Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

نقش فریادی جولائی تا ستمبر 2022 |
پنجاب لٹریری فورم
نقش فریادی جولائی تا ستمبر 2022

جریبِ حیات
Authors

ARI Id

1695778069724_56118357

Access

Open/Free Access

Pages

۹۰

جریب حیات(افسانہ)

ڈاکٹر مجاہد عباس ،لیکچرر، نمل یونیورسٹی اسلام آباد

جریب زمین کے لیے ہے یا حیات کے لیے،  زمین اور حیات دونوں ہی اس سے ناواقف رہتی ہیں۔ البتہ انسان جو زمین سے اگایا جاتا ہے اور پھر زمین میں ہی دبایا جاتا ہے جریبوں کی  پیمائش بن کے رہ جاتا ہے۔

اقصیٰ کےلبوں پر  سَرمیلی بسنت کے پھول کھل رہے تھے۔اُس نے  زمین کی طرف جھکتے ہوئے اپنی زلف ِ دراز کو بائیں کان  کی اوٹ میں سُلا دیا اور زمین پر گرے کاغذ کو ہتھیلی پر رکھ کر دل میں اُتار لیا۔ اُسے اپنے پیلے لباس  کی مہک  وصل  کی چاندنی رات کا قصہ ِ ناتمام سنارہی تھی مگر وہ مسلسل سوچوں کی جریب سے پرائے موریے اور بورنیو کے جنگلات کی پیمائش کر رہی تھی۔وہ اُن جنگلات کے سحر انگیز مناظر میں یوں کھوئے جا رہی تھی  جیسے دین و دنیا کی متاع ِ بے پایاں اُسے نصیب ہو گئی ہو۔وہ ایک ایک پودے کے ایک ایک پتے کے ایک ایک  ملائم اور تیزکنارے کو چھو کر  اس کی خوشبو اور لطافت کو  جذب کر رہی تھی۔ وہ  خود کو  پرسکون سبز سمندر کی کشتی  سمجھ کر ہوا کے رخ پر دھیرے دھیرے رواں دواں تھی۔ ابھی اُس نے اپنی کمر سیدھی نہیں کی تھی کہ اسےگلی سے گزرتی ہوئی لاری کی آواز سنائی دی جس پر اے کلاس چنیوٹی فرنیچر  سلیقے سے لادا گیا تھا۔

 اس  نے ٹیَلوں لگے فرش سے پلاسٹک کی میز اور کرسیاں اٹھا کر گھر کی پچھلی طرف لان میں رکھ دیں جہاں پھولوں کے احاطے میں سبزے کی بہار تھی۔  یہ لان اس کی زندگی میں افضال کی طرح  اہمیت رکھتا تھا۔ وہ جب بھی تھک جاتی تو وہاں آرام کرتی تھی، پودوں سے متعلق کتابوں کا مطالعہ کرتی، اخبار وہیں دیکھتی، سہیلوں کے ساتھ گھنٹوں وہیں بیٹھ کر باتیں کرتی اور وہیں بیٹھ کر افضال کو رنگ رنگ کےخط لکھا کرتی۔وہ چائے کے گھونٹ بعد میں لیتی ،پودوں کو پانی پہلے پلاتی تھی۔ ایک ایک پھول کے رنگ آنکھوں میں سجاتی ، بھنوروں، مچھروں ، تتلیوں اور چڑیوں کی تصویریں بنا بنا کر افضال کو بھیجتی رہتی۔ حتیٰ کہ مارکیٹ سے کپڑے خریدنے جاتی تو پھولوں والے پرنٹ اکٹھے کر کے لے آتی۔

افضال  کو پورا محلہ اس کے کتابی کیڑا ہونے  کی وجہ سے پہچانتا تھا۔ وہ  معمولی شکل و صورت کا لڑکا یونیورسٹی سے اگرانومی میں ماسٹر  ڈگری کر نے میں یوں منہمک تھا جیسے فرہاد جوئے شیر لانے میں  ڈوب گیا تھا۔ اسے اپنے اعصاب کی پروا تھی نہ   ہی گلوکوما کی۔کبھی وہ  پھولوں کی نمائش  پر پریزینٹیشن تیار  کر  کے یونیورسٹی لے جاتا  تو کبھی کسی پودے کی افزائش  و ارتقاپرریسرچ پیپر لکھ کر اپنے اساتذہ کو ورطہ ِ حیرت میں ڈال دیتا۔سب کے سب استاد اُس کے روشن مستقبل کو روز ِ روشن کی طرح دیکھ رہے تھے۔ افضال کے سامنے تو  اب ایسا مشن تھا جس کی تکمیل پر  اس کی آنکھوں میں بسے خوابوں کو تعبیر کا سندیسہ ملنا تھا۔

بڑے بھائی کی بڑی گاڑی گھر میں داخل ہوئی  تو اقصیٰ لان سے  اٹھ کر کمرے میں چلی گئی۔ چار کنال کی اس کوٹھی میں  بڑے بھائی  کے قدم آتے ہی گھر کے سب فرد تعظیم میں سر جھکا لیتے تھے۔بزرگواروں کے گزرنے کے بعد زمینوں سے کاروبار تک سب نفع و نقصان بڑے بھائی ہی دیکھتے تھے۔  امجد تو ابھی   پندرہ دن   پہلے شادی کر کے بیگم کے ساتھ گلیات  کی سیر  کو نکلے  ہوئےتھے اورمزید پندرہ دن جہلم سے نیلم تک گھومنے کے ارادے  سے بھی گھر والوں آگاہ کر چکے تھے۔

بڑے بھائی نے  کوٹ اتار کر  اپنی الماری کے ہینگرپر لٹکایا  جس کی  جیب میں بنک کی چیک بک   نے اُس کوٹ کے توازن کو قائم نہیں رہنے دیا ۔ اپنے بچوں  سے لاڈ  پیارکرنے کے بعد چھت پر جانے والی  سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اقصیٰ کے کمرے  پر نظر پڑی تو ایک لمحے کے لیے وہیں  رکتے ہوئے  آواز دی۔

 اقصیٰ!

جی بڑے بھائی!(وہ بدن پر  پیلے رنگ کا دوپٹہ لپیٹتے ہوئے دروازے سے باہر نکل آئی۔)

میں نے سوچا ہے اب امجد کے بعد آپ کی خوشی کا سامان بھی کر لیا جائے۔اب آپ کے ہاتھ پیلے کرنے کا وقت آ گیا ہے۔(بڑے بھائی نے سیڑھی پر پہلا قدم رکھتے ہوئے کہا۔)

 بڑے بھائی  کے منہ سے اچانک  یہ بات سن کر وہ شرما سی گئی۔ اس نے دونوں ہاتھوں  کی انگلیاں آپس میں پھنسا لیں اور  اس کی آنکھوں میں  کپاس کی بو باس کے بادل  نمو دار ہوگئے۔  اس نے سر جھکا لیا  اور دھیرے سے اپنے کمرے کی طرف چل دی۔  اک پل کےلیے وہ کھو سی گئی۔   وہ  خود کو وقت کے اس باریک لمحے پر محسوس کر رہی تھی جہاں ہجر و وصال کے سلسلے یکجا ہو جاتے ہیں۔وہ بیخودی میں   پھولوں کی چادر والے بستر پر دراز ہو گئی۔بڑے بھائی کی بات سننے کے بعد وہ کافی دیر سوچوں میں محو رہی اور اس دوران افضال کے کئی میسج  اسکے موبائیل کی سکرین کو جلا بجھا چکے تھے۔اس نے سر خوشی میں موبائیل اٹھایا اور افضال کے میسج  پڑھنے لگی جو حسب ِ معمول ریسرچ پیپرز اور  ڈسکوری چیننلز کے نئے جنگلات کی دریافتوں سے متعلق تھے۔ آج پہلی بار افضال کو میسج کرتے ہوئے اس کے ہاتھ تھر تھرا رہے تھے۔وہ دل ہی دل میں اس سے شرما رہی تھی۔ وہ میسج کرتے ہوئے دو لمحوں کے لیے رک سے گئی۔ وہ اس تذبذب میں تھی کہ آخر خوشی کی اتنی بڑی  خبر وہ افضال کو کس طرح سنائے۔اب بڑے بھائی چھت سے ٹہل کر سیڑھیوں سے نیچے اتر رہے تھے۔

چھت پر ٹہلنے کے دوران اس نے اپنی چچی  سے فون پر بات کر لی تھی۔ اس نے  حامی  بھر لی تھی کہ اقصیٰ کے لیے  ہمیں فرمان کا رشتہ قبول ہے۔اس نے چچی کو بتایا تھاچچا کا سایہ سر سے اٹھ گیا ہے تو کیا ،ہم اپنے خون کی لاج رکھنے والے ہیں۔آخر  چچا نے بھی تو اپنی ساری جائیداد ہمارے بابا کے نام بلا معاوضہ کر دی تھی  اور تایا جان کا ویسے ہی کوئی ولی وارث نہیں تھا۔اب فرمان ہمارے پاس رہے گا اور کام کاج میں ہماری مدد کرے گا۔ اچھے قد کاٹھ  کا ہے  اورخوبصورت بھی ہے اور ویسے بھی جب دفتر کا بابو بنے گا تو حسن پر نکھار آ ہی جائے گا۔چچی نے دو مہینوں  بعد  فرمان کی منگنی کی تاریخ  کی بات کی تو بڑے بھائی  نے بلا تامل قبول کر لی۔بڑے بھائی کے قدموں کی چاپ خاموشی میں بدلی تو اقصیٰ نے افضال کو میسج کرنے کے لیے دوبارہ فون اٹھایا۔

افضال !   سنو!

 ہاں، بولو یار !

میں  لائبریری جانے لگا ہوں۔جلدی بتاؤ کیوں بلایا۔

پتہ ہے آج میں بہت خوش ہوں!

نہیں پتہ، لیکن بتا سکتا ہوں کہ کیوں خوش ہو۔

اچھا چلو بتاؤ!

آج پھر کوئی نیا جنگل دریافت کیا ہوگا میرے لیے۔ یا کوئی نئی بنجر سر زمین جسے میں سر سبز بناؤں گا۔

ارے نہیں نہیں، آج کوئی اور بات ہے۔ اچھا سنو!

بڑے بھائی نے آج مجھ سے شادی کی بات کی ہے۔ بس تم جلدی  سے اپنے امی ابو کو  ہمارے گھربھیج دو۔

یار اتنی جلدی!(افضال نے حیران ہو کر پوچھا)

 آپ تو جانتی ہو کہ میرا ماسٹر ابھی مکمل نہیں ہوا۔ اور نہ ہی کوئی جاب ہے۔ کیا آپ کے گھر والے مان جائیں گے۔یار سنو!میری بات سنو ، شادی ہم بعد میں کر لیں گے۔ میں چاہتی ہوں میرے لیے صرف ایک رشتہ ہمارے گھر آئے اور وہ صرف آپ کا ۔مجھے امید ہےبڑے بھائی پہلے رشتے سے کبھی انکار نہیں کریں گے اور میں بھابھی کے کان میں بھی یہ بات ڈال دوں گی تا کہ وہ انہیں میری رضامندی سے آگا ہ کر سکیں۔

اچھا  جیسے تم کہو(افضال نے سوچ میں گم ہوتے ہوئے کہہ دیا)

میں آج امی سے بات کروں گا(اس کے لہجے میں  تذبذب تھا)

 اور ہاں  اگر مجھے جوتے پڑے تو پھر میں آپ سے روٹھ جاؤں گا۔ (اس نے روہانسی شکل بناتے ہوئے بات کی)

وہ کہیں گی ہم نے صاحب زادے کو یونیورسٹی پڑھنے کے لیے بھیجا ہے اور یہ کوئی اور ہی ڈگری ہاتھ میں لیے آج گھر میں داخل ہوا ہے۔مجھے لگتا ہے میری شامت آنے والی ہے ۔یار دعا کرو بس ایک دفعہ میری ڈگری مکمل ہو جائے پھر دیکھنا ہم وہ سب کریں گے جو ہم سوچیں گے۔(اس بات پر دونوں ہنس پڑے)

اچھا سنو ! میں اس دن کے بارے میں سوچ رہی ہوں جب آپ ڈگری مکمل کر لیں گے اور میرے حصے کی ساری زمین کی آبیاری آپ کریں گے۔  پھر وہ میری نہیں ہماری زمین ہو جائے گی۔ ہم سب کی۔  ایک ایک ٹیلہ سر سبز، ایک ایک کیاری پھولوں کی لاری بن جائے گی۔ہم سرمی کے پیلے پھولوں میں شام کا پیلا سورج  ملا کر اپنی آنکھوں کو  گھونٹ گھونٹ پلائیں گے۔ اور ہاں چھانگا مانگا سے بڑا جنگل اگائیں گے۔ جہاں سبزہ ہو ، سکون ہو، سیر و سیاحت ہو اور سہیلیاں ہوں۔(وہ  یہ بات کرتے ہوئے جذباتی ہو گئی تھی)

ہاں ہاں سب ہوں وہاں بس  میرا نہ کہنا ، جو رنگ رنگ کے پھول اگائے گا!(افضال نے ہنستے ہوئے کہا)

  پھر وہ بھی جذباتی ہو کر گویا ہوا!

سچ کہوں تو میں بھی آپ کے لیے پیلی سرسوں سے لیکر پیلے  املتاس تک سب  اپنے ہاتھوں سے  اگا کر اس پوری دھرتی کوبھی پیلے رنگ کا لباس پہناپہنا دوں گا۔ وقت نے پر لگائے اور  ایسی ہی بے شمار باتیں کرتے کرتے  وہ دونوں اپنے خوابوں کے جنگل میں منگل بسا کر سو گئے۔بڑے بھائی  نے نیلم سے واپسی پر  امجد کو  اچھی طرح سمجھا دیا  تھا کہ فرمان چچا زاد ہے، ان پڑھ ہے تو کیا دفتر کی دیکھ بھال کر لے گا۔  اور ہم سے کسی قسم کی جائیداد بھی  طلب  نہیں کرے گا۔ اقصیٰ  کے لیے اس سے بہتر کون ہو سکتا ہے۔اور ہاں اقصیٰ سے ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ، چچی جب اگلے ماہ  شہر  آئے گی تو اسے خود ہی معلوم ہو جائے گا۔ اور ویسے بھی اقصیٰ نے یہیں شہر میں رہنا ہے۔ ضرورت پڑی تو کوئی چھوٹا موٹا گھر  بھی  انہیں بنا دیں گے۔

وقت تیزی سے گزرنے لگا۔اقصیٰ اور افضال  اپنے خوابوں میں مست طائرانہ نگاہوں سے ان کھیت کھلیانوں اور سرسبز میدانوں کے عکس آنکھوں میں سجاتے رہتے جنہیں ان کے سر سبز ذہن نے تخلیق کیا تھا۔ افضال نےمنت سماجت کر کے دھیرے دھیرے  اپنے والدین کو منا ہی لیا۔اس اثنا میں دو مہینے تو ہوا کے گھوڑے پر سوار ہو کررفو چکر ہو گئے۔ افضال کے والدین نے اپنی  برادری کے چار معزز اور معقول افراد کو ساتھ لیا اور شام ہونے سے کچھ دیر قبل  بڑی کوٹھی کے بڑے گیٹ سے مرعوب  ہوتے ہوئے ڈرائینگ روم میں آ بیٹھے۔ ان کی آنکھیں گھر کی شان و شوکت کے سامنے خیرہ تھیں۔ افضال کی امی نے تو احساس ِ ندامت سے منہ ہی چھپا لیا اور دل ہی دل میں سوچتی رہی!

 یہ کہاں  اورہم کہاں!۔

 اُس کے ذہن کی کھڑکی سے اسے بار بار اپنا معمولی گھر دکھائی دے رہا تھا جہاں  الماریوں میں  صرف کتابیں تھیں یاجوتے اور  پرانےکپڑے۔غور کرنے پر بھی اسے اپنے گھر میں کسی شو پیس کا سراغ نہ ملا۔بڑے بھائی کی آمد پر ڈرائینگ روم میں موجود سب  افراد تعظیم کے لیے کھڑے ہو گئے۔ بڑے بھائی کی  منتظر مگر متجسس آنکھیں  آنے والوں کے چہروں کو پہچاننے میں مصروف ہو گئیں۔ ساتھ ہی ملازم کو چائے پانی کے انتظام کا اشارہ کر دیا گیا۔ جب ڈرائینگ روم میں موجود سب لوگ ایک دوسرے سے متعارف ہو رہے تھے تو افضال  سر جھکائے اپنے والد کے  بائیں جانب خوابوں کے جنگل  میں پھولوں کی دیوی کو تلاش کر رہا تھا۔جب افضال کے والد نے افضال کا تعارف کروانا شروع کیا اور ان کی تعلیمی  سرگرمیوں پر فخریہ انداز میں کچھ کہنا چاہا تو بڑے بھائی کو  یقین ہو گیا کہ یہ لوگ اس بچے کی نوکری کے سلسلے میں آئے ہوں گے۔ خاندان کے دیگر افراد نے بھی افضال کی تعلیمی کامیابیوں کی تائید کی تو اس کا یقین یقین ِ محکم میں بدل گیا۔

سورج ڈوبنے کے قریب تھا، آسمان کی چادر میں شام کی زرد لہریں  جادوئی رنگ بکھرا رہی تھیں ۔گھر کے پچھلے لان میں اقصیٰ  اس انتظار میں  بیقرار تھی کہ محفل برخواست ہونے پر افضال سے پوچھوں کہ بڑے بھائی صاحب نے کیا جواب دیا  ہےتا کہ  میں  اپنی بڑی بھابھی کو اپنی رضا مندی  سے آگاہ کرسکوں ۔تعارف مکمل ہوجانے پر بڑے بھائی صاحب  مہمانوں کی آمد کا مدعا سننے  کے لیے ہمہ تن گوش تھے کہ بڑے گیٹ کی بیل نے انہیں چونکا دیا۔ انہوں نے ملازم سے دروازے پر جا کر معلوم کرنے کو کہا اور خود سگریٹ سلگانے لگے۔  ملازم نے  اپنائیت سے نئے آنے والے مہمانوں کو  اندر آنے کی  دعوت دی۔بڑے بھائی  کی آنکھیں فرمان اور چچی پر پڑیں تو ان کے خیال  سے بہت بڑی جائیداد کا عکس ہوا کے تیز جھونکے کی طرح گزر کر فضا میں تحلیل ہو گیا اور اقصیٰ کا معدوم عکس   ان کے ذہن کے کینوس پر معمولی  ارتعاش  بھی پیدا نہ کر سکا ، شاید ان کا دھیان   سگریٹ کا کش لگانے کی طرف منحرف ہو گیا تھا۔کھڑے کھڑے مہمانوں میں تعارف کی ایک لہر دوبارہ چل پڑی ۔نئے مہمانوں کی آمد دیکھ کر افضال کے گھر والوں نے سوچا کہ جلد ہی مدعا بیان کر کے رخصت لینی چاہیے ۔

چچی اٹھ کر اقصیٰ کے کمرے میں  چلی گئیں اور فرمان وہیں جگہ پا کر افضال کے ساتھ بیٹھ گیا۔افضال کے والد نے افضال کے لیے ابھی  اقصیٰ کا ہاتھ مانگا ہی تھا  کہ بڑے بھائی  کے چہرے  کا رنگ متغیر ہونا شروع ہو گیا ۔ وہ یوں سرخ ہو ئے جا رہے تھے جیسے  ان کے اندر کوئی  بھٹی  جل اٹھی ہو۔ان کی آنکھوں سے غصہ ابل  ابل کے باہر آرہا تھا۔ وہ ضبط کرنے میں مکمل ناکام نظر آ رہے تھے۔ اس نے افضال اور فرمان کو ایک ساتھ بیٹھے ہوئےدیکھا تو اس کے غصے کو اور اُبال آ گیا۔اب تک اس نے لبوں سے کچھ نہیں بولا تھا مگراس کی وحشت ناک  آنکھیں سب کہہ چکی تھیں۔وہ صوفے سے نہایت سرعت سے کھڑے ہوئے اور ڈرائینگ روم کا دروازہ کھول کر افضال  اور اس کے گھر والوں  سے  چلے جانے کا اشارہ کر دیا۔غیر یقینی فضا پرافضال کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ اس کی رگوں میں فشار ِ خون کی بجائے محبت  کے شرارے گردش کرنے لگے۔ وہ منہ سے ابھی کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ بڑے بھائی نے  بے طرح زور سے’’  شٹ اپ ایڈیٹ ‘‘ کہہ کر اس کی آواز کو مقفل کر دیا۔افضال کے ہونٹ تھرتھرانے لگے،  اس کی زبان خشک اور  بنجر ہو گئی جہاں کانٹوں کے کھیت اُگ آئے۔آن کی آن میں اس کی بنجر  آنکھوں میں دراڑیں پڑ گئیں  ۔

 ’’شٹ اپ کال‘‘ کی گونج  گھر کی دیواروں  اور چھتوں کو چیرتی   ہوئی ہواؤں  اورفضاؤں کو  زہرآلود کرتی چلی گئی۔لپکتی  اور کھٹکتی  گونج   اُس گھر میں موجود ہر فرد کی سماعتوں سے ٹکرا کر اسے بہرہ  اور گونگاکرتی چلی گئی۔   یہی گونج جب اقصیٰ کے کانوں سے ٹکرائی تو اس کا دل بیٹھنے لگا ۔ وسوسوں کے گر دباد  میں اسے پاپوش کی  گرد نہیں ہونا تھا۔ وہ تیزی سے اپنے کمرے کی طرف آئی تو  وہاں چچی کو  موجود دیکھ کر ششدر رہ گئی۔  اس کو معلوم نہیں تھا کہ چچی کب اور کس لیے ان کے گھر آئی ہے۔چچی نے عجلت اور لجاجت میں اسے گلے لگایا مگر وہ مکمل حواس باختہ ہو چکی تھی۔ اس کا وجود اسی  ایک گونج کا تعاقب کر رہا تھا۔وہ ایک بگولے کی طرح چکرا رہی تھی اور دشت ِ خیال میں  میلوں خاک اڑا رہی تھی۔  وہ اب تتلی تھی نہ پھول ، بلکہ ایک بے رنگ روح کی طرح قریہ بہ قریہ، دشت بہ دشت بھٹک رہی تھی۔ کچھ عرصے بعدجب فرمان جاری ہو رہا تھا تو اُس کی فضیلت  تمام ہو چکی تھی۔

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...