑی دِل گرفتگی سے بو لی:”نہیں بیٹا! انہیں زمین نے نہیں مہنگا ئی نے نگل لیا ہےمیرے میاں بڑے شرا رتی سے موڈ میں بو لے:”بیگم! آج پہلی با ر احساس ہُوا ہے کہ تم بھی بوڑھی ہو رہی ہومگر پھر میری دلگر فتگی کو محسوس کر کے چُپ  ہو گئے مگر پھر تو یہ روزکا معمو ل ہی ہو گیا۔ کچھ عرصے سے ہو بھی یہی رہا ہے کہ ہر جنس کی قیمت میں رو ز بہ روز اضا فہ ہو رہا ہے اور مجھے جو محسوس ہو تا تھا کہ میرے پچپن  اور میرے بچوں کے بچپن میں صرف اِ ک میری جوانی  کا ہی تو سفر ہے۔ یوں لگنے لگا ہے کہ میں اُن سے ایک صدی پہلے کے کِسی ز ما نے میں جیتی تھی۔ میرے کندھوں پر میری نا نی دادی کا بڑھا پا بھی لد گیا ہے مجھے لگنے لگا ہے کہ میں واقعی بوڑھی ہو رہی ہوں۔ پیپسی کی بو تل کو میں لِفافے میں جھلاتےچوں چوں چاچا…………“ گا تے ساڈھے تین رو پے کی لا یا کرتی تھی۔ گھی چودہ روپے کلو ہو تا تھا اور اَب میں اپنی چھوٹی بیٹی کو کیسے سمجھا ؤں کہ سا ڑھے تین رو پے کتنے ہو تے ہیں؟جس نے صرف پانچ رو پے کا سکہ ہی دیکھا ہے ____؟اور آئل دوسو رو پے میں ایک کلو آتا ہے؟ ہما رے بیچ صدیوں کا فا صلہ در آیا ہے۔ اِ س فا صلے کو میں کیسے پا ٹوں؟یہ مہنگا ئی کا منہ زور جن جس نے اپنے جا دوئی ہا تھ سے میرے شفاف بدن پر دراڑیں اور چہرے پر جھریاں ڈا ل دی ہیں۔ اس نے چند سا لوں میں مجھے صدیوں کی مسافت طے کروا دی ہے۔ میں جواپنی عمر سے دس سا ل فقط دس سا ل ہی چھوٹی دکھتی تھی____مگر اب یوں لگنے لگا ہے کہ کئی سو سا ل پیچھے چلی گئی ہوں۔مگر یہ بے چینی و پریشا نی محض میری نا دا نی ہی تو ہے وہ ہو شربا مہنگا ئی جو تہذیبوں اور سکوں کو نگل گئی۔ اس کے آہنی پنجے تلے جا نے مجھ سی کیسی شا داب جوا نیاں کچلی گئی ہوں گی۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...