1695778069724_56118376
Open/Free Access
۱۱۴
بے خبری کی آغوش ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ارشد معراج (اسسٹنٹ پروفیسر انٹر نیشنل یونیورسٹی اسلام آباد)
انہیں سردی نہیں لگتی
انہیں ذلت کی ساعت نے پرانے سیم نالوں کے کناروں پر گھسیٹا ہے
اور ان کے کالے ہونٹوں پر لگی ہے مہر صدیوں سے
یہ کلر تھور دھرتی میں ہری خواہش کو بونے کی مشقت میں لگے ہیں
یہاں ”سابیریا“ سے آۓ پکھنو جب بھی کوندر میں مچلتے ہیں
تو گارے سے بنیرے لیپ کرنے والیوں کے چولہے جلتے ہیں
کبھی چارے کی گھرلی میں پڑے شلجم ۔۔۔۔۔۔
ورگرنہ ساگ اور آدھی ادھوری روٹیاں
سوکھے بدن میں سوچ بھی لکنت زدہ ، سرگوشیاں ۔۔۔۔۔۔
” چاچا!
خدا دا شکر کر دے ہاں
جے اس ساڈے تے ایہہ ازمیش پاٸی ھیہ
جو او کردا ہمیشہ ٹھیک ای کردا
پر اے دسیں جو نمبردار مر سی
وت اے اوکھت گھٹ نہ ویسی “
کبھی خوابوں کی گھٹڑی کو اٹھانے سے سفر مشکل نہیں ہوتا
مگر سورج تو روزانہ ہی مشرق سے نکلتا ہے
اور آنکھوں کا حسیں عدسہ سکڑتا ہے
زوال آۓ تو مغرب میں وہ چھپتا ہے
ہمیشہ چندر اور مایا کٸی میلوں پہ بستے ہیں
انہیں بستی میں آنے کا کبھی رستہ نہیں ملتا
ہمیشہ پوہ رہتا ہے
پرالی کے سلگنے سے کہاں یہ ٹھنڈ جاتی ہے
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |