Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نقش فریادی اکتوبر تا دسمبر 2022 > ناول"دھنی بخش کے بیٹے " میں خیر وشر کا تصور

نقش فریادی اکتوبر تا دسمبر 2022 |
پنجاب لٹریری فورم
نقش فریادی اکتوبر تا دسمبر 2022

ناول"دھنی بخش کے بیٹے " میں خیر وشر کا تصور
Authors

ARI Id

1695781004291_56118385

Access

Open/Free Access

ناول"دھنی بخش کے بیٹے " میں خیر وشر کا تصور

کومل شہزادی

اس کائنات میں ازل سے “خیر” اور” شر” کی کشمکش ہے۔ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ یہی کشمکش آپ کو ایسے تصورات کے اطلاق کی راہ میں بھی حائل نظرآتی ہے ۔ اس کائنات میں “خیر” اور” شر” ما بعد طبعیاتی اور ماورائی تصورات ہیں۔اگر ہم غور کریں تو انسان دو طرح کے عوامل کے زیر اثر ہوتا ہے ایک خیر اور دوسرا شر-کچھ چیزیں خیر کا اظہار ہوتی ہیں اور کچھ شر سے جنم لیتی ہیں۔

اس پر ایک طویل بحث کی جاسکتی ہے مگر میں ناول "دھنی بخش کے بیٹے " کی بات کروں تو ناول نگار نے دو الگ کرداروں کے ذریعے اس موضوع کا احاطہ کیا ہے۔حسن منظر ایک منفرد ناول نگار ہیں اور ان کا یہ ناول اکیسویں صدی کا عمدہ ناول کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ناول میں دو کردار علی بخش اور احمد بخش سے خیر و شر کی کشمکش کا پہلو ہے اس کو دونوں کرداروں سے عمدہ انداز میں بیان کیا ہے۔علی بخش کے کردار میں شر جیسے عناصر پائے جاتے ہیں جبکہ احمد بخش کے کردار میں ہمیں خیر کے پہلو ملتے ہیں۔ناول نگار نے دونوں کی عادات و اطوار سے اس تصور کو ناول میں جگہ جگہ تذکرہ کیا ہے۔خیر و شر پہلوؤں  کا بھی بہت خوب انداز میں نقشہ کھینچا گیا ہے ۔جس سے ناول کے دو کردار علی بخش اور احمد بخش سے عکاسی کرتے نظر آتے ہیں۔دھنی بخش کے گاؤں اور اس کے اردگرد دیہاتوں میں یہ خبر گردش ہونا شروع ہوجاتی ہے کہ احمد بخش امریکہ جارہا ہے ۔احمد بخش کو ایسی برائیوں سے بڑھے ہوئے ماحول سے کراہٹ محسوس ہوتی تھی ۔وہ کلچرل سسٹم میں خود کو تنہا محسوس کرتا ہے ۔اسے یہاں کے رہن سہن سے نفرت محسوس ہوتی تھی ۔ایم۔اے کرنے کے بعد امریکہ چلا جاتا ہے ۔وہاں شادی بھی کر لیتا ہے ۔ امریکہ میں کچھ سال رہنے کے بعد اس کو وہاں بھی اجنبیت سی محسوس ہونے لگی ۔جبکہ امریکہ روانہ ہونے سے پہلے بھی اس کے دماغ میں ایسی باتیں تھی کہ  وہ اس گندگی اور بے اصولی سے تنگ آکر بھاگ رہا ہے ۔اور خود کو مطمئن کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ''مجھے یہاں ایک دن لوٹ کر آنا ہے ،مجھ میں لوٹ کر آنے کی خواہش ہے ۔۔۔۔بھاگتا انسان جیل سے ہے جب وہ اپنے دماغ میں وہاں دوبارہ نہ آنے کا جتن کرکے بھاگتا ہے۔''احمد بخش دنیا دیکھنے کا خواہش مند ہوتا ہے اور وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ کیا باہر کی دنیا ویسی ہی رنگین ہے جیسے وہ فلموں میں نظر آتی ہے ۔یہاں اُسے وقتی طور پر اجاڑ اور حسن سے عاری ہی سب کچھ نظر آرہا تھا ۔لیکن امریکہ کی دنیا میں چند سال گزارنے کے بعد اسے یہ خیال آتا ہے کہ اسے واپس جانا چاہیے ۔اور یہ عزم کرتا نظر آتا ہے کہ وہ سارے ملک کو بہتر نہ کرسکے لیکن اپنے علاقے کو تو بہتر کرنے کی کوشش کرسکتا ہے ۔لیکن علی بخش اس کے امریکہ رہنے پر خوش تھا کہ وہ ادھر سب زمینوں کا ایک اکیلا مالک ہے ۔احمد بخش کو مغربی تہذیب میں یہ خدشہ ہونے لگا کہ اس کی اولاد جنسی تعلیم کی جانب مائل نہ ہو جائے ۔برائیاں تو پاکستان میں بھی ہیں لیکن کھلے عام نہیں جیسے امریکہ میں تھا ۔جس کو ناول میں مصنف اس طرح تذکرہ کررہا ہے ۔

''میں صرف زمین کے ایک چھوٹے ٹکڑے کی زندگی کو بدلنا چاہتا ہوں اور اس کے لیے مجھے وہاں لوگوں میں رہنا پڑے گا ۔ان میں رہتے ہوئے خود کو بدلوں گاجس طرح میں چاہتا ہوں وہ بدل جائیں۔"

احمد بخش کی اولاد ہوتی ہے تو وہ اس کشمکش کا شکار ہوجاتا ہے کہ  اس کی بیٹی بوائے فرینڈ نہ بنا لے کیونکہ امریکہ میں یہ سب عام رواج میں شامل تھا ۔اور بیٹے کے متعلق اسے خوف ہوتا ہے کہ وہ کہیں شراب اور دوسری بری علت میں مبتلا نہ ہوجائے کیونکہ یہاں تعلیمی اداروں میں جنسی تعلیم بھی دی جاتی تھی ۔اولا جو اس کی زوجہ ہے جو احمد بخش کو تسلی دیتی ہے کہ تم بھی تو یہاں رہ رہے ہو اور یہاں سے تعلیم بھی حاصل کرچکے ہو لیکن تم تو کسی برائی میں مبتلا نہیں ہوئے اور نہ تم شراب پیتے ہو ۔اسی طرح ضروری نہیں کہ ادھر رہنے والے سب ایک جیسے ہوجائیں ۔جبکہ احمد بخش کا کہنا ہے کہ میں نے پرورش اور نوجوانی کے دن دیہات میں گزارے ہیں ۔میں چھوٹے سےبالغ ہونے تک وہیں رہا ہوں۔لیکن میری اولاد تو بچپن بھی ادھر ہی ہے ۔مجھے یہ ہی خدشہ ہے کہ میری اولاد میں یہاں کی برائیاں نہ پائی جائیں۔جبکہ میرے علاقے میں کوئی ایسا کام نہیں کرسکتا جیسے یہاں کے نابالغ بچے کرتے ہیں اور اُن کی طبیعت میں یہ سب کچھ رچ جاتا ہے ''امریکا جذبات کا ویرانہ ہے ۔چین اور تمہارے ملک اخوت کے سمندر ہیں،جن میں کوئی خود کو گم نہیں کرسکتا۔لاکھ ہاتھ چھراؤ کوئی نہ کوئی پکڑ لے گا۔احمد بخش ڈرتا تھا اُس ماحول سے جو اُس کے بچوں کا ذہنی مستقبل کیا ہوگا ۔دوسری طرف بچوں کی پیدائش کے بعد احمد بخش کو گھر کے اور بچوں کو سنبھالنے کے کام خود ہی کرنے پڑرہے تھے ۔اس سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ امریکہ میں رہنے کے باوجود بھی اپنی زوجہ کو اہمیت اور نگہداشت کس طرز پر کررہا تھا دوسری جانب علی بخش جو بیوی کو پاوٴں کی جوتی سمجھتا تھا۔۔علی بخش مردوں  کی اس قسم میں سے تھا جو گھر میں بیوی کے ہوتے ہوئے بھی بازار میں ایک محدود مدت کے لیے ایک لڑکی کو خریدتے ہیں ،چاہتے ہیں کہ ان کا دلال بار بار یقین دلائے کہ تم اس کی زندگی میں پہلے مرد ہو لیکن پھر بھی معاملہ دھوکے والا رہتا ہے ۔ان کا دل اس بات پر آمادہ ہی نہیں ہوتا کہ جو چیز انہوں نے خریدی ہے وہ استعمال شدہ نہیں ہے ۔

''مرد کو ہر حالت میں عورت چاہیے ہوتی ہے وہ اپنی ہویا غیر کی اس سے کیا فرق پڑتا ہے ۔''

اس اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ علی بخش کی سوچ عورتوں کے سلسلے میں کیسی ہے ۔یہ عورتوں کا شیدائی تھا ۔علی بخش کے کردار میں تمام برائی والی علامات موجود تھیں اس کے کردار میں شر والے عناصراور تقریبا تمام ایسی عادات ملتی ہیں جو شر کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔ اگر کوئی دعوت یا تقریب ہوتی تو اُس میں شراب اور وسکی لازم رکھی جاتی ہے۔علی بخش خود کو خدا صفت انسان سمجھتا تھا مریم کے ساتھ اس کی ظلم و زیادتی جس کو وہ اپنا حق سمجھتا تھا ۔وہ دوسروں پر استحصال کرنا اپنا حق سمجھتا تھا ۔جواپنی بیوی مریم سے بھی کہتا ہے کہ اس نے کوئی گناہ نہیں کیا ہے بلکہ وہ اس کی بیوی ہے اور وہ اس کو اپنی مردانگی سمجھتا ہے ۔اور مریم قانونی طور پر اس کی بیوی ہے ۔علی بخش اپنے آپ کو اس طرح مطمئن کرتے ہوئے ناول میں نظر آتا ہے ۔

''۔۔نہ تو نے مردوں کا سا کام کیا ہے مجھے تجھ پر فخر ہے۔

''جرم کیا ہے ؟''

نہیں اپنی گھر والی ہے ۔تیری ملکیت ۔''جرم کیسا؟''

علی بخش کی سوچ اُن مردوں جیسی ہے جو بیوی کو غلام سمجھتے ہیں اور ان پر آقا کی طرح اپنا حکم صادر کرتے نظر آتے ہین ۔دیہی قصبوں میں ابھی بھی علی بخش جیسے مرد موجود ہیں۔جو بیوی کو انسان نہیں سمجھتے ۔اپنا رعب رکھنا درست سمجھتے یں۔بیوی کے ساتھ غلط رویے کو بھی درست قرار دیتے ہیں۔ان پر ذہنی ،جسمانی اور مالی تشدد کرنا بھی ان کے نزدیک درست عمل ہوتا ہے ۔۔ ''دھنی بخش کے بیٹے '' میں تمام کردار نشے کی لت میں مبتلا نظر آتے ہیں ۔محض احمد بخش کا کردار اس برائی سے پاک نظر آتا ہے ۔باقی ناول میں تمام خواتین بھی نشے کی لت میں لگی ہوتی ہیں ۔اس کی بہترین عکاسی علی بخش کے کردار کے ذریعے حسن منظر نے کی ہے ۔علی بخش کا کردار ایسا ہے جس میں ہر قسم کی برائی دیکھی جاسکتی ہے ۔ علی بخش کچھ نشے حرمت جو اس کی پہلی بیوی اس سے شادی سے پہلے کرتا تھا اور کچھ اس کے آنے کے بعد کرنے شروع کیے ۔ جب تک اس کے پانچ چھ سال بعد دوسری شادی کی نوبت آئی تو یہ تمام بڑے نشے کرچکا تھا ۔شراب ایک سو ایک شکلوں میں وہ پیٹ بھر کر پی چکا تھا ۔ ان میں کوہلی و سکی بھی تھی یعنی ٹھرا جو سڑے ہوئے پھلوں سے گاؤں میں بنتی تھی ۔ اور نشئی غریبوں کی غم گسار ہوتی تھی ۔اسکوچ ،بھنگ ، چرس ،افیون ،ہیروئن اور مختلف گولیاں ہر چیز اس کی ساتھی تھیں ۔ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے  وہ جلدی میں ہے اور کوئی نشہ دنیا چھوڑنے سے پہلے رہ نہ جائے اور دوسری دنیا میں اس کی طلب ہو ۔اگر کبھی خبر ملتی تھی فلاں ملنے والا یا دوست نشے کے ہاتھ میں ہاتھ دیے زندگی کو داگ مفارقت دے گیا ۔لیکن علی بخش کے کردار میں وہ تمام برائیاں تھیں جو جاگیردار میں پائی جاتیں ہیں۔

''وہ اکثر مزاروں سے نشہ کرکے لوٹتا تھا اور حشر کے چالیسویں تک بنگلے میں غم زدہ سا پڑا رہتا تھا ۔"

احمد بخش کا کردار واحد ایسا ہے جو ایسی کسی بھی چیز کو پسند نہیں کرتا تھا ۔بلکہ وہ حرمت سے اس حوالے سے ناپسندیدگی کا اظہار کرتا تھا ۔حرمت کے منہ سے سیگریٹ کی بو اسے پسند نہیں تھی ۔

''گھر کی سب عورتوں کی طرح حرمت بھی سیگریٹ پیتی تھی اور اس کی ڈبیا اور ماچس اس کے کرتے کی جیب میں رہتی تھیں۔''

علاوہ ازیں علی بخش اپنا رعب قائم رکھنے کے لیے پاکیزہ چہرہ بھی رکھتا تھا اور ساتھ ہی بدکرداری میں بھی ملوث تھا ۔ایسا ہی جاگیردار علی بخش کا کردار ہے ۔جو بہت آسانی سے لذت سے روحانی سرشاری اور روحانی سرشاری سے واپس لذت کی دنیا میں جاسکتا تھا بالکل جیسے عرس کے موقعوں پر ہوتا ہے ۔اس کی خوب عکاسی کرکے ناول نگار نے  اس پہلو کو صفحہ قرطاس پر بکھیرا ہے ۔

''مزار پر عقیدت سے سر جھکایا اور باہر نکل کرمیلے کی مادی لذتوں کی دنیا میں کھو گئے،ناچ گانا ،نشہ ،اور خیموں میں اجرت پر ملنے والے جسم۔"

اس کے برعکس کردار احمد بخش ایک انقلابی ذہن کا مالک تھا جو اہنے گاؤں میں انقلاب لانے کا خواہش مند تھا ۔وہ ان رویوں اور برائیوں کو بدلنا چاہتا تھا ۔جو تھوڑی سی خواہش اس میں واپس اپنے علاقے میں جانے کی رہ گئی تھی ،وہ بھی اچانک ختم ہوگئی تھی ۔وجوہات وہیں تھیں جن سے وہ بھاگا تھا۔پرانی یادیں اور تکلیف جو اس میں جگا دیتے تھے ۔وہاں کا رونا ،وہاں کے دکھ اور کسی بھی کام کا نہ ہوپانا۔

المختصر،ناول میں مزید اور بھی پہلو ہیں جن سے خیر وشر کی کشکمش کو نمایاں کیاجاسکتا ہے لیکن مختصر مضمون میں اس کا احاطہ ممکن نہیں تھا۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...