Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

نقش فریادی جولائی تا ستمبر 2022 |
پنجاب لٹریری فورم
نقش فریادی جولائی تا ستمبر 2022

فینٹسی کولاژ
Authors

ARI Id

1695778069724_56118359

Access

Open/Free Access

Pages

۱۰۲

فینٹسی کولاژ

ضیغم رضا،پی ایچ ڈی اسکالر

جب مجھے اپنی اس صلاحیت کا ادراک ہوا کہ میں کسی بھی کتاب کے صفحے کو ایک نظردیکھ کر اس کے متن کو حفظ کرسکتا ہوں تو میں نے اپنا تمام تر وقت مطالعے میں صَرف کرنا شروع کردیا۔ جو صفحہ جہاں سے بھی ہاتھ لگا میں نے حفظ کرڈالا۔ اپنے جاننے والوں کی نجی لائبریریوں کو چند دنوں میں ختم کرکے میں نے شہر کا رُخ کیا۔ سرکاری و نجی لائبریریاں؛ جہاں تک بھی میری رسائی ہوئی؛ وہاں موجود کتابیں اب میرے حافظے میں بھی محفوظ ہوچکی تھیں۔ دنوں؛ ہفتوں اور مہینوں کی بے چینی کے بعد بالآخر وہ دن آگیا جب مجھ پہ انکشاف ہوا کہ اب پڑھنے کو کچھ نہیں بچا۔ میں نے تمام لائبریریوں میں موجود تمام تر کتابیں اپنے ذہن میں محفوظ کرلی تھیں۔

اُس رات میں اطمینان سے سویا کہ مزید پڑھنے کی تڑپ اب بالکل ختم ہوچکی تھی۔ رات کے کسی لمحے مَیں بیدار ہوا تو مجھے پانی کی پیاس محسوس ہوئی۔ ہونٹوں پہ زُبان پھیرتا میں اپنی چارپائی سے اُترنے ہی لگا تھا کہ مجھے یاد آیا؛ تاریخ میں ایک سے زائد اشخاص کو چارپائی سے اُترتے ہوئے سانپ نے ڈس لیا تھا۔ میں نے اپنے آپ کو وہیں روکا اور دائیں طرف سے اُترنے کی بجائے بائیں طرف سے زمین پہ پاؤں رکھنا چاہے۔ اس سےپہلے کہ  میرے پاؤں زمین پہ ٹِکتے مجھے یاد آیا کہ ایک شخص نے چارپائی کے بائیں طرف سے زمین پہ پیر اُتارے تھے مگر پاؤں ٹِکنے سے پہلے ہی وہ اوندھے منہ گرا اورموت کے منہ میں چلاگیا تھا۔۔ میں نے اپنے پاؤں سمیٹے اور اپنی چارپائی کا ہر حصہ آزمایا کہ شاید میں زمین پہ پاؤں رکھ سکوں مگر بے سود۔۔۔ میری یادداشت ماضی میں ہوئی کسی نہ کسی موت کو  یاددلا کر ؛ چارپائی سے اترنے کے میرے حوصلے کو پست کردیتی۔  طویل تر رات اور پیاس کی شدت میں لمحہ بہ لمحہ اضافے نے مجھے اس قدر جھنجھلاہٹ میں مبتلا کردیا کہ میں یہ سوچنے پہ مجبور ہوگیا؛ اپنی یادداشت میں محفوظ تمام کتابیں؛ ایک لمحے کے لیے سہی؛ کھرچ ڈالوں۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ مجھے کوئی بھی ایسا شخص اپنے حافظے میں موجود کتابوں سے برآمد ہوتا نظر نہ آیا جس نے میری طرح دنیا کی تمام کتابیں حفظ کی ہوں اور پھر اپنے حافظے سے چھٹکارا بھی پایا ہو

غار میں سوئے گروہ کا میں ساتواں فرد ہوں۔۔ آٹھواں۔۔ نواں۔۔۔ یا۔۔ مجھے ٹھیک سے یاد نہیں۔ ہم تو طویل سفر کے بعد تھکاوٹ سے چور کچھ وقت کے لیے سوئے تھے پر جب میں بیدار ہوا تو میری انتڑیاں شدتِ بھوک کا پتہ دے رہی تھیں۔ اپنے ساتھیوں کو بے آرام کیے بغیر؛ اپنی جیب میں سِکوں کی موجودگی کا یقین کرتے ہوئے میں غار سے باہر آیا تھا۔ غار سے باہر کا منظر میرے لیے یکسر اجنبی تھا۔ میں ایک دُکاندار کے پاس؛ کھانے کے لیے کچھ خریدنے اور اُس جگہ کی یوں اچانک کایاکلپ سے متعلق پوچھنے گیا۔

دُکاندار کو میں نے جونہی چند سِکے تھمائے؛ اُس نے عجیب نظروں سے مجھے دیکھا۔ وہ کچھ کہہ  رہا تھا جو سمجھنے سے میں قطعی قاصر تھا۔ پھر میرے اردگر کچھ لوگ جمع ہوئے اور اس سے پہلے کے میں صورتِ حال سمجھ پاتا میرے بازو کمر کے ساتھ کَس کے باندھ دیے گئے۔ ایک کمرے میں دھکیل کر مجھے ایک ایسی جگہ لایا گیا جہاں غار کی نسبت کچھ کم اندھیرا تھا۔  مجھ سے لاتعداد سوال پوچھے گئے جبکہ بہت سے سوالوں سے میری لاعلمی کے سبب مجھے گھونسے بھی رسید کیے گئے۔ وہاں موجود ایک آدمی کے پاس قلم تھا جو وہ ایک کاغذ پہ گھسیٹ رہا تھا۔ اُسے  ایک اور شخص لکھنے کی ہدایت دے رہا تھا:

یہ ایک غیر مُلکی ایجنٹ ہے جو ایک گروہ کے ساتھ ہمارے مُلک کی سرحد میں داخل ہوا۔ ان کے ساتھ ایک کُتا بھی ہے جس کو ساتھ رکھنے کا مقصد سنگین ہوسکتا ہے۔ اجنبی  کی زُبان پَرکھ لی گئی ہے جبکہ سِکوں سے اس کے مُلک اور یہاں ورود کے مقاصد کا سُراغ جلد لگا لیا جائے گا۔"

میرے اس سوال پہ کہ میں اس وقت کہاں ہوں مجھے بس ایک ہی جواب ملا؛ تم اٹھا لیے گئے ہو۔۔۔

"کہاں؟ آسمان پہ؟"

میں نے بے چین ہوکر پوچھا۔

مگر اس سے پہلے کہ میں کچھ اور سُن پاتا میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا؛ بمشکل میں نے اپنے ہاتھ زمین پہ ٹِکائے۔

میں نے یہ احتیاط ضرور برتی کہ وہ دُکانیں جن کا حساب کتاب کمپیوٹر پہ تھا؛ وہاں سے پیسے نہیں لیے۔ چھوٹے شہر کی بڑی دُکانیں اور بڑے شہروں کی چھوٹی دُکانیں میرا خاص ہدف تھیں۔ ایک روپے سے لے کر دس روپے تک بغیر کوئی سُراغ چھوڑے میں نے ہر دُکان سے پیسے چُرائے۔ بالکل! یہ ایک چوری ہی ہے مگر میں نے اسے اپنا حق سمجھ کر لیا کہ ان روپوں سے اُن دُکانداروں کو کوئی خاص فرق نہیں پڑنے والا تھا۔ ریزگاری کا ایک ڈھیر جونہی میرے سامنے جمع ہوا تو میں نے ان سکوں کو چھوٹے نوٹوں میں اور چھوٹے نوٹوں کو بڑے نوٹوں میں بدلنے کے لیے اپنے غائب ہونے والے ہرکارے کو دوڑایا۔ یہ ہرکارا میرے تابع کیسے ہوا؛ ایک راز ہے اور ضروری نہیں کہ میں مجسم سچائی بن کے خود سے جُڑے تمام راز کھول دوں۔ وہ جب واپس آیا تو میرے سامنے ڈھیر سارے نوٹ بکھیر دیے۔ اتنے سارے نوٹ دیکھنا تو ایک طرف میں نے کبھی سوچے بھی نہ تھے۔

اپنے کمرے میں یہ ڈھیر ساری دولت منتقل کرنے کے بعد میں نے سوچا؛ اگر یہی ایک دو روپے ہر دکاندار روزانہ کی بنیاد پہ ادا کرنا شروع کردے تو کیا دُنیا کو آسودہ رکھنا ناممکن رہے گا؟ لیکن مجھے دنیا کی کیا پڑی تھی؛ فی الوقت تو اپنے پاس جمع ہوچکی ڈھیر ساری دولت کو محفوظ رکھنے؛ اس کے زریعے اپنی تمام تر خواہشات کی تکمیل اور اردگرد کے لوگوں کو یہ بھنک دیے بغیر کہ میں نے یہ پیسے کہاں سے حاصل کیے؛ ایک مطمئن زندگی بسر کرنے کی منصوبہ بندی اہم تھی۔ اپنے تئیں تمام تر پیش بندی کے بعدمیں گھر سے باہر نکلا کہ دولت کے بعد اپنی بدلی ہوئی آنکھوں سے دُنیا کو دیکھ سکوں۔ گھر سے نکل کر میں جونہی گلی میں آیا  تو محلے کی دُکانوں کے سامنے ایک فقیر صدا لگارہا تھا۔۔۔

"ﷲ کے نام پہ دے دو؛ پانچ روپے کا سوال ہے بابا؛ دس روپے دے دو ﷲ کے نام پہ۔"

میں اپنے آپ کو ہر روپ میں ڈھال سکتا تھا۔ طرح طرح کے پرندوں میں اپنا آپ منتقل کرکے میں نے فضاؤں کی سیر کی۔ میں نے جانور کے روپ میں یہ جانا کہ انسانوں کے سلوک سے وہ کس طرح متاثر ہوتے ہیں۔ زمین پہ رینگتے بے شمار کیڑوں میں اپنی روح منتقل کرکے میں نے زمین پہ ہوتی ہر حرکت کو قریب سے محسوس کیا۔حسین ترین خواتین کی خواب گاہوں میں ایک چیونٹی کی طرح رینگ کر داخل ہونا اور ایک انسان کی طرح وصل کی لذت سے سرشار ہونا میرے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔

پہلے پہل میں راتوں کو بہروپ بھرتا تھا حتیٰ کہ صبح جب والدہ مجھے نیند سے جگاتی تو وہ نہ جان پاتی کہ میں کچھ دیر پہلے ہی اپنے اصلی روپ میں لوٹ کرسویا ہوں۔ رفتہ رفتہ میں دن کے اؤقات میں بھی گھر سے غائب رہنے لگا۔ میری غیر حاضری کووالدین اور بہن بھائیوں نے غیر محسوس انداز میں قبول کرنا شروع کیا تو میں کئی کئی دنوں تک گھر سے غائب رہنے لگا۔  جھوٹ کیوں بولوں؛ اب میں کوئی انسانی عمل بھی غیر انسانی بہروپ کے بغیر سرانجام دینے سے قاصر تھا۔ نتیجتاً پہلے گھر بار چُھٹا پھر انسانی روپ اور بالآخر میں یہ بھول بیٹھا کہ میرا اصل روپ کونسا ہے۔ یادداشت پہ بھی کیا زور دیتا کہ یادداشت کی موجودگی بھی اب میرے لیے دور پَرے کا قصہ معلوم ہوتی تھی۔ ایک دن میں گلہری کے روپ میں امرود کے درخت پہ بیٹھا پھل کھا رہا تھا کہ ایک بوڑھی عورت لاٹھی ٹیکتی ہوئی گزری۔ اس کی ایک کٹی ہوئی انگلی سے میں نے اندازہ لگایا کہ وہ میری ماں ہے جو اب بینائی کھو چکی ہے۔ میں نے چھلانگ لگائی اور اس کے قدموں میں لوٹنے لگا مگر اس سے پہلے کہ میں اپنے اصلی روپ میں والدہ کو اپنی موجودگی کا یقین دلاتا؛ لاٹھی کے ایک زور دار جھٹکے سے اُس نے مجھے پَرے پھینک دیا۔اس ٹیکنالوجی کے چلن کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا۔ واہمے تو تھے مگر اشتیاق اس قدر تھا کہ لوگ اس جِدت سے مستفید ہوئے بغیر رہ نہ پاتے تھے۔ اس سے پہلے تو یہ تھا کہ موبائل سکرین پہ کسی دوسرے شخص کی حالیہ حرکات و سکنات کا مشاہدہ کیا جاسکتا تھا۔ اب یہ ہوا کہ اپنے سامنے بیٹھے شخص کا لمس بھی محسوس کیا جاسکتا تھا۔ ہر شعبہء زندگی پہ اس نئی ٹیکنالوجی کے اثرات دوررَس ثابت ہوئے۔ باس؛ گھر بیٹھے سکرین کے سامنے اپنا قلم لاکر  لائن پہ موجود سکرین کے سامنے موجود فائل پہ دستخط کرسکتا تھا۔ گھروں سے دوربیٹھے بیٹے اپنی ماؤں کے ہاتھ کا کھانا کھاسکتے تھے ؛ ماں بلائیں لے سکتی تھی۔ ڈاکٹر ہاتھ بڑھا کر اپنے گھر میں موجود مریضوں کی نہ صرف نبض دیکھ سکتا تھا بلکہ ابتدائی دوائیوں کی چِٹ بھی تھما سکتا تھا۔

سب سے زیادہ فائدہ اُن عاشقوں کو ہوا جو اپنے محبوب کی متحرک و جامد تصاویر دیکھ کر دِل مسوس کے رہ جاتے تھے۔ اب یہ ممکن تھا کہ سوتے ہوئے اپنے من بھاتے شخص کو تکیے کی بجائے اپنے بازو پہ سُلایا جاسکے۔۔ ابتدائی طور پر تو بوس و کِنار مگر رفتہ رفتہ حالتِ وصل تک پہنچنے کی سعی بھی شدت اختیار کرگئی۔۔۔ بستر میں گھر والوں سے چھپ کر مخصوص اعضا کے سامنے موبائل سکرین لے جا کر لائن پہ موجود جنسِ مخالف کے مخصوص عضو کا لمس حاصل کرنا اب مشکل نہ رہا تھا۔

جہاں اس ٹیکنالوجی نے بہت سی سہولیات انسانی زندگی میں داخل کردی تھیں وہیں نِت نئے واہمے بھی وقتاً فوقتاً  سر اٹھاتے رہتے۔ کوئی خوفزدہ تھا کہ اُس کا مخالف اجنبی لائن سے اُسے سکرین کے سامنے لاکر کسی متعفن شے کو اس کے جسم پہ نہ پھینک دے۔ کاروباری حضرات کو اندیشہ رہتا کہ سودے بازی میں دوست پارٹی کی بجائے کوئی مخالف پارٹی فائدہ نہ اٹھا لے۔ عاشقوں کے لیے بھی یہ تشویش دردِ سر تھی کہ موجودہ محبوبہ کے روپ میں کوئی سابقہ محبوبہ انہیں دھوکے سے لائن پہ لے کر انہیں  جسم کے کسی خاص حصے سے محروم نہ کردے۔۔۔ لیکن تمام تر اندیشوں کے باوجود یہ ٹیکنالوجی لوگوں کی زندگی میں اس قدر دخیل ہوچکی تھی کہ اس سے کنارہ کشی اب چاہ کر بھی ممکن نہ تھی۔

میں جہنم کے دروازے پہ گیا جہاں سے دوزخ میں جلتے لوگوں کی چیخ و پکار صاف سُنائی دے رہی تھی۔ مجھ سے رہا نہ گیا؛ میں نے دربانوں سے گزارش کی کہ جہنم کے مکینوں کو اس اذیت سے نجات دی جائے۔ انہوں نے دوزخ کے لیے ایندھن مانگا تو میں نے اپنا ایک بازو دے دیا۔ کچھ عرصے بعد مجھ سے دوبارہ ایندھن طلب کیا گیا تو میں نے اپنا دوسرا بازو دے دیا۔ اسی طرح دونوں پیر؛ پھر ٹانگیں حتیٰ کہ دونوں آنکھیں بھی میں نے دوزخ کے ایندھن کے لیے عطیہ کردیں۔

خلقت کو ابدی جنت میں منتقل کرنے کے بعد؛ بے شک مجھےبیشتر جسمانی اعضا سے ہاتھ دھونا پڑا مگر میں مطمئن تھا ۔ اپنا آپ دوزخ میں جھونک کر دوسروں کو اذیت میں دیکھنے کی اذیت سے چھٹکارا پالینا کوئی چھوٹی کامیابی نہیں تھی۔ ایک طویل عرصے تک مجھ سے ایندھن طلب نہ کیا گیا تو میں مزید مطمئن ہوگیا کہ اب میرا دھڑ اور آنکھیں سلامت رہیں گی۔ پھر میں نے سوچا کیوں نہ جاکر معائنہ کیا جائے؛ جنت کے مکینوں کو مسرور ومطمئن دیکھ کر اپنی دی ہوئی قربانیوں پہ فخر کرنے کا یہی بہتر موقع تھا۔

میں خود کو گھسیٹ کر جب دوزخ کے دروازے پہ پہنچا تو وہاں عجب ہی عالم تھا۔ میں سُن تو نہیں سکتا تھا مگر لوگوں کو دیکھ کر ان کی بے چینی کا بخوبی اندازہ کرسکتا تھا۔ میں نے دربانوں سے بات کرنے کی کوشش کی۔ کئی بار میرے متوجہ کرنے کے باوجود بھی جب انہوں نے  مجھے نظرانداز کیا تو میں نے جنت کا رُخ کیا ۔ وہاں دربان پُرسکون بیٹھے تھے جو میرے وہاں پہنچنے پہ بمشکل ہی میری طرف متوجہ ہوئے۔ میں نےجب اُن سے بازپُرس کی کہ میرے ایندھن فراہم کرنے کے باوجود دوبارہ خلقت کو دوزخ میں کیوں ڈالا تو وہ ہنسنے لگے:۔

"وہ تو ہم سے تھوڑی سی آگ لے کر گئے تھے کہ ہم دیکھنا چاہتے ہیں؛ آگ کیسی ہوتی ہے۔ اس کے بعددوزخ کی ساری آگ جنت میں کیسے منتقل ہوئی اور یہ دوزخ' جنت کیسے بنی ہمیں نہیں پتہ۔ بلکہ دوزخ کی دربانی بھی اب ہم نے انہیں پہ چھوڑ رکھی ہے۔"۔۔۔یہ کہتے ہی وہ اطمینان کے ساتھ اونگھنے لگے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...