Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نقش فریادی اکتوبر تا دسمبر 2022 > ۔نسیم حجازی ۔۔۔۔تحریکِ پاکستان کا عملی کردار

نقش فریادی اکتوبر تا دسمبر 2022 |
پنجاب لٹریری فورم
نقش فریادی اکتوبر تا دسمبر 2022

۔نسیم حجازی ۔۔۔۔تحریکِ پاکستان کا عملی کردار
Authors

ARI Id

1695781004291_56118387

Access

Open/Free Access

 نسیم حجازی ۔۔۔۔تحریکِ پاکستان کا عملی کردار

عذرا پروین پی ایچ ڈی اسکالر

ناردرن یونیورسٹی، خیبرپختونخواہ

نسیم حجازی کا اصلی نام محمد شریف اور قلمی نام نسیم حجازی تھا ۔ نسیم حجازی ۱۹ مئی ۱۹۱۴ء کو پنجاب کے ایک گاؤں سوجان پور جو کہ قصبہ دھاڑیوال ضلع گورداس پور میں واقع ہے ، میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۴۷ء میں تقسیمِ ہند کے بعد ہجرت کر کے پاکستان آ گئے اور مستقلاً یہیں رہائش اختیار کی ۔ زندگی کی ڈور ٹوٹنے تک آپ نے پاکستان سے اپنا ناتا نہیں توڑا۔بالآخر مارچ ۱۹۹۶ء کو اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے ۔ آپ کے آباؤاجداد حجاز سے ہندوستان میں وارد ہوئے اور اپنی رہائش کے لیے انھوں نے پنجاب کے ضلع گورداس پور کا انتخاب کیا ۔ نسیم حجازی کے والد کا نام چودھری جان محمد تھا جو کہ محکمہ انہار میں ملازم تھے ۔بچپن کے ابتدائی دور میں ہی آپ کی والدہ محترمہ داغِ مفارقت دے گئیں تو بارِ تربیت والد صاحب کے سر آن پڑا ۔ ابتدائی تعلیم سوجان پور ہی میں حاصل کرنے کے بعد ۱۹۳۸ء میں ماسٹرز کی ڈگری اسلامیہ کالج لاہور سے حاصل کی ۔ اسی دوران آپ نے چھوٹے موٹے موضوعات پر قلم آزمائی شروع کر دی ۔ افسانہ نگاری میں قدم رکھتے ہوئے نسیم حجازی نے اپنا پہلا افسانہ ‘‘شادر’’ تخلیق کیا ۔ اپنی ادبی زندگی کے ابتدائی دور میں وہ اپنے قلمی نام کی جگہ بھی اپنا اصلی نام ہی استعمال کرتے تھے لیکن بعد میں جب ان کے استادِ محرم نے انھیں مشورہ دیا کہ اپنے لیے الگ قلمی نام کا انتخاب کریں تو انھوں نے اپنے قلمی نام کے لیے حجازِ مقدس سےاپنی نسبت کوافضل جانا اوراپنے لیے نسیم حجازی کے قلمی نام کا انتخاب کیا اور تا حیات اسی نام سے لکھتے رہے ۔

برِ صغیر پاک و ہند میں پاکستان کا وجود ایک معجزے ہی کا مرہونِ منت دکھائی دیتا ہے اس کی خاص اور بنیادی وجہ انگریزوں اور ہندوؤں کا مسلم دشمنی میں ایک ہی صفحے پر اکٹھا ہو کر قیامِ پاکستان کی شدید مخالفت تھی اوریوں لگتا تھا کہ انگریز اور ہندو اپنے مقصد میں کامیاب رہیں گے تاہم قائدِ اعظم کی باہوش ، باریک بیں ، پُرجوش اور تندوتیز قیادت نے پورے ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر لا کر کھڑا کر دیا اور اپنی قیادت میں مسلمانوں کی حمیّتِ ملی کے جذبہ کو ابھار کر حصولِ آزادی کی طرف مائل کیا اور قلیل عرصہ میں تھکا دینے والی جدوجہد کے بعد کرۂ ارض کے نقشے پر پاکستان نام کے ایک قطعٔ ارضی کی تصویر ابھارنے میں کامیاب ہو گئے ۔یہ بات پوری دنیا پر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ برِ صغیر کے سبھی مسلمانوں نے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق ایک آزاد مملکت کے حصول کی کاوشات میں مقدور بھر نہ صرف اپنا حصہ ڈالا بلکہ اس کے لیے عملی قربانیاں بھی دیں۔ زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والے کسی بھی شخص نے اس مقصد کے حصول سے قدمپیچھے نہ ہٹائے۔

تحریکِ آزادی دوسرے لفظوں میں تحریک ِ پاکستان کے لیے جتنے بھی راہنماؤں نے بغیر کسی لالچ اور طمع کے انتھک جدوجہد کی اس کے لیے پوری قوم پر ان تمام راہنماؤں کو خراجِ عقیدت پیش کیا جانا لازم ہے ۔ کوئی بھی مصنف خواہ وہ قومی ہو یا بین الاقوامی شہرت رکھتا ہو ، سب نے ہی ان عظیم راہنماؤں کواپنی تحریروں میں خراجِ تحسین پیش کیا ہے ۔حصولِ آزادی کے جو ہیرو اس وقت پیش پیش ہیں ان میں اکثریت نے اس جدوجہد میں اپنا حقیقی کردار ادا کیا ہے لیکن ان میں بہت سے ایسے بھی ہیں جو حصولِ آزادی کی تحریک میں صرف علامتی کردار کے طور پر سامنے آتے ہیں اور وہ ان ثمرات کو سمیٹنے کی کوشش کر رہے ہیں جن پر ان کا کوئی حق نہیں بنتا ۔ دوسری طرف اس تحریک کے بہت سے ہیرو ایسے ہیں جنہوں نے قائدِ اعظم کے سنگ تحریکِ آزادی کے لیے شدید محنت کی اور ان کی راہ سے فکری کانٹے ہٹا کر قوم کو یکجا کرنے کے منصب پر کام کیا ۔ وہ سامنے آئے بغیر قائدِ اعظم کے شانہ بہ شانہ کام کرتے رہے ۔ اس پہلو سے غور کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اس قسم کی عملی جدوجہد کی شمولیت کے بغیراتنی سرعت کے ساتھ حصولِ مقصد (قیامِ پاکستان) کی منزل تک پہنچنا تقریباً نا ممکن تھا ۔ اول الذکر علامتی ہیرو کو تو اپنے حصے سے زیادہ پذیرائی ملی اور وہ تحریکِ آزادی میں اپنی علامتی شمولیت کے ضرورت سے زیادہ ثمرات سمیٹ رہا ہے اور قوم کے اصل ہیرو جنھوں نے بغیر کسی لالچ ، طمع اور نمودونمائش کی طلب کے حصولِ مقصد کی خاطرتحریک کی ریڑھ کی ہڈی کو مضبوط کرنے کا کام کیا انھیں ان کا منصب عطا نہیں کیا گیا۔ ہر سال مختلف قومی دنوں جیسے ۲۳ مارچ، ۱۴ اگست۶ ستمبراور دیگر قومی ایام پر اُن لوگوں کو میڈل اور ایوارڈ دے کر اُنھیں تکریم دی جاتی ہے جنھوں نے درحقیقت تحریکِ آزادی میں عملی کی بجائے علامتی کردار ادا کیا تھا لیکن جن لوگوں نے اپنا خون، پسینہ، ذہنی ، جسمانی اور عملی جدوجہد تحریکِ آزادی کی نظر کی ہے اُن کی خدمات کا اعتراف کرنے میں بخل سے کا م لیا جاتا ہے۔ ایسی ہی شخصیات میں ایک شخصیت نسیم حجازی کی بھی ہے ۔ نسیم حجازی نے قوم کا ضمیر جھنجھوڑنے اور قوم کو خوابِ غفلت سے جگانے کے لیے شب و روز محنت کی ۔ نہ تو اُن کی زندگی میں اُن کی خدمات کو درخورِ اعتنا سمجھا گیا اور نہ ہی اُن کی وفات کے بعد کسی کے کان پر جوں تک رینگی کہ ان کی خدمات پر دو الفاظ ہی کہہ دیتا ۔ قوم آج بھی اُن کی خدمات کا اعتراف کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے تاہم ایک خوش کن بات سامنے آئی ہے کہ کانگریس نے اپنے اخبار ‘‘ تنظیم ’’ میں بلوچستان کی تاریخ اور صحافت کے عنوان کے تحت نسیم حجازی کا تذکرہ پاکستان سے الحاق کے سلسلے میں بلوچستان کی پرچم بردار تنظیم کے حوالے سے کیا ہے جنھوں نے راج (حکومت) کی سازشوں اور پروپیگنڈا کا منہ توڑ جواب دیا ۔ اس میں یہ بھی وضاحت کی گئی ہے کہ نسیم حجازی پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں نہ ہوتے تووہ کبھی بھی پاکستان کا حصہ نہ بن سکتا تھا ۔ یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ بلوچستان کے عظیم راہنما اس امر کو تسلیم کرنے میں کسی بھی ہچکچاہٹ کا شکار نہیں کہ بلوچستان کے حوالے سے کانگریس صرف اور صرف نسیم حجازی ہی کی وجہ سے ناکام رہی ۔ نسیم حجازی وہ شخصیت ہے جس کی رگوں میں حمیّتِ ملی سے بھرپور خون گردش کرتا تھا ۔ وہ کسی حال میں بھی ہندوؤں کی غلامی قبول کرنے پر تیار نہیں ہوتے تھے ۔ریڈیو پاکستان ، اسلام آباد کو ۲۰ مئی ۱۹۸۶ء کو دیے گئے ایک انٹرویو کے مطابق نسیم حجازی کے الفاظ اپنی طالب علمی کی زندگی کے دوران میں ہندو ؤں کے زیرِ اقتدار رہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا ۔ کانگریس اور برہمن سیاست کے لیے مجھے اپنے آباؤاجداد سے میرا تعصب وراثت میں ملا تھا ۔ میرے دل میں یہ خواہش تھی کہ ایک ایسا دن ضرور آنے ولا ہے جب برِصغیر کے مسلمان اپنا نظریاتی قلعہ تعمیر کرنے جا رہے ہوں گے ۔’’ ۱؂

نوابزادہ جہانگیر خان تحریکِ ٓزادی کے ایک سپاہی ہیں جنھوں نے بلوچستان کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے لیے گراں قدر اور بارآور کوششیں کیں۔ وہ نسیم حجازی کی تحریکِ پاکستان اور بلوچستان کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے لیے کی گئیکاوشات کا ان الفاظ میں اعتراف کرتے ہیں

"میں قسم کھاتا ہوں اگر نسیم حجازی ان دنوں بلوچستان میں نہ ہوتے تو بلوچستان کا پاکستان کے ساتھ الحاق مشکوک تھا ۔ " ۲؂

پورے برِصغیر پاک و ہند کے عوام جہاں ٓزادی کے لیے جدوجہد کر رہے تھے وہیں بلوچستان کے عوام کو حکومت کی طرف سے بے دست و پا کر کے رکھ دیا گیا تھا ۔ ۱۸۷۶ء تا ۱۹۳۵ء بلوچستان کے عوام کے بنیادی حقوق معطل رہے۔ حالت یہ تھی کہ انھیں کسی بھی فورم پر اپنے حقوق کے لیے آوازہ بلند کرنے کی بھی ممانعت تھی یہاں تک کہ اُن کے لیے اخبارات کا حصول بھی نا ممکن بنا دیا گیا تھا ۔ ٓزادی اور خود مختاری جیسے الفاظ ادا کرنا اُن کے لیے خواب کی حیثیت رکھتا تھا ۔ ایسے دگرگوں حالات میں بھی بلوچستان کے غیور عوام نے انگریز حکومت کے خلاف عَلمِ بغاوت بلند کیا ۔ اولاً امیر مہراب خان کی سربراہی میں بغاوت ہوئی اور ناکام ٹھہری ۔ ازاں بعد غلام حسین مسوری اپنے تیرہ سو جوانوں کے ساتھ انگریزوں کے مدِ مقابل ہوئے ۔ اس معرکے میں اُن کے دو سو جوانوں نے جامِ شہادت نوش کیا لیکن نتیجہ لا حاصل ۔ اس کے بعد شاہجہاں جوگیزئی متعدد بارانگریزوں کے خلاف برسرِ پیکار ہوئے ۔

نواب یوسف علی خان نے کمال ہنرمندی کے ساتھ بلوچستان میں سیاسی بیداری کا بیج بویا ۔انھوں نے کراچی سے کئی اخبارات نکالے جن میں ‘‘البلوچ’’، ‘‘بلوچستان’’ ، ‘‘بلوچستان جدید’’ اور ‘‘ینگ بلوچستان ’’ شامل تھے ۔ جنہیں حکومتِ وقت نے یکے بعد دیگرے ضبط کر لیا ۔ بلوچستان کے حوالے سے ایک اور قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ مسلم اکثریتی علاقہ ہونے کے باوجود آل انڈیا مسلم لیگ نے اس خطے پر بھرپور توجہ نہیں دی جس بنا پر نیشنل کانگریس نے یہاں مسلم لیگ اور تحریکِ پاکستان کے خلاف شدید پروپیگنڈا کر کے عوام کویہ ا مر باور کرانے کی بھرپور کوشش کی کہ مسلم لیگ حکومت نواز لوگوں پر مشتمل جماعت ہے جس وجہ سے بلوچستان کے عوام طویل عرصہ تک صحیح معنوں میں مسلم لیگ کی سرگرمیوں سے ناواقف رہے لیکن نیشنل کانگریس بہت لمبے عرصے تک بلوچستان کے باہمت، بہادر اور غیور عوام کو گمراہ نہ رکھ سکی۔ نوابزادہ جہانگیر خان جوگیزئی رقمطراز ہیں کہ :

"برِ صغیر کی آزادی کے ناگزیر تصور اور سامراجی جبر کی ڈھلتی ہوئی گرفت کو دیکھ کر انگریزوں نے جغرافیائی اہمیت کے حامل اور معدنی وسائل سے مالا مال بلوچستان کو ایک الگ تھلگ صوبہ بنانے کی کوششیں شروع کر دیں اپنی سازشی منصوبہ بندی سے وہ چاہتے تھے کہ ہندوستان سے الگ کر کے بلوچستان پر اپنا اثرورسوخ قائم رکھنے کے ساتھ ساتھ یہاں کے قدرتی وسائل کااستحصال کرتے ہوئے اپنی معیشت کو مضبوط بنا سکیں اور اپنی بالادستی قائم رکھنے کے لیے اسے روس کے خلاف قلعہ بنا سکیں ۔ " ۳؂

جن دنوں پاکستان تحریک پورے زور و شور کے ساتھ اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی اُنہی دنوں انگریزوں اور ہندوؤں نے اپنی سازشوں کو تقویت دیتے ہوئے نہ صرف اس تحریک کی راہ میں روڑے اٹکانے شروع کر دیے بلکہ مذموم ذہن کے مالک بہت سے عناصر نے فسادات کو بھی ہوا دی ۔ مارچ، اپریل ۱۹۴۷ء میں ہونے والے فسادات میں اتنا زیادہ نقصان ہوا کہ قائدِ اعظم اور گاندھی کو امن کے لیے مشترکہ اعلامیہ شائع کروانا پڑا۔ نسیم حجازی کا تحریکِ پاکستان اور بلوچستان کے پاکستان سے الحاق کی تحریک سے ناطہ اُسی دن جڑ گیا تھا جس دن وہ روزنامہ ‘‘زمانہ’’ سے علیحدگی اختیار کر کے کراچی سے بلوچستان روانہ ہوئے تھے ۔برِصغیر میں چلنے والی قوم پرست تحریکوں کی طرف اُن کا جھکاؤ ایک طویل عرصہ سے تھا ۔ نسیم حجازی کہتے ہیں :

"ابتدائی دنوں سے ہی میں مسلم لیگ اور پاکستان تحریک کی طرف مائل تھا ۔ میں اپنی منزل کا تصور کرنا چاہتا تھا اور اس کے لیے مجھے مختلف علاقوں کا دورہ کرنا پڑااور آخرکار میری جستجو مجھے کراچی لے آئی ۔" ۴؂

کراچی میں نسیم حجازی روزنامہ ‘‘زمانہ ’’ کے ذریعے زوروشور سے بلا خوف و خطر تحریکِ پاکستان کے لیے کام کرتے رہے ۔ روزنامہ ‘‘زمانہ ’’ کی وجہ سے تحریکِ پاکستان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے سندھ میں کانگریس کی وزارت نے روزنامہ ‘‘زمانہ’’ کے مالک کو مالی منفعت پہنچا کر خریدنے کی کوشش کی ۔ نسیم حجازی کو جب اپنے مالک کی زبانی رقم کے حصول کی آگاہی ہوئی تو انھوں نے ‘‘وارفنڈ’’ کے عنوان سے ایک اداریہ تحریر کیا اور اپنے اخبار سے علیحدگی اختیار کر لی ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ نسیم حجازی کا خیال تھا کہ اُن کا اخبار اپنے مشن اور مقصد کے ساتھ مخلص نہیں رہا ۔ بعد ازاں شیخ مقبول الحق کے توسط سے ان کی ملاقات میر جعفر خان جمالی سے ہوئی ۔ نسیم حجازی اُن کی جاگیردارنہ ذہنیت کو دیکھتے ہوئے اُن کے ساتھ کام کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھے ۔ بعد میں جب انھیں یقین ہو گیا کہ میر جعفر خان جمالی کے مقاصد بلوچستان میں تحریکِ پاکستان کے مترادف ہیں تو وہ ادبی کام کی سرپرستی کے لیے رضامند ہو گئے ۔ میر جعفر خان جمالی کے ہمراہ انھوں نے کافی عرصہ سیاسی سرگرمیوں میں گزارااور تحریکِ پاکستان کی کئی ایک سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ اس ضمن میں وہ کہتے ہیں :

"نو سالوں کے عرصہ میں مَیں ایک خاموش تماشائی کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک کردار کی حیثیت سے بلوچستان میں چل رہے سیاسی ڈرامے کا حصہ رہا ۔" ۵؂

کراچی یونیورسٹی نے نسیم حجازی کی ناول نگاری پر ایک تحقیقی مقالہ بھی کروایا جس کا عنوان ‘‘ نسیم حجازی کی تاریخی ناول نگاری کا تحقیقی اور تنقیدی تجزیہ ’’ ہے ۔ اس مقالہ کے محقق ممتاز عمر ہیں ۔ میر جعفر خان جمالی نے ‘‘تنظیم ’’ کے نام سے ایک اخبار نکالااور نسیم حجازی کو اس کا منصبِ ادارت تفویض کیا ۔ نسیم حجازی کو مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن(پاکستان) حاصل کرنے کا جنون تھا لہٰذا انھوں نے اس اخبار کے ذریعے قوم کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کی سرتوڑ کوشش کی ۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے بلوچستان کے پاکستان سے الحاق کے مقصد پرکام کرتے ہوئے دن رات ایک کر دیا ۔ نوابزادہ جہانگیر خان جوگیزئی کے مطابق :

"میں نے پہلی بار میر جعفر خان جمالی کے ہاں نسیم حجازی سے ملاقات کی تاہم اس کا نام میرے لیے نیا نہیں تھا ۔ میں اُسے پہلے ہی سے میر جعفر خان جمالی کے ایک ساتھی اور ‘‘تنظیم’’ کے مدیر کی حیثیت سے اچھی طرح جانتا تھا ۔ مجھے معلوم تھا کہ نسیم حجازی کی جو آواز بلوچستان کے سیاسی میدان میں سنی جا رہی ہے وہ تیزی سے بلوچستان کے روشن خیال لوگوں کی آواز بنتی جا رہی ہے۔’’ ۶؂

نوابزادہ جہانگیرخان جوگیزئی مزید تبصرہ کرتے ہیں کہ:

" میرا تاثر اُس کے بارے میں یہ تھا کہ یہ شخص بلوچستان کو ہاتھوں کی لکیروں کی طرح جانتا ہے۔’’ ۷؂

 نسیم حجازی نے مذکورہ اخبار کے ذریعے نیشنل کانگریس کے گمراہ کُن اور تباہ کن پروپیگنڈے کا منہ توڑ جواب دیا ۔ نسیم حجازی کے اندر قدرت نے ایسی خصوصیات ودیعت کر رکھی تھیں کہ وہ اپنے کسی بھی ساتھی کو بجلی کی سی تیزی سے متحرک کر سکتے تھے ۔ نسیم حجازی سے اپنے تعلق کی بنا پر سیّد ہاشم رضا نسیم حجازی کی شخصیت پر اس طرح روشنی ڈالتے ہیں :

"۴۷۔ ۱۹۴۰ء کے دوران مسلم لیگ ہی واحد جماعت تھی جو پاکستان کے حصول کے لیے کوشاں تھی ۔ وہ تمام لوگ جو اس زمانے میں قائدِاعظم کے شانہ بشانہ کھڑے تھے وہ قابلِ احترام تھے اور نسیم حجازی بھی اُن میں سے ایک تھے ۔میرے خیال میں بلوچستان میں مسلم لیگ کے حق میں پروپیگنڈہ کا نصف نسیم حجازی اور باقی نصف میر جعفر خان جمالی نے چلایا تھا۔" ۸؂

نسیم حجازی کا بلوچستان جانے کا سب سے اہم مقصد تحریکِ پاکستان میں شمولیت تھا بقول اُن کے :

" ۱۹۴۲ء میں پاکستان کے لیے میرے جذبے نے مجھے اُس پہنچا دیا جہاں میری ضرورت تھی ۔ میں میر جعفر خان جمالی کے ایک ساتھی کی حیثیت سے بلوچستان گیا جہاں میں نے اپنا بیش تر وقت کتابیں پڑھنے اور بلوچستان کے حالات کا تجزیہ کرنے میں صرف کیا۔ حصولِ پاکستان کی خواہش میرے لیے دنیا کی کسی بھی دولت سے زیادہ قیمتی تھی ۔" ۹؂

جس وقت مسلم لیگ نے بلوچستان کے خطے میں اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا اس وقت بہت سے مقامی راہنما بلوچستان میں نیشنل کانگریس کے نظریۂ اکھنڈ بھارت کو فروغ دینے میں شب وروز مصروف تھے ۔ مسلم لیگ کے زیرِ اہتمام بلوچستان میں پہلی کانفرس ۱۱۔۱۰ جون کو کوئٹہ میں منعقد ہوئی اور جولائی۔اگست۱۹۳۹ء کو مولانا ظفر علی خان کوئٹہ آئے اور انھوں نے پورے بلوچستان کا دورہ کیا ۔ جون ۱۹۴۳ء کو قائدِ اعظم بہ نفسِ نفیس بلوچستان تشریف لائے اور لوگوں کو مسلم لیگ میں شمولیت کی دعوت دی ۔انھوں نے مسلمانوں کو انتشار کا شکار نہ ہونے اور ایک ہی سیاسی جھنڈے تلے متحد ہو کر رہنے کا مشورہ بھی دیا۔ تحریکِ پاکستان کے ضمن میں مسلم لیگ کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ اور طاقت کو دیکھتے ہوئے انگریز حکومت کو اس امر کا اندازہ ہو چکا تھا کہ جلد یا بدیر تقسیمِ ہند نا گزیر ہے تاہم حکومت کی پوری کوشش تھی کہ بلوچستان کو ممکنہ نئی معرضِ وجود میں آنے والی ریاست (پاکستان) کا حصہ نہ بننے دے۔

نسیم حجازی کے لیے پاکستان کی محبت اور تحریکِ پاکستان اُن کا حقیقی اثاثہ تھے ۔ انھوں نے تحریکِ پاکستامیں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے دن رات ایک کر دیے۔ اُن کے اپنے الفاظ میں:

"پاکستان کے بغیر میں اپنی زندگی کا ایک دن بھی تصور بھی نہیں کر سکتاتھا اور دوسری ہر خواہش اس جذبے سے کمتر تھی ۔ میری زندگی کے سب سے مصروف سال ۴۷۔۱۹۴۵ء تھے ۔ میرا زیادہ تر وقت تحریکِ پاکستان میں صرف ہوااور دوسری بات یہ کہ میری زندگی میں بلوچستان کے پاکستان سے الحاق کی کوششوں کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا ۔ یکم اگست سے چودہ اگست تک یہ اپنے عروج پر تھا جب میں اپنے کام کے لیے اوسطاً ڈھائی؍تین گھنٹے بچا سکتا تھا۔" ۱۰؂

تحریکِ پاکستان جب اپنے عروج پر تھی تو اِس کے مخالفین نے سہہ رُخی محاذ کھول کر اسے ناکام بنانے کی شدید کوشش کی ۔ ان میں پہلا محاذ انگریزوں(حکومت) کا تھا اُن کی پوری کوشش تھی کہ خان آف قلات اپنی خود مختاری کا علان کر کے برطانیہ کی حمایت کا اعلان کر دیں دوسرا محاذ اُن لوگوں کا تھا جو ہندوؤں اور نیشنل کانگریس کے ہاتھوں میں کھیل رہے تھے ۔ ان میں قابلِ ذکر عبدالصمد خان اچکزئی ، مرزا فیض اللہ عبدالقادر اور چندرمان وکیل پیش پیش تھے ۔ یہ لوگ بلوچستان کے ہندوستان سے الحاق کے مقصدپر کام کر رہے تھے ۔ تیسرے محاذ میں وہ لوگ شامل تھے جو اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے تھے جنھیں تحریکِ پاکستان کے مخالفین اپنے مقصد کے لیے استعمال کرتے ہوئے مسلم لیگ کی کاوشات کو نقصان پہنچا رہے تھے ۔نسیم حجازی نے سہہ رُخی لڑائی لڑتے ہوئے ان تمام محاذوں کا مؤثر انداز میں جواب دیا ۔ بقول نوابزادہ جہانگیر خان :

"نسیم حجازی کی کوئٹہ آمد کے بعد پاکستان تحریک ایک پارٹی ہی کی نہیں بلکہ قومی تحریک بن چکی تھی۔" ۱۱؂

نسیم حجازی بلوچستان کے عوام میں پاکستان تحریک اور اُس کے مقاصد کے حوالے سے بیداری کی مہم چلا رہے تھے ۔نسیم حجازی حکومتِ وقت (انگریزوں) اور ہندوؤں کی تمام تر سازشوں کے باوجود کسی بھی مرحلے پر اپنے مقصد سے ناامیدنہ ہوئے ۔ انھیں ہندوؤں کی طرف ے مسلمانوں کے لیے روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کا بھی ادراک تھا اور مسلمانوں کی یہ رسوائی انھیں تکلیف دہ کیفیت سے دوچار رکھتی تھی ۔ جب مسلم لیگ نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے عملی کوششیں شروع کیں تو نسیم حجازی اور اُن کے ساتھیوں نے اس میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے اِن کاوشات کو مزید تقویت پہنچائی ۔ آئین ساز اسمبلی کے لیے نوابزادہ محمد خان جوگیزئی کا انتخاب بھی نسیم حجازی کے مشورہ پر عمل میں آیاجو کہ بلوچستان کے پاکستان سے الحاق کی سمت ایک اہم قدم تھا ۔اس ضمن میں نسیم حجازی نے مشورہ دیا تھا کہ کانگریس کے امیدوار کے لیے اس میدان کو کھلا نہ چھوڑا جائے ۔ طویل بحث مباحثے کے بعد نسیم حجازی نواب محمد خان جوگیزئی کو اس سیٹ پر الیکشن لڑنے پر رضامند کرنے میں کامیاب ہو گئے ۔

بلوچستان میں شاہی جرگہ کو قانون ساز اسمبلی کے طور پر ایک اہم مقام حاصل تھا لہٰذا انگریزوں نے اپنی سازشوں کی حمایت کرنے کے لیے شاہی جرگہ کو بلوچستان کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیا ۔ آئین ساز اسمبلی میں نوابزادہ محمد خان جوگیزئی نے مسلم لیگ کی حمایت کر کے بلوچستان کے پاکستان سے الحاق کی راہ ہموار کر دی ۔ نسیم حجازی نے عملاً بلوچستان کے پاکستان سے الحاق کے لیے دن رات ایک کر دیے ۔ راتوں کو جرگہ کے اراکین سے ملاقاتیں کر کے مدلل انداز میں پاکستان میں شمولیت کے لیے راضی کرتے تھے اور دن میں اپنے اخبار ‘‘تنظیم ’’ میں مضامین لکھ کر نہ صرف مسلمانوں کی راہنمائی کرتے بلکہ دشمن کے پروپیگنڈہ کا مقابلہ بھی کرتے ۔

 بلوچستان میں رائے شماری کے لیے ۲۹ جون ۱۹۴۷ء کا دن مقرر ہوا ۔ محسوس ہوتا تھا کہ پاکستان کے حق میں فیصلہ آنا مشکل ہے لیکن نسیم حجازی نے ہمت نہ ہاری اور اپنے مقصد کے حصول کے لیے لگاتار کوششیں کرتے رہے ۔بلوچستان کے دگرگوں حالات کے بارے میں مسلم لیگ کی مرکزی قیادت کی توجہ مبذول کروانے کے لیے ۱۶ جون ۱۹۴۷ء کو اپنے ہفتہ وار اخبار ‘‘تنظیم’’ میں انھوں نے ‘‘لمحۂ فکریہ ’’ کے عنوان سے ایک خصوصی اداریہ لکھا جس کے مطابق بلوچستان کے بغیر کوئی پاکستان کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا ۔ انھوں نے مسلسل کوششوں کے ذریعے قائدِ اعظم اور قبائلی سرداروں کے مابین ملاقات کا بندوبست بھی کیا ۔ حاصلِ نتیجہ یہ کہ قبائلی سرداروں کے اذہان سے شکوک و شبہات کا غبار دور ہونے سے وہ پاکستان کی حمایت کرنے پر رضامند ہو گئے ۔ نسیم حجازی تحریکِ پاکستان کے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے کارکنان کو بھی خراجِ عقیدت

پیش کرتے ہیں :

"آج جب میں بلوچستان کی تاریخ کا ایک باب لکھتا ہوں تو میں بلا کسی ہچکچاہٹ کے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ بلوچستان میں ریفرنڈم کی جنگ کے دوران مسعود خددارپوش پاکستان کا بہترین فوجی اور اس کے قلعے کی ایک ٹھوس دیوار ثابت ہوا ۔ یہ محض اتفاق تھا کہ ایک نوجوان آئی سی ایس آفیسر ہماری حیرت انگیز کشتی کے لیے روشنی بن کر ابھرا اور ایک نوجوان ای اے سی نے کشتی کے منتظم کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔" ۱۲؂

کانگریس کے متعصب کردار نے بھی اپنا اثر دکھایا اور شاہی جرگہ کے اراکین کو اجتماعی سوچ کی بجائے انفرادی سوچ کی طرف مائل کرنے میں کامیاب ہو گئی کہ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے قبائلی سردار اپنا اقتدار کھو دیں گے اور یہ کہ قیامِ پاکستان قبائلی نظام اور بلوچ عوام کے حقوق کی پامالی کی طرف ایک بڑا قدم ہے ۔ بلوچستان سے ہونے والی آمدنی اور اخراجات کا ضمیمہ شائع کر کے بلوچ سردارو ں کو یہ باور کرانے کی کوشش بھی کی گئی کہ بلوچستان کا پاکستان سے الحاق سودے بازی کا نتیجہ ہے ۔ اس کے علاوہ کانگریس نے ایک منافقامہ عمل یہ بھی کیا کہ بلوچستان کے عوام میں تفریق ڈالنے کے لیے پٹھان آبادی کو اکسا کر پٹھانستان کا نعرہ بھی بلند کیا اور ساتھ ساتھ بلوچوں اور پٹھانوں میں ایک دوسرے کی غلامی کے خدشات کو بھی ہوا دی ۔ آزاد بلوچستان یا بلوچستان کے افغانستان سے الحاق کے بارے میں ایک علامیہ بھی جاری کیا گیا ۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ کانگریس کی طرف سے نواب محمد خان جوگیزئی کو ایک ایسے وقت میں ۱۸۰ ملین روپے کی پیش کشکی گئی جب بلوچستان کی کل آمدنی صرف ۱۵ ملین روپے تھی ۔

نسیم حجازی کی تصنیفات میں ‘‘خاک و خون’’ ، ‘‘آخری چٹان(جلد اول و دوئم)’’ ، ‘‘آخری معرکہ’’ ، ‘‘اندھیری رات کے مسافر’’ ، ‘‘اور تلوار ٹوٹ گئی (جلد اول و دوئم)’’ ، ‘‘ داستانِ مجاہد’’ ، ‘‘ گمشدہ قافلے’’ ، ‘‘انسان اور دیوتا’’ ، کلیسا اور آگ’’ ، ‘‘محمد بن قاسم’’ ، ‘‘پاکستان سے دیارِ حرم تک’’ ، ‘‘پردیسی درخت’’ ، ‘‘پورس کے ہاتھی’’ ، ‘‘قافلۂ حجاز’’ ، ‘‘شاہین (جلد اول و دوئم)’’ ، ‘‘سو سال بعد’’ اور ‘‘ سفید’’ جزیرہ شامل ہیں۔ نسیم حجازی کی ان کتب سے ان کی پاکستان اور اسلام سے محبت کی اعکاس ہیں اور ان تحریروں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ کس طرح انھوں نے عوام کے اذہان کو پاکستان کے حق میں تبدیل کیا ۔دیگر وجوہات کے ہمراہ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ کانگریس بلوچستان میں جو غلط تاثٔر پیدا کرکے اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کرنا چاہتی تھی اُسے واضح طور پر اس میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اور کانگریس کی سازشوں کا ادراک رکھتے ہوئے انھوں نے بڑےمستحسن طریقہ سے اُسے پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا ۔

انھوں نے نواب جہانگیر خان کو مشورہ دیا کہ ہم نے بلوچستان کے سٹیج پر کھیلے جانے والے ڈرامہ میں برطانیہ کا ڈرامائی کردارکو دیکھا ہے۔ اب ہماری بای ہے کہ اس سٹیج پر کھیلے جانے والے ڈرامے کا آخری ایکٹ ہم پیش کریں ۔ نسیم حجازی کو بطور صحافی ۲۹ جون کو ٹاؤن ہال میں ہونے والی کاروائی کی بھنک پیشگی مل گئی تھی کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن مزید وقت طلب کرکے پاکستان کے حق میں دیے جانے والے فیصلہ کو مؤخر کرنے کی کوشش کریں گے لہٰذا انھوں نے اسی تاریخ کو فیصلہ لینے کے لیے بھرپور کوششوں کا آغاز کر دیا ۔ انھوں نے نواب محمد خان جوگیزئی کو بھی راضی کر لیا کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے مزید وقت طلب کرنے کے فیصلہ کو مسترد کر دیں اوراُسی دن فیصلہ سنانے پر اصرار کریں ۔ لہٰذا وہی ہوا جو نسیم حجازی چاہتے تھے جب مسٹر جیفری پرئر(Mr. Jeffery Prayer) نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے حکم نامے کو پڑھنے کا آغاز کیا تو نواب صاحب اعتماد کے ساتھ اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور یوں گویا ہوئے :

"ہمیں اس فیصلے کے لیے مزید وقت کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ قبائلی جرگہ کے سربراہان نے پاکستان کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے ۔ ہم یہاں سے اعلان کرتے ہیں کہ ہمارا نمائندہ پاکستان کی آئینی اسمبلی کا حصہ ہو گا اور اس فیصلے کے خلاف تمام لوگ ابھی اپنا راستہ الگ کر سکتے ہیں ۔" ۱۳؂

نوابزادہ محمد خان جوگیزئی کے جرأت مندانہ فیصلے کی مطابعت میں جرگہ کے دوسرے سربراہان نے بھی اپنا ووٹ پاکستان کے حق میں دیا جس پر مسٹر جیفری نے یہ اعلان کیا کہ وہ وائسرائے کو ایک ٹیلی گرام بھیج کر جرگہ کے فیصلہ سے آگاہ کریں گے ۔ یہ اعلان سننے کے بعد نسیم حجازی باہر آئے اور جوش و جذبے سے بھرپور نعرہ لگایا ، ‘‘پاکستان زندہ باد’’۔ یوں نسیمحجازی نے اپنی عقل و بصیرت اور دن رات کی محنت سے بلوچستان کے پاکستان سے الحاق کو ممکن بنا دیا ۔

 نسیم حجازی کے تین ناولوں کو PTVنے ۱۹۸۰ء کی دہائی میں ڈراموں کے طور پر TV سے نشر کیا ۔ ان ناولوں میں آخری چٹان اور شاہین(جلد اول و دوئم) شامل ہیں ۔ تاریخی حوالے سےPTVکے اب تک فلمائے گئے ڈراموں میں آخری چٹان کو اولین مقام حاصل ہے ۔ اس ڈرامہ میں سلطان جلال الدین کے کردار کو جس انداز میں سلیم ناصر نے نبھایا ہے وہ ناقابلِ فراموش ہے ۔ نسیم حجازی کے ناول ‘‘خاک اور خون’’ پر اسی نام سے بنائی جانے فلم کو پاکستانی فلم انڈسٹری یا لاہور فلم انڈسٹری کی چند بلاک بسٹر فلموں میں چوٹی کا مقام حاصل ہے ۔

بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ تحریکِ پاکستان کے ایک اہم ہیرو جس نے پاکستان کے تخلیقی عمل میں اپنی روح اور اندرونی جذبے کے تحت ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا اسے ہم قومی سطح پر کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں ہیں ۔ نواب محمد خان اس وقت جب بلوچستان کی کل آمدنی صِرف ۱۵ ملین روپے تھی ، ۱۸۰ ملین روپے کی پیش کش کو ٹھکرانے والا عظیم راہنما اور نوازادہ جہانگیر خان جو تحریکِ آزادی کے ایک حوصلہ مندہیرو ہیں ،نسیم حجازی کی تحریکِ پاکستان اور بلوچستان (جو کہ پاکستان کا حصہ ہے )کے لیے خدمات کا کھلے دل سے اعتراف کرتے ہیں تو پاکستانی مؤرخ اس سلسلے میں ہچکچاہٹ کا شکار کیوں ہے؟ظاہری طور پر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ پاکستانی مؤرخ اور مصنفین ان کے بارے میں کچھ جانتے ہی نہیں اور نہ ہی جاننا چاہتے ہیں یا پھر انھیں جان بوجھ کر نظر انداز کیا جا رہا ہے ۔ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہمارے مؤرخین(معذرت کے ساتھ)انھی لوگوں کی خدمت میں اپنے آپ کو وقف کر چکے ہوں جہاں سے انھیں کچھ ملنے کی امید ہو لہٰذا وہ اپنا پورا زور صرف انھی کو ہیرو ثابتکرنے میں لگا رہے ہوں جنھوں نے صرف علامتی طور پر یا ضمنی طور پر تحریکِ پاکستان میں حصہ لیا ہو۔

بلوچستان کا پاکستان کے ساتھ الحاق ایک زندہ حقیقت ہے اور اس کی ایک باقائدہ تاریخ موجود ہے جس میں سے نسیم حجازی کی خدمات صَرفِ نظر کرنے سے بلوچستان کی تاریخ مکمل نہیں رہ پائے گی بلکہ مسخ ہو کر رہ جائے گی ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نسیم حجازی کی خدمات کا اعتراف کرنے کے لیے پاکستان تحریک( تحریکِ آزادی) اور تاریخِ پاکستان کی کتابوں پر نظر ثانی کر کے نسیم حجازی کی خدمات کو اُن کتابوں کا حصہ بنایا جائے کیوں کہ زندہ قومیں کبھی بھی اور کسی حال میں بھی اپنے ہیرو، راہنما ، مددگاروں اور مجاہدین کی خدمات کو فراموش نہیں کرتیں اور پاکستانی قوم تو ایک بہادر ، غیور اور غیرت مند قوم ہے۔

حوالہ جات

۱۔ ریڈیو پر ایک گفتگو، بشکریہ: ریڈیو پاکستان ، اسلام آباد ، ۲۰ مئی ۱۹۸۶ء

۲۔ کوثر، انعام الحق، ڈاکٹر ، ‘‘جدوجہدِ آزادی میں بلوچستان کا کردار’’ ، ادارہ تحقیقتِ پاکستان، لاہور، ۱۹۹۱ء، ص۳۷۰

۳۔ ایضاً، ص۳۰۸

۴۔ فاروق، ایم سیّد، اے‘‘، تحریک ِپاکستان اور بلوچستان’’، مہران پبلیکیشنز،کراچی، ۱۹۷۷ء، ص۱

۵۔ ایضاً، ص۱۸

۶۔ ایضاً، ص۶۶

۷۔ ایضاً، ص۶۶

۸۔ پندرہ روزہ ،‘‘ پاسبان’’ ، کوئٹہ، ۱۵ جون ۱۹۳۹ء ، ص۶

۹۔ ریڈیو پر ایک گفتگو ، بشکریہ: ریڈیو پاکستان، راولپنڈی، ۱۲ جولائی ۱۹۸۵ء

۱۰۔ ‘‘اقرا، قائدِ اعظم نمبر’’، گورنمنٹ ایم اے او کالج ، لاہور،جون ۱۹۷۶ء ، ص۱۴۷۔۱۴۸

۱۱۔ ‘‘نظام’’، کراچی، ۲۰ ماچ ۱۹۴۷ء

۱۲۔ تصدق حسین، راجہ ، ‘‘نسیم حجازی ، ایک مطالعہ’’، قومی کتب خانہ ، لاہور ، ۱۹۸۷ء ، ص۱۹۰

۱۳۔ ہفتہ وار ، ‘‘تنظیم’’ ، کوئٹہ ، ۲۳ دسمبر ۱۹۴۷ء

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...