فرار :عطاشائق
سوچوں کے زیرو بلب کی
دل گیر روشنی
خوابوں کی بیڈ شیٹ پہ
بے چہرا سلوٹیں
فکر و نظر کا کیمرا دہشت کی میز پر
بے ربط خواہشات کی
کھونٹی پہ لٹکی روح
کمرے کی چھت پہ ماضی کے جالوں کی لہر میں
بے سدھ پڑا وجود خیالوں کی لہر میں
بے ذائقہ کلام
بغیر اہتمام کے
لشکر کی طرحَ شہرِ سماعت کے اردگِرد
کب سے پڑاٶ ڈال کے
گھیرے میں لے کے روز
چڑھ دوڑتا ہے
روندتا اظہار کی فصیل
پڑتی ہے روز گالی
گزشتہ گناہ کی
[جیسے کہ میں دلال کسی ناٸکہ کا ہوں]
جیسے زمیں پہ آنا مرا جرم تھا کوٸی
شہتیر پہ ٹکا کے نظر
سوچتا ہوں دوست
میں اتنتقام اپنے بدن سے یا ۔۔۔۔۔کس سے لوں؟
یا پھر معاشرے کی
ذہانت پہ پھینک دوں
اپنے سخن کی خاک تکلم کی کنکری
لیکن میں اپنے کمرے کے کونے میں بیٹھ کر
(بدبو زدہ سماج سے)
کیا گفت گو کروں!
الفاظ کیسے سونپ دوں بہروں کے کانوں کو!
اندھوں کو کیا دکھاٶں!
تصور کے مرغزار
میں چاہتا ہوں(اپنے تخیل سے) اب فرار
اے خالقِ سخن مجھے نظموں کی قبر میں
ممکن اگر ہو اب
تو کبھی مت اتارنا
حسَاسیت کا زہر رگ و پے میں رچ گیا
تیمار دار ہنس سے یہ کہتے ہیں بچ گیا
حشرات حسرتوں کے
مری روح کاٹنے
آلودہ منظروں سے نکل کر چمٹ گٸے
متلی سی ہو رہی ہے
تعفَن کی زد میں ہوں
کھانے لگا ہے جسم کو جذبوں کا کینسر
خوں تھوکنے لگا ہوں میں کروٹ کے بل پڑا
پٹھوں میں آرہا ہے کھچاٶ کہ بس گیا
چھینٹے
گزشتہ وقت کے چہرے پہ مل دیے
شائقق اگال دان میں جذبے اگل دی
Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
۶ | |||
۸ | |||
۱۸ | |||
۲۶ | |||
۲۸ | |||
۳۷ | |||
۴۱ | |||
۴۶ | |||
۵۱ | |||
۵۴ | |||
۶۲ | |||
۶۵ | |||
۷۱ | |||
۷۳ | |||
۷۶ | |||
۷۹ | |||
Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |