Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

نقش فریادی جولائی تا ستمبر 2022 |
پنجاب لٹریری فورم
نقش فریادی جولائی تا ستمبر 2022

ممتا
Authors

ARI Id

1695778069724_56118360

Access

Open/Free Access

Pages

۱۰۶

ممتا

شاکر انور

سمندرنیلا اور پر سکون تھا اور دمام کا آسمان بادلوں سے پُر۔ میں بیقراری سے دھوپ کے ایک ٹکڑے کی تلاش میں ہاف مون بیچ کے خوبصورت سبز گھانس کے روش پر اِدھراُدھر گھوم رہاتھا۔کاش! کوئی ایسی پر سکون جگہ مل جائے جہاں پر میں اپنے ناول کے خاتمے پر کام کرسکوں۔

دور مغربی ساحل کے ایک گوشے میں کھجور کے درختوں سے چھن چھن کر آتی سورج کی ریشمی چادر سی تنی نظرآئی۔ میں تیزی سے اس جگہ گیا مگر وہاں پر سیاہ عبایا پہنے ایک نوجوان عورت بے بی اسٹرولر پر جھکی ہوئی لیٹے ہوئے بچے کو دھوپ سنکاتی، مسکراتی ہوئی باتیں کررہی تھی۔کبھی کبھی وہ بے ساختہ ہنس دیتی۔ جیسے اس کے بچے نے کوئی معصوم سی شرارت کی ہو، وہ شاید مصری یا لبنانی ہوگی۔ نہایت گوری، گلابی کالی آنکھوں والی۲۳، ۵۳ سالہ دوشیزہ جوسرخ پھولدار رومال سے سر ڈھانپے ہوئی تھی۔ وہ جس جگہ کھڑی تھی وہ میری اوّلین پسند تھی۔ ہاف مون بیچ سے کچھ دوری پر واقع نہایت ہی پراسرار خاموشی سے گھرا کنارا جہاں خوبصورت سناٹا میرے خیالوں کو مہمیز کرتا۔

 اس نے اچانک پلٹ کر میری طرف دیکھا۔ ایک ادھوری سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر تھی……مگر شاید وہ مکمل تھی۔ یہ میرا گمان تھا اور پھر اسٹرولر کو دھکے دیتی آگے بڑھ گئی۔ جیسے کہہ رہی ہو۔ آجاؤ، اپنی مخصوص جگہ مسٹر ادیب۔میں نے اکثر شام کے وقت اسٹرولر پر بچے کو گھماتے ہوئے دیکھاتھا۔ وہ ہمیشہ اکیلی ہوتی اور ساحلِ سمندر کے کنارے پر بنے ہوئے ٹریک پر اِدھر اُدھر گھومتی رہتی۔ بے بی اسٹرولر کے دائیں جانب پانی کی چھوٹی سی رنگین بوتل ہوتی اور دوسری جانب چند کھلونے‘ اوپر کا گلابی حصہ نیچے کی طرف جھکا ہوتا۔اسے ضرور اس بات کا خیال آیا ہوگا کہ میں ہمیشہ بلکہ اکثر اس خاص گوشے میں بیٹھ کر لکھنے میں مشغول رہتا ہوں۔ سب کچھ بھلا کر بلکہ خود کو بھی بھول جاتا ہوں شاید اسے اس بات کا بھی ادراک ہوگا کہ ایک ادیب کے لیے مخصو ص جگہ پر لکھنا یا سوچنا کتنا اہم ہوتا ہے یہ صرف میری سوچ تھی اور بس!

شام بھیگ رہی تھی‘ سبز درختوں سے ٹہلتی ہوئی دھوپ سمٹ کرسمندر میں اتر رہی تھی، کبھی کبھی دھوپ، محبت کی طرح خوشگوار لگتی ہے بنا بتائے ہی دل میں اُتر جاتی ہے۔میں گھانس پر کچھ اور آگے سرک کر دھوپ کے آخری سرے تک چلا گیا۔ سامنے سمندر تھا، وسیع، پر وقار اور نیلا۔ بالکل آسمان کی طرح۔ یا شاید آسمان، سمندر کی طرح تھا۔ وسیع، نیلا اور پُر وقار۔ مجھے ہمیشہ حیرت ہوتی کہ اس سمندر میں طغیانی کیوں نہیں تھی، کوئی بڑی سرکش لہر بھی نہیں تھی۔ بانجھ سمندر۔ ایک لمحے کے لیے میں نے سوچا،مگر ایسا نہیں تھا، اس کی لہروں میں کسی معصوم بچے کی دلنشیں مسکراہٹ پنہاں تھی جو کنارے تک آکر واپس لوٹ جاتیں۔

وہ پارک کے ڈبل ٹریک پر دور تک اس طرح اسٹرولر لیے بار بار بچے کو جھک کر چومتی، باتیں کرتی آگے بڑھ رہی تھی۔ پھر آخری کنارے پر رک کر پشتے سے لگ کر نیچے سمندر کو تکنے لگی، دیر تک وہ ویسے ہی کھڑی رہی۔ وہاں پر سناٹا تھا، سناٹا بھی نہیں بلکہ ایک بے چین سی خاموشی بالکل میر ے جذبوں کی طرح۔ پھر مڑی اور واپس اس ٹریک پر میری طرف آتی نظر آئی۔ میں قلم کو اپنے دانتوں تلے دباتے ہوئے کچھ سوچتے ہوئے اس کی طرف دیکھنے لگا جیسے میں بے خیالی میں اسے دیکھ رہا ہوں جبکہ میں سچ مچ اسے اپنی نظروں گھونٹ گھونٹ پی رہاتھا۔ وہ میر ے قریب ایک لمحے کو رکی۔ بلکہ ایک لمحے سے بھی کم۔ اس نے مجھے دیکھا، میں سمندر پر اُڑتے سفید پرندوں کودیکھنے لگا مگر نہیں، میں اسے ہی دیکھ رہاتھا۔ بے تعلق سا۔ پھر میں نے اسے دیکھا وہ کھجور کے درختوں کو تکنے لگی مگر مجھے یقین تھا کہ وہ مجھے ہی دیکھ رہی ہے۔ پھر اچانک ہی مسکراتی ہوئی میری کتابوں اور رائیٹنگ پیڈ پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالتے ہوئے آگے بڑھ گئی۔اس لمحے اس کی مسکراہٹ بڑی معنی خیز لگی۔ آدھی آنکھوں میں آدھی ہونٹوں پر…میں اسے جاتے دیکھتا رہا۔ اس کی پشت میری طرف تھی۔ لچکدار، چست اور خمدار۔ کبھی کبھی کسی کی پشت سامنے کی خوبصورتی سے زیادہ سحر انگیز ہوتی ہے۔

وہ دور چلی گئی۔ نہیں۔ نہیں وہ نہیں گئی۔ وہ میرے پاس ہی رہی۔ اپنے پورے وجود کے ساتھ۔ اپنی سفید بادلوں جیسی مسکراہٹ کے ساتھ۔

سورج سمندر میں ڈوب چکا تھا۔ لیکن اس کی سرخی گھانس کی تہوں میں چمک رہی تھی۔ کورینش کی ہواؤں میں مغرب کی اذان گونج رہی تھی۔ اللہ اکبر۔ اللہ اکبر۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔دور سمندر کے دوسرے کنارے پر بحرین جانے والے طویل پل کے اوپر چلنے والی گاڑیوں کی روشنیاں پانی میں جھلملارہی تھیں۔میں کچھ نہیں لکھ سکا۔ اٹھا اور واپس اپنے فلیٹ آگیا۔رات میں نے بستر پر نہیں بلکہ کھڑکی کے پاس گزار دی۔بستر پر جب تک رہا۔ نیند قریب آتی‘ ایک ملگجی سا غبار آنکھوں پر چھاجاتا پھر ٹھٹھک کر دور چلی جاتی۔ تھک ہار کر میں کھڑکی کے پاس آگیا جب بھی نیند میری پلکوں سے دور ہوتی میں بستر سے دور ہوجاتا اور کھڑکی سے قریب۔

کھڑکی کے باہر آدھا اندھیرا تھا اور آدھا اجالا۔ اندھیرے میں کھڑکی پر روشنی کی ایک لکیر سی گر رہی تھی۔ شاید بادلوں سے آئی تھی۔ دوسری تیز لکیر اورپھر گرجتے بادلوں نے بارش کے قطروں کو میرے چہرے پر برسادیا۔ بارش کو نہیں معلوم کہ وہ کب تک برستی رہی۔ صرف بادلوں کو پتہ تھا۔میرا کمرہ بادلوں کی چمک سے چند لمحوں کے لیے روشن ہوکر پھر اندھیرے میں ڈوب جاتا۔مجھے ایسا لگتا تھا کہ کمرے کا اندھیرا کمرے سے الگ ہو کر سیاہ عبایا میں میرے گرد گھوم رہا ہو۔ اسٹرولر کے ساتھ!

دوسرا دن روشن اور تابناک تھا۔ پارک میں ہوا کی ٹھنڈک، خوشبو اور خوشیوں سے لبریز تھی۔گھانس بھیگی ہوئی اور مٹی گیلی ہوچکی تھی جس کے نیچے ننھے سے ایک کیڑے کا دل دھڑک رہاتھا جگہ جگہ پانی جمع تھا اور راستوں پر پھسلن تھی۔ میں اپنی جگہ پر پہنچ گیا۔ دھوپ کا ایک میلا سا دھبا وہاں پڑاتھا، سورج شاید بھول آیا تھا۔ میں سنگ مرمر کے بینچ پر پھر اپنی کہانی مکمل کرنے کی کوشش کرنے لگا مگر اس کی تصویر میرے کاغذ پر پھیل جاتی۔ میں اس راستے کو تکتا رہا جس سے وہ گئی تھی۔ چند عربی عورتیں اور لڑکے سیلفی اور سمندر کی تصویر لیتے ہوئے ادھر سے گذرے۔مگر وہ راستے جس پراس کے قدموں کے نشانات چسپاں تھے، سونے پڑے تھے۔

میرے دل میں نہ جانے کدھر سے ایک اداسی کی لہر سی آئی اور مجھے لپیٹ لیا۔وہ نہیں آئے گی شاید کوئی مجبوری ہوگی شاید بے بی بیمار ہو۔ میں نے اسٹرولر کے بچے کو کبھی نہیں دیکھاتھا۔ خواہش ہوئی کہ دل کو تسلی دوں کہ وہ آئے گی اور اس بوجھ سے خود کو چھٹکارا دلادوں جو ابھی ابھی میرے دل میں پیدا ہوا تھا۔

وہ آگئی۔ اچانک میرے دل کی دھڑکن میری کن پٹیوں پربھی دھڑکنے لگی۔وہ اپنی مخصوص دھیمی رفتار والی چال سے چلتی ہوئی اسٹرولر کو دھکے دیتی ہمیشہ کی طرح باتیں کرتی ہوئی میری جانب آرہی تھی، اس کے چہرے پر سفید بادلوں والی مسکراہٹ نہیں تھی بلکہ اداسی کا ایک چھوٹا سا ہالہ تھا، ایک بوجھل کیفیت تھی جو اس کے خوبصورت چہرے کوگھیرے ہوئے تھی۔ میں نے ایک انجانے خو ف کی بو محسوس کرلی۔ ضرور کوئی انہونی سی بات ہوئی ہوگی۔ میرے خیالات اندیشوں میں بدلنے لگے۔ وہ سر جھکائے دھیرے دھیرے ٹریک پر چلتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔ پھر جہاں پر وہ ہمیشہ رکتی تھی اورٹھہر کرکچھ دیر سمندر کو تکتی تھی، آج نہیں رکی بلکہ واپس لوٹ آئی۔ میرے قریب سے کھجور کے نوکیلے سائے کے درمیان سے گذری، پھر نشیبی ٹریک پر قدموں کو سنبھالتی پھسلن سے بچتی ہوئی آگے بڑھی کہ اچانک ہی وہ پھسل گئی۔ ایک گھٹی چیخ نے مجھے فوراً ہی اس تک پہنچادیا۔ وہ نیچے گر پڑی تھی۔اسٹرولر دور جا گرا تھا۔ میں نے تیزی سے جھک کر اس کو اٹھانا چاہا مگرروتی ہوئی اس نے اسٹرولر کی طرف اشارے کیے۔

مائی بے بی،مائی بے بی، مائی جوڈ!میں فوراً اس بچی کی جانب بڑھا جو زمین پر اوندھی گری تھی میں نے اسے اٹھایا مگر……

میں تو حیران رہ گیا۔

وہ صرف ایک پلاسٹک کی ایک بڑی سی گڑیا تھی۔ خوبصورت، سنہری بالوں والی بے بی ڈول۔ اس کے بال الجھے ہوئے تھے اورایک بازو ٹوٹ کر الگ ہوگیاتھا۔ میں نے جلدی سے اس کے بازوکو جوڑا۔ اس نے جھپٹ کر اسی لمحے اپنے دونوں ہاتھوں سے چمٹا کر گلے سے لگالیا ۔

مائی بے بی۔ مائی جوڈ ………… وہ سچ مچ رو رہی تھی۔

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...