Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

نقش فریادی جولائی تا ستمبر 2022 |
پنجاب لٹریری فورم
نقش فریادی جولائی تا ستمبر 2022

کھوٹا سکہ
Authors

ARI Id

1695778069724_56118358

Access

Open/Free Access

Pages

۹۵

کھوٹا سکہ کھرا بیٹا

ممتاز  حسین

گرنام سنگھ کے چائے کے کھوکھے کے باہر رکھے ہوئے بنچ پر چھ گلاسوں والے چھکےمیں رکھے تین  ادھ  بھرےچائے کے گلاسوں کو بارش پورا کرتھی اور کھوکھے پر موم جامے میں لپٹے ریڈیو میں  زہرہ پائی انبالے والی کی مدھ بھری آواز میں انیس سو چالیس کا  مشہور نغمہ "ساون کے بادلوں۔۔۔ان سےجا  کہو"۔ گانے کو ماحول مہیا کر رہی تھی۔ جب سے گرنام سنگھ نے مومی لفافہ خریداتھا۔ اس وقت سے کسی نے  ریڈیو کو برہنہ نہیں دیکھا تھا۔   ریڈیو کی دوشیزگی گرنام سنگھ غیرت مند باپ کی طرح برقرار رکھے ہواتھا۔  کھوکھے والی گلی کے نکڑ پر ایک دکھی عورت اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر کچھ کہہ رہی تھی، پتہ نہیں اس کے لب بھی گانے کے لفظوں کو دہرا رہے تھے۔ اس کے دونوں ہاتھوں میں اچانک ایک روپے کا سکہ آن گرا۔ اس نے منہ آسمان کی طرف اٹھا کے دیکھنا چاہا کہ سکہ کس نے مجھے دیا ہے تیربرساتے قطروں کےساتھ کالے بادل بھی اپنا غصہ بجلی چمکا کر دکھا رہے تھے۔ دائیں بائیں دیکھا تو ایک فقیر جس کا کاسہ کارتوس  کی پیٹی کی مانند کندھے سےلٹکا تھا۔ باآواز بلند کہے جارہا تھا ’’جو دے اس کا بھی بھلا جو نہ دے اس کا بھی بھلا۔ دینا ہے تو خیر کی خیرات دے‘‘۔ دکھی عورت نے بھاگ کر فقیرکو آن لیا۔  ’’ٹھہرنا ‘‘ ۔۔۔فقیر رک گیا ۔ اوراس نے اپنے کندھے اور کمر سے لٹکے ہوئے کاسے کو سیدھا کر عورت کے سامنے بھیک کے لیے پھیلایا۔  ’’دینا ہے تو خیر کی خیرات دے‘‘۔ عورت نے دکھی آواز میں فقیر سے کہا ’’میں تو خود مصیبتوں کی ماری ہوں ۔ میں کہا  ںخیرات دے سکتی ہوں۔ کیا یہ سکہ آپ نے میری ہتھیلی پر رکھا ہے ‘‘۔"ہاں" فقیر بادشاہوں کی طرح بولا۔ عورت اور بھی دکھی ہوئی۔   میں اتنی لاچار دکھائی دیتی ہوں کہ فقیر بھی میری حالت پر رحم کھانے لگے ہیں۔ فقیر نے جواب دیا ’’یہ سکہ کھوٹا ہے، میرے کام کا نہیں میں نے تو خدا کو لوٹانے کےلیے آسمان کی ظرف پھینکا تھا تو آپ کی ہتھیلی پر آن گرا۔ جو دے اس کا بھی بھلا اور جو نہ دے اس کا بھی بھلا ‘‘  یہ  کہتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ لیکن عورت نے آسمان کی طرف منہ کر کے فقیر کا فقرہ مکمل کیا ۔ ’’دینا ہے تو خیر کی خیرات دے ‘‘۔ عورت نے سکے کو غور سے دیکھا تو گھسہ ہوا نہیں تھا بلکل نیا جیسے ابھی سکے بنانے والی ٹکسال سے نکل کے آیا ہو۔ لیکن آدھے حصہ پر ایک لکیر تھی اور وہ لکیر سکے کو دو حصوں میں تقسیم کرتی تھی  ،آدھے حصے میں سب کچھ تھا اور آدھے حصہ میں کچھ بھی نہیں لکھا تھا۔ جیسے سکہ گھڑنے کی مشین میں خرابی ہواورسکہ بغیر تصدیق کے پیسوں کی منڈی میں چل گیا ہو۔ کئی منڈیوں میں چلتا چلاتا کئی جیبوں کی مسافت طے کرتا اس کے چہرے کا مسنح حصہ انگوٹھوں اور انگلیوں کی زد میں چھپتا چھپاتا بینکوں ، آڑھتیوں سے آنکھ مچولی کھیلتا دکھی زینب کی ہتھیلی پر انصاف کے کٹہرے میں آن کھڑا ہوا۔ اس کی پہچان کا کیس تھا  کیااسے سزا کے طور کے پھینک دیا جائے یا اس کی پہچان کے نمبر تو اس کی پشت پر مکمل تھے بس چہرہ آدھہ مسخ تھا۔ ضرورت انصاف کی دیوی کی آنکھو ں پر کالی پٹی باندھ دیتی ہے۔ زینب نے  سکہ جیب میں رکھ لیا ’’شاید فقیر کو ایسے سکے کی ضرورت نہ ہو مجھے تو ہے‘‘۔

بیرسٹراحسن ایل ایل بی ہائی کورٹ بمبئی    میں بریسٹرایٹ لاؔ                                       انگلستان ،پتہ نہیں میں ان کے پیشے کی ڈگریاں صحیح معنوں میں بتا سک رہا ہوں یا نہیں ۔ کہنے کا مطلب ہےولائت پاس تھے۔ قانون کے شعبے میں بڑا نام تھا۔ جب بھی کسی عدالت میں پہنچتے تو ایک بھوچال آ جاتا تھا۔ لیکن آج ان کے اپنے دفتر میں ان کی بڑی میز جو ان  کی بہت بڑی برٹش راج کے طرز کی کرسی تھی اس کے سامنے پڑی کانپ رہی تھی ۔ اور ان کا کلرک ان کی ہدایت پر عدالتی دعویٰ لکھنے کی کوشش کر رہا تھا اور عبارت کی ہر لائن کو دو دو تین  تین  بار دہرا رہا تھا ۔ بریسٹر صاحب کچھ دیر تک تو برداشت کرتے رہے لیکن آخر کار کلرک پر برس پڑے ۔ تم دھیان سے کیوں نہیں سنتے  ؟۔ کلرک نے مہذب ہو کر عرض کی  ’’قسم سرکار کی!   حضور مجھے تو کچھ نہیں ہے، لیکن اس بیچاری میز  کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں  جس پر کاغذات رکھے  ہیں اورمیں لکھ رہا ہوں۔ بریسٹر صاحب اور غصے میں آگئے  ’’کیا بکتے ہو۔ میز کی ٹانگیں تو بے جان ہیں وہ  کیسے کانپ سکتی ہیں ‘‘ کلرک پھر عاجزی سے متکلم ہوا   ’’جناب بے جان ٹانگوں کو آپ کی جان دار ٹانگیں کرنٹ لگا رہی ہیں ۔  میرا مطلب ہے سر آپ نے جو ٹانگ پر ٹانگ رکھی ہے آپ کی اوپر والی ٹانگ میز کی ٹانگ کو ٹھوکریں مار رہی ہے‘‘۔  بیرسٹرصاحب نے دھیان دیا تو ان کی اوپر والی ٹانگ ہل رہی تھی جو میز سے ٹکرا رہی تھی ۔ جس کی وجہ سے کلر ک کے ہاتھ کانپ رہے تھے اوراملاء میں غلطیاں سر زد ہو رہی تھیں ۔ بریسٹر صاحب نے اوپر والی ٹانگ کو سیدھا کیا ۔ اب نہ میز ہل رہی تھی اور نہ ہی کلر ک کا ہاتھ کانپ رہا تھا۔ لیکن بریسٹر صاحب کے دماغ کی شریانیں جیسے ساکت ہو گئی ہوں۔ اور وہ کلرک    کو  ڈکٹیشن     نہ دے سکے  بہت دیر سوچتے رہے لیکن کچھ لکھوا نہ سکے انہیں بھوک لگنے لگی۔  یاد آگیا اپنی بیٹی کے لیے کتابیں خریدنی ہیں کلر ک سے کہا ’’تم شام میں گھر آجانا وہاں کام ختم کرلیں گے‘‘۔ شام کو کلرک گھر پہنچ گیا اور گھر کے دفتر میں بریسٹر صاحب فر فر  ڈکٹیشن    دینےلگے کلر ک نے غور سے بریسٹر صاحب کے پاوں کو دیکھا تو وہ کُھلے پاجامے کے نیچے سلیپر میں پاوں ہل رہا تھا۔ کلرک کا ماتھا ٹھنکا ۔ صاحب کا کوئی نہ کوئی اعضاء  ہلے تو دماغ چلتا ہے۔کلرک سوچ میں پڑ گیا اس مسلے کا حل کس سے پوچھا جائے، کیوں نہ بدرو     نائی سے بات چیت کی جائے وہ سارے محلے کو جانتا ہے۔ وہ ضرور کسی خاص آدمی کا پتہ بتائے گا اس سے بات چیت کرتے ہیں۔ حالانکہ کلر ک خود پڑھا لکھا منشی فاضل کیا ہوا تھا  نا ئی  سے  تو بہتر ہی ہو گا ،پرانے وقتوں کے میٹرک پاس آج کل کے بی  اے پاس سے زیادہ فر فر انگریزی بولتے تھے۔ کلرک بدرو نائی کی دوکان میں گیا تو خوش قسمتی سے  اکیلا تھا کوئی گاہک نہیں تھا ۔ ’’جناب بد۔۔روح صاحب  کیا حال ہے؟‘‘  نائی نے ناگواری سے جواب دیا ۔ ’’منشی صاحب  !جب بھی آتے یا تو میری روح قبض ہوجاتی ہے یا میرا جسم چھوڑ دیتی ہے۔ میرا پورا نام بدرالدین ہے۔ آپ مجھے بدر ہی کہہ لیا کریں۔ کیسے آنا ہوا ؟‘‘۔ کلرک نے بنچ پر سے گرے ہوئے بالوں کو صافے سے جھاڑ کر بیٹھتے ہوئے کہا۔ ’’یا ر عجیب سا مسلہ الجھی ہوئی ڈور کی مانند دماغ کو گنجلک کررہا ہے۔ اپنے وکیل صاحب ماشاءاللہ  قسم سرکار کی ! ولائت پاس بڑے بڑے انگریزوں کے کان پکڑا دیتے ہیں لیکن جب بھی مجھ سے دعویٰ لکھواتے ہیں یا تو ان کی ٹانگ ہلنے لگتی ہے یا پاوں۔ اگر وہ نہ ہلا سکیں تو ان کے دماغ کو بریک ایسے لگتی ہے جیسے سائیکل کے ٹائروں کے  ساتھ چمٹا ہوا  ڈاہنمو                  ،سائیکل کی بتی بند تو بر یسٹر کی صاحب کی دماغ کی بتی بند۔  قسم سرکار کی!  بس پھرگھپ انہرا،صاحب کچھ لکھوا ہی نہیں سکتے ‘‘۔ بدرو نائی نے سر کھجاتے ہوئے کہا’’  نمبر ایک  پتہ نہیں  تم  کس سرکار کی قسمیں کھاتے   ہو، اوپر والی سرکار  یا  انگریز سرکار کی جو بہت  قسمیں  کھاے سمجھ لو وہ جھوٹ  بولتا ہے ۔دیکھ اگر  میں میری تیری بھاشا میں بات کرو گا تو تم کہو گے میں نا سمجھوں والی  بے وقوفوں والی بات کر رہا ہوں۔ اگر میں انگریز سرکار کی بھاشا  اپنی باتوں میں  ،یس ،یس ،یس  ،نو ،نو ،نو  ، یو بلڈی انڈین فول ،کہہ کے بات کر وں گا تو پھر تم میری بات غور سے سنو گے اور یقین بھی کروگے‘‘۔ ’’نہیں نہیں تم بات

کر و میں دھیان سے سنو ں گا‘‘۔’’سنو پھر کچھ لوگ بے دھیانی میں اپنے پاوں یا ٹانگ ہلا تے ہیں۔ تاکہ ان کا دھیان ایک خاص مہم میں چلتا رہے۔اور دراصل یہ حرکت ان کے  لیےبڑی کار آمد ثابت ہوتی ہے۔ یہ جو ہلنا ہلانا ہے نہ ،یہ دماغ کے اس حصہ کو جگائے رکھتا ہے اور    اِدھر اْدھر بھٹکنے نہیں دیتا ۔ اور مشغول رکھتا ہے۔ تاکہ پورے کا پورا دماغ اس خاص حصہ پر توجہ مرکوز رکھے ‘‘کلر ک اپنی سوچو  ںمیں گم ہوگیا۔ نائی کی ساری گفتگو کو  اپنے دماغ میں انگریزی میں ترجمہ کر نے لگا ۔اپنے  آپ کو  گورا ڈاکٹر بن کر    اینگلو ینڈین انداز میں بولا ’’ہم اس کا علاج  کرنا مانگتا  اور   بریسٹر صاحب  کو اپنی  انگلیوں پر نچانا مانگٹا   اور پیسہ  بنانا  مانگتا‘‘ نائی  بولا  ’’ اوے تو  ہمیشہ   حرام  کھانے  کی سوچتا   رہتا ہے، اوے یہ  کو ئی  بیماری تھوڑی  ہے ، یہ  عادت ہے  جیسے  میں لسی پی کے ڈکار مارتا ہو ں اور  تو حرام کھا کے ڈکار تو کیا چھینک بھی نہیں مارتا ،  اوے جعلی ڈاکٹر   نائی کی دوکان   اور ولیم ڈی سوزا  کا شراب کا ٹھیکہ ، یہاں سب اپنے مسلے  لے کر آتے ہیں بس فرق اتنا  ہے ٹھیکے پے شراب کا پوا  پی کر دل کی بھڑاس نکالتے ہیں میرے پاس بغلوں  کی فری  صفائی کروا  کر‘‘

کلرک نے کہا ’’نہیں  صاحب !   میرے پاس  ہے اس کا  علاج ہے  ،قسم سرکار کی  !میں ہلنے والی ٹانگ ہی کاٹ دو ں گا پھر  دعوے میں لکھوں گا میں پیسے بناوں گا میں‘‘۔ بدر نائی بولا ’’او ے اتنی  تعلیم  کہاں تیرے پاس،    تم تو اپنے مالک سے ناراض لگتے ہو۔ سر میں درد ہو تو کیا سر کاٹ دو گے‘‘۔ ’’میں اپنے مالک سے ناراض نہیں میرے خرچے پورے نہیں ہوتے‘‘۔ بدرو بولا ’’اگر تم پانڈو کی بیٹھک میں جوا کھیلنے نہ جاؤ اور ولیم ڈی سوزا کے کے ٹھیکے سے پوا    نہ خریدو تو شہنشاہوں والی زند گی گزرو۔ ویسے بھی تمہیں حرام کھانے کی لٹ ہے وکیل صاحب نے لات مار دی تو زمانے کی لاتیں کھاتے پھرو گے‘‘۔

دکھی زینب پوچھتی پوچھاتی بر یسٹر  صاحب کے چیمبر میں آن پہنچی۔ کلرک مختلف عدالتوں میں کیسوں کی تاریخیں لینے گیا ہوا تھا۔ اور بر یسٹر صاحب مختلف عدالتوں میں کیسوں کی پیروی میں ایک عدالت سے  دوسری عدالت میں موکلوں کی فوج کے جنرل بنے مارچ کرتے کرتے بار روم میں تفریح کرنے ولائتی شراب سے اپنے تھکے دماغ کے  پھٹوں کو چمپی مالش کے لیے رک گئے تھے ۔ ادھرجونیئر کلرک دکھی زینب کو بار بار آ کے کہتا۔ ’’آپ کسی اور وقت تشریف لائے بر یسٹر صاحب کچہری میں بہت مصروف ہوتے ہیں‘‘۔ لیکن زینب نہ ہلی۔’’ مجھے انتظار کرنے دو ۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ کے منہ کا اگال ہمارے پیٹ کے ادھار کے مصداق  ہے ‘‘جونیئر کلرک کو بھی  زینب  کی بیچا رگی اور التجائی نظروں نے قائل  کرلیا۔ بلکہ نہ صرف بیٹھنے دیابلکہ چائے بھی پلا دی ۔ دکھی زینب کی اڑی اڑی رنگت ، الجھی زلفیں ، کن پٹی سے جھانکتے تین سفید بال اس کی مصیبت کا فسانہ کچھ نہ کچھ تو یہ کہہ رہے تھے۔ ہم دکھ درد کے مارے لوگ ۔ دل کا حال سنائیں کس کو۔ اتنے میں بر یسٹر صاحب تیزی سے  تیز ہوا کے جھونکے  کی  طرح  بڑے کمرے سے گزر کے اپنے کمرے میں چلے گئے۔ جونیئرکلرک  نے بر یسٹر صاحب کو قائل کر نے والے انداز میں دکھی زینب کا مرثیہ رقت سے  سنا دیا’’کہاں جاے گی زینب‘‘۔ بر یسٹر صاحب کے اچھے موڈپر سے مصائب کی چادر کو ہٹاتے ہوئے کہا ۔’’ چھوٹو رام ڈاکٹر کے آپریشن تھیٹر میں اور وکیل کے کمرے میں لوگ شہنائی سننے تو آتے نہیں ۔ مصیبت کی د لدل میں پھنسے لوگوں کو وہاں سے نکالنے کی قیمت ہی سے تو تمہاری تنخواہ نکلتی ہے‘‘۔ ’’جناب کبھی ایسی  قیمت                      شایدآپ کی قسمت کے جوت جگا دے۔ جناب آپ مجھے اس کیس کامنشیانہ بیشک نہ دینا ، شاید آپ کو دی ہوئی اجرت کی قیمت دکھائی کچھ دے لیکن اصل میں کچھ اور ہو ۔ آتے تو سبھی پریشان لوگ ہیں لیکن کئیوں کی پریشانیاں واقع  میں پریشان کن  ہوتی ہیں ان میں دبی چیخیں سنائی نہیں دیتی‘‘۔ بر یسٹر صاحب کچھ دیر چھوٹو رام کو دیکھتے رہے۔ اور اپنے کلرکوں کا موازنہ کرنے لگے۔ جونیئر اور سینئر کلرک میں کتنا فرق ہے۔ ’’ ہوں!اچھا اندر بھیج دو‘‘۔

دکھی زینب نے اپنے دکھ کی کہانی سنائی اور آخر میں کھوٹا روپہ نکال کر دکھاتے ہوئے کہامیرے پاس کیس لڑنے کے لیے یہ پھوٹی کوڑی ہے۔ بر یسٹر صاحب نے ہنستے ہوئے کہا ’’یہ تو روپیہ ہے‘‘۔ دکھی زینب نے کہا ’’مجھے پتہ ہے کہ یہ قیمت تو آپ کے صفائی کرنے والے بھی نہ لیں ۔ لیکن ہوسکتا ہےخاک   میں چھپی  چیز لاکھ  کی ہو ،اس کی قیمت  مادی اہمیت کے حامل نہ ہو ۔ اس سے آپ کو کسی اور شکل میں اس کی قیمت مل جائے گی۔ جس سے آ پ  کوئی  مادی شے نہ خرید سکیں ‘‘۔ بر یسٹر صاحب سوچ میں پڑ  گئے۔ چھوٹو رام کی باتیں۔ دکھی زینب کی معصومیت نے بر یسٹر صاحب کو قائل کر لیا ۔ بر یسٹر صاحب نے کھوٹا سکہ لے کر اپنے وکیلوں والے یونیفارم کےکالے کوٹ کی سائیڈ پاکٹ میں ڈال لیا جس میں عام طور پر ہاتھ ڈالے جاتے ہیں اور سنیئر کلرک کو بلا کر کہا مقدمہ تیار کیا جائے  کورٹ فیس اور دوسرے تمام اخراجات دفتر کے اکاؤنٹ میں سے ادا کیے جائے۔ سنیئر کلرک کے ماتھے پر غصے کی لکیریں ابھریں دل ہی  دل میں گالیاں دینے لگاایک اس کی فیس بھی گئی اور جھوٹ کے اخراجات بڑھا چڑھا کر بتانے کی کمائی تھی وہ گئی۔ اور جب اس نے کیس تیار کرلیا تو اس نے کیس سے پیسے بنانے کی ترکیب سوچی ۔ کیس شہر کے بہت ہی امیر ترین آدمی کے خلاف تھا ۔ اور مخالف وکیل کا کلرک اس کا ہم نوالہ اور ہم پیالہ بھی تھا ۔ اس نے مخالف وکیل کے کلرک سے ساز بار کر لی کلرک نے بھاری رقم کا مطالبہ کیا یہ کیس میں تم لوگوں کو جتوادیتا ہوں بیس ہزار کا مطالبہ کیا ۔ مخالف وکیل نے ہر شرط قبو ل کر لی کیوں کہ بریسٹر احسن کو ہرانے کا مطلب ہائی کورٹ کے پچیس فیصد کیس اپنے ہاتھ میں آنے کے مترادف تھا۔ مخالف وکیل اپنی پوری بھاری فیس بر یسٹر احسن کے کلرک کو دینے کوتیار ہوگیا۔ اور پوچھا کہ تم کیسے یہ کیس مجھے جتوا سکتے ہو۔ زیادہ سے زیادہ تم بر یسٹر صاحب کا دعویٰ مجھے لا دو گے۔ اس سے کیا فائدہ  ، وہ  تومیں عدالت سے بھی حاصل کر سکتا  ہوں۔مسلہ بر یسٹر صاحب  سےجرح کون کرے گا۔ بر یسٹر احسن تو عدالتوں کے جنگل کا شیر ہے جس کی دہاڑ کےآگے کوئی کھڑا نہیں ہوسکتا سنیئر کلرک نے اپنا ہاتھ دیکھاتے ہوئے کہا  ’’قسم سرکار کی بر یسٹر احسن کی دماغ کی شریانیں اس پْتلی کے دھاگوں سے بندھی ہیں جو میرے  اس ہاتھ کے اشارے پر ناچتی ہیں‘‘۔ سنیئر کلرک نے رشوت کے پیسے لے لیے اس وعدے کے ساتھ کہ بر یسٹر صاحب بحث کے دوران بحث نہیں کر سکیں گے۔ جب بر یسٹر صاحب دعویٰ لکھوا رہے تھے کلرک بڑی مسکراہٹ کے ساتھ بر یسٹر صاحب کی ہلتی ہوئی ٹانگ کو دیکھ کر خوش ہو رہا تھا۔ لیکن یک دم اس کی انگلیوں کو بریک لگ گئی ۔ ان ٹانگ تو ہلتی ہے جب یہ کرسی پر بیٹھے لکھوا رہے ہوتے ہیں۔ کمرہ عدالت میں تو بریسٹر صاحب جج صاحب کے روبرو کھڑے ہوتے ہیں۔ کھڑے ہونے کی صورت میں تو ان کی ٹانگ متحرک نہیں ہو سکتی ۔ کلرک کو رقم ڈوبتی نظر آنے لگی۔

عدالت کی تاریخ آن پہنچی ۔ کیس استقرار حق کا تھا۔ سیٹھ زری والا انکاری تھا کہ آٹھ سال کا بچہ اس کا نہیں ہے۔ بر یسٹر صاحب کا موقف تھا بچہ سیٹھ زری والے اور زینب  کا ہے جب بر یسٹر صاحب کیس کے لیے بحث کر رہے تھے تو کلرک کی نظریں صاحب کے پاوں اور ٹانگوں پر تھیں کہ وہ متحرک نہیں ہیں۔ لیکن وہ تو کھڑے تھے۔ اس حالت میں ٹانگ اور پیربلکل نہیں ہل رہے تھے۔ کلرک پریشان ہوا کہ اس کا کلیہ غلط نکلا ۔ لگا نائی کو کوسنے۔ لیکن اس کی نظر پیروں سے ٹانگوں، پھر ٹانگ اور ٹانگوں سے اوپر پہنچی تو بر یسٹر صاحب کے ہاتھ کوٹ کے اند رونی بٹن جسکا دھاگو ں سے بٹی ہوئی پتلی سی ڈوری سے لٹکتا  ہوابٹن تھا۔ بر یسٹر صاحب کے ہاتھ اس بٹن سے کھیل رہے تھے۔ اور بپھرے ہوئے چیتے کی طرح مخالف وکیل پر حملہ آور تھے۔ مخالف وکیل کے دیے ہوئے جعلی نکاح نامے کو مستر د کر رہے تھے۔ کیوں کہ بچے کی پیدائش طلاق کے کافی عرصے کے بعد ہوئی تھی اور زینب کے کردار پر بھی کیچڑ اچھال رہا تھا۔

بریسٹر صاحب نے اصلی کاغذات پیش کیے اور نکاح خواں کی بے ایمانی کی ہسٹری پیش کر دی ۔ کہ فلاں کیس میں اسی طرح کے کیس میں نکاح خواں کو دو سال کی جیل بھی ہوچکی ہے۔ فاضل جج نے اگلی بحث کی تاریخ کا اعلان کیا۔ بر یسٹر صاحب کا کیس خاصہ مضبوط تھا۔

جیسےہی مخالف پارٹی کا کلرک کمرہ عدالت سے باہر نکلا تو اس نے بر یسٹر صاحب کے کلرک کو علیحدہ لے گیا۔ اسے دھمکی دی کہ وہ نہ صرف پیسے واپس لے گا بلکہ اس کا بھانڈا بھی پوری کچہری میں پھوڑے گا۔ کلرک نے بڑے تحمل سے اسے جواب دیا ’’ابھی حوصلہ رکھو بر یسٹر صاحب بحث نہیں کر سکیں گے۔    قسم سرکار کی  !  اگلی تاریخ والے دن بحث سے پہلے  میں ان کی ٹانگ کاٹ دوں گا‘‘۔ ہنستے ہوئے و ہ چلاگیا۔ بحث کی تاریخ والے دن کافی مجمعہ اکھٹا تھا کیوں کہ سیٹھ زری والا خاصہ مشہور آدمی تھا ۔  جب بحث شروع ہوئی سیٹھ زری والے کے وکیل نے بچہ کو عدالت میں پیش کر نے کا مطالبہ کیا ۔ آٹھ سال کے بچہ کو عدالت میں پیش کیا گیا بچہ کی ماں زینب بچہ کے ساتھ کھڑی تھی  وکیل نے جج صاحب سے کہا ’’میں صرف آپ کو ہی نہیں پوری عدالت میں حاضر مجمعہ کو دعوت دیتا ہوں اس بچہ کو غور سے دیکھیں‘‘ اور سیٹھ زری والے کو بلایا گیا  ’’اب سیٹھ صاحب کو بھی دیکھیں کیا آپ کو ان کی شکلوں میں کوئی مماثلت نظر آتی ہے؟ ‘‘سیٹھ صاحب سانولے رنگ کے تھے۔ نہ کان ، نہ ناک ، نہ رنگ کچھ بھی بچہ کا سیٹھ صاحب سے میل نہیں کھاتا تھا۔ عدالت کے کمرے میں بھنبنھاہٹ شروع ہوگئی کہ بچہ کی شکل بلکل نہیں ملتی بچہ سیٹھ صاحب کا نہیں ہے۔ بر یسٹر صاحب دفاع کے لیے اٹھے اور جج صاحب کے سامنے کھڑے ہوئے ۔

غیر ارادی طور پر بٹن کی طرف ہا تھ بڑہایا تو بٹن  وہاں سے دھاگے سمیٹ غائب تھا۔ کلرک نے جب بر یسٹر صاحب کی زبان پر تالے لگے دیکھے تو اس کی کھسیانی ہنسی دبی آواز میں نکلی اوراس نے اپنی جیب میں بٹن اور قینچی کو محسوس کیا۔ بر یسٹر صاحب کو جج نے اور مجمعےنے دیکھا بر یسٹرصاحب کے ماتھے پر پسینے کی  دو بوندے ابھریں، رومال لینے کے لیے جب جیب میں ہاتھ ڈالا تو زینب کا دیا ہوئے سکے کو ہاتھ میں محسوس کیا۔ سکہ ان کی انگلیوں میں کھیلنے لگا ۔  سکے سے کھیلتی انگلیاں جیسے دماغ  کو امرت دھارا پلا رہی تھیں ،بر یسٹرصاحب کا  مرجھایا ہو اچہرہ پھول کی مانند کھل اٹھا۔ان کی دماغ کی شریانوں میں  خون  گردش کرنے  لگا۔ اس نے سیٹھ زری  والے کو غور سے دیکھا کچھ قدم آگے بڑھے اورسیٹھ زری والے سے سوال کیا ۔

’’سیٹھ صاحب آپ کے کتنے بچے ہیں ؟‘‘سیٹھ صاحب نے جواب دیا ’’میرا کوئی  بچہ نہیں ہے ‘‘۔ ’’یہ آٹھ سال کا بچہ اسے ذرا غور سے دیکھے‘‘ سیٹھ صاحب نے کہا ’’نہیں یہ میرا بچہ نہیں ہے، مجھے اسے دیکھنے کی کوئی  ضرورت نہیں‘‘ ۔ ’’لیکن اتنا بتادیں بچہ پیارا ہے یا نہیں ‘‘سیٹھ صاحب نے کہا ’’پتہ نہیں ‘‘مخالف وکیل نے مداخلت کی یہ مقدمے سے مطابقت رکھتا سوال نہیں ہے۔ بر یسٹرصاحب کے ہاتھوں میں سکہ متواتر انگلیوں کے گرد گھوم رہا تھا۔ بر یسٹرصاحب نے معافی مانگ لی ۔ ’’ بعض    اوقات  قانون  کے شاستر کھنگالنے سے وہ موتی نہیں  ملتا  جوباپ  کے عتاب کی عینک سے اوجھل ماں کی کوکھ میں چھپا ہو،    اچھا چلیے ایک اور سوال کا جواب دیجےآپ کی جائیداد کتنی ہے‘‘’’ میری کپڑے کی چار ملیں ہیں‘‘ اورسینہ پھلاتے ہوے کہا’’ میں ملک میں سب سے زیادہ زری کا کام کرتا ہوں ہماری ملوں کا کام بیرون ملک بھی جاتا ہے۔ اور ملکہ برطانیہ کے گارڈز کے کندھوں پر جو سونے کی تاروں کا کام ہے وہ بھی ہم ہی کرتے ہیں ‘‘۔ بر یسٹرصاحب نے پوچھا  ’’آپ نے اس کاروبار کو کامیاب کرنے میں کتنی محنت کی ہے؟ ‘‘’’سیٹھ زری والے نے بڑے فخر سے کہا میں اس بچہ جتنا تھا جب میں کمپنی سرکا رکی ایک مل میں مزدوری کرنے آیا تھا  اوراب خدا کے فضل سے چار ملوں کا مالک ہوں ‘‘۔ بر یسٹرصاحب نے سکے کو انگلیوں میں گھماتے ہوئے پوچھا ۔ ’’سیٹھ صاحب کبھی آپ نے سوچا آپ کے بعد ان ساری ملوں کا کیا ہوگا؟۔ آپ کی عمر بھر کی محنت کو یا تو سرکار لے جائے گی یا آپ کے کارندے جو آپ کی لمبی عمر کی نہیں آپ کےمرنے کی دعا ئیں مانگتے ہیں ۔ کیا آپ کواپنے کاروبار اور پراپرٹی کا وارث نہیں چاہیے‘‘۔ مخالف وکیل نے اعتراض کیا  ’’فاضل جج صاحب  بر یسٹر  صاحب جذباتی فقروں سے قانون کے بنائے ہوئے قوائد پر پردہ ڈال رہے ہیں اور اصل معاملہ کا  رخ   ایموشنل بلیک میل کر کے میرے کلائنٹ کو گمراہ کر رہے ہیں  عدالت کا قیمتی وقت برباد کر رہے ہیں یہ فلم یاتھیٹر نہیں جہاں تماشاہوں سے تالیاں بجوانی ہو ں یہ سنگیں وراثت کا کیس ہے‘‘۔ بر یسٹرصاحب نے جیب سے سکہ نکالا اور جج صاحب کو پیش کیا ’’جناب جج صاحب اس سکہ کو غور سے دیکھیے ‘‘فاضل جج نے متعلقہ سکے کے اوپر پڑی لکیر  اور گنگ ششم کی آدھی  ابھری  ہوئئ  تصویر تھی ۔ جج نے کہا ۔’’ واقعہ یہ سکہ بہت مختلف ہے ‘‘ سکہ واپس لیتے ہوے بر یسٹرصاحب  نے کہا’’اس سکے پر   برطانیہ کے  بادشاہوں  کی ٹصویریں ور اثت در وراثت  ابھری  ہوئی ہیں اس سکہ کی اہمیت صرف اور صرف اس دنیا میں چند لوگوں کو ہوگی جو مختلف سکوں کی قدر پہچانتے ہیں  شاہی  خاندان  کے وارث یہ اْن کے لیے بہت اہم ہے لیکن باقی کی دنیا کے لیے یہ بے کار ہے۔کوئی بھی دوکان دار اس سکے کے بدلے میں دودھ ،سبزی یا آٹا دینے کے لیے تیار نہیں ہوگا ،اس کی قیمت  تو صرف کوئی خاص آدمی ہی ادا سکے گا ‘‘ سکہ   بریسٹرصاحب نے سیٹھ صاحب کو بھی پیش کیا ۔ ’’ ، یہ وہ لعل ہے جس کی پہچان یا تو ماں کر سکتی ہے یا باپ ۔ باقی دنیا کے  لیےیہ لعل صرف لال رنگ ہی ہے۔ میں بچہ کو پھر عدالت میں پیش کرنے کی درخواست کروں گا۔ میں جج صاحب سے التجا  کرتا   ہوں کہ  مہربانی  فرما کر  اس بچے کو  بہت غور سے دیکھیں‘‘سب عدالتی مجمعہ اور جج صاحب بچہ کو دیرتک  غور سےدیکھتے رہے اس دوران بچہ نے چھ بار اپنے سر کو جھٹکا دیا ۔ اس کے منہ سے ایک دفعہ رال ٹپکی جسے زینب نے رومال سے پونچھ دیا ۔ بر یسٹرصاحب نے درخواست کی کہ سیٹھ صاحب کو بھی اسی بچہ والی جگہ پر کچھ  دیر کے لیے کھڑا کیا جائے۔ وہ اسی جگہ پر کھڑے  ہوئے اور ان کے سرنے  بھی دو مرتبہ بلکل بچہ کی طرح جھٹکا لیا ۔ بر یسٹرصاحب نے فاضل جج کو متوجہ کیا  ’’می لارڈ آپ نے کسی حرکت کا نوٹس لیا ۔ سر کا جھٹکنا بہت ہی موروثی ہے یہ اس کی دلیل ہے کہ ان کا آپس میں خون کا رشتہ ہے اور یہ جھٹکا ہی اس بچہ کو ‘‘جیب سے سکہ نکالتے ہوئے جج صاحب کو دیکھاتے بولا ’’اس سکے کی طرح منفرد کرتا ہے۔فطرت  کی کوکھ  میں پلتا ہوا یہ سکہ  اس مشینی  ٹکسال کے نکلے ہوے دھات کے سکے  سےبہت  محتلف ہے ، دھات کا سکہ اگر آج کھوٹا ہے تو ساری عمر کھوٹا  ہی رہے گا لیکن  فطرت اپنے تیور بدلتی ہے  عمر کے ساتھ اگر اس بچے  میں  کوئی کمی یا خرابی ہے جو وجہ بن رہی ہے   قبول نہ کرنے کی وہ  ہمیشہ  نہیں رہنے والی سیٹھ صاحب وقت اور سائنس بہت بڑے استاد    ہیں جو بیماریاں کل تھیں آج نہیں ہیں ‘‘۔

فاضل جج نے سامنے رکھے ہوے مقدمے کے کاغذات پر فیصلہ لکھتے ہوے،  وراثت  تمام حیاتاتی اور جنیاتی پہلوں پر لاگو ہوتی ہے، حیاتات  میں وراثت   کی صورت  میں والدین  سے براہ راست  خصوصیات  حاصل کرنے کا حق ہے ۔زینب کے حق میں فیصلہ سنا  دیا کہ ’’یہ بچہ سیٹھ زری والے کا ہے‘‘۔

فاضل جج فیصلہ سناتے  ہی کرسی سے اٹھ کھڑے ہوےاور ریٹائرنگ روم میں چلے گئے، جج صاحب کے اٹھتے  ہی سواے ریڈر سٹاہنو گرافراور کارندوں کے کمرہ  عدالت  خالی ہوگیا لیکن سیٹھ زری والا زینب اور بچہ وہیں کھڑے رہے، سیٹھ زری والے کی آنکھوں میں شرمندگی کے آنسو تھے۔زینب  نے شکرانے  کے لیے اپنے دونوں ہاتھ اٹھاے اس کے ہاتھوں میں سکہ  آن گرا      ،زینب نے اوپر دیکھا تو چھت خالی تھی، دائیں دیکھا تو بریسٹر صاحب عدالت  کے دروازے کی دہلیز پر ایک قدم باہر ایک اندر اور مڑ کر دیکھا تو چٹکی میں زینب سکہ  تھامے کھڑی تھی۔ سکے پر پڑی  لکیر کو دیکھا اسی وقت بیریسٹر صاحب  نے مسکرا  کر اونچی  آواز میں کہا’’کھوٹا سکہ‘‘ لڑکے کے  منہ سے رال ٹپکنے لگی  سیٹھ زری  والے نے رومال سے  بیٹے کی رال  پونچھی اور اس کی گردن کو بھی ہلکا سا جھٹکا لگابیٹے کو گود میں اٹھا کر ’’کھوٹا سکہ کھرا بیٹا‘‘

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...