Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نقش فریادی اکتوبر تا دسمبر 2022 > ناول ''جہنم جاگتا رہتا ہے'' : تحقیقی وتنقیدی جائزہ

نقش فریادی اکتوبر تا دسمبر 2022 |
پنجاب لٹریری فورم
نقش فریادی اکتوبر تا دسمبر 2022

ناول ''جہنم جاگتا رہتا ہے'' : تحقیقی وتنقیدی جائزہ
Authors

ARI Id

1695781004291_56118386

Access

Open/Free Access

ناول ''جہنم جاگتا رہتا ہے'' : تحقیقی وتنقیدی جائزہ

 ڈاکٹر محفوظ احمد ثاقب

سلیم اختر ڈھیرا چنیوٹ سے تعلق رکھنے والے اک نوجوان ادیب ہیں ۔ پیشے کے حوالے سے معلم ہیں اور ہائر ایجوکیشن کمیشن میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان کا بنیادی مضمون انگریزی ہے تاہم اردو ادب میں خامہ فرسائی ان کا جنونی مشغلہ ہے۔ اس سے قبل بھی موصوف اردو ادب کے افق پر اطالوی لوک کہانیوں پر مشتمل '' کہانی آوارہ ہوتی ہے'' کی شکل میں کرنیں بکھیر چکے ہیں۔ موصوف کی اس کتاب نے جنگل میں آگ کی سی تیزی کی طرح اپنی مقبولیت کا لوہا منوایا ہے۔ یہ امر قابلِ ستائش ہے کہ اس کتاب پر سینکڑوں تنقیدی نگارشات بھی پیش کی گئیں۔

زیرِ تبصرہ ناول '' جہنم جاگتا رہتا ہے'' ایک انگریزی ناول '' نو لونگر ایٹ ایز'' کا ترجمہ ہے۔ یہ انگریزی ناول ایک معروف افریقی ناول نگار چنیوا اچنبے کا ہے جس کو پہلی بار 1960ء میں شائع کیا گیا۔

مترجم سلیم اختر ڈھیرا نے زیرِ نظر ناول '' جہنم جاگتا رہتا ہے'' کو عکس پبلی کیشنز لاہور سے پہلی بار دسمبر 2022ء میں شائع کروایا۔ یہ ناول غیر مجلد ہے۔ سبز رنگ کے دیدہ زیب ورق کے ساتھ سلور رنگ میں بحرفِ جلی '' جہنم جاگتا رہتا ہے'' کندا کیا گیا ہے۔ کتاب کے سرِ ورق پر کیلی گرافی میں اک نوجوان کی تصویر چسپاں ہے جو دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ کر انتہائی فکر اور پریشانی میں مبتلا ہے۔ پہلی نظر میں یہ تصویر قاری کو حیرت اور تجسس کے دریا میں برد کردیتی ہے کہ آخر جہنم کے جاگنے کے ساتھ اس تصویر کا کیا تعلق ہے؟ مگر ناول مکمل پڑھنے کے بعد قاری نہ صرف یہ جاننے میں کامیاب ہوجاتا ہے بلکہ تسلیم کرنے میں بھی حق بجانب ہوتا ہے کہ ٹائٹل کے ساتھ آویزاں یہ تصویر پورے ناول کی نمائندگی کرتی ہے۔یہ ناول درمیانے سائز کے کل 240 صفحات پر محیط ہے۔ دیدہ زیب اوراق پر نہایت ہی آب و تاب کے ساتھ طباعت کی گئی ہے۔ مذکورہ ناول پر قیمت مبلغ 1000 روپے رقم ہے۔

ناول کے ٹائٹل پر پڑنے والی پہلی نظر قاری کے ذہن بیسوں سوالات کو جنم دیتی ہے۔ آخر ناول کا عنوان '' جہنم جاگتا رہتا ہے ہی کیوں رکھا گیا؟ بھلا جہنم بھی جاگتا ہے؟ اگر جاگتا ہے تو پھر کس لیے جاگتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ ان سوالات کے جوابات کا انکشاف ناول پڑھ کر ہی کیا جاسکتا ہے۔

ناول میں بیان کی جانے والی کہانی کا موضوع رشوت ستانی ہے۔ ناول پر سیر حاصل بحث کرنے سے قبل ٹائٹل '' جہنم جاگتا رہتا ہے '' کو واضح کرنا از حد ضروری ہے۔ راقم کے خیال میں جہنم استعارہ ہے پاپی پیٹ کے ہوس، حرص اور لالچ کا۔ انسان فطری طور پر لالچی ہے۔ اس کے نفس میں حرص، طمع، لالچ ودیعت کردیا گیا ہے۔ یہ لالچ شاید مر کر بھی پورا نہیں ہوتا ۔

بقولِ شاعر

انسان کی خواہشوں کی کوئی انتہا نہیں                                                      دو گز زمیں بھی چاہیے دو گز کفن کے بعد

زیرِ بحث ناول '' جہنم جاگتا رہتا ہے '' ناول میں مذکور کہانی/ موضوع پر مکمل دلالت کرتا ہے۔ انسان نہ چاہتے ہوئے بھی قیدی پرندوں کی طرح طمع کے لالچ میں پھنس جاتا ہے پھر ساری زندگی نادم رہتا ہے۔ گویا اس کا جہنم (لالچ) ہمیشہ جاگتا رہتا ہے۔

 زیرِ تبصرہ ناول پر بحث کرنے سے قبل اس کی کہانی اور پلاٹ کا سرسری جائزہ لینا از حد ضروری ہے تاکہ ناول کو سمجھنے، پرکھنے اور نتائج اخذ کرنے میں آسانی رہے۔

Things No longer at Ease افریقی ریاست نائجریا سے تعلق رکھنے والے مصنف چنیوا اچنبے کا شاہکار ناول ہے۔ اس ناول میں نائجیریا میں میں پھیلی سیاسی تباہ حالی اور رشوت ستانی جیسی بدعنوانیوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ناول کا مرکزی کردار ایک ایگبو شخص اوبی اوکونکوہے، جو برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنے اور پھر نائجیریا کی نوآبادیاتی سول سروس میں ملازمت کے لیے اپنا گاؤں چھوڑ دیتا ہے، لیکن اپنی افریقی ثقافت اور مغربی طرز زندگی کے درمیان کشمکش کا شکار ہے۔۔ یہ ناول دوسری تصنیف ہے جسے کبھی کبھی ''افریقی تثلیث'' کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، تھنگز فال اپارٹ اور اس سے پہلے کے ایرو آف گاڈ کے بعد، حالانکہ ٹرولوجی کی عظیم کہانی میں تاریخ کے لحاظ سے خدا کا تیر اس سے پہلے ہے۔ Things Fall Apart برطانویوں کی طرف سے لائی گئی تبدیلیوں کے خلاف اوبی اکونکو کے دادا اوکونکو کی جدوجہد سے متعلق ہے۔

ناول کا آغاز رشوت لینے کے الزام میں اوبی اوکونکوو کے مقدمے سے ہوتا ہے۔ اوبی ایک غریب خاندان کا بیٹا ہے۔ جس کے پاس قانون کی تعلیم کے حصول کے لیے مالی استطاعت نہیں ہے۔ اس کے خواب کو پورا کرنے کے لیے نائیجریا کی ایک مقامی تنظیم

( Umuofia Progressive Union) کے اراکین، اور یوموفیا کے مقامی باشندوں نے یوموفیا گاؤں سے تعلق رکھنے والے اس غریب نوجوان کو انگلینڈ بھیجنے کے لیے ایک چندہ اکٹھا کیا ہے۔ اس امید پر کہ وہ واپس آ کر اس تنظیم کا قرض اتارے گا۔ یوموفیا گاؤں کے معاونین نے اوبی سے امیدیں وابستہ کررکھی ہیں کہ جب انگلینڈ سے قانون کی تعلیم مکمل کرکے آئے گا تو نوآبادیاتی قانونی نظام میں اپنے لوگوں کی نمائندگی کرتے ہوئے ان کی مدد کرے گاخاص طور پر زمین کے معاملات کے حوالے سے۔ اوبی نے انگلینڈ میں اپنے مضمون کو انگریزی میں تبدیل کر لیا ہے۔ انگلینڈ میں ڈانس کے دوران پہلی بار ایک طالب علم نرس کلارا اوکیکے سے اس نے ملاقات کی ہے۔پہلی ہی نظر میں یہ کلارا اوکیکے کو دل دے بیٹھا ہے۔

 اوبی چار سال کی تعلیم کے بعد نائیجیریا واپس آتا ہے۔ اس پر معاشی بوجھ ہے خاص طور پر اوموفیا تنظیم کے دیے گئے چندے کا۔ اوبی نائجریا کے ایک شہر لاگوس میں اپنے دوست جوزف کے ساتھ رہنا شروع کردیتا ہے۔ چار سال کی تگ و دو کے بعد اسے اسکالرشپ بورڈ میں نوکری مل جاتی ہے۔ابھی نوکری کے اوائل ایام چل رہے ہوتے ہیں کہ ایک شخص جو اپنی بہن کے لیے اسکالرشپ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے اوبی کو رشوت کی پیشکش کردیتا ہے۔ اوبی ناراضی سے اس پیشکش کو مسترد کر دیتا ہے تب وہ لڑکی خود اس سے ملنے آتی ہے۔ اب کی بار اوبی کو رشوت کے ساتھ جنسی لذت کی بھی پیشکش کردی گئی ہے۔تاہم اوبی اس پیشکش کو بھی مسترد کردیتا ہے۔ اوبی ایک پڑھا لکھا نوجوان ہے جو دورانِ تعلیم '' ملکی نظام کی بہتری پر'' ایک تحقیقی مقالہ بھی لکھ چکا ہے۔ اس مقالے میں اوبی نے یہ دعویٰ بھی کررکھا تھا کہ اگر ملکی انتظام و انصرام کی ذمہ داری اوبی جیسے دیانت دار،فرض شناس کو مل جائے تو ملک تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔ ادھر کلارا اپنے مشن میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ وہ اوبی کو اپنی محبت میں گرفتار کرلیتی ہے۔ اوبی اس سے چھپ چھپا کر منگنی بھی کرلیتا ہے۔ ادھر اس کا بھائی کلارا کے تعلیمی اسکالر شپس کے حصول کے لیے اوبی کو رشوت دینے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔

اوبی کلارا کے ساتھ ایک جسمانی رشتہ استوار کر لیتا ہے۔کلارا مذہبی حیثیت سے اوسو ہے۔ وہ اوبی کے ساتھا اس کے مقامی، روایتی طریقوں کے تحت شادی نہیں کر سکتی۔ وہ کلارا سے شادی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، لیکن اس کے والدین سخت مخالفت کرتے ہیں۔ اس کی ماں بستر مرگ پر اس سے التجا کرتی ہے کہ وہ کلارا سے اس کی موت تک شادی نہ کرے، اور دھمکی دی کہ اگر اس کا بیٹا نافرمانی کرتا ہے تو وہ خود کو مار ڈالے گی۔ جب اوبی نے کلارا کو ان واقعات سے آگاہ کیا، کلارا نے منگنی توڑ دی اور بتایا کہ وہ حاملہ ہے۔ اوبی نے اسقاط حمل کا انتظام کردیا ہے۔ کلارا نے ہچکچاتے ہوئے اسقاطِ حمل کی گولیاں کھالی ہیں۔ حمل تو ضائع ہوگیا ہے مگر کلارا پیچیدگیوں کا شکار ہوگئی ہے۔ اب اس نے اوبی سے قطع تعلقی کرلی ہے۔ اوبی اپنی ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے، UPU کو اپنا قرض ادا کرنے اور اپنے بہن بھائیوں کی تعلیم اخراجات کی مد میں درکار رقم کی وجہ سے، اور کچھ حد تک غیر قانونی اسقاط حمل کی لاگت کی وجہ سے مالی پریشانیوں میں مبتلا ہوچکا ہے۔ادھر اوبی کی ماں بسترِ مرگ پر دم دے دیتی ہے۔ اپنی ماں کی موت کی خبر سننے کے بعد، اوبی ایک گہری افسردگی میں ڈوب جاتا ہے۔ مالی مشکلات کے سبب اوبی اپنی ماں کی آخری رسومات کے لیے گھر نہیں جاتا کیوں کہ اس کے پاس جو جمع پونجی تھی وہ کلارا کے اسقاطِ حمل پر ضائع کرچکا ہے۔ مالی مشکلات کے سبب وہ ہچکچاتے ہوئے رشوت لینا شروع کر دیتا ہے خود کو تسلی دیتے ہوئے کہ رشوت لینا دنیا کا مروج طور ہے ۔ ناول اس وقت اختتام کو پہنچتا ہے جب اوبی رشوت لیتا ہے اور خود کو دلاسا دیتا ہے کہ یہ آخری رشوت ہے جسے وہ لے گا، صرف یہ جاننے کے لیے کہ رشوت ایک دل چسپ تجربہ ہے یا نہیں ؟ ۔ اوبی اوکونکو کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اوبی کے اس عمل پر پورا شہر اس سے متنفر ہوا پڑا ہے۔

 افریقی ناول نگاری چنیوا اچینبے کا یہ ناول خاصا طویل ہے۔ مترجم نے ناول کا ترجمہ کرتے وقت اسے بیس مختصر حصوں میں منقسم کیا ہے تا کہ قاری پر ناول کی طوالت گراں نہ گزرے۔

زیرِ بحث ناول '' جہنم جاگتا رہتا ہے '' کا انتساب مترجم نے حساس روحوں کے نام کیا ہے جو اپنے ساتھ جہنم لیے پھرتی ہیں۔ یہاں راقم کی نظر میں بے حس معاشرے میں حساسیت ازخود عذاب ہے۔ یہ عذاب ایک طرح کا جہنم ہی توہے۔مذکورہ ناول '' جہنم جاگتا رہتا ہے '' کا آغاز عرضِ مترجم سے ہوتا ہے۔ عرضِ مترجم کے تحت ڈھیرا صاحب یہ باور کرانے میں کافی حد تک کامیاب رہے ہیں کہ ادب ان کا مشغلہ ہی نہیں جنون ہے، عشق ہے، اور یہ جنون تخلیقیت کے رنگ میں اپنا کتھارسس کرتا آیا ہے اور امید ہے کرتا رہے گا۔

ترجمہ نگاری نہایت پیچیدہ فن ہے۔ اس کارِ دشوار میں مترجم کا سیروں لہو خشک ہوتا ہے۔ ترجمہ نگاری ایک زبان سے دوسری زبان میں محض الفاظ کی منتقلی کا نام نہیں ہے۔ اس فن میں فن پارے کے متن میں غوطہ زنی کرنی پڑتی ہے۔ متن کو دوسری زبان میں ڈھالنے کے لیے بلاغت کا چپو چلانا پڑتا ہے، صرف بلاغت ہی نہیں، جامعیت، اختصاریت حتیٰ کہ زبان کے لسانی، گروہی، تہذیبی، ثقافتی پہلووں کو بھی مدِ نظر رکھنا پڑتا ہے۔ترجمہ نگاری کی جگہ تصنیف نگاری نہایت سہیل ہے۔ مصنف کے سامنے پورا ادب بکھرا ہوتا ہے، نہ الفاظ کی قید، نہ حدود و قیود کا لحاظ، کھل کر زبان و بیان کا استعمال کیجیے، اگر پائے لغزش ادھر سے ادھر ہوگئی تو فکر کاہے کو بات کو گھماپھرا کر واپس پلٹ آئیے۔ مگر مترجم کو متن کی قید میں رہتے ہوئے اس متن کے قریب تر معانی، مطالب اور مفاہیم کشید کرنا ہوتے ہیں۔ تعجب ہے سلیم اختر ڈھیرا صاحب پر کہ جناب جان بوجھ کر اوکھلی میں سر دیتے ہیں اور بارِ دگر استعجاب کہ دھمکوں سے بھی نہیں ڈرتے۔ موصوف ترجمہ نگاری کی اوکھلی میں دوسری بار سر ڈال رہے ہیں۔ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے ترجمہ میں زبان و بیان کی سلاست اور روانی کسی صورت بھی مجروح نہیں ہونی چاہیے۔ اس ضمن میں معروف محقق ڈاکٹر جمیل جالبی اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں:

 صرف روانی و سلاست ہی ترجمے کے بنیادی اجزاء نہیں۔ آپ خود اندازہ لگائیے کہ سنجیدہ و پیچیدہ تحریر کا ترجمہ صرف رواں اور سلیس کیسے               ہوسکتا ہے؟ جب کہ زبان کا مزاج اور جملوں کی ساخت ہماری زبان کے مزاج سے مختلف ہو''(1)

ترجمہ نگاری میں بلاغت ترجمہ کی روح تصور کی جاتی ہے۔ اگر ترجمہ نگاری میں بلاغت کمزور ہو یہ سمجھا جاتا ہے کہ مترجم نے روح کو مجروح کردیا ہے۔ یہ ترجمہ ادنا درجے کا شمار کیا جائے گا۔ یہ بات کافی حد تک درست ہے۔ چوں کہ ترجمہ کیا ہی اس لیے جاتا ہے کہ ایک زبان کے افکار وخیالات دوسری زبان میں منتقل کیے جائیں۔ اور اگر افکار و خیالات ہی مکمل ابلاغ نہ رکھتے ہوں تو ترجمے کا کیا فائدہ؟

 زیرِ بحث ناول میں مترجم چنیوا اچینبے کے افکارو خیالات، اوبی اوکونکو کی کہانی مکمل طور پر بلاغت کے ساتھ پیش کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ کس طرح اوبی انگلینڈ میں تعلیم حاصل کرنے جاتاہے، تعلیم سے واپسی پر اسکالرشپ بورڈ میں ملازمت حاصل کرتا ہے، دورانِ ملازمت کس طرح کلارا کے عشق میں گرفتار ہوتا ہے، اور رشوت جیسے ناسور میں مبتلاہوجاتاہے۔ یہ کہانی بڑی طویل ہے۔ جگہ جگہ اس میں نئے نئے موڑ آتے ہیں، کہانی کئی پلٹیاں کھاتی ہیں۔ لیکن مترجم نے کسی صورت بھی کہانی کی بلاغت کو کمزور نہیں ہونے دیا۔

اردو زبان میں جملوں کی طوالت بلاغت کے باب میں زہرِ قاتل تصور کی جاتی ہے۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے اردو زبان میں طویل جملے نہ صرف بلاغت پر اثر انداز ہوتے ہیں بلکہ قاری کے تجسس پہ بھی وار کرتے ہیں۔ سلیم اختر ڈھیرا نے ترجمہ کرتے وقت طویل جملوں کو چھوٹے چھوٹے اجزامیں تقسیم کرکے ترجمہ پیش کیا ہے جس سے بلاغت بھی قائم رہی ہے تو ساتھ ہی ساتھ قاری کی دلچسپی بھی۔ ایک خوبصورت مثال ملاحظہ کیجیے:

'' ایسے شخص کی مثال صحرا میں برسے مینہ کی سی ہے۔ اس بابت میری تجویز تو یہ ہے کہ تم وہاں سھارنے سے پہلے ہی شادی کے بندھن میں بندھ جاؤ۔ مگر اب وقت کم رہ گیا ہے۔ بہ ہر حال تمہارے باہر بھیجنے جانے کے اغراض و مقاصد سے تم بخوبی واقف ہو۔ تمہارا اولین مقصد تعلیم کا حصول ہے۔ دل لگی سے جڑے سب کھیل تماشے بعد کا قصہ ہیں۔ راحتوں کے حصول میں اس غزال کی

طرح ہرگز عجلت نہ کرنا جس نے رقص کی اصل محفل سے پہلے ہی خود کو ناچ ناچ کر لنگڑا کرلیا تھا۔ (2)

ترجمہ نگاری کے دوران اگر مترجم کے ذہن پر اختصاریت ہی غالب رہے تو یہ حد درجہ اختصاریت بلاغت کی راہ میں روڑے اٹکاتی ہے۔ سلیم اختر ڈھیرا کے قلم میں کہیں کہیں اختصاریت نے بلاغت کو بھی متاثر کیا ہے۔ ایک مثال بہ طور حوالہ دیکھیے:

" اب چمک اور گرج کے ساتھ بارش ہونا شروع ہوگئی تھی۔ آغاز چھت پر ڈھم ڈھم کرتی کھانڈ پاروں برابر بارش سے ہوا۔ یوں لگتا تھا جیسے کسی نے الگ الگ کپڑوں میں لپٹی چھاجوں کنکریاں آسمان سے نیچے انڈیل دی ہوں '' (3)

ایک مترجم جب کسی فن پارے کا ترجمہ کرے تو اسے چاہیے جس زبان میں افکار و خیالات ترجمہ ہورہے ہیں وہ الفاظ، تراکیب، محاورات مقامی زبان کے لسانی اصولوں سے متصل ہو۔ اس صورت میں اسے لسانی روابط سے کماحقہ آشنائی ہونی چاہیے۔ اگر مترجم ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو کسی بھی زبان کی تہذیب کو مقامی تہذیب کے رنگ میں گوندھ کر پیش کرے گا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سلیم اختر ڈھیرا نے بیک وقت مغربی اور افریقی تہذیبوں کو مقامی تہذیبوں کے ساتھ پیش کیا ہے۔ جیسا کہ ہمارے ہاں بارش کو مینہ اور بارش کے قطروں کو کنیاں کہا جاتا ہے۔ مترجم نے ن مذکورہ ناول میں ـ مہنہ، کنیاں، چھاج ـ وغیرہ کو بیان کرکے مقامی تہذیب کا پرچار کیا ہے۔ صرف یہی نہیں زیرِ بحث ناول میں جابجا سلیم اختر ڈھیرا نے اوبی کی زبانی مغربی تہذیب کو مقامی تہذیب کے رنگ میں پیش کیا ہے۔

ترجمہ نگاری میں شعر کا نثری ترجمہ زیادہ آسان ہے۔ عام طور پر چلن بھی یہی ہے کہ شعر کو نثر کے قالب میں ڈھال دیجیے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ضروری نہیں مترجم شعری اسلوب، اوزان و بحور سے بھی آشنا ہو۔ دوم یہ بھی ممکن ہے کہ مترجم نثری ترجمہ کرکے آسانی سے گزرجاتا ہے۔ سلیم اختر ڈھیرا نے ناول '' جہنم جاگتا رہتا ہے'' میں آسانی کے بجائے مشکل امر کو نبھایا ہے۔ انگریزی شاعری کا ترجمہ اردو شاعری سے کیا ہے۔ اس کی ایک خاص وجہ ہے کہ موصوف اس سے قبل بھی انگریزی شاعری پر ایک کتاب '' پیل لورز'' لکھ چکے ہیں۔ یہی نہیں اس سے قبل ان کی ترجمہ نگاری پر مشتمل اطالوی لوک کہانیوں کا مجموعہ '' کہانی آوارہ ہوتی ہے'' میں بھی جا بجا شاعری کے شعری تراجم دیکھے جاتے ہیں۔ موصوف شعری اسرار و رموز سے آشنا ہی نہیں ان کو نبھانا بھی خوب جانتے ہیں۔ایک مثال دیکھیے:

مجھے تنہا نہ چھوڑنا اے یسوع مسیح

جب مرے قدم کھیتوں کی جانب اٹھ رہے ہوں

مجھے تنہا نہ چھوڑنا اے یسوع مسیح

جب مرا رخ بازار کی طرف ہوا

مجھے تنہا نہ چھوڑنا اے یسوح مسیح

جب میں حصولِ رزق کے لیے تگ و دو کررہا ہوں

مجھے تنہا نہ چھوڑنا اے یسوح مسیح

جب گناہوں کی معافی کے لیے ہاتھ اٹھے ہوں

اے یسوح مسیح اسے تنہا نہ چھوڑنا

جب وہ گوروں کے دیس ہوگا (4)

عام طور پر ترجمہ کرتے وقت رموزِ اوقاف، جملہ معترضہ کا استعمال، کرداروں کی حرکات و سکنات وغیرہ کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ شاید ان لوازمات کو تصنیف کا حصہ سمجھا جاتا ہے ترجمہ نگاری کا نہیں۔ زیرِ بحث ناول میں مترجم نے ان تمام لسانی لوازمات کا خیال رکھا ہے جن کو تصنیف نگاری میں تو برتا جاتا ہے ترجمہ نگاری میں کم کم۔ موصوف خود انگریزی ادب کے استاد اور طالبِ علم ہیں۔ رموزِ اوقاف، املا، قواعد، جملوں کی نشست و برخاست، جملوں کی ترکیبی و نحوی صورتیں، محاورات کے درست استعمالات وغیرہ سے آشنا ہیں اس لیے ترجمہ نگاری میں بھی ان کو برت میں لاتے ہیں۔ جہنم جاگتا رہتا ہے سے ایک مثال دیکھیے:

                آداب!

                آداب!

                کیا میں آپ کی اس محفل میں شریک ہوسکتا ہوں؟

                جی ضرور!

                میری خوش بختی، ارے! آپ لوگ پی کیا رہے ہیں؟

بھیا! (بیرے کو آواز دیتے ہوئے) شراب کی ایک بوتل زرا ان صاحب کے لیے بھی لادیجیے۔(5)

کسی بھی کتاب کا پہلا ایڈیشن ایک طرح کا تسویدی ایڈیشن ہی ہوتا ہے۔ اس میں بہت سا سقم رہ جاتا ہے۔ جو وقت کے ساتھ خود بخود درستی میں آتا جاتا ہے۔ خاص طور پر پروف ریڈنگ کے مسائل۔ مذکورہ کتاب میں بھی یہی مسائل جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔ کچھ کی طرف مترجم نے آخر میں فٹ نوٹ کے تحت ان کی نہ صرف نشان دہی کردی ہے بلکہ ان کی تصحیح بھی چسپاں کردی ہے۔ تاہم بہت سی املائی اغلاط کو شامل نہیں کیا گیا جس کی طرف راقم متوجہ کر رہا ہے تاکہ اگلے ایڈیشن میں ان کی تصحیح کی جاسکے۔ جیسا کہ صفحہ نمبر 121، 124 پر اوبی اوکونکو کو او کنکوہ، ذرا کو زرا، کے لیے کو کے لئے، مواقع کو مواقعوں، دیجیے کو دیجئے، وغیرہ۔

ترجمہ نگاری ایک جان جوکھوں کا کام ہے مگر مترجم نے اسے نہایت قرینے سے نبھایا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ناول افریقی اور مغربی تہذیب میں لکھا گیا ہے مگر مترجم نے اسے مقامی تہذیب کے رچاؤ کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ترجمہ نہایت ہی شستہ و رواں ہے۔ مترجم نے اس مہارت کے ساتھ ترجمہ کیا ہے یہ ترجمہ نہیں ذاتی تصنیف لگنے لگی ہے۔ جملوں میں باہمی ربط ہے۔ ایک جملہ معنی اور اظہار کے لیے اگلے جملے سے باہم متصل ہے۔ ناول کو دل چسپ بنانے کے لیے شعری اسلوب بھی اپنایا گیا ہے۔ بلاشبہ یہ کاوش ازحد لائقِ تحسین ہے۔ اس دعا کے ساتھ کہ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ آمین!

حوالہ جات

1۔ جمیل جالبی، ڈاکٹر،''ترجمہ کے مسائل مشمولہ ترجمہ کا فن اور روایت مرتب ڈاکٹر رئیس، علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس، 2004ء، ص: 105

2۔ سلیم اختر، ڈھیرا'' جہنم جاگتا رہتا ہے'' لاہور: عکس پبلی کیشنز، 2022ء، ص: 23

3۔ ایضاً، ایضاً، ایضاً، ایضاً، ص: ص: 91

4۔ ایضاً، ایضاً، ایضاً، ایضاً، ص: 23

5۔ایضاً، ایضاً، ایضاً، ایضاً، ص: ص: 15

 

 

 

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...