Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نقش فریادی اکتوبر تا دسمبر 2022 > ۔مولوی فیروز الدین ڈسکوِی کی ادبی خدمات

نقش فریادی اکتوبر تا دسمبر 2022 |
پنجاب لٹریری فورم
نقش فریادی اکتوبر تا دسمبر 2022

۔مولوی فیروز الدین ڈسکوِی کی ادبی خدمات
Authors

ARI Id

1695781004291_56118381

Access

Open/Free Access

مولوی فیروز الدین ڈسکوِی کی ادبی  خدمات

ڈاکٹر نصیر احمد اسد

مولوی فیروز الدین ڈسکوی کی شاعری کے ساتھ ساتھ نثری ادب میں بھی نمایاں خدمات  ہیں۔نثر میں وہ بہترین سوانح نگاروں میں شامل ہیں۔ سوانح نگاری کی صنف باقی اصنافِ نثر کے مقابلے میں اپنے ماحول اور اس کے رحجانات کی عکاسی زیادہ بہتر انداز میں کرتی ہے۔ اُردو میں سوانح نگاری کا آغاز عہد سر سید سے ہوتا ہے۔ حالی کی ’’حیاتِ جاوید ‘‘ ،’’یادگارِ غالب‘‘ شبلی کی ’’سیرت النبیؐ ‘‘ اور ’’سیرت النعمان‘‘ میں سوانح نگاری کے قائم کردہ معیار کی پیروی ایک عرصے تک کی جاتی رہی۔ سرسید کا دور مذہبی مناظر ے اور بحث و مباحثے کا دور ہے لہٰذا اس دور کی سوانح عمریاں اپنے عہدکی عکاس ہیں۔اس دور کے مشہور سوانح نگاروں میں : مرزا حیرت دہلوی، احمد حسن خان، عبدالحلیم شرر، منشی محمد الدین فوق، مولوی احمد دین ،احمد حسین الہٰ آباد ی ، مولوی ذکاء اللہ ، سراجدین احمد ،نذیر احمد ،قاضی سلیمان ،عبدالرزاق کانپوری اور مولوی فیروز الدین ڈسکوی اہم ہیں۔

فضائل اسلام فی ذکر خیر الانام المعروف سیرت النبیؐ یا تاریخ نبویؐ مولوی فیروز الدین ڈسکوی کی پہلی باقاعدہ نثری تالیف ہے۔ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن مفید عام پریس لاہور سے ۱۸۸۶ء میں شائع ہوا۔ اور’’ نماز اور اس کی حقیقت‘‘ مولوی صاحب موصوف کی دوسری نثری تالیف ہے ۔یہ کتاب منشی فیض علی نے پنجاب پریس سیالکوٹ سے ۱۸۹۰ ء میں شائع کی۔ ’’تفسیر فیروزی پارہ اول‘‘ مولوی صاحب کی تیسری تصنیف ہے۔ یہ کتاب ۱۸۹۰ء میں سیالکوٹ مفید عام پریس سے شائع ہوئی۔ ’’تکذیب و ید‘‘ مولوی صاحب کی چوتھی تصنیف ۱۸۹۰ء میں پنجاب پریس سیالکوٹ سے شائع ہوئی۔ ’’تصدیق الا لہام‘‘ مولوی صاحب موصوف کی مناظراقی تصنیف ہے۔ جو ۱۸۹۰ء میں پنجاب پریس سیالکوٹ سے طبع ہوئی۔’’ دعائے گنج العرش و تعویز گنج العرش‘‘ مولوی فیروز کی چھٹی نثری کتاب ہے جو ۱۸۹۱ء میں شائع ہوئی۔ ’’فضائل اسلام فی ذکر خیرا لا نام المعروف سیرت النبیؐ‘‘ پنجاب پریس سیالکوٹ سے ۱۸۹۱ء میں شائع ہوئی۔ ’’عشرہ کاملہ‘‘ مولوی صاحب موصوف کی آٹھویں نثری تصنیف ہے۔ یہ کتاب ۱۸۹۱ء میں مفید عام پریس سیالکوٹ سے شائع ہو ئی۔

’’سورت رحمن کی نادر تفسیر ‘‘مولوی صاحب کی دسویں تصنیف ہے۔ جو ۱۸۹۲ء میں مطبع مفید عام پریس سیالکوٹ سے شائع ہوئی۔’’ مسلمانوں کا مسیح اور عیسائیوں کا‘‘ مولوی صاحب کی ایک مناظراتی تصنیف ہے۔ جو سیالکوٹ مفید عام پریس سے ۱۸۹۲ء میں شائع ہوئی۔ ’’اسم اعظم ‘‘مولانا موصوف کی بارہویں کتاب ہے جس میں پیرانِ پیر شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی سوانح عمری ،تعلیمات اور کرامات کا بیان ہے۔ یہ کتاب مفید عام پریس سیالکوٹ سے ۱۸۹۲ء میں شائع ہوئی۔ ’’طریقت الحقیقت ‘‘ مولوی صاحب کی تیرھویں کتاب ہے جو ۱۸۹۲ء میں مفید عام پریس سیالکوٹ سے شائع ہوئی۔ ’’رسالہ ہدایت القاری ‘‘ تصنیف ۱۸۹۲ء میں مفید عام پریس سیالکوٹ سے شائع ہوئی۔

’’روزہ اور اس کی حقیقت ‘‘ مولوی صاحب کی پندرھویں نثری تصنیف ہے جو مفید عام پریس سیالکوٹ سے ۱۸۹۳ء میں شائع ہوئی۔’’ الوہیت مسیح اور تثلیث کا رد ‘‘مولوی صاحب کی سولہویں کتاب ہے جو مفید عام پریس سے شائع ہوئی۔ ان کی سترھویں کتاب ۱۸۹۳ء میں شائع ہوئی۔’’عصمت النبی عن الشرک الجلسی ‘‘مولوی فیروز کی اٹھارویں تصنیف ہے جو ۱۸۹۳ء میں شائع ہوئی۔ ’’تقدیس الرسول عن طعن الجہول‘‘ اُنیسویں کتاب ہے جو مفید عام پریس سے شائع ہوئی۔ ’’برآت الرسولؐ العرب عن طعن نکاح زینبؓ المعروف بہ دفع طن نکاح زینبؓ  ‘‘ بیسویں کتاب ہے جو ۱۹۹۳ء میں مفید عام پریس سیالکوٹ سے شائع ہوئی۔’’ اسرارا لتنزیل‘‘ مقالہ مولوی صاحب موصوف کا مقالہ ہے جسے انجمن حمایت اسلام لاہور نے ۱۸۹۶ء میں شائع کیا۔ ’’ضمیمہ آریہ مت کی عکسی تصویر‘‘ مولوی فیروز کی تیئسویں تصنیف ہے۔ جو ۱۸۹۸ء میں مفید عام پریس سیالکوٹ سے شائع ہوئی۔ ’’پچاس مذہبی سوالات کے جواب‘‘ چوبیسویں کتاب ہے۔ جو ۱۸۹۹ء میں شائع ہوئی ’’نماز کی خوبیاں‘‘  پچیسویں کتاب ہے۔ جو مفید عام پریس سیالکوٹ سے ۱۹۰۰ء میں شائع ہوئی۔ ’’نماز حضوری ‘‘ مولوی صاحب موصوف کی چھبیسویں کتاب ہے جو ۱۹۰۰ء میں شائع ہوئی۔ ’’سورہ فاتحہ کی تفسیر‘‘ مولوی صاحب کی ستائیسویں کتاب ہے جو مفید عام پریس سیالکوٹ سے ۱۹۰۰ء میں شائع ہوئی۔ ’’پیارے نبیؐ کے پیارے حالات جلد اول‘‘ مولوی فیروز کی اٹھائیسویں کتاب ہے جو مفید عام پریس سیالکوٹ سے شائع ہوئی۔

 ’’مجموعہ خطبہ فیروزی ‘‘ مولوی صاحب کی تیسویںتصنیف ہے جو ۱۹۰۱ء میں مفید عام پریس سیالکوٹ سے شائع ہوئی۔ ’’اسلام اور اس کی حقیقت‘‘ مولوی صاحب کی اکتیسویں تصنیف ہے جو ۱۹۰۱ء میں مفید عام پریس سیالکوٹ سے شائع ہوئی۔ ’’اسلام کی پہلی کتاب‘‘ جو ۱۹۰۲ء کو مفید عام پریس سیالکوٹ سے شائع ہوئی۔ ’’اسلام کی دوسری کتاب‘‘ تینتیسویں کتاب ہے۔ مولوی صاحب کی چونتیسویں کتاب’’اسلام کی تیسری کتاب‘‘ ہے جو ۱۹۰۴ء کو مفید عام پریس سیالکوٹ سے شائع ہوئی۔’’ اسلام کی پانچویں کتاب‘‘ مولوی صاحب کی چھتیسویں کتاب ہے جو مفید عام پریس سیالکوٹ سے شائع ہوئی۔’’ انسان اور اس کی تقدیر ‘‘مولوی صاحب کی انتالیسویں کتاب ہے جو ۱۹۰۲ء کو مفید عام پریس سیالکوٹ سے شائع ہوئی۔’’ قرآن مجید کے کلام الہی ہونے کا ثبوت ‘‘مولوی فیروز الدین کی چالیسویں کتاب ہے جو مفید عام پریس سیالکوٹ سے شائع ہوئی ہے۔

 ’’تفسیر فیروزی سور ہ عم‘‘ مولوی صاحب کی اکتالیسویںکتاب ہے جو ۱۹۰۲ء میں مفید عام پریس سیالکوٹ سے شائع ہوئی۔’’اسلام اور عیسائیت کا قطعی فیصلہ‘‘ مولوی صاحب کی بیالیسویں کتاب ہے۔ جو سیالکوٹ مفید عام پریس سے ۱۹۰۳ء میں شائع ہوئی۔’’ قرآن شریف کی قسمیں اور ان کی فلاسفی‘‘ مولوی صاحب کی تینتالیسویں کتاب ہے۔ جو ۱۹۰۴ء میں مفید عام پریس سیالکوٹ سے شائع ہوئی۔ ’’تفسیر فیروزی تیسواں پارہ‘‘ ،مولوی فیروز کی سنتالیسویں کتاب ہے۔ ’’تفسیر فیروزی پارہ دوم‘‘ مولوی صاحب کی اڑتالیسویں کتاب ہے جو مفید عام پریس سیالکوٹ سے شائع ہوئی۔ مولوی صاحب کی انچالیسویں کتاب ہے۔ جو مفید عام پریس سیالکوٹ سے شائع ہوئی۔’’تفسیر فیروزی پارہ چہارم ‘‘ مولوی صاحب کی تصنیف ہے جو پنجا ب پریس سیالکوٹ سے ۱۹۰۷ء میں شائع ہوئی۔

 ’’گلزار یوسفی ‘ ‘ مولوی صاحب کی ۵۲ ویں کتاب ہے۔ جو لاہور سے ۱۹۰۷ء میں شائع ہوئی۔ ’’پیارے نبی کے پیارے حالات (جلد سوم)‘‘ مولوی صاحب کی ۵۳ ویں تصنیف ہے۔ جو مفیدعام پریس سیالکوٹ سے ۱۹۰۸ء میں شائع ہوئی۔’’مختصر قانونی اصطلاحات‘‘ مولوی صاحب کی ۵۴ ویں کتاب ہے جس کا پہلا ایڈیشن مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد سے ۱۹۸۵ء میں شائع ہوا۔ مذکورہ بالا تصانیف کے علاوہ مولوی فیروز الدین ڈسکوی کی لغات اور قواعد کے حوالے سے شہرہ آفاق کتابیں شائع ہو چکی ہیں ۔ جن کا مولوی فیروز کی اردو ادب کی نثری خدمات کے حصے میں ذکر کرنا ضروری نہیں ہے۔

اُنیسویں صدی کو ،نصف آخر کے حوالے سے استدلال اور مناظرے کی صدی کہا جا سکتا ہے اور ہر قسم کے ادب کی تخلیق انھی پہلووئوں کو پیشِ نظر رکھ کر کی جارہی تھی۔سوانح نگاری کو بھی انھی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا گیا۔ سر سید کی ’’خطباتِ احمدیہ‘‘ کے بعد اردو میں رسول کریمؐ کی سوانح عمریاں لکھنے کا رواج شروع ہو گیا۔ اس زمانے اور اس سے قبل لکھنے والوں میں ایک قابل ذکر نام مولوی فیروز الدین کا بھی ہے۔  ذیل میں مولوی صاحب موصوف کی تین سوانحی تصانیف ،’’پیارے نبیؐ کے پیارے حالات‘‘ ،’’فضائل اسلام فی ذکر خیر الا نام ‘‘ المعروف ’’بہ سیرت النبیؐ ‘‘ یا’’پیارے نبیؐ کے پیارے حالات‘‘ ،سیرت پر لکھی ہوئی کتاب سات ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں مقدس انبیاء کے حالات بابرکات، تیسرے میں حضورؐ کے اخلاق وعادات ،چوتھے میں تورات و انجیل کی بشارات ،پانچویں میں آنحضرتؐ کے معجزات چھٹے میں حضورؐ کی مختصر تعلیمات اور ساتویں باب میں حضورؐ کی زندگی کے مقاصد بیان کیے گئے ہیں۔پہلے باب میں مولوی صاحب موصوف نے ان بائیس انبیاکے اجمالی حالات بیان کیے ہیں۔جن کا ذکر قرآن سے ملتا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے انبیاء کے حالات کے وہی پہلو اُجاگر کیے ہیں جن کا تعلق ثبوت نبوت ،ثبوت قرآن یا کسی اور صداقت سے ہے۔ مثال کے طورپر حضرت صالحؑ کے حالات لکھنے کے بعد انھوں نے آخر پر لکھا ہے:ضرت رسول کریمؐ کے ساتھ اس قصہ کا تعلق ،بہ حیثیت اثبات نبوت کے یہ ہے کہ جس طرح یہ قوم اپنے پیغمبر کی تکذیب کی وجہ سے تباہ اور ہلاک ہوئی۔ اسی طرح مکہ کے کفا ر اوراسلام کے مخالف ہلاک ہوں گے۔مولوی موصوف نے صرف انبیا کے قصے ہی بیان نہیں کیے، بلکہ واقعات سے نتائج اخذ کر کے قارئین کو اخلاقی سبق بھی دیا ہے:

جب کوئی خلیفہ کسی خاص خدمت کے انجام دینے کے لیے خدا کی طرف سے مامور ہوا۔ شیطان اور شیطانی لشکر بھی پوری قوت اور پورے زور کے ساتھ مقابلے کے لیے سامنے آن کھڑا ہوا۔ ان کی مخالفت میں یہ سر ہوتا ہے کہ اہلِ بصیرت کو معلوم ہو جائے کہ وہ کسی زمینی بھروسے سے کامیاب نہیں ہوتے بلکہ صرف تائید الہیٰ اور آسمانی ہتھیاروںسے۔ پیارے نبی ؐکے پیارے حالا ت کے سلسلے میں مولوی صاحب نے بائبل کی خاص بشارات بھی درج کی ہیں۔ آپؐ کے معجزات نشانات، خوراق، عادات اور پیش گوئیاں درج کی ہیں۔ مولوی صاحب نے وہ پیش گوئیاں درج کی ہیںجن کی صداقت کی گواہی متعصب سے متعصب آدمی بھی دینے پر مجبور ہے۔ واقعات نبوی ؐکے بیان کے بعد حضورؐ کے اخلاق و عادات خصوصاً عقل وکمال ،حسن و جمال ،فصاحت و بلاغت، سخاوت، شجاعت ،حلم و عفو، رحم و تحمل ،سادہ اور بے تکلف زندگی کی عملی مـثالیں بیان کی ہیں:ظرافت کے سلسلے میں ایک مثال ملاحظہ فرمائیں:ایک اعرابی آپؐ کی خدمت میں حاضرہوا اور کچھ کہنا چاہا ۔اس وقت آپؐ اُداس تھے۔ صحابہؓ نے اسے منع کیا۔ اس نے کہا قسم ہے اس ذات پاک کی جس نے آپؐ کو نبی بر حق بنا  کے بھیجا۔میں آپؐ کو بے ہنسائے نہیںچھوڑوں گا۔ پھر یوں بولا کہ یا رسول اللہ ۔ہم نے سنا ہے کہ دجال لوگوں کے لیے ثرید لائے گا۔ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں کیا آپ مجھے حکم دیتے ہیں کہ میں اس ثرید سے محروم رہوں اور نہ مانگوں ؟ یہاں تک کہ لاغری سے مرجائوں یا یہ حکم دیتے ہیں کہ اس کوثر یدپر ہتے لگادوں اور جب خوب سیر ہو جائوں تو اللہ پر ایمان لائوں اور اس کا منکر ہو جائوں ؟ یہ سن کر آپ ؐ کی کچلیاں کھل گئیں اور بہت زیادہ ہنسے، اور فرمایا کہ جس چیز سے اللہ تعالیٰ مومنوں کو غنی کر دے گا۔ اس سے تجھ کو بھی اس کی پروا نہ رہے گی۔آخر پر آپ ؐ کی بعثت اور زندگی کے مقاصد بیان کیے گئے ہیں جن میں گہری حکمت ہے۔ اس سے الہیات کے بہت سے اصول حل ہو جاتے ہیں۔ان مقاصد پر غور کرنے سے آنحضرتؐ کی نبوت کی صداقت میں کوئی شک نہیں رہتا۔ آنحضرت ؐکا دنیا میں عملی توحید قائم کرنا، اخلاق حسنہ کی تکمیل ، حق کی ظاہری اور باطنی فتح ،بطلان کی ہلاکت ،احکام الہٰی میں سطوت و جبروت ،عقبیٰ کی جزاو سزا اور قیامت کا آنحضرت ؐکے واقعات عصری سے قطعی ثبوت اور حضورؐ کی عملی زندگی سے آپؐ کی نبوت کا ثبوت سب کچھ بین طور پر بیان کیا گیا ہے۔

’’پیارے نبیؐ کے پیارے حالات‘‘ میں تذکرہ نگاری، سیرت نگاری اور تاریخ نگاری سے مدد لی گئی ہے۔ اختصار اور جمال اس کی نمایاں خصوصیات میں سے ہیں۔ تمام تاریخی واقعات نبویؐ جن کو آپ ؐ کی زندگی میں زبردست اہمیت حاصل ہے۔ نہایت اختصار سے بیان کر دیے گئے ہیں۔ ’’پیارے نبیؐ کے پیارے حالات‘‘ میںلمبی چوڑی عبارت آرائی نہیں کی گئی بلکہ سادہ اور صاف طورپرحضورؐ کے حالات بیان کر دیے گئے ہیں۔ مولوی موصو ف نے سادگی اور اختصار کو حد درجہ ملحوظ خاطر رکھا ہے۔ ان کا اسلوب تحریر سلیس واضح اور منطقی ہے۔ جملے چھوٹے چھوٹے اور خطِ مستقیم میں آگے بڑھتے ہیں۔ اور مطلب اداکرنے میں کسی قسم کی دشواری کا احساس نہیں دلاتے۔

پادری عماد الدین پانی پتی نے ۱۸۷۲ ء میں ’’تواریخ محمدیؐ ‘‘ امرت سر سے شائع کی۔ پادری نے اس کتاب میں نبی اکرم کی ذات اقد س پر نہایت رکیک الزامات لگائے۔ اگرچہ علمائے اسلام نے اپنے اپنے انداز میں پادری کی ہرزہ گوئی کا جواب دیا۔ مولانا حالی کی’’ تواریخِ محمد یؐ ‘‘ پر منصفانہ رائے اور مولوی چراغ علی کی تعلیمات اس سلسلے میں عمدہ جواب ہیں لیکن مولوی موصوف کی ’’فضائل اسلام فی ذکر خیرالا نام المعروف بہ سیرت النبیؐ‘‘ ،’’کتاب تواریخ محمدیؐ‘‘ کا دندانِ شکن جواب ہے ۔’’فضائل اسلام فی ذکر خیرا لا نام‘‘ میں حضورؐ کا قریباً کل حال ترتیب وار ،مفصل ،معتبر علمائے نصاری کے اقوال انتخاب کر کے مرتب کیا گیا ہے اور جو جو اعتراضات عیسائی آنحضرتؐ کی سیرت پر کرتے ہیں ان کا جواب انھیں کے علما سے لایا گیا ہے۔’’ فضائل اسلام فی ذکر خیرا لانام‘‘ کی خاص خوبی یہ ہے کہ ساری کتاب مستند مخالفین ہی کی کتب سے اقتباسات انتخاب کر کے مرتب کی گئی ہے۔اور عماد الدین کے اعتراضات کا انھیں کے بڑے بڑے ثقہ اور معتمد علما و فضلا کے اقوال سے جواب دیا گیا ہے ۔جس امر کو وہ اعتراض کی صورت میں پیش کرتا ہے ان کا جواب اسی طرح دیا گیا ہے کہ جب آپ ہی کے بڑے بڑے علما آنحضرتؐ کی تعریف میں رطب اللسان ہیں ۔آپ کے شبہات اور اباطیل کیا وقعت رکھتے ہیں؟ساری کتاب محض اقتباسات کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ اکثر مقامات پر موئف نے اقوال کی تائید اور بطورِ حاشیہ یا ضمیمہ اقوال کی تشریح اور توضیح بھی کی ہے۔ یہ اضافے انھوں نے اس طرح کیے ہیں کہ عام قاری کو بھی اندازہ ہو جاتا ہے۔ کہ کونسا بیان موئف کا ہے اور کونسا علمائے نصاریٰ کا؟’’فضائل اسلام فی ذکرِ خیرالا نام‘‘ چار ابواب پر مشتمل ہے۔ مقدمے میں رسولِؐ خدا سے پیشتر عرب کاجو حال تھا وہ مخالفین ہی کی زبان میں مندرج ہے۔ اس میں رسومات ،جاہلیت ،دستورات عرب اور طرزِ حکومت وغیرہ کا حال درج ہے۔ پہلے باب میں آنحضرتؐ کی ولاد ت سے آغاز نبوت تک کا حال اور تمام اعتراضات کی تردید مخالفین کے اقوال سے ہی کی گئی ہے۔دوسرے باب میں آغاز نبوت سے ہجرت تک کا حال علمائے نصاریٰ کے اقوال کی صورت میں درج کیا گیا ہے۔ تیسرے باب میں ہجرت سے وفات تک کا حال معہ غزوات ،ترتیب وار، سال بہ سال ،اعتراضات کے جواب کے ساتھ درج کیا گیا ہے۔ اس باب میں جہاد، تحویل قبلہ ،کثرت ازدواج اور تقدیرپر خصوصی بحث کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں عیسائی علماکے اقوال درج کیے گئے ہیں۔چوتھا اورآخری باب نہایت اہم ہے جس میں اسلام کی فضیلتیں ،مسلمانوں کے علوم اور کارہائے نمایاں ،پیغمبر اسلامؐ کے کارنامے اور جانفشا نیاں ،اسلام کی صداقتیں اور اس کی تعلیمات ،واحدانیت اور امر ونہی مستند اور معتبر علمائے نصاری کے اقوال کے بموجب درج کیے گئے ہیں۔چونکہ مخالفین کا اسلام اور پیغمبر اسلام کے بارے میں اس قسم کی شہادت دینا اسلام اور اس کی کمال عظمت اور فضیلت کا بین ثبوت ہے۔ اس لیے اس تالیف کا نام ’’فضائل اسلام فی ذکر خیر الا نام ا لمعروف سیرت النبیؐ  ‘‘ یا ’’تاریخ محمدی ؐ  ‘‘رکھا گیا ہے۔

مولوی صاحب موصوف نے اس تالیف کوجن علمائے نصاریٰ کے اقوال اور آرا سے مزین کیا ہے۔ ان کے اسماء اور تصانیف و تالیفات مندرجہ ذیل ہیں:ایڈورڈگبن ،جارج سیل (ترجمہ قرآن)،پادری فانڈر(تواریخ محمد یؐ ) بشب مڈلٹن ،جارج ڈیپنورپ(اپالوجی فار محمد اینڈ قرآن )،(اردو ترجمہ )،عطاالحق یا موید الاسلام ،ریورینڈر راڈ ویل (ترجمہ قرآن) ،مسٹر طامس کار لائل (ہیروز اینڈ ہیروزشپ) ،ماسٹر رامچندر (تحریف القرآن) جے ولسن ،سر ولیم میور(لائف آف محامسٹ،اُردو تواریخ کلیسا ،تاریخ محمدیؐ) پادری صفدر علی ، ڈاکٹر اے سپر نگر (سیرت محمدیؐ) ،پادری رجب علی ،ہارن صاحب (تفسیر قرآن )پادری باس ورتھ سمتھ او ر ایزک ٹیلر علاوہ ازیں انا جیل مروجہ اور چیمبرس انسائیکلوپیڈیا سے بھی مدد لی گئی ہے۔اس تالیف کا اسلوب مولوی صاحب کی باقی تصانیف کے اسلوب سے قدرے مختلف ہے کیونکہ یہ مولوی صاحب کی پہلی تالیف ہے اور اس وقت تک ان کا قلم اتنی روانی سے نہیں چلتا تھا ۔اگرچہ اس میں زیادہ تر علماء نصاریٰ کے اقوال ہی درج ہیں۔ تاہم اقوال پر تبصرے کی صورت میں ان کا اسلوب نمایاں نظر آجاتا ہے۔ یہاں بھی انھوں نے سادہ اور چھوٹے چھوٹے جملے اور آسان الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ قائل کرنے کا انداز منطقی ہے۔ ڈاکٹر گوہر نوشاہی مولوی فیروز الدین کے اسلوب کے بارے میں لکھتے ہیں:مولانا ڈسکوی کا طریق استدلال منطقی ہے۔ لیکن ان کی عام فہم اور دلچسپ عبارت، مطالب کو بوجھل نہیں ہونے دیتی۔

سیرت النبیؐ کے سلسلے میں مولوی فیروز الدین ڈسکوی کی تیسری تصنیف ’’سیرت المصطفےٰؐ‘‘ہے۔ اس میں موئف نے آنحضرتؐ کے اخلاق فاضلہ و اوصاف جمیلہ کا بیان کیا ہے مگر شروع میں آپؐ  کی مختصر سوانح عمری بھی دی گئی ہے۔ جس کے پڑھنے سے حضورؐ کی صداقت رسالتؐ کی حقیقت آفتاب نصف النہار کی طرح منکشف ہو جاتی ہے۔ اس سوانح عمری میں آنحضرتؐ کی زندگی کے اہم واقعات:نبوت و شریعت کا عطا ہونا ،اعلانیہ دعوتِ اسلام ،ہجرتِ حبشہ، حضرت عمر ؓ اور حضرت حمزہؓ کا اسلام لانا، شعبِ ابی طالب میں محصور ہونا، سفر طائف ،ہجرتِ مدینہ ،مدینہ کے حالات ،مدینہ میں آپؐ کی تشریف آوری ،مسجد نبویؐ کی تعمیر ،اذان کا تقرر ،جہاد کی ابتدا ،جنگِ بدر کا معرکہ، غزوہ اُحد، غزوہ خندق، صُلح حدیبیہ ، بادشاہوں کو دعوتِ اسلام ،فتح خیبر ،فتح مکہ ،جنگِ تبوک ،مسجد ضرار، نصارائے بخران سے مباہلہ ،حجتہ الوداع اور آپؐ کا حلیہ مبارک نہایت اختصار سے بیان کیا ہے۔ اس کے بعد آپؐ کے اخلاق و اوصاف کا حصہ شروع ہوتا ہے۔ اس ضمن میں انھوں نے آپؐ کی بے تکلفی و ظرافت ،عقل و دانائی ،حلم و ملائمت ،عفو و رحم ،شجاعت و مردانگی ، جو دو سخاوت ،خوش بیانی ، صحابہؓ پر آپؐ کی تعلیم کا اثر ، دوسروں کی عزت وتکریم ،عبادت وریاضت تقوی ،زہد ،دنیا سے بے رغبتی ،رسالتؐ ،خدا کے لیے تبلیغ ، توحید الہی کے خیال سے اپنی تعظیم کی ممانعت ،سادہ گزران ، فقرو فاقہ ،راست بازی ،صداقت ،کتاب الہی کی تعلیم ،حکمت اور تہذیب کی باتوں کو عقیدت مندانہ اسلوب میں بیان کیا ہے ۔اس کے بعد دو سو منتخب احادیث نبویؐ کا منظوم اردو ترجمہ دیا ہے۔ آپ کی تعلیمات کا خلاصہ بیان کرنے کے بعد خلفائے راشدینؓ اور حضرت حسنین ؓ کی مختصر سوانح عمری اور کارنامے بھی بیان کیے گئے ہیں۔اس مختصر کتاب میں حالات نبویؐ کا ذخیرہ اس قدر جمع ہے کہ بڑی بڑی کتابوں سے بے نیا ز کر دیتا ہے۔ اس میں اخلاق محمدؐ کا ہی بیان نہیں ہے بلکہ سرکارِ دو عالم ؐ کی زندگی سے مثالوں سے اس کتاب کو آراستہ کیا ہے۔

 آنحضرتؐ کے اخلاق فاضلہ کا بیان اس طرح کیا ہے کہ اس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ آپ ؐصرف اعتقادی طورپر ہی نہیں بلکہ عملی طورپر بھی سید المرسلین ؐ،افضل البشرؐ ،خاتم الانبیا ؐہیں۔اس کتاب کا اسلوب بہت سادہ ہے۔ اس میں عبارت آرائی سے پرہیز ہے۔ ہر جملے سے عقیدت اور محبت ٹپکتی ہے۔ اس کتا ب میں بھی مولانا موصوف نے ضمناً عیسائیوں اور آریائوں کے اسلام اور قرآن پر اعتراصات کا جواب دیا ہے۔ اس کتاب سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو جس سے ان کے اسلوب کی خصوصیات واضح ہو جائیں گی:آپؐ پڑھے لکھے نہ تھے، مگر عالم و جاہل دونوں کو ہی تعلیم کرتے تھے۔ آپ ؐ کے چہرے پرایسا عظمت و جلال کا نور برستا تھا کہ اس کا اثر ہر شخص کو پہنچتا تھا۔ آپؐ حیا میں ناکتخدا یعنی بن بیاہی لڑکی سے بڑھ کر تھے۔ آپؐ اپنے ماتحتوں پر بہت مہربان تھے۔ اپنے خادم کو کبھی نہ جھڑکتے ۔آپؐ کے خادم انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ میں دس برس تک آپؐ کی خدمت میں سرفراز رہا ۔ اس درمیان میں آپ نے کبھی اُف تک نہیں کہا۔ آپؐ اپنے عزیزوں سے بہت محبت رکھتے ۔مولوی فیروز الدین کی تصنیف ’’الوہیت مسیح اور تثلیث کا رد‘‘ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں فاضل مصنف نے اللہ تعالیٰ کی صفات قرآن اور خصوصاً سورۃ اخلاص کی روشنی میں بیان کر کے عیسائیوں کے تصورِ خد اور عقیدہ تثلیث پر روشنی ڈالی ہے۔ براہین عقلی سے ان کے تضادات کے خلافِ عقل او رخلافِ فطرت ہونا ثابت کیا ہے۔ اور کہا ہے کہ عیسائیوں کے یہ اعتقادات خود تراشیدہ خیالات ہیںجن پر نہ کوئی عقلی دلیل قائم ہوتی ہے اور نہ نقلی بلکہ اصل تورات اور انجیل سے ان کے ان اعتقادات کی نفی ہوتی ہے۔ مولانا موصوف کا طرزِ استدلال ملاحظہ ہو:باپ،بیٹے کا عمر، درجہ اور ہربات میںمساوی ہونا کس قدر قابلِ تمسخر اور واہیات ہے۔مسیح اگر خدا کا بیٹا ہے تو ازلی نہیں جو ازلی ہے تو خدا کا بیٹا نہیں۔ یہ دونوں صفات متضاد وجود واحد میں جمع نہیں ہو سکتیں۔مسیح اگر خدا کا بیٹا ہے تو ازلی نہ ہونے کی وجہ سے خدائی کے لائق اور خدا نہیں۔دونوں باتیں نہیں ہو سکتیں۔چوپڑی اور دو دو ،ایسا ٹھیک نہیں۔ خدا کا بیٹا قرار دو توا زلی نہ ہونے کی وجہ سے خدامت سمجھو ازلی قرار دو تو بیٹے کا مفہوم بعدیت کو چاہتا ہے۔بیٹا مت کہو یہ کیا بات ہے کہ تم بیٹے کا وجود باپ سے ۱۰۔۱۵ برس بھی موخر نہیں سمجھتے ہو اور پھر بیٹا کہتے ہو، ایسا بیٹا کہاں سے آگیا؟

مولوی صاحب نے عیسائیوں کے عقائد کا بطلان اور اسلامی عقائد کو برحق کرنے کے لیے قرآن مجید ،تورات،انجیل دیگر آسمانی کتابوں سے آیات اور علمائے نصاریٰ کے اقوال کو بھی بطور دلیل درج کیا ہے۔ ’’الوہیت مسیح اور تثلیث کا رد‘‘ کے دوسرے حصے میں مولوی صاحب نے یہ ثابت کیا ہے کہ انجیل میں جہاں کہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تثلیث کاذ کر ہے وہ جعلی اور الحاقی ہے۔ انھوں نے یہ لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑکی پیدائش محض امر الہی سے ہوئی ۔ وہ کہتے ہیں کہ اصل تورات اور انجیل سے خالص توحید کا ثبوت ملتا ہے ۔ اس سلسلے میں انھوں نے عیسائی علما کے اقوال کو ہی سند کے طورپر پیش کیا ہے۔ مثلاً لکھتے ہیں:ایک نہایت مشہور انگریز ،مسٹر جان ڈینپورٹ صاحب اپنی کتاب ’’اپالوجی فارمحامٹ اینڈ قرآن‘‘ میں لکھتے ہیں کہ نیٹن صاحب،افضل حکما انگلستان اور گبن صاحب اور علماو مورخین نصاریٰ نے بڑی کوشش سے ثابت کیا ہے کہ جن آیات انجیل سے مسئلہ توحید مستنبط کیا گیا ہے۔ یعنی یوحنا کا پہلا خط ۵ با ب اور ۷ وہ آیات اختراعی ہیں۔اس کتاب کا اسلوب نہایت سادہ ہے ۔چھوٹے چھوٹے جملے ہیں اور ان میں لفظی مناسبت کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔ مثلاً لکھتے ہیں:

پادری عماد الدین پانی پتی، جوا پنی پت پرانے پادریوں سے بڑھ کر سمجھتے ہیں۔ ہدایت المسلمین کے صفحہ نمبر ۱۰۳ میں مقر ہو گئے کہ ضرور آیت نامہ اول یوحنا کی ۵ باب اور۷ آیت مشکوک ہے یعنی نہیں معلوم مصنف کی ہے یاحاشیہ ہے۔’’عیسائیوں کی دینداری کا نمونہ‘‘ تصنیف میں مولانا ڈسکوی نے مختلف دلائل کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ انجیل مروجہ محرف ہیں اور اس کے مقابلے میں قرآن از اول تا ابد دم اپنی اصل حالت میں موجود ہے:عیسائیوں کی کتاب مقدس پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں اس قدر الحاق و اختلاف تبدیل و تحرف کو دخل ہوا ہے کہ عیسائی علما مجبوراً قائل ہو گئے ہیں کہ اس میں اس حد تک اختلاف عبارت یا الفاظ ہیں جسے وہ سہو کاتب کے نام سے منسوب کرتے ہیں کہ ہر حال میں تمام یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ صحیح کون ہے؟مولوی فیروز الدین ڈسکوی نے یہ بھی لکھا ہے کہ جب ان کی کتاب ہی اصلی حالت میں نہیں ہے تو اس سے عقائد کیسے اخذ کیے جا سکتے ہیں؟ وہ اپنی اس تصنیف کا مقصد یوں بیان کرتے ہیں:

میں چاہتا ہوں کہ عیسائیوں کی مقدس کتاب کا مشتبہ اور محرف ہونا، بطور نمونہ اس رسالہ میں درج کروں تا کہ تمام دنیا پر آشکار ہو جائے کہ عیسائی صاحبان کی کتاب میں یہاں تک تبدیل و تحریف اور الحاق و اختلاف کو دخل ہوا ہے۔ اور ہو رہا ہے۔ تو وہ کیسے قابلِ استشنا ہو سکتی ہے۔ اور اس پر عیسائی مذہب کی بنیاد گویا ریت پر بنیاد ہے یا نہیں؟مولانا موصوف نے انجیل کے مختلف چھپے ہوئے نسخوں کا موازنہ کر کے مثالوں،دلیلوں سے ثابت کیا ہے کہ اناجیل مروجہ محرف ہیں لیکن عیسائی بڑی چالاکی سے اس تحریف کا انکار کرتے ہیں۔ مولوی صاحب نے صرف چھے نمونے دینے پر ہی اکتفا کیا ہے۔ انھوں نے اناجیل کے محرف اور قرآن کے غیر محرف ہونے کی نسبت مندرجہ ذیل علمائے نصاریٰ کے اقوال کوبطور دلیل درج کیا ہے۔ گاڈ فری ہیگنس ،مسٹر جان ڈینیورٹ، مسٹر لارڈنر صاحب، ہارن صاحب ،پادری فانڈر، سر ولیم میور،پلوس صاحب، فاسٹس صاحب اور پادری دیر صاحب۔ مولوی فیروز الدین نے ایک مقالہ ’’اسرارالتنزیل ‘‘ ۲۴ جنوری ۱۸۹۶ء میں انجمن حمایت اسلام کے گیارہویں سالانہ جلسے منعقدہ ۲۴ جنوری کے لیے تحریر کیا۔ مگر اچانک طبیعت علیل ہو جانے کی وجہ سے وہ جلسے میں نہ جا سکے۔ خلیفہ عبدالرحیم نے ان کی طرف سے یہ مقالہ پڑھا۔ ’’نما ز اور اس کی حقیقت‘‘ تصنیف میں مولانا نے نماز کی فضیلت کو معترفین اسلام کا جواب دیتے ہوئے بیان کیا ہے۔ مضامین کی فہرست میں ۳۸ مطالب شامل ہیں۔ نماز کی فضیلت کے بارے میں لکھتے ہیں :

اگر غورو فکر او ر تامل سے تمام خدا کی بنائی ہوئی چیزوں پر نگہ کرے ۔تو سب کی سب اپنے اپنے طورپرخدا کی عبادت کر رہے ہیں۔ چوپائے اور طیور اسی کے آگے سر تسلیم خم کیے ہوئے ہیں۔ رینگنے والے جانور اس کے سامنے سجدہ کر رہے ہیں۔ افلاک اور کواکب اس کے ولولہ عشق میں گھوم رہے ہیں اور حرکت دوری سے نماز ادا کررہے ہیں۔ اگر اس کی عبارت میں یہ سب مخلوقات کے طریق عبادت جمع ہو جائیں تو کیا ہی افضل بات ہے۔مولانا فیروز الدین کی تصنیف ’’سلسلہ جدید فیروزی‘‘ اسلام کے بارے میں پانچ ا بواب  پر مشتمل ہے۔ جس میں اسلام کے بنیادی مسائل نہایت آسان اور سلیس زبان میں سمجھائے گئے ہیں۔ یہ کتابیں بچوں کے لیے لکھی گئی ہیں  اور زبان بھی بچوں کی استعداد کے مطابق استعمال کی گئی ہیں۔ ہر ایک کتاب میں نثر کے ساتھ ساتھ نظم کا کچھ حصہ بھی شامل ہے۔ ہر کتاب کا تعلق اسلام کے کسی رکن کے ساتھ ہے۔ ان کی ایک کتاب نماز پر دوسری روزہ پر ،تیسری حج پر ،چوتھی زکوۃ پر اور پانچویں ایمان کے موضوع پر ہے۔ یہ تصانیف اس اعتبار سے اہم ہیں کہ آج سے تقریباً ایک صدی پہلے جب کہ برصغیر پر کفر و الحاد اور اسلام کے خلاف شکوک و شبہات کے بادل منڈلا رہے تھے۔ مولانا ڈسکوی نے نہ صرف پختہ عمر کے لوگوں کے لیے اسلام کی تعلیم عام کی بلکہ بچوں کے لیے بھی مذہبی تعلیم کا ان کتابوں کے ذریعے اہتمام کیا۔ مولوی صاحب نے قرآن مجید کا ترجمہ،اُردو نثر ،اردو نظم اور پنجابی نظم میں کیا ہے۔تفسیر طلب امور کی تفسیر حاـشیے میں دی گئی ہے۔ اس تفسیر میں مسائلِ اسلام کو مفصل بیان کیا گیا ہے۔ ضمناً عیسائیوں اور آریہ مت والوں کے اعتراضات کا جواب بھی دیا گیا ہے۔ اس تفسیر کو پڑھ کر ہر آدمی کامل مناظر اور مباحث بن سکتا ہے۔

انھوں نے سورہ یٰسین ،سورۂ رحمن ، سورہ ملک ، سورہ مزمل اور سورہ نبا کا اُردو نثر میں ترجمہ ’’پنجسورہ بے نظیر‘‘ کے نام سے کیا ہے۔ آخری چار سورتوں کی تفسیر ’’ربع اخیر کی نادر تفسیر‘‘ کے نام سے کی ہے۔ مولوی صاحب کے اُردو ترجمے کی زبان سادہ اور عام فہم ہے۔ ترجمے کی خاص خوبی یہ ہے کہ قوسین میں مطلب کی ادائی اس طرح کر جاتے ہیں کہ تفسیر خود بخود ہی ہو جاتی ہے۔

سورہ یٰسین کی ابتدائی آیات کا ترجمہ ملاحظہ ہو:

اے سرورؐ عالم قرآن کی قسم ،جس میں سراسر ،حکمت کی باتیں  ہیں کہ یقینا تو پیغمبروں کے سلسلے میں ایک ہے اور دین کی سیدھی راہ پر قائم ہے۔ یہ قرآن زبردست اور مہربان خدا نے اتارا ہے تا کہ توان لوگوں کو قہر الہی سے ڈرائے جن کے باپ دادا مدت سے نہیں ڈرائے گئے اور اس لیے وہ دین سے غافل ہیں۔مولوی صاحب کے بیان میں زور ہے۔

 سورہ رحمن کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

اللہ اکبر ،اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ظاہری باطنی ،دینی اور دنیاوی نعمتوں کو کس شان و شوکت اور دھوم دھام سے بیان کیا ہے اور کس اعلیٰ ترین فصاحت اور بلاغت کے ساتھ اپنے احسانات و انعامات کو ظاہر کیا ہے۔ فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے تو پورا قرآن مجید یکساں واقع ہے۔ کہیں تفاوت نہیں ،مگر طرز اور اسلوب ہر سورت کا ایک دوسرے سے نرالا ہے۔ اور اس سورت کا ڈھنگ اور نظم بیان تمام سورتوں سے نادر اور عجیب تر ہے۔

 

 

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...