Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نقش فریادی اکتوبر تا دسمبر 2022 > اُردو میں افسانوی تنقیدکا نیا پیراڈائم اور آصف فرخی

نقش فریادی اکتوبر تا دسمبر 2022 |
پنجاب لٹریری فورم
نقش فریادی اکتوبر تا دسمبر 2022

اُردو میں افسانوی تنقیدکا نیا پیراڈائم اور آصف فرخی
Authors

ARI Id

1695781004291_56118383

Access

Open/Free Access

اُردو میں افسانوی تنقیدکا نیا پیراڈائم اور آصف فرخی"عالمِ ایجاد" کی روشنی میں

ایم۔ خالد فیاض

اکیسویں صدی میں سنجیدہ تنقید کا پورا اسٹکچر بدل گیا ہے۔ تھیوری اور فکشن کے حوالے سے بیانیات کے مباحث نے فکشن کی تنقید کا پورا پینترا ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ اس ذیل میں مغرب میں تو بے شمار کام ہو رہا ہے لیکن ہمارے ہاں بھی چند ناقدین ہی سہی کچھ نہ کچھ عمدہ کام کر رہے ہیں۔ ان میں گوپی چند نارنگ، شمس الرحمن فاروقی اور ڈاکٹر وزیر آغا کے بعد قاضی افضال حسین اور شافع قدوائی کی مثالیں تو سامنے کی ہیں جب کہ ڈاکٹر ناصر عباس نیئر نے فکشن کی اب تک جو تنقید کی ہے اُس کا حاوی رجحان یہی ہے۔ آصف فرخی کی افسانوی تنقید کے بارے میں ہم یہ تو نہیں کَہ سکتے کہ وہ سراسر بیانیات کے ڈسپلن کے تابع ہے اور اس تھیوری سے کہیں انحراف نہیں کرتی؛ ہاں مگر اس تنقید کی نمایاں صورت، بیانیات کے بنیادی مباحث سے توانائی ضرور حاصل کرتی ہے۔

کسی فن پارے میں ‘‘کیا’’ ہے کی بحث اب اُس طرح معنویت کی حامل نہیں رہی جیسے اس سے پہلے مسلسل رہی ہے، اب افسانوی تنقید کا بنیادی سروکار ‘‘کیسے’’ سے ہوتا جا رہا ہے۔ مطلب یہ کہ بیانیات کی بحث (جس میں تھیوری کا عمل دخل ہے) میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ ایک افسانوی متن کیسے بامعنی بن رہا ہے یا بنتا ہے، یا یہ کہ کیسے ایک تخلیق کار اپنے فن پارے کی سیٹنگ کرتا ہے کہ وہ بامعنی بن جاتا ہے۔ اس ‘‘کیسے’’ کے ساتھ خود بہ خود ‘‘کیوں’’ بھی جڑ جاتا ہے۔ مثلاً اس افسانوی فن پارے میں کیوں یہی طریقۂ کار اختیار کیا گیا۔؟ کیوں ایسی ہی سیٹنگ کی گئی ہے وغیرہم۔؟ یہ سوالات بھی بیانیات کے ڈسپلن کو تقویت دینے کا باعث بنتے ہیں۔ آصف فرخی کی تنقیدی کتاب ‘‘عالمِ ایجاد’’ میں دیگر پہلوؤں کے ساتھ ساتھ یہ پہلو بھی نمایاں ہے۔

"عالمِ ایجاد"آصف فرخی کی پہلی تنقیدی کتاب ہے جو ۲۰۰۴ء میں شائع ہوئی اور جس میں ۱۹۹۱ء تا ۱۹۹۲ء میں لکھے گئے دس مضامین شامل ہیں۔ یہ دس کے دس مضامین کسی نہ کسی حوالے سے اُردو فکشن یا اُردو فکشن کی تنقید سے بحث کرتے ہیں۔ یہ مضامین بتاتے ہیں کہ آصف فرخی اُردو میں فکشن کے حوالے سے بالخصوص روایتی تنقیدی مباحث اور طریقۂ کار سے اصولی اختلاف بھی رکھتے ہیں اور اپنا ایک نقطۂ نظر بھی؛ اور سب سے اہم بات یہ کہ اپنے نقطۂ نظر کو دلیل اور شواہد (جس میں وسیع مطالعے کا عمل دخل دیکھا جا سکتا ہے) کے ساتھ بیان کرنے کی تنقیدی قوت اور جرأت سے بھی مالا مال ہیں۔"عالمِ ایجاد"کے بعد آصف فرخی کی دو اور تنقیدی کتابیں ‘‘نگاہِ آئینہ ساز میں’’(۲۰۰۹ء) اور ‘‘ایک کہانی نئے مضمون کی’’(۲۰۲۰ء) کے عنوان سے شائع ہوئیں۔ بلاشبہ اِن میں بھی اُردو فکشن سے متعلق بیش تر مضامین خاصے کی چیز ہیں۔ اِن دو تنقیدی مجموعوں کے دوران ۲۰۱۶ء میں اُن کی انتظار حسین کے جہانِ فن کا تفصیلی احاطہ کرتی ہوئی تحقیقی اور تنقیدی نوعیت کی کتاب ‘‘چراغِ شبِ افسانہ’’ شائع ہوئی؛ جو میرے نزدیک اب تک انتظار حسین کے فن پر ایک ایسی کتاب ہے جس سے زیادہ جامع کتاب لکھنے میں کسی نقاد کو ایک مدّت درکار ہوگی۔لیکن اس سب کے باوجود آصف فرخی کی افسانوی تنقید کا بنیادی نقطۂ نظر اور اُن کا طریقۂ کار واضح کرنے والی کتاب ‘‘عالمِ ایجاد’’ ہے۔ اسی لیے یہاں ہم نے اُن کی افسانوی تنقید کو سمجھنے کے لیے اسی کتاب کو موضوع بنایا ہے۔

سب سے پہلے ہم ذکر کریں گے اُن کے مضمون ‘‘نصوح، ہیضے سے کتاب سوزی تک’’ کا، جو اُن کا ایک اہم تنقیدی مضمون مانا جاتا ہے۔ ‘‘توبتہ النصوح’’ پر غور کرتے ہوئے آصف فرخی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نذیر احمد نے وباؤں میں سے اپنی اس مقصدی کتھا کے لیے ‘‘ہیضے’’ کا ہی انتخاب کیوں کیا؟ جو اس پورے قصے کا نقطۂ تحرک بنتا ہے۔ اس کے لیے کسی اور وبا مثلاً طاعون وغیرہ کو کیوں منتخب نہیں کیا گیا؟ یہ تو طے ہے کہ نذیر احمد نے وبا کو اپنے اخلاقی مقصد کے لیے استعمال کیا کہ بقول آصف فرخی ‘‘وبا ایک وسیلہ یا بہانہ ہے، لوگوں کو درسِ عبرت دلا کر نیکو کاری و راستی کی طرف مائل کرنے کا۔’’(ص:۲۵) لیکن اس کے لیے شاید طاعون کی وبا زیادہ بہتر ہوتی۔ تو پھر ہیضہ ہی کیوں؟ کہیں کہانی کی ضرورت کے تحت ہی تو نذیر احمد نے ہیضے کا انتخاب نہیں کیا کہ اس سے ایک علامتی معنویت حاصل کی جا سکتی ہے؟ لیکن وہ علامتی معنویت کیا ہو سکتی ہے؟ اس سوال کی کھوج ہی میں آصف فرخی کو یہ نکتہ سوجھتا ہے۔ اُن کے خیال میں:

‘‘ہیضے میں قے اور دست کی فراوانی کی وجہ سے اجتماعی لاشعور میں اس وبا کا ایک تعلق بسیار خوری سے بن گیا ہے جو بذاتِ خود حرص و ہوا اور طمع کی ایک علامتی شکل ہے۔ گو کہ اس وبا کا تعلق غذا کی آلودگی سے ہے نہ کہ کثرت اور پُرخوری سے۔ لیکن عام خیال میں یہ ضرورت سے زیادہ کھا جانے کی ایک سزا کے طور پر ظاہر ہوتی ہے۔ چناں چہ قومی سطح پر اس علامت کی جو معنویت بنتی ہے، وہ خاصی واضح ہے۔ (اسی لیے) نصوح، نذیر احمد کے اعتبار سے پیٹ بھرا اور ناشکرا ہے، اس لیے اس کی کایاکلپ کے لیے ہیضہ زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ طاعون سے نذیر احمد کے اخلاقی و علامتی مقاصد حاصل نہیں ہو سکتے تھے۔ اپنے عروج کے زمانے میں ہیضہ شدید نفسیاتی خوف کو جنم دیتا ہے کیوں کہ یہ بیماری آناً فاناً اثر کرتی ہے۔۔۔ چند گھنٹوں میں واقع ہو جانے والی موت صحیح معنوں میں ناگہانی معلوم ہوتی ہے۔۔۔ جسم چند گھنٹوں میں شکست و ریخت کی کئی منزلیں طے کر لیتا ہے اور ایسی حالت کو پہنچ جاتا ہے جس پر موت کی ہول ناکی کی ایسی اٹل حقیقت تحریر ہے جو زندہ بچ جانے والوں کو درسِ عبرت نظر آتی ہے۔’’(ص:۲۶ اور ۲۷)اس ناول میں جو کہا گیا ہے، آصف فرخی کو اُس سے تو اختلاف ہے مگر جس طرح کہا گیا ہے اس کے وہ قائل ہیں۔ نصوح کی غشی نما نیند کا فنی جواز بھی، ہیضے کی بیماری فراہم کرتی ہے اور خوب کرتی ہے۔ یہی وہ حالت ہے جس میں نصوح کو اپنی زندگی پر غور کرنے کا موقع ملتا ہے۔ ‘‘یہ بیماری کا کرائسس بھی ہے اور نصوح کی زندگی کا بھی۔۔۔ عین مناسب بیانیہ تکنیک اور وبائی حملے کے علامتی معنی کے ذریعے نذیر احمد نے اس خواب کے لیے زمین پوری طرح ہم وار کر لی ہے، جو نصوح کی اخلاقی قلب ماہیت کا موجب ہوگا اور قصے کو اس کے مطلوبہ اخلاقی نتائج کی طرف لے جائے گا۔’’(ص:۳۱) اسی لیے آصف فرخی اس ناول کے قصے کے نہیں، قصہ گوئی میں برتی گئی ہنرمندی کے قائل ہیں۔

اس ناول کی دوسری صفت وہ کش مکش یا تصادم ہے جس کا ذکر اگرچہ اکثر ناقدین نے کیا ہے لیکن اس کی توضیح شاید کسی نے یوں نہیں کی کہ ‘‘کلیم اور نصوح کا یہ تصادم دراصل ہندوستانی مسلمانوں کے اجتماعی کردار کی دو انتہاؤں کا تصادم ہے۔ مسلمانوں کے قومی تشخص میں نصوح بھی مضمر ہے اور کلیم بھی پنہاں ہے۔ کبھی ایک حاوی ہو جاتا ہے کبھی دوسرا، لیکن دونوں اپنا یہ تضاد حل نہیں کر سکتے۔ ‘توبتہ النصوح’ کی ڈرامائیت اسی کش مکش سے اُبھری ہے۔۔۔ نصوح اور کلیم کے کرداروں نے اُس سرد جنگ کو درمیانے طبقے تک پہنچا دیا ہے جو ۱۸۵۷ء سے پیش تر خانقاہ اور دربار کی کش مکش تھی۔’’(ص:۳۶) اور پھر یہ کہ ‘‘نصوح اور کلیم کا یہ تصادم نذیر احمد کے اتنے برس بعد بھی آج ہمارے معاشرے میں برپا عبقری کش مکش کی ایسی بھرپور تصویر ہے کہ اس کی دوسری کوئی اور مثال نہیں۔’’(ص:۴۴ تا ۴۵)

کلیم اصل میں آصف فرخی کا اس قدر پسندیدہ کردار ہے کہ اس مضمون کے پندرہ سال بعد اپنی دوسری تنقیدی کتاب ‘‘نگاہِ آئینہ ساز میں’’ کے ایک مضمون میں بھی، وہ کلیم کی وجہ سے اپنے لیے اس ناول ‘‘توبتہ النصوح’’ کا مصنف کہلایا جانا پسند کرتے ہیں۔ اور اعلانیہ کہتے ہیں کہ ‘‘مجھے یہ ناول پسند ہے تو نہ نصوح کی وجہ سے نہ توبہ کے خیال سے، بلکہ کلیم کے لیے۔’’(ص:۱۴۱)

کلیم کا کردار ایک طرف تو باپ سے تصادم کی وجہ سے توجہ کا باعث بنتا ہے اور دوسری طرف ہمارے ناقدین کو اس حوالے سے بھی اپیل کرتا ہے کہ اُس کی ڈوریں نذیر احمد کے ہاتھ میں نہیں رہتیں اور وہ نذیر احمد کا ایک باغی کردار ہے؛ اور نذیر احمد کے ہر ناول میں ایسے ہی کردار اُن کے قصے میں جان ڈالتے اور اُسے ناول بننے میں مدد دیتے ہیں۔ آصف فرخی کا بھی یہی مؤقف ہے۔ اس ذیل میں، مَیں یہاں تک تو متفق ہوں کہ کلیم اور اس جیسے نذیر احمد کے دیگر کردار اُن کے بہترین کردار کہلائے جا سکتے ہیں لیکن یہ کہنا کہ اِن کی ڈوریں نذیر احمد کے ہاتھ میں نہیں رہتیں، میرے خیال سے زیادہ درست نہیں۔ کلیم بھی بہرحال نذیر احمد کے اس ناول کا ایک سیٹنگ کریکٹر ہی ہے؛ نذیر احمد نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے ایک مقررہ وقت تک کہ جب تک کش مکش اپنے عروج پر نہ پہنچ جائے، اُس کی ڈور خود ڈھیلی چھوڑی ہے اور آخر میں اُسی ڈور کو کھینچ کر کلیم کو ایسا پٹخا مارا ہے کہ وہ ہمیں نصوح اور نذیر احمد کے قدموں میں بے بسی کی تصویر بنا، پڑا ہُوا دکھائی دیتا ہے۔ ہاں آصف فرخی کی یہ بات نہایت اہم ہے کہ ‘‘کلیم آ کر پورے قصے کو transform کر دیتا ہے بلکہ وہ نصوح کی توبہ کے پورے قضیے سے transcend کر جاتا ہے۔’’(ص:۳۲) لیکن اس سب کے لیے داد، قصہ گو کو ہی دی جائے گی جس نے اپنے مقصد کو پانے کے لیے نظری طور پر ایک بالکل اینٹی کردار اپنے سامنے لا کھڑا کیا۔ آصف فرخی حیران ہیں کہ نذیر احمد نے کیسے کلیم کو برداشت کیا ہوگا، کس ہمت سے اُس کے مکالمے لکھے ہوں گے؟ تو عرض یہ ہے کہ نذیر احمد کو یہ حوصلہ یہ ہمت صرف اس لیے حاصل ہوئی کہ وہ جانتے ہیں کہ یہ مجھ سے آزاد ہو کر کہاں تک جا سکتا ہے۔ اصل میں وہ کلیم کی حد بندی پہلے سے کر چکے ہیں۔

کتاب سوزی کے عمل کو آصف فرخی نے ‘‘ثقافتی قتل کی ایک مکروہ صورت’’ اور فاشسٹ رویہ گردانا ہے جو کسی طور غلط نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ یہ آئیڈیالوجیکل وحشت ہے جس کا اظہار نصوح کے اس رویے سے ہوتا ہے۔ بقول آصف فرخی ‘‘دولت آباد ایک لحاظ سے نذیر احمد کا اسلامی یوٹوپیا ہے جس میں سے اُنھوں نے شاعری کو اُسی طرح خارج کر دیا ہے جیسے افلاطون نے اپنی مثالی جمہوریہ سے خارج کر دیا تھا۔ اس ریاست کے منتظمین گاڑھی عربی زدہ اُردو بولتے ہیں، شعر پڑھنا گستاخی سمجھا جاتا ہے اور سب باریش مولوی ہیں۔’’(ص:۴۳) اور یہیں سے آصف فرخی ایک خطرناک سوال اُٹھاتے ہیں کہ ‘‘کیا اسے جدید دَور میں اسلامی نظم و نسق کے مطابق چلنے والی ریاست کے تصور کا ابتدائی خاکہ کہا جا سکتا ہے؟’’(ص:۴۳) یہ نکتہ اگر آصف فرخی کے بجائے فتح محمد ملک کو سُوجھ جاتا تو پاکستان کا اوّلین خواب دیکھنے اور دِکھانے کا تاج کب کا نذیر احمد کے سَر سج چکا ہوتا۔

تنقید کا ایک اہم ترین کام اپنے عہد کے قائم کیے گئے فکری اور ادبی سوالوں کے تناظر میں ادب کو دیکھنا اور بحث کا حصہ بنانا بھی ہے۔ آصف فرخی کی تنقید یہ معاملہ مسلسل اپنے پیش نظر رکھتی ہے اس کی وجہ سے اُن کی تنقید میں تازگی کا شدید احساس جنم لیتا ہے اور فکری بالیدگی کا سامان بھی وافر مہیا ہوتا ہے۔ چاہے ‘‘توبتہ النصوح’’ کا معاملہ ہو یا کافکا جیسے تخلیق کار کی تفہیم کا مسئلہ؛ سب حوالوں سے آصف فرخی کا ذہن اس عہد کے قائم کیے گئے سوالوں سے نبردآزما رہتا ہے۔

‘‘پنجرہ پرندہ ڈھونڈتا ہے’’ آصف فرخی کا ایک اور شاہ کار مضمون ہے۔ بہ ظاہر یہ مضمون کافکا سے متعلق دکھائی دیتا ہے (اور ہے بھی) لیکن حقیقت میں یہ کافکا کے ذریعے جدید افسانے کو سمجھنے، سمجھانے اور اُس کی شعریات مرتب کرنے کی ایک نادر مثال ہے۔ اس مضمون میں کافکا کو جدید افسانے کا معیار سمجھا گیا ہے لہٰذا آصف فرخی نے اُس کے ذریعے جدید افسانے کی شعریات وضع کی ہے۔ یہ الگ بات کہ اس کاوش میں کافکا سے متعلق بھی بڑی کام کی باتیں سامنے آتی ہیں اور اُسی کی بنیاد پر جدید افسانے کے خدوخال بھی نمایاں ہوتے ہیں۔

کافکا کی تحریروں اور فن کا تصور، آصف فرخی؛ کافکا کی ذات کے بغیر کرنے کو تیار نہیں۔ ‘‘کافکا کا بے حد ذاتی رویہ اور اُس کا شخصی کرب، اُس کے فن کی وہ بنیاد ہے جس سے صرفِ نظر کر کے ہم کوئی وسیع تر معنیاتی دائرہ قائم نہیں کر سکتے۔۔۔ جلاوطنی کی سی ہراس، ایک مستقل خلش اور Alienation کی کیفیات کافکا کی واردات کے وہ عناصر ہیں جن سے اُس کی ادبی حیثیت نمو پاتی ہے۔ شاید وہ خود بھی اپنے وجود کی اساس، اپنی زندگی کا جوہر ترکیبی اسی میں پاتا تھا اور اس کے بغیر اپنی ادبی حیثیت کو کچھ نہیں سمجھتا تھا۔۔۔ وہ جس صنف کے پاس پہنچتا ہے اسے اپنے کرب کا حامل بنا دیتا ہے۔۔۔ کافکا کا افسانہ اس کی اپنی کہانی ہے۔۔۔ (لیکن) سرگزشت ہونے کے باوجود یہ افسانہ ہی ہے۔۔۔ (کیوں کہ) کافکا اپنا ذکر چھیڑتا ہے اور بیچ میں دُنیا آ جاتی ہے۔’’(ص:۵۹ اور ۶۰) یہی حقیقت ہے۔ بڑا تخلیق کار اپنا بالکل ذاتی ذکر بھی کرے تو اُس میں دنیا آن بستی ہے اور طرح طرح کے افسانے ظہور میں آنے لگتے ہیں۔ اسی لیے ہمیں تخلیقی ذات کے کرشمے دیکھنے کو ملتے ہیں۔

انسان اس دنیا میں جو کہ اُس نے نہیں بنائی، اکیلا ہے۔ یعنی اس دنیا میں فیصلے اور انتخاب کی گھڑی میں اکیلا ہے۔ اس اکیلے پن کا مشاہدہ ہم دیگر وجودیوں کے ساتھ ساتھ کافکا کے ہاں بھی کرتے ہیں۔ بقول آصف فرخی ‘‘آج کی اس لمحہ لمحہ بدلتی اور مشکل سے مشکل تر ہوتی ہوئی دنیا میں۔۔۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ اکیلے پن کے ڈر کی یہ جھرجھری افسانہ ہے، بدلی ہوئی دنیا میں جدید افسانہ۔۔۔ کافکا جو اس ڈر اور جھرجھری کا نقطۂ عروج ہے، کافکا جو جدید افسانے کا لبِ لباب ہے۔۔۔ کافکا مجھے اس عہد کی مرکزی فنی دستاویز معلوم ہوتا ہے۔’’(ص:۵۶ تا ۵۷) اور پھر یہ کہ ‘‘اُس کی وصیت کی خلاف ورزی کا خمیازہ جدید افسانہ ہے۔ کافکا کی بے چین اور درد آشنا روح کی دی ہوئی بددعا ہے جدید افسانہ۔’’(ص:۵۷) علاوہ بریں یہ کہ کافکا جسے کسی خالق کا یقین نہیں تھا تو ‘‘ایک بے عقیدہ شخص کی دعا جدید افسانہ بن جاتی ہے۔ اس دنیا کا افسانہ جو بدل گئی ہے۔’’(ص:۶۷) ‘‘کافکا کے روزنامچوں اور افسانوں سے مترشح ہے کہ جدید افسانے کا خمیر دروں بینی سے اُٹھتا ہے، مگر یہ دروں بینی بے سمت اور بے ہیئت نہیں۔’’(ص:۶۳) اور آخر میں آصف فرخی لکھتے ہیں ‘‘کافکا نے ایک مقولہ اس طور لکھا: ‘ایک پنجرہ پرندے کی تلاش میں نکلا۔’ مقولہ کیا ہے اپنی جگہ مکمل افسانہ ہے۔ پرندے کی تلاش میں نکلا ہوا یہ پنجرہ جدید افسانہ ہے۔’’(ص:۶۷)

یوں آصف فرخی جدید افسانے کے سب تار کافکا سے جوڑ کر اُس کی شعریات مرتب کرتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ جدید فکشن کے خدوخال وضع کرنے میں کافکا کا بہت ہاتھ ہے لیکن کیا صرف کافکا؟ دائرہ انتہائی محدود بھی رکھیں اور نظر کم سے کم بھی دوڑائیں تو کافکا کے علاوہ کامیو، سیموئل بیکٹ، یوجین آیونسکو، سارتر اور بورخیس جیسے ادیبوں سے نظریں چُرانا اور بچ کے نکلنا میرے لیے تو ممکن نہیں۔ اور ایک اور سوال، کہ کیا واقعی جدید افسانہ کافکا کی وصیت کی خلاف ورزی کا نتیجہ ہے؟ کیا یہ آصف فرخی کا تاثراتی بیان نہیں؟ کیا یہ درست ہے کہ اگر کافکا کی وصیت کے مطابق میکس براڈ اُس کی تخلیقات ضائع کر دیتا تو دنیا جدید افسانے سے محروم رہ جاتی؟ میرے خیال سے ایسا نہیں ہے۔ اصل میں جدید افسانہ یا فکشن اُس جدید انسانی صورتِ حال اور سماج کا نتیجہ ہے جس میں کافکا یا کامیو یا آیونسکو یا سارتر جیسے ادیب سانس لے رہے تھے۔ ان ادیبوں نے اگر جدید افسانے کی صورت وضع کی تھی تو جدید انسانی سماج نے ان ادیبوں کو سینچا تھا۔ جدید انسانی سماج نے جب اس دنیا کے افراد کے سامنے وجودی تنہائی، اکیلاپن، خوف، کرب، انتخاب اور سب سے بڑھ کر کائنات کے مقابل اپنے وجود کی معنویت تلاش کرنے جیسے چیلنجز لا کھڑے کیے تو جدید افسانے کی بنیاد پڑی۔ لہٰذا کافکا کی وصیت پوری ہو بھی جاتی تو جدید افسانہ ظہور میں ضرور آتا۔ یہ الگ بات کہ ہماری اس بات سے کافکا کی اہمیت کم نہیں ہوتی، کیوں کہ وصیت پوری ہو جانے کی صورت میں ہم جدید افسانے کے کچھ ایسے پہلوؤں سے شاید ضرور ناآشنا رہتے جو بہرحال کافکا ہی سے مخصوص ہیں۔

افسانے سے متعلق کچھ اہم باتیں آصف فرخی نے اپنے ایک مختصر سے مضمون ‘‘باتوں سے افسانے تک’’ میں بھی کی ہیں۔ اس میں خوش ونت سنگھ کے پیش کردہ افسانہ نگاری کے بارے میں روایتی قسم کے اصول و ضوابط کی بنیاد پر افسانے کی صنف پر آصف فرخی نے اظہارِ خیال کیا ہے جس میں طنزیہ اسلوب کی آمیزش بھی ہے۔ مختصر افسانہ کے ساتھ الفاظ کی حد اب بھی مقرر کی جاتی ہے، خوش ونت سنگھ نے بھی ساڑھے تین ہزار الفاظ کی حد متعین کی ہے۔ آصف فرخی اس ذیل میں بڑا واضح مؤقف رکھتے ہیں کہ ‘‘الفاظ کی کوئی تعداد مقرر کر دینے سے افسانے کی صنفی تعریف کا اہم تر مسئلہ حل نہیں ہوتا کہ کن خصوصیات کی بنیاد پر افسانے کو کہانی کا ایک واضح روپ سمجھا جاتا ہے اور طویل بیانیہ سے ممتاز و ممیز کیا جا سکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ اس امتیاز کی بنیاد محض حجم پر نہیں رکھی جا سکتی۔’’(ص:۵۰) اسی طرح آصف فرخی افسانے میں کردار اور واقعات کے اُس طرح لازم و ملزوم ہونے کو ضروری خیال نہیں کرتے جس طرح روایتی تعریفوں میں ضروری قرار دیا گیا ہے۔ کردار نگاری اور واقعات کے بیان کی متنوع صورتیں اور طریقے ہو سکتے ہیں جن کا انتخاب اور استعمال افسانہ نگاروں کی صواب دید پر ہے۔ آصف فرخی کو ‘‘کلّیہ سازی، مردہ گھوڑے کی کھال میں بھُس بھرنے کا عمل معلوم ہوتی ہے۔’’(ص:۵۱) اسی لیے وہ کہتے ہیں کہ ‘‘ایک صنف کے طور پر افسانے کی کامیابی قاعدے اور اصول سے بے نیاز resilience میں مضمر ہے۔’’(ص:۵۲) آخر میں وہ اس غلط فہمی کو بھی دُور کرتے ہیں کہ شاید افسانہ لکھنا کوئی بہت آسان سا کام ہے۔ اس ذیل میں خوش ونت سنگھ سے زیادہ ہمارے ہاں غلام عباس قصور وار ہیں جنھوں نے بڑے آرام سے کَہ دیا تھا کہ جو شخص اپنے کسی عزیز کو خط لکھ سکتا ہے وہ ذرا سی کوشش سے افسانہ بھی لکھ سکتا ہے۔ اس پر بات کرتے ہوئے آصف فرخی نے بہت عمدہ جملہ لکھا ہے کہ ‘‘بشارتیں ڈاکیے کی طرح دروازے پر دستک نہیں دیتیں اور معجزے خط کے لفافوں میں بند ہو کر نہیں آتے؛ ان کے حصول کے لیے اہتمام کرنا پڑتا ہے۔’’(ص:۵۳) اور یہ ‘‘اہتمام’’ کوئی ایسا معمولی کام نہیں کہ اُس عہد میں ہر خط لکھنے والا اور آج کے عہد میں سیل فون پر رومن رسم الخط میں میسج کرنے والا ہر شخص کر سکتا ہو۔

اگر ہم داستان کی صنف کی بات کریں تو اس میں شک نہیں کہ ناول کو مرکزی حیثیت دیتے ہوئے ہمارے افسانوی ناقدین نے داستانوی ادب کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں کیا۔ یوں بھی جب سے حقیقت نگاری و واقعیت نگاری کے کچے پکے تصورات کا چلن عام ہُوا اور اِن تصورات و نظریات کو ناول ہی کا لازمہ سمجھا جانے لگا تو داستانوی ادب کے بارے میں ہمارے رویے کافی سخت ہوگئے۔ آصف فرخی اس پر بھی کافی نالاں ہیں؛ کہتے ہیں ‘‘سب سے زیادہ مشکل اس وقت ہوتی ہے جب داستانوں کو ناول کا نقشِ اوّلین یا ابتدائی اور خام صورت سمجھ لیا جاتا ہے۔ کسی نے رجب علی بیگ سرور کے ‘فسانۂ عجائب’ کو داستان اور ناول کی درمیانی کڑی قرار دیا ہے۔’’ علاوہ ازیں یہ کہ ‘‘داستان میں ناول کا پیش خیمہ تلاش کرنے والوں کے ذہن میں ایک اور تصور جاگزیں ہے، اور وہ یہ ہے کہ داستان، تہذیب کے اوائلی ایام یا ابتدا کی نمائندگی کرتی ہے، جب کہ ناول و افسانہ تہذیب کے بلوغ اور جدیدیت کے علم بردار ہیں۔’’(ص:۱۸۰)

اصل میں آج داستانوں کی تفہیم کا نیا پس منظر ایک طرف جارج فریزر اور لیوی اسٹراس کی تحقیقات سے قائم ہوتا ہے تو دوسری طرف تھیوری اور بیانیات کے مباحث سے اسے تقویت ملتی ہے۔ اُردو میں کلیم الدین احمد اور اُس کے بعد خاص طور پر ڈاکٹر سہیل احمد خان اور شمس الرحمن فاروقی نے جو اُردو داستانوں کے حوالے سے نیا ڈسکورس قائم کیا ہے، آصف فرخی اُن سب سے روشنی لیتے ہیں اسی لیے اُن کا مؤقف اُن ناقدین سے علیحدہ ہے جو داستان کو ناول کے تناظر یا شعریات کی بنیاد پر پرکھتے ہیں اور پھر اس بنیاد پر داستان کو ایک ٹھس، جامد اور بڑی حد تک بے کار صنف سمجھنے کا رجحان عام کرتے ہیں۔ آصف فرخی داستان کی معنویت ایک بالکل الگ صنف کے طور پر قائم کرنے اور اُس کی اپنی کائنات دریافت کرنے کے حق میں ہیں اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہم داستان کو اُس کی اپنی شعریات یا قواعد کے تحت سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ اسی لیے وہ اُردو میں اس ذیل میں شمس الرحمن فاروقی کے کام کو بہت سراہتے ہیں۔

داستانوں کے حوالے سے آصف فرخی کے نظریات اور مباحث ہمیں اس کتاب کے تین مضامین میں نظر آتے ہیں۔ ایک تو ‘‘حیرتی ہے یہ آئینہ’’ جو اس کتاب کا سب سے طویل مضمون ہے اور اس میں انیسویں صدی کے نظر انداز کیے گئے اُردو ناولوں خاص طور پر ‘‘نشتر’’ پر اچھی خاصی تحقیقی اور تنقیدی نوعیت کی بحث ملتی ہے؛ اس کے ساتھ ساتھ داستان اور ناول کے تقابل کی بحث اور اُردو ناقدین کا اس میں کردار اور پھر اُردو ناول کی اہمیت اور اُس کی شعریات پر مباحث۔(اس مضمون میں باختن کے نظریات سے کافی استفادہ کیا گیا ہے)۔ دوسرا مضمون ‘‘عالمِ ایجاد’’ ہے جس کی بنیاد پر کتاب کا بھی عنوان ہے۔ اس میں بھی ہمیں داستان سے متعلق مباحث ملتے ہیں اور ایک ابتدائی مضمون ہے ‘‘بندر کی تقریر’’ جو فسانۂ عجائب’’ کے رشید حسن خان کے مرتبہ متن کے حوالے سے ہے۔

ناول کے حوالے سے بھی آصف فرخی بہت سی منطقی (اور کچھ تاثراتی) انداز کی اہم باتیں کرتے ہیں۔ سب سے پہلے منٹو کے کتبے کو موضوع بناتے ہوئے، جس پر لکھا ہُوا ہے کہ ‘‘وہ(منٹو) بڑا افسانہ نگار ہے یا خدا’’؛ وہ ہمیں یہ کَہ کر چونکاتے ہیں کہ منٹو بڑا افسانہ نگار ہے: ‘‘منٹو اس لیے بڑا ہے کہ خدا افسانہ نگار ہی نہیں۔۔۔ خدا تو ناول نگار ہے۔’’(ص:۱۳۴) اس بیان سے وہ افسانہ نگاری اور ناول نگاری کا فرق واضح کرتے ہیں۔ ‘‘زندگی کے تمام تاروپود، جزئیات و تعلقات کی بھرمار اور تفصیل در تفصیل کے لحاظ سے، جو افسانے کے چند لمحات پر مشتمل heightened tension اور ‘جھلکیوں’ کے بہ قدرِ ظرف نہیں، دیکھا جائے تو کسی اور صنف کے بجائے خدا ناول کی تخلیق پر عمل پیرا ہے۔ اور یہ بھی بالکل نمایاں ہے کہ خدا، فلوبیئر کے دبستان کا ناول نگار ہے۔’’(ص:۱۳۵) فلوبیئر جس نے کہا تھا کہ افسانہ ساز اپنی تخلیق میں خدا کی طرح ہو کہ ہر جگہ موجود رہے پھر بھی کہیں دکھائی نہ دے۔

بنیادی طور پر اپنے اس تفصیلی مضمون میں آصف فرخی ‘‘افسانہ طرازی یا سازی’’ کے حوالے سے مشترک باتیں کرتے ہیں جس سے اُن کی مراد مختصر افسانہ، ناول اور داستان؛ تینوں ہیں۔ ‘‘حیرتی ہے یہ آئینہ’’ میں آصف فرخی ناول پر باختن کے نظریات کے تحت بات کرتے ہیں، بالخصوص اُردو ناول پر اور وہ بھی انیسویں صدی کے اُس ناول پر جس پر ہمارے ناقدین نے بہت کم توجہ دی یا بالکل توجہ نہیں دی۔

اُردو ناول سے متعلق آصف فرخی کے چند سوالات بڑے غور طلب ہیں۔ مثلاً ‘‘کیا اُردو میں ناول کے آغاز اور ہندوستان میں صنعتی دَور کے آغاز کا زمانہ ایک ہی ہے، اور کیا ان میں علت و معلول کا تعلق ہے؟ اگر اس سوال کا جواب آپ ہاں میں دیتے ہیں تب بھی اس سے یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ داستان اور ناول میں جو فرق ہے کیا وہ دنیا کے بارے میں نقطۂ نظر (World View) اور اس کے فنی اظہار کا فرق ہے؟ اور اگر یہ فرق دونوں کے نفسِ مضمون (Sjuzet) یا طریقۂ بیاں واردات میں بھی موجود ہے تو آخر میں کس مقام پر واقع (Precisely Located) ہے؟ صنعتی دَور یا جاگیرداری کی تفریق ان اہم تر سوالوں کے ضمن میں ہمارے لیے کچھ خاص معاون ثابت نہیں ہوتی۔’’(ص:۱۸۷)

باختن کے تصورات سے استفادہ کرتے ہوئے آصف فرخی یہ نتیجہ نکالنے میں کامیاب رہے کہ ‘‘مصنف کا نقطۂ نظر اور world view جب آئیڈیالوجی بن کر حاوی ہو جائیں تو ایک بار پھر ناول کا مکالماتی امکان، اور ایک ہی متن میں مختلف نقطہ ہائے نظر اور مختلف اسالیب کی موجودگی مفقود ہونے لگتی ہے۔’’(ص:۱۹۴) بہرحال ناول، ناول اور داستان میں فرق اور انیسویں صدی کے اُردو ناول کا باختنی نظریات کے تحت مطالعہ اس مضمون کو خاصے کی چیز بناتا ہے جس کی مثال اُردو فکشن کی تنقید میں ابھی بھی کم کم نظر آتی ہے۔

ناول یا فکشن میں تجربے کی بحث کو آصف فرخی نے اپنے مضمون ‘‘تجربہ اور تخیل’’ میں اُٹھایا ہے۔ اس مضمون کا بنیادی سروکار تو اُردو کی اُس تنقید کا جواب دینا ہے جو قرۃالعین حیدر کے فکشن میں اُن کے کچھ سوانحی حوالوں کی وجہ سے ادھورے تجربے کا الزام عائد کرتی ہے، یا شعور کی رَو کے استعمال پر سوال اُٹھاتی ہے۔ اور اسی سارے معاملے سے ہمیں ناول میں تخلیق کار کے سوانحی پہلو یا تجربے کی نوعیت اور اُس کی ماہیت کے حوالے سے اور تکنیک یا تخیل کے عمل دخل سے متعلق چند اہم نقاط مل جاتے ہیں۔ مثلاً سب سے پہلے تو آصف فرخی یہ واضح کر دیتے ہیں کہ ‘‘افسانہ سازی کا کام خاتون کر رہی ہو یا مرد، اس کی نجی زندگی کی ایسی تمام تفصیلات لازمی نہیں کہ اُس کے ادبی مطالعے میں معاون ثابت ہوں۔ بلکہ بعض صورتوں میں تو یہ تفصیلات رکاوٹ بن جاتی ہیں کہ ناقد پھر ان کی تاویلات میں الجھ کر رہ جاتا ہے۔’’(ص:۷۴) اس ذیل میں آصف فرخی فرانسیسی ادیب پروست کے نظریات سے استفادہ کرتے ہوئے وضاحت کرتے ہیں کہ ‘‘سوانح کی بھرمار اس عنصر کی گنجائش نہیں چھوڑتی جسے اُس (پروست) نے Moi Profound کا نام دیا، اور یہ شخصیت کی گہرائی یا ذات عمیق وہ تخلیقی روح ہے جو باطن کی پہنائیوں سے اُبھر کر آتی ہے۔ پروست کے لیے تقلیب (Transformation) کا وہ عمل بنیادی حیثیت رکھتا ہے جس کی مدد سے ادیب اپنے تجربے کو ‘ادبِ عالیہ’ میں ڈھال دیتا ہے۔’’(ص:۷۴) اور پھر آخری نتیجہ یہ کہ ‘‘ضروری نہیں کہ جذبات و تجربات کی پوری سرگم ناول نگار کی دست رس میں ہو۔ یہ امر زیادہ توجہ طلب ہے کہ وہ تجربے کو کس طرح بروئے کار لاتا ہے، اُس نے تجربے سے تخلیقی بصیرت تک پہنچنے کی نہج کیا اختیار کی ہے۔’’(ص:۷۹) اور اس میں سب سے زیادہ کام آنے والی شے، تخلیق کار کی قوتِ متخیلہ ہے۔ اسی لیے آصف فرخی کے بقول ‘‘اسی قوت (متخیلہ) کے سہارے وہ نہ صرف تجربے کی کمی کو پورا کر سکتا ہے بلکہ اُن مراحل سے بھی گزر سکتا ہے جن سے وہ فی الواقع نہیں گزرا اور نادیدہ بلکہ ناآفریدہ جہانوں کی سیر کر سکتا ہے۔’’(ص:۸۰) ایک اہم اور بحث طلب بات تکنیک کے حوالے سے کہ ‘‘کوئی بھی تکنیک Strait Jacket نہیں ہوتی کہ اُس کے اندر بندھ کر مصنف ہاتھ پاؤں نہ ہلا سکے۔۔۔ بلکہ تخلیقی مصنف تکنیک کو اپنے مقاصد کے تابع لا کر اُسے ڈھال سکتا ہے۔’’(ص:۷۷)

غرض یہ کہ آصف فرخی کی افسانوی تنقید کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اس ضمن میں اُن کے مطالعے اور غور و فکر کا دائرہ وسیع ہی نہیں، عمیق بھی ہے۔ گو اختلافات کی گنجائشیں موجود ہیں (اور وہ کہاں نہیں ہوتیں) لیکن اصل بات یہ ہے کہ اُنھوں نے فکشن کی تنقید کو معاصر مباحث سے جوڑ کر اُردو کی افسانوی تنقید کا دامن وسیع کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے لیے اُنھیں اُردو کی روایتی افسانوی تنقید سے بھی مجادلہ کرنا پڑا ہے جس کی ایک واضح مثال تو اُن کا مضمون ‘‘نقاد بہ طور دشمن’’ ہے لیکن یہ مجادلہ صرف اسی مضمون تک محدود نہیں بلکہ یہ تمام مضامین میں موجود ہے۔ اس حوالے سے بھی جہاں بہت زیادہ داد بنتی ہے وہاں بہت سارے اختلافات جنم لیتے ہیں لیکن اس میں شک نہیں کہ اس مجادلے میں بھی نئے نئے سوالات ہمارے سامنے آن کھڑے ہوتے ہیں۔ ان سے بھی کسی اور وقت معاملہ کیا جائے گا۔ علاوہ ازیں آصف فرخی نے غالبؔ کی تخلیقات کا افسانہ طرازی سے جو رشتہ جوڑا ہے، وہ بھی ایک الگ مضمون کا متقاضی ہے۔

مجموعی طور پر ہم کَہ سکتے ہیں کہ آصف فرخی کی تنقید جس کا دورانیہ لگ بھگ تیس سال پر مبنی ہے (جب کہ یہاں اُن کی بہ مشکل دو سال پر مبنی تنقید بحث کا حصہ بنی ہے)، مغربی ادب اور اُردو کے جدید اور کلاسیک ادب کے مطالعے کے امتزاج کا مرقع ہے؛ مغربی اور اُردو ادب سے استفادے میں جو فکری اور نظری توازن ہے کہ نہ تو کسی احساسِ کم تری کا شائبہ ہے نہ ہی کسی طرح کا احساسِ برتری کم نظری پیدا کرتا ہے؛ اُس نے آصف فرخی کی تنقید کو ایک ایسا وقار بخشا ہے جو تنقید میں کم کم دکھائی دیتا ہے۔

٭٭٭

 

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...