1695778069724_56118377
Open/Free Access
۱۱۵
*"ماں"* طاہر وحید
میں جب بھی دیر سے گھر لوٹتا تھا
(اور اکثر دیر سے ہی لوٹتا تھا)،
تو میرے گھر کا دروازہ
مرے ہاتھوں کی دستک کے لیے
بے چین ملتا تھا،،،
مگر
بے چینئ در کا مداوا
ہو نہ پاتا تھا،،،،
مری ماں کی نگاہیں،
کان، لب، دست-دعا.....
سب جاگتے
اور اپنے اپنے کام میں
مصروف رہتے تھے،،،،
(چھیالیس سال میری ماں کے معمولاتِ روز و شب نہیں بدلے...... مری آوارگی کی عمر کے سب سال
میرے ڈھب نہیں بدلے)،،،
مرے ہاتھوں پہ لکھی دستکیں
تشنہ ہی رہتی تھیں،
کہ
*میری ماں*
*مرے پیروں کی آہٹ پر ہی*
*دروازے کی کنڈی کھول دیتی تھی،،،*
مرے ہاتھوں کی اور در کی وہ
*"مشترکہ سی خواہش"*
اب ہمیشہ *"نا مکمّل"*
اور
*"ادھوری"* ہی رہے گی،،،
میں اب گھر سے زیادہ دیر تک
باہر نہیں رہتا،
میں اب در بند ہونے سے
بہت پہلے ہی
گھر کو لوٹ آتا ہوں،،،
*مری ماں*
*اپنے معمولاتِ روز و شب*
*مکمل کر گئ ہے....!!!
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |