Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نقش فریادی اکتوبر تا دسمبر 2022 > -ثمینہ سید کی افسانہ نگاری

نقش فریادی اکتوبر تا دسمبر 2022 |
پنجاب لٹریری فورم
نقش فریادی اکتوبر تا دسمبر 2022

-ثمینہ سید کی افسانہ نگاری
Authors

ARI Id

1695781004291_56118388

Access

Open/Free Access

ثمینہ سید کی افسانہ نگاری

منیر عباس سپرا، پی ایچ۔ڈی سکالر

اس میں کوئی شک نہیں کہ عصر حاضر کی خواتین افسانہ نگاروں میں ثمینہ سید ایک نامور افسانہ نگار ہیں ۔ان کے اب تک دو افسانوں کے مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں ۔ پہلا افسانوی مجموعہ ”ردائے محبت“سیوا پبلی کیشنز لاہور سے2011ء میں شائع ہوا ہے۔دوسرا افسانوی مجموعہ ”کہانی سفر میں ہے“ بھی سیوا پبلی کیشنز لاہور سے2016ء میں منظر عام پر آیا ۔ان کا ایک شعری مجموعہ بھی چھپ چکاہے اور تیسرا افسانوی مجموعہ زیر طبع ہے۔

ان کا ہر افسانہ موضوع کے لحاظ سے مختلف اوربوقلمونی صلاحیت سے بھرپور ہوتا ہے۔ان کی کہانیاں معاشرے میں پھیلے ناسوروں کی نشاندہی بھی کرتی ہیں اور کبھی کبھی ان پر مرہم بھی لگاتی ہیں۔ان کی کہانی کے آغاز کی بنت اختتام سے جدا ہوتی ہے لیکن پڑھتے ہوئے احساس نہیں ہوتا کہ کہاں حقیقت کے رنگ افسانے میں آمیخت ہو گئے ہیں۔ ان کے افسانوں کے موضوعات میں سماجی مسائل ،طبقاتی تقسیم ، جنسی و نفسیاتی پہلو، اور روزمرہ زندگی میں درپیش آنے والے ہر پہلو کو موضوع بنایا ہے۔ان کے افسانوں میں انسانی اعمال اور معاشرتی و سماجی احوال کو خو رد بینی نظر سے دیکھایا گیا ہے۔ افسانہ نگار نے جدید دور کے انسان کے ذہنی رویوں اور نفسیاتی مسائل کو سادہ اور رواں اسلوب میں قاری کے سامنے پیش کیا ہے۔ یہ بھی ان کاکمال فن ہے کہ وہ افسانے کو بے جا طوالت سے بچاتے ہوئے محدود اور منتخب لفظوں میں کامیابی  سے قاری تک وہ پیغام پہنچا دیتی ہیں جس نے انہیں قلم اٹھانے پر اکسایا ہوتا ہے۔ثمینہ سید کی فن کاری یہ ہے کہ انہوں نے کہانی کے بنیادی عناصر کو جدید طرز اظہار پر قربان نہیں کیا بلکہ اس کے بر عکس ان کے ہاں افسانے کا بنیادی جوہر اور کہانی کا جدید تر اسلوب کہانی میں ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

ثمینہ سید صاحبہ کی کہانی گھریلو معاشرت اور دیگر سماجی رہن سہن کی تصویر کشی کرتے ہوئے عہد حاضر کے المناک سانحات تک رسائی رکھتی ہے۔کہانی کے اس سفر میں سماجی اور معاشرتی زندگی کی جھلکیاں ہی نہیں بلکہ آج کا سارا سماج اور معاشرت نظر آتی ہے۔ان کے افسانوں میں معاشرتی رویوں کی نا ہمواریوں کا کینوس خا صا وسیع نظر آتا ہے۔زمانے کی ہوس ناکی کا نشانہ بنا انسان کہاں مرتا اور ٹوٹتا ہے۔ عزت اور شرافت کا بھرم رکھنے کے لیے وہ کن اذیتوں سے گزرتا ہے۔یہ سب کچھ ان کے افسانوں میں موجود ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ خود افسانہ نگاران کہانیوں کا ہی کوئی کردار ہے۔ان افسانوں کے موضوعات میں عام گھر کے ماحول ،تعلق داریوں ،انسانی ہمدردی اور خلوص کے جذبوں کی بھی تفصیل ملتی ہے۔عداوتیں ہیں ،رقابتیں ہیں جن کا رشتہ کہیں معاشی مسائل سے تو کہیں سماجی بے راہ روی سے ہے۔

یہ انداز نگارش بہت کم افسانہ نگاروں کے ہاں ملتا ہے کہ کہانی اپنے خارجی ماحول میں بڑی روایتی سیدھی مساوی اور بڑی عام فہم سی معلوم ہوتی ہے۔ لیکن اس کی داخلی جہت بہت پر آشوب پیچیدہ ،معنی خیز اور کسی بڑے فکری نتیجے کا مظہر بن کر ابھرتی ہے۔

ثمینہ سید کے افسانوں میں کردار نگاری،منظر کشی ،خارجی اور داخلی کیفیتوں کا بیان، انسانی جذبات و احساسات کی عکاسی تو بالکل اپنے فطری اور بھر پور انداز میں تمام تر جزئیات کے ساتھ نمایاں ہوتی ہے۔لیکن ان کا روحانی طرز احساس اور موضوع کی مناسبت سے مضبوط اور مربوط زبان و بیان ان کی کہانی اور ان کے افسانوں کو بہت پر اثر اور سحر آفریں بنا دیتے ہیں۔اس سلسلے میں یوں تو بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ لیکن ان کے افسانوی مجموعے ”ردائے محبت “کی ایک کہانی کا آغاز ان کی فنی مہارت اور عمیق مشاہدے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

فضا آج پھر بوجھل تھی عجیب سوگواریت چھائی ہوئی تھی ۔میں چلتا تو پتے پاﺅں کے نیچے یوں چرمراتے جیسے رو رہے ہوں۔بین کر رہے ہوںمجھے پاﺅں اٹھانا پڑے غیر ارادی طور پر سنبھلنا پڑتا کہ کہیں میری وجہ سے انھیں تکلیف کہ ہو رہی ہو۔لیکن ایک میرے سنبھلنے سے کیا ہوتا ہے۔میں نے میں نے اپنے اردگرد چلتے بے فکرے چہروں کو دیکھاجو سب جلدی میں نظر آرہے تھے۔چہرے اتنے خالی اور سپاٹ کہ دماغ کے چوپٹ ہونے کے غمازنظر آتے تھے۔

(اقتباس:افسانہ ،شبو )

ثمینہ سید نے متوسط طبقے کے افراد کے متعلق زیادہ افسانے لکھے ہیں ان کے فن کی یہ خوبی ہے کہ انہوں نے جس کردار کو پیش کیا حسب ضرورت ان کی زبان اور طرز معاشرت بھی اسی طرح بیان کی ہے۔ پہلے ان کے ابتدائی افسانوں میں کرداروں کی کثر ت پائی جاتی ہے مگر ان کے دوسرے افسانوی مجموعے میں انہوں نے اپنی ان کمزوریوں پر قابو پا لیا ان کے افسانوں میں مشاہدے کی وسعت اور مطالعہ کی گہرائی نمایاں ہوتی ہے۔ان کا یہ افسانہ شبو بھی اسی طرز کا ہے۔

ثمینہ سید نے مخصوص لوگوں کی زندگی کی عکاسی نہیں کی بلکہ ان کے یہاں مشترکہ موضوعات پر افسانے ملتے ہیں ۔ثقافت ،مشترکہ تہذیب و تمدن اور مشترکہ قومیت نظر آتی ہے انہوںنے انسانوں کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کی اور ان کے دکھ درد کو سماج معنویت عطا کی اور اپنے رومانوی طرز تحریر اور دلکش انداز بیان سے سماج کی کھوکھلی زندگی اور ا ن کے ظاہری عیش و عشرت پر طنز و تبصرہ کیا ہے۔

ثمینہ کا سادہ ،خوبصورت اسلوب فنی پختگی کا حامل ہے جوافسانے کا منفرد مقام و مرتبہ متعین کرتا ہے۔ثمینہ سید کی کہانی کا موضوع گھریلو معاشرت اور دیگر سماجی رہن سہن کی تصویر کشی کرتی ہے۔ان کی کہانیوں میں معاشرتی ناہمواریوں کا کینوس خاصا وسیع نظر آتا ہے۔زمانے کیسے ہوس ناکی کا نشانہ بنا۔یہ سب اپنے افسانوں میں بیان کرتی ہے۔سیمیں درانی کے موضوعات زیادہ پیچیدہ ہیں نسبتا ثمینہ سید کے اور ان کی ہر کہانی موضوع کے اعتبار سے مختلف ہے موضوعات کا تنوع ان کے فن اور تحریروں کو اور جلا بخشتا ہے۔ان کا افسانہ ”ہم کہا ں کے سچے تھے“ ان کے افسانوی مجموعے ”کہانی سفر میں ہے“کا پہلا افسانہ جس میں انھوں نے اس کائنات کے دو مرکزی کرداروں یعنی عورت اور مرد کی فطرت اور جبلت کی عکاسی کی ہے۔نیناں اور زُہیراس کہانی کےے مرکزی کردار ہیں۔نیناں ایک کال گرل ہے جو سڑکوں پر اپنا رزق تلاش کرتی ہے۔اور اپنے جسم کو ذریعہ معاش بنا کر زندگی گزار رہی ہے۔زہیر عباس ایک مشہور صحافی جو محبت کے وجود سے انکاری شخص ہے۔نیناں کی محبت میں اسیر ہو کر شادی کرتا ہے اور گھر بساتا ہے۔اور پھر اس کے خوابوں کا محل چوُر چوُر ہو جاتا ہے۔

زہیر کا مردہ وجود گاڑی روک کر اسے دیکھنے لگایہ ضرورت ہے یا عادت نیناں ؟ مردہ وجود سے آواز آئی ،لڑکی دروازہ کھول کر اتر گئی ۔یناں کی آنکھیں آنسوﺅں سے بھر گئیں”مجھے بھی آپ سے یہی پوچھنا ہے یہ ضرورت ہے یا آپکی عادت“وہ اتر کر پیچھے بھاگنے لگی

(اقتباس:افسانہ،ہم کہاں کے سچے تھے)

عورت اور مرد اگرچہ قصے کہانیوں کے مرکزی کردار رہے ہیں فطرت کی دوسری چیزیں ضمنی کرداروں کی شکل میں آتی ہیں۔کہانی کا تانا بانا ان ہی مرکزی کرداروں کے گرد گھومتا ہے۔دونوں کی باطنی نفسیات اور ظاہر ی عمل کہانیوں کو جنم دیتا ہے۔ثمینہ سید کے افسانوں میں ”وفا بے وفائی ،محرومی مجبوری ،ازل سے ظلم سہنے والی عورت اور ظلم کرنے والا مرد،محبت کی راہ میں رکاوٹ بننے والا معاشرہ اور معاشرے کے استحصال سولی پر لٹکنے والی خاموش محبت “یہ سب ان کہانیوں کے موضوعات ہیں۔

دوغلی“ ، ”ہاتھ میرے خالی ہیں“، ”تجھے سوچتے رہے“ اور ”بڑی عورت “ اسی قبیل کے افسانے ہیں۔ جس میں عورت مرد اور محبت تین مرکزی کردار رہے ہیں۔کہیں محرومی ہے کہیں مجبوری ہے اور کہیں خود آگہی کے در وا ہوتے ہیں۔

دوغلی“ ایک ایسی لڑکی کی کہانی جو بہن بھائیوں میں سب سے بڑی اور ماں باپ کی پہلی بیٹی ہے۔جس کو پولیس کی نوکری کا جنون تھا ۔گھر والوں کی مخالفت کے باوجود اپنے مقصد میں کامیابی تو حاصل کر لیتی ہے پر اس بات کی تاب نہ لاتے ہوئے اس کا باپ اس دنیا سے کوچ کر جاتا ہے تب اُس کو ہی مرد اور بیٹا بن کر میدان میں اُترنا پڑتا ہے۔چھوٹی تین بہنوں اور ماں کی ذمہ داری نبھاتے بنھاتے کب بالوں میں چاندی اتری اُسے پتا ہی نہ چلا ۔سرمد انکم ٹیکس آفیسر تھا اور ایک کیس کے سلسلے میں تھانے آیا اور اُسے وہ لڑکی بھا گئی کب محبت نے ان کے درمیان جگہ بنائی اس بات کا احساس ہوتے ہی زندگی آسان لگنے لگی۔عورت کی محبت کے موضوع پر یہ ایک بہترین کہانی ہے۔اس سے ایک اور پہلو بھی ہے کہ عورت کے لیے ساتھ اور سہارا بہت ضروری ہوتا ہے۔اس بات کا جب ادراک ہوا تو وقت ہاتھ سے ریت کی طرح سرک چکا تھا۔

وہ سب کو بڑے دھڑلے سے کہتی تھی شادی کرنا مرد کی محکومی کرنا مجھےپسند ہی نہیں مجھے تو حیرت ہوتی ہے عورتیں کس طرح مردوں کی جرابیں ،بنیانیں دھوتی ہیں۔وہ بڑے فخر سے کہتی میں داسی نہیں بن سکتی۔“مگر درحقیقت وہ پوری عورت تھی ۔بے بس تمناﺅں سے بھری ہوئی محبوب کی ایک جھلک کو ترستی ہوئی۔اس کے اندر بھی مرد کی جرابوں بنیانوں کو سنبھال کے رکھنے کی حسرتیں روز روتی رہتیں۔“ ( اقتباس :افسانہ،دوغلی)

بظاہر مضبوط نظر آنے والی عورت کے اندر وہ ہی عام سی لڑکی، خواب سجانے والی اور کمزور سی جسے سہارے کے لیے ہمیشہ سے مرد کی ضرورت ہے۔

افسانہ ”ہاتھ میرے خالی ہیں“ ایک ایسے خوب رو نوجوان کی کہانی ہے جس نے انتہائی غربت میں آنکھ کھولی اور جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی غربت کی دلدل سے باہر نکلنے کی کوشش میں شدید محنت کو اپنا ہتھیار بنایا ،پھل فروش سے جوس کارنر تک کا سفر طے کیا اور ایک دن محبت کے تیر کا شکار ہو کر ایک کالا جادو کرنے والے عامل کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن گیا۔

میرے دوست مجھے رشید بابا کے پاس لے گئے اور ساری کہانی من و عن  اس کے سامنے رکھ دی وہ ہنسا اور میرے کاندھے پر ہاتھ مارا جیسے تسلی دی ہو وہ کچھ پڑھتا پڑھاتا رہا ہم کئی گھنٹے بیٹھے رہے۔اس نے تعویز دھاگے دیئے  کچھ چیزیں قبرستان میں جا کر درخت پر باندھنے والی دیں کہ اس کا دل اُڑے گا اور وہ میرے پاس آجائے گی۔“ ( اقتباس :افسانہ،ہاتھ میرے خالی ہیں)

ایسے عامل بابا معاشرے کے وہ ناسور ہیں جو بہت ساری زندگیوں کے ساتھ کھیل کر ان کو جیتے جی مرنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔شاہد مرزا کو ماہ نور کے باپ کی دولت بھی مل گئی ۔سب کچھ حاصل ہو جانے کے بعداُس کے اندر بے چینی اور بے قراری بڑھنے لگی جو اس احساس کا نتیجہ تھی کہ محبت کو دھوکے سے حاصل کیا۔یہ اچھائی اور برائی کی جنگ تھی۔ضمیر کے زندہ ہونے کی نشانی جو انسان کو اپنی عدالت میں کھڑاکر کے برائی کی طرف بڑھتے قدموں کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

میری کمائی تو کچھ بھی نہیں یار یہ سب تو ماہ نور کا ہے جو میں تم کوگوں کے ساتھ بانٹنے چلا آتا ہوں کہ شاید کسی کی دعا سے میرے بخت کی سیاہی دھل جائے۔“  (افسانہ :ہاتھ میرے خالی ہیں)

افسانہ”تجھے سوچتے رہے“ ایک ایسے جوڑے کی کہانی ہے جو خوشگوار اور خوشحال زندگی گزارتے ہوئے غلط فہمیوں اور بد گمانیوں کی زد میں آکر اپنے محور سے ہٹ جاتے ہیں۔حق جتانے والا شوہر اور اپنے کیرئیر کو آگے بڑھانے کے لیے مطالبہ کرتی ہوئی بیوی کی یہ کہانی ہے ۔ثمینہ سید نے یہ گھریلو موضوع پر افسانہ لکھا ہے جس میں میاں بیوی کے تعلق کو پیش کیا ہے ۔

وہ چپ رہا لیکن شام کی فلائیٹ سے اسلام آباد ’آگیا میں تمہارے بغیرنہیں رہ سکتا‘ہو بے بسی سے بولاتم میری نگرانی کرتے ہو بسمہ زور سے چلائی۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ تم ٹھیک نہیں کر رہی وہ ٹھہرے ٹھہرے تھکے لہجے میں بولا۔(اقتباس :افسانہ، تجھے سوچتے رہے)

چھوٹی چھوٹی باتیں چھوٹے چھوٹے جھگڑے معاشرے کی سب سے مضبوط اکائی گھر کو بکھیر کر رکھ دیتے ہیں۔لباس اور تن کے اس رشتے کو بہت خوبصورتی سے بیان کیاگیا ہے۔میاں بیوی دونوںاس افسانے کے مرکزی کردار ہیں۔

ثمینہ سید کے چند مزید افسانوں کے موضوعات پر غور کیا جائے تو ان میں ان کا افسانہ ”بڑی عورت “ایک بیوی کی وفا کی کہانی ہے جس کے لیے اُس کا گھر شوہر اور بچے ہی اس کی کل کائنات تھے۔وہ اپنی ہی دنیا میں مست مگن شوہر کی پوجا میں مصروف اور مسرور تھی ایک دن اُس کے خوابوں کا محل چکنا چور ہو گیا جب اُ س کا یہ بھرم ٹوٹا کہ اُس کا محبوب شوہر کسی اور کی زلفوں کا اسیر ہو چکا ہے۔وہ عورت اپنی اور اپنی بیٹیوں کی عزت اور تحفظ کی خاطر معاشرے میں مردانہ وار آگے بڑھتی ہے وکالت کی تعلیم حاصل کر کے اپنے پاﺅں پر کھڑی ہوتی ہے۔

سوتیلے باپ کے منفی رخ سے آشنا کروایا گیا ہے کس طرح رشتوں کی سفید چادر کو میلی کرتے ہوئے باپ اور بیٹی کے مقدس رشتے میں ملاوٹ ہوتی ہے۔عورت کسی بھی مقام پر پہنچ جائے ،رہتی عورت ہی ہے اُس کے اندر کی نرمی اور محبت ہی اس کی مضبوطی اور کامیابی ہے۔

کہانی سفر میں ہے“ کی مرکزی کردار خود ایک لکھاری ہے۔وہ اپنی کہانی کار دوست سے کہتی ہیں جب ہم کوئی کہانی لکھتے ہیں تو اس میں خواب ،خواہشیں اور کسی قدر مبالغہ ڈالنا پڑتا ہے صرف صبر اور دکھ کوئی نہیں پڑھتا۔جواب میں اس کی کہانی کار دوست کہتی ہے۔کہانی جھوٹ نہیں مانگتی ہمارے ساتھ سفر میں رہتی ہے۔سفر کی صعوبتوںکو اور پیچ و خم کو سہتی ہے ہماری کیفیات کی عکاس ہوتی ہے۔"( اقتباس :افسانہ،کہانی سفر میں ہے)

اس افسانے میں انسانی نفسیات کی اس کیفیت کی عکاسی بہت خوبصورتی سے کی گئی ہے۔ہم کسی کے دکھ میں ہمدردی اور غمگسار بن کر اُس کو تسلی دینے میں تو سب سے آگے ہوتے ہیں لیکن وہی انسان اس غم سے ابھر کر اپنی زندگی کے اچھے دور میں داخل ہوکر خوشیاں سمیٹتا ہے تو ہم اُس کی خوشی میں خوش نہیں ہو پاتے۔

یہ دو الگ الگ خیالات کی حامل عورتوں کی کہانی ہے ایک صبر ضبط اور حوصلے کے ساتھ زندگی کی سچائی اور حالات کی سختیوںکو قبول کر کے وقت کے ساتھ ساتھ اپنی ریاضتوں کا صلہ پاکر خوش بختی کی منازل طے کرتی ہوئی سرخرو ہو جاتی ہے۔دوسری طرف اپنی انا اور خود غرضی کے زعم میں اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پہ خود کو منوانے والی عورت جو آخر میں تہی دامن رہ جاتی ہے اسکا گھر بکھر کر رہ جاتا ہے۔ اقتباس ملاحظہ فرمائیں :

محبت زندہ رہنے کے لیے بہت ضروری ہے۔یہ کائنات تخلیق ہیمحبت کے اصول پر ہوئی ہے۔لیکن محبت صبر اور قربانی مانگتی ہے۔ہر رشتے میں پوری توجہ اور مستقبل مزاجی چاہتی ہے ورنہ آپ خالی خولی یقین کے ہاتھوں کنگال ہو جاتے ہیں اور اپنی سچی خوشیاں اور رشتے گنوابیٹھتے ہیں۔“   (افسانہ :کہانی سفرمیں ہے)

انسان کا خمیر بنیادی طور پر محبت کی مٹی سے گوندھاگیا ہے۔خون کے رشتے جب دور ہوتے ہیں تو ہمارے جسم اور روح میں ایک خالی پن درآتا ہے اور وہی خالی پن خون کی بیماریوں کو جنم دیتا ہے۔کسی انسان کی خود غرضی اور خود پرستی کب دوسرے کی جان لے لیتی ہے اسے پتا بھی نہیں چلتا۔    لیکن وہی بچے جب اس قابل ہوتے ہیں کہ ماں باپ کے لیے چھاﺅ ں بن سکیں ان کو سہارا دے سکیں ان کو بے یارومددگار چھوڑ کر اپنی الگ دنیا بسا لیتے ہیں۔ماں باپ کے اس کرب اور بے بسی کو اس کہانی میں بہت خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے یہ بھی ہمارے گھریلو ماحول سے لیا گیا ایک موضو ع ہے۔اقتباس ملاحظ فرمائیں:

جج صاحب یہ سب اڑ گئے میں اور میری بیوی تنہا رہ گئے ہم نے یاسر کو باہر پڑھنے بھیجا تھا وہ بے وفا نکلا اس کی بے وفائی کو غافر کی شادی کرکے اس کی خوشیاں دیکھ کر کم کرنا چاہتے تھے مگر اس نے خود ہی شادی کرلی۔جناب عالیٰ ہم نے عامر کاسہارا لیا مگر وہ کب تک ہم بڈھوں کے پاس رہتاہم ان کے ماں باپ ان کو زندگی دینے والے بہت پیچھے رہ گئے اتنے پیچھے کہ ہمارے بیٹے ہمیں بھول ہی گئے کہ ہمیں ان کی ضرورت ہے۔“ ( افسانہ :مقدمہ)

وکیل یہ سب سن کر کہتا ہے آپ یہ جذباتی ڈرامہ کر کے عدالت کا اور ہم سب کا وقت برباد کر رہے ہیں اب آپ ہی بتائیے عدالت کیا کرے تو بابا جی ہمت کر کے بولے پوتے مجھے دے دیں تاکہ ،ہمارا دل لگا رہے۔

یہ موضوع ایک منفرد نوعیت کا ہے لیکن یہ ہمارے سماج کی عکاسی کرتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے دکھ جو روزمرہ کا حصہ ہیں وہ خوشیاں جو قاری کو زندگی کی طرف واپس لاتی ہیں، وہ نفسیاتی گرہیں جو قلم سے کھلتی ہیں،وہ کیفیات جن کا مدوجذر ہی حرکت اور تفسیر کا سبب بنتا ہے،انھیں سے ثمینہ کی کہانیوں کا خمیر اٹھا ہے۔اور یہی ثمینہ سید کی تحریروں کے خدوخال ہیں۔ وہ افسانہ ”میں طاہرہ“ جیسے دل دہلا دینے والے مردانہ معاشرے میں عورت کے استحصال کی کہانی لکھتی ہیں۔تو دوسری طرف ”عادت “جیسے افسانے میں زہیر کی کشادہ دلی اور نیناں کی بے راہ روی کا قصہ لکھ کر توازن پورا کر دیتی ہے۔جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کسی خاص نظریے یا نعرے کا علم پکڑ کر میدان میں نہیں آئی بلکہ وہ زندگی سے جڑی ہوئی قلم کار ہیں اور زندگی تحریر کرنے میں مگن ہے۔ان کا ہر موضوع حقیقت کے قریب اور سماج سے اخذ کیا ہوا ہے۔

میں طاہرہ “ میں مرد کے حاکمانہ اور عورت کو اپنی ملکیت سمجھنے اور اس کے ساتھ اپنی مرضی کا سلوک کرنے کی کہانی بیان کی گئی ہے۔اس من مانی کے دوران عورت کس جسمانی اور ذہنی کر ب سے گزرتی ہے اس کا اندازہ صرف وہی کر سکتی ہے۔یہ موضوع ایک عورت لکھاری ہی اچھی طرح بیان کر سکتی تھی اور واقعی ثمینہ نے اس کی بہترین تصویر پیش کی ہے۔

انسان جب اشرف المخلوقات کے درجے سے اُتر کر نیچے آتا ہے تو وہ ایک حیوان بن جاتا ہے جسے رشتوں کی کوئی تمیز نہیں ہوتی ۔یا پھر گوشت نوچنے والا ایک گدھ جسے صرف نوچنے سے مطلب ہوتا ہے چاہے زندہ ہو یا مردہ،ہمارے معاشرے میں ایسے بے شمار گدھ ہیں جو اپنی ہوس کی بھوک مٹانے کی خاطر کسی کا معصوم بچپن کچلنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے اس افسانے میں مصنفہ نے اس کرب ناک حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے:

وہ جھکی اور بولی،’ وہ کہتی ہے کہ اس کے خان چاچابھی اس سے بہت پیار کرتے ہیں۔اسے اور اس کی سہیلیوں کو باہر لے جاتے ہیں گھماتے پھراتے ہیںآئسکریم کھلاتے ہیں اور کئی گھنٹے اپنے پاس رکھتے ہیں اور پھر واپسی پہ پانچ سو روپے بھی دیتے ہیں۔میرا پورا وجود کانپرہا تھا۔میرے کمزور وجود کے لیے یہ ایک بہت بڑا جھٹکا تھا۔میں کوئیردعمل پیش نہ کر سکی پھٹی ہوئی آنکھوں سے اس معصوم کو دیکھ کر یہ اندازہ کرنے کی کوشش کر رہی تھی کہ وہ جو بول رہی ہے اسے سمجھتی بھی ہے یا نہیں۔“

( اقتباس :افسانہ،میں طاہرہ)

بھوک ایک بہت دردناک حقیقت ہے پیٹ کی آگ انسان سے ایسے ایسے جرم کرواتی ہے جس کا سوچ کے بھی روح کانپ جائے پیٹ خالی ہو تو سارے فلسفے ساری تہذیب دھری رہ جاتی ہے۔غریبی سے بڑا کوئی دکھ نہیں ہوتا اور غریب سے بڑھ کر کوئی مظلوم نہیں ہوتا۔ یہ تنگدستی اور غربت ہی تو ہے جو ایک ماں کو اپنا جسم بیچنے پر مجبور کرتی ہے۔ اسی مجبوری کا فائدہ اٹھانے کو اس ظالم سماج میں بہت سے درندے پھر رہے ہیں۔

مزید المیہ یہ کہ بہت سے لوگ یہ سب جانتے بوجھتے بھی انجان بن کر اس معاملے کو حل کرنے کی بجائے پہلو تہی کرتے ہوئے نکل جاتے ہیں۔ اگر کوئی حوصلہ کر کے میدان میں اُترتا بھی ہے تو کوئی ساتھ دینے کو تیار نہیں ہوتا۔جب ایک عورت اپنے حق اور نسوانیت کی عزت کی خاطر کھڑی ہوجائے تو کوئی رکاوٹ اُسے انتقام لینے سے نہیں روک سکتی ۔عورت کی اس جراَت کو بھی افسانے میں مثبت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

ثمینہ سید نے اس ایک افسانے میں کئی موضوعات کو سمو لیا ہے جس کا ہر زاویہ حقیقت کی عکاسی کرتا ہےفرقہ واریت اور مذہبی تعصب نے سارے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی ہوئی اس شدت نے مذہب اسلام کا اصل چہرہ ان فسادات کے دھوئیں کے پیچھے کہیں چھپا دیا ہے۔ اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے جو اپنے پیروکاروں کو امن اور سلامتی کا درس دیتا ہے۔نو مسلموں کو اعانت اور دلجوئی کے لیے اصول مقرر کرتا ہے تاکہ اُن کو دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد کسی قسم کی تکلیف یا پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے مگر نام نہاد مذہبی رہنماجو بھولے بھالے معصوم لوگوں کو بھڑکاکر فرقہ واریت کی آگ میں دھکیل کر خود ایمان کے گیت گاتے نہیں تھکتے۔

افسانہ”وہ کافر “ ایک ایسے ہی نو مسلم کی کہانی ہے جو پہلے لا دین تھا جس کا کوئی مذہب نہ تھا۔مائیکل نامی یہ لڑکا جو ایک مسلم لڑکی اَمن سے متاثر ہو کر دائرہ اسلام میں اپنے سارے خاندان سمیت داخل ہوا۔اُسے اور اس کی ماں کو فرقہ واریت کی آگ نگل گئی۔اس حساس موضوع پر بھی ثمینہ سید نے کہانی لکھی ہے۔اقتباس ملاحظ فرمائیں۔

ہمارے مسلمان ہونے کی بڑی وجہ تم تھیںامن۔۔۔تم ہی بتاﺅہم سنی ہیں یا شیعہ یا پھر دہشت گرد؟ہمارا مذہب اسلام کیا صرف مسلمانوں کامذہب نہیں ہے؟۔۔۔یہ شیعہ،سنی ،وہابی،دیوبندی یہ سب کیا ہے تمہیں بتانا ہی ہوگا؟“        ( افسانہ :وہ کافر)

وطن کی محبت ایمان کا حصہ ہے تو ہم وطنوں کی ہمدردی اور انسانیت کی بھلائی مومن کی نشانی ۔بہت چنے ہوئے لوگ ہتے ہیں جو عظیم مقصد لے کر زندگی گزارتے ہیںاور بہت سارے لوگوں کے لیے مشعل راہ بن جاتے ہیں۔”خوشیاں ٹی سٹال “ ایک ایسے ہی محب الوطن شخص کی کہانی ہے جو باہر ملک سے تعلیم حاصل کرنے کے باوجود اپنے وطن واپس لوٹ آیا تاکہ ٹوٹے ہوئے لوگوں کو سہارا دے سکے بے روزگاروں کو روزگار اور بھوک سے ستائے ہوئے لوگوں کے پیٹ بھرنے کا سامان مہیا کر سکے۔

رحمان عزیز نام کا یہ شخص جو خوشیاں بانٹنے نکلا تھا اس کی اپنی خوشیوں کو کسی سفاک کی اندھا دھند چلائی ہوئی گولیاں نگل گئیں اور آس پاس کی کیفیت میں زندگی کے دن پورے کرتا اسی آس پاس کسی ایسے شخص کے انتظار میں ہے جو اس کی خوشیاں ٹی سٹال کی رونقیں پھر سے واپس لانے کی صلاحیت رکھتاہو۔

ہمارے والدین نے ہمیں پڑھایا لکھایا پھر باہر بھیج دیالیکن رحمان کو پاکستان سے بڑی محبت تھی۔یہ واپس لوٹ آیا اور یہاں سڑک کے اس ویران گوشے پر یہ خوشیاں ٹی سٹال آباد کر لیا یہ رونقیں تو بہت بعد میں آئیں ۔رحمان کو نوکری کرنا پسند نہیں تھا اس لیے یہ خیال اس کے ذہن میں آیا۔“                ( اقتباس "افسانہ،خوشیاں ٹی سٹال )

بھوک ایک تلخ حقیقت ہے ،بے روزگار شخص بھوک اور مایوسی میں زندگی سے کنارہ کرنے کا سوچتا ہے۔یہ پہلو بھی اس کہانی میں پیش کیا گیا ہے۔

ثمینہ سید کی ہر کہانی دوسری سے الگ اور ہر موضوع نیا ہے بے شک مواد اپنے اردگرد کے ماحول سے ہی لیا گیا ہے لیکن موضوعات دل کو چھو لینے والے ہیں۔

ثمینہ سید کا افسانہ ”زہر رگوں میں اتار کر “ ان کے افسانوی مجموعے ردائے محبت کا پہلا افسانہ ہے۔ اس افسانے میں انہوں نے ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی ایک بیماری یعنی ایچ آئی وی پازیٹو جس سے ایڈز کے خدشات بڑھ جاتے ہیں، کا ذکر کیا ہے۔ہماری سوسائٹی میں چونکہ بہت زیادہ منافقت پائی جاتی ہے اس لیے ہم ایسی بیماریوں کو قبول ہی نہیں کر پاتے کہ ایسی بیماری کا وجود بھی ہو سکتا ہے ۔ ہم مستقل ایک انکا رکی ذہنیت میں گم رہتے ہیں کہ یہ مغرب والوں کی بیماری ہے ہمار ااس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔جب کہ حقیقت تو کچھ اور ہی بتائی ہوئی نظر آتی ہے کہ ہمارا زعم پاکبازی ہمیں آنکھیں میٹ کے ایسے لوگوں اور رویوں کے بارے میں انتہائی معتصب بنا دیتا ہے۔ثمینہ نے ایسے موضوع کا انتخاب کر کے ایک اہم فریضہ سرانجام دیا ہے۔

یہ ہمارے سماج کی ایک مجبورلڑکی کی کہانی ہے جو ایسے حالات کی ماری ہوئی ہے کہ ان جیسی لڑکیوں کی زینت الزامات ہی بنتے ہیں۔پناہ گاہ کے طور پربھی زمانے کی بدنام گلیاں ہی نصیب ہوتی ہیں۔ جہاں پر شریف اور عزت دار لوگ رات کے اندھیرے میں اپنی شرافت کا چولا اتار کر بڑی شان سے بیٹھتے ہیں یہ مکروہ چہرہ مصنفہ نے افسانے کے ذریعے عیاں کیا ہے۔

ثمینہ کے افسانوں کو اگر فن کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ان میں مختلف عناصر پائے جاتے ہیں مثلاًخود کلامی کا طرز، یہ طرز ان کے پہلے افسانوی مجموعے” ردائے محبت “ میں زیادہ ملتا ہے۔اس کے علاوہ ان کے افسانوں میں صحافتی طرز اور داستانی عناصر بھی کہیں کہیں ملتے ہیں ۔

جہاں تک دونوں خواتین افسانہ نگاروں کے فنی معیار کا تقابل ہے تو ثمینہ سید کے یہاں ایک مضبوط پلاٹ ، بہترین منظرکشی ،اعلیٰ کردار نگاری دیکھنے کو ملتی ہے ان کا ہر کردار ہمارے سماج کا نمائندہ معلوم ہوتا ہے ۔ ثمینہ سید کا اسلوب بھی بہت سادہ اور عام فہم ہے۔ ان کے افسانوں کے پلاٹ مضبوط واقعات سے مزین ہیں۔ افسانوں میں کہانی پن بہت متاثرکن ہے۔منظرنگاری بھی کمال کی ہے چھوٹے چھوٹے جزیات کو بڑی ہنر مندی سے پیش کیا گیا ہے۔

ثمینہ سید کی کتاب کے مطالعے کے دوران قاری ایک ایسے سفر پر روانہ ہوتا ہے جو انفرادی دکھ سے لے کر زمانوں کی نوحہ گری تک بے کراں ہے۔ ان کے افسانے گھروں میں بسنے والی مشکل اور آسان ،پیچیدہ اور تہہ درتہہ دنیا میں لے جاتے ہیں۔ان کی کہانیاں انسان کے سب سے اوّلین ماحول یعنی اس کی گھریلو زندگی سے جنم لیتی ہیں ۔وہیں جنم لینے والی محبتوں ، لاتعلقیوں ،خوبصورتیوں اور کراہتوں کے افسانے ہیں۔اور ان سے کون آگاہ نہیں ہے اکثر لکھنے والے ان سے پہلو تہی کر جاتے ہیں اور بیرونی موضوعات سے مواد اکٹھا کرتے ہیں۔افسانہ ”درد گر آدمی ہوتا “ میں انہوں نے بہنوں کے درمیان ہونے والے جذبہ رقابت کا ذکر کیا ہے جسے نفسیات دان Sibling Rivalryکہہ کر پکارتے ہیں کا ذکر بڑے سلیقے سے کیا ہے۔دیکھنے میں یہ موضوع بہت غیر معمولی محسوس ہوتا ہے،لیکن یہی تو بات ہے اس دنیا میں آخر کیا نہیں ہوتا۔

زندگی دکھ سکھ کا حسین امتزاج ہے بعض اوقات تو صرف غم ہی غم انسان کا مقدر بنتے ہیں خوشی خال خال ہی نظر آتی ہے۔ایسے میں اگر کوئی انسان حوصلے کا دامن پکڑ کر خوش مزاجی کو اپناتا ہے تو لوگ اسے بھی تعجب سے دیکھتے ہیں۔یہ افسانہ اسی موضوع پر ہے۔مصنفہ  کا مشاہدہ گہرا ، احساس کی حس تیزاور نگاہ باریک بین ہے وہ ایک مشاق بھنورے کی طرح چھوٹی چھوٹی باتوں کے پھولوں سے اپنی کہانی کا رس کشید کرتی ہیں اور پھر اسے کامیابی سے صفحہ قرطاس پر رقم کرتی ہیں یہ ثمینہ سید کا کمال فن ہے۔

کہانی ”وفاراس کب ہے“ میں سیاسی طور پر کامیاب اور معاشی طور پر مضبوط طبقے کے مردوں کی گری ہوئی معاشرتی اقدار مثلاً ملازماﺅں کے ساتھ تعلقات کے موضوع کو چھیڑا ہے جو اس قسم کے طبقے کے منہ پر ایک قسم کا چانٹا ہے ۔انھوں نے اس قسم کے استحصال کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ اسی افسانے کا اقتباس ملاحظہ فرمائیں :

وقت کے ساتھ ساتھ اسے سمجھ آرہی تھی کہ اس کا خاندان ایک دوہری زندگی جی رہا ہے نانا جی ، ماموں اور ان کے بیٹے سب کے سب مرد کہتےکچھ ہیں اور کرتے کچھ اور ہیں اب کی بار وہ بڑی حویلی آئی تو حیران رہ گئی اس کے کزنز گھر کی نوکرانیوں کے ساتھ عجیب طرح کے تعلقات تھے“ (وفاراس کب ہے،ص۷۲)

ان کا افسانہ ”انشورنس “ اور ”جنت دو قدم پر“ بھی اسی موضوع پر ہیں کوئی نشانہ بناتا ہے اور کوئی نشانہ بنتا ہے مگر اس سارے گھناﺅنے عمل کے پیچھے جو درندے ہیں جو اس سفاک عمل کو انجام دینے کے لیے معصوم جانوں کو استعمال کرتے ہیں ان کی مجبوریاں خریدتے ہیں۔ ان تک کسی کی رسائی نہیں ہو پاتی یا پھر سب دیکھتے ہوئے بھی انجان بن جاتے ہیں۔”دھرتی بانجھ نہیں ہوتی“ ” ردائے محبت “ ” اور بنت حوّا “ میں عورت کی وفا ، ان افسانوں میں مامتا اور محبت کے موضوعات پر بہت اچھی طرح سے روشنی ڈالی گئی ہے۔

عورت کے کئی روپ ہیں ہر روپ دوسرے سے الگ نرالا اور اچھوتا ہے ۔مگر بنیاد ایک ہی ہے عورت ایسے ہر روپ میں محبت اور وفا کی مورت ہے۔ ایثار ، قربانی وفاداری اس کے خمیر میں گندھی ہوئی ۔عورت کو نہ سمجھنے والے لوگ اکثر یہ بات بھول جاتے ہیں کہ صنف نازک کے اندر بھی اس کو بنانے والے خالق نے دل رکھا ہے جو سب سے پہلے عزت کا طلبگار ہوتا ہے۔ عورت دھرتی کی مانند ہے انسان کے سارے دکھ سمیٹ کر اسے اپنی پناہوں میں لے لیتی ہے مگر اپنی پامالی اور ناقدری کو معاف نہیں کرتی ۔

ردائے محبت “ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جو تخلیقی صلاحیتوں سے مالامال ہوتی ہے مگر اس کی اس صلاحیت کو قدردان نہیں ملتا اس کا شوہر اس کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ تو وہ بغاوت پر اُتر جاتی ہے۔اور طلاق کا مطالبہ کر دیتی ہے پھر خود کو تعلیم سے آراستہ کر کے دوبارہ ایک نئے ساتھی کے ساتھ گھر بساتی ہے ۔

مجھے طلاق دے دو“ وہ خشک لہجے میں بولی تمہیں یہاں کس چیز کی کمی ہے؟محبت کی۔۔؟ جس محبت کی تلاش میں وہ نکلی تھی ہو پھر بھی اس کامقدر نہ بن پائی۔”اُسے اپنی تمام کشتیاں جلی ہوئی نظر آرہی تھیں مگر اب فرار کا کوئی راستہ نہیں تھا پروفیسر وجدان حیدرکے گھر کی صبح و شام ہی نرالی تھی۔گہری خاموشی بس کبھی کبھی پروفیسر صاحب پوچھ لیتے تھے”تم خوش ہو“؟

( اقتباس :افسانہ،ردائے محبت)

بنت حوّا“شوہر کی محبت میں مگن ایک عورت کی کہانی ہے جس کے لیے اسکی کل کائنات اس کا شوہر اور گھر کی چار دیواری تھی مگر پھر کوئی اور اس کی زندگی میں نقب زن بن کرداخل ہوا اور اس کی دنیا آندھیوں کی زد میں آگئی اس افسانے میں عورت کی نفسیات کو بیان کیا ہے عورت چاہے لاکھ انکار کرے مگر وہ محبت کے بغیر زندہ نہیں رہ پاتی ۔یہ ازل سے ہوتا آیا ہے اور ایسے ہی چلتا رہے گا۔

پھر میں نے ایاز کو معاف کر دیا اور شاید مجھے لگاجو میں بولتی ہوں عورتوںمیں مرد کے خلاف جو نفرت دھیرے دھیرے بور ہی ہوں وہ غلط ہے میرے تو اپنے اندر اپنے مرد کے لیے نفرت ہے ہی نہیں میں تو آج بھی ایاز سے شدیدمحبت کرتی ہوں وہ آج بھی ہر لمحہ میرے ساتھ ہے۔

(اقتباس:افسانہ،بنت حوّا)

دھرتی بانجھ نہیں ہوتی “یہ افسانہ ایک عورت کی وفا کی داستان جو شوہر کی محبت میں زمانے بھر کی باتیں اور گھر والوں کے طعنے سنتے ہوئے بھی کسی پر شوہر کی کمزوری کو عیاں نہیں ہونے دیتی اولا کے لیے کبھی بھی اپنے شوہر موردالزام نہیں ٹھہراتی بلکہ ایک اچھی سوچ کو جنم دیتے ہوئے بے سہارا یتیم بچوں کو سہارا دیتی ہے اور دھرتی کی گود سے اپنا دامن خوشیوں سے بھرتی ہے۔ اس افسانے کا اقتباس ملاحظہ فرمائیں :

اگر ایک پل کو سوچیں اور غور کریں تو ہماری زندگی کی اس بڑی کمی میں شاید اللہ کی کوئی مصلحت چھپی ہو۔شاید ہمیں ان پیارے بچوں میں سے کسی کو گھر لاکر اپنے گھر کو رونقیں دیناہوں۔شایدآج ہم ان کا سہار بنیں تو کل وہ ہمارا سہارا بن جائیںہمارے بڑھاپے کا سہارا۔

(افسانہ:دھرتی بانجھ نہیں)

افسانہ ”پارسائی“ ایک ایسے شوہر کی کہانی جو بیوی کو محبت نہیں ملکیت سمجھ کر ہر وقت اس پر پہرے بٹھاتا ہے اور اس کے اعتماد اور اعتبار کا خون کر دیتا ہے۔

پرانے زمانے میں مرد کہیں باہر جاتے تھے تو اپنی بیوی کو لوہے کا لباس پہنا کر بھاری تالا لگادیتے اورچابی ساتھ لے جاتے وہ ہنی ،کلیم چپ چاپ اسے دیکھ رہا تھا یہ مرد کی محبت کی شدت ہی تو تھی۔وہ بولاتو آمنہ پہلی بار چونکی ”کلیم یہ محبت نہیں تھی بے اعتباری تھی ، محبت محض جسم سے نہ باندھ پائے تو پھر ممکن ہی نہیں کہ وہ عورت کو کسی کام سے روک سکے۔آدم اور حوا کی اس کائنات میں رشتون کے لیے محبت کا لاک ہی کافی ہے۔

(اقتباس:افسانہ ،پارسائی)

قلت حیلت “ جاگیر داری نظام کے منہ پر طمانچہ ہے عورت پر جائیداد بچانے کی خاطر جو ظلم کیا جاتا ہے اس کی بہت سی مثالیں مل جائیں گی۔ خاندان میں جوڑ نہ ہونے کی صورت میں عمر بھر کے لیے کنواری بٹھایا جاتا ہے تو کبھی قرآن سے شادی کر کے اس کی زندگی بے رنگ کر دی جاتی ہے ۔اپنی انا کا علم بلند رکھنے کے لیے باپ اور بھائی کسی انسان کا قتل کرنے سے چوکتے ہیں نہ ہی معصوم بیٹیوں کی آرزوﺅں کا گلا دبانے مین ہچکچہاہٹ محسوس کرتے ہیں۔

زیبی تیری خوشیاں خالص نہیں تھیں ہمیں تو پہلے ہی دھڑکا تھا ان بہروپیوں پر ذرا بھی یقین نہیں تھامیری بچی تو بھروسہ میں ماری گئی۔“             (اقتباس:افسانہ،قلت حیلت)

ثمینہ سید نے احساس کی شدت کو بہت گہرائی سے بیان کیا ہے ان کے کردار ایک دوسرے کے قریب قریب ہی محبت، نفرت ، جدائی ،ہجرووصال،امید و پاس کے تانے بانے میں سانس لیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اس کی کہانیوں کی زیریں لہر ایک گہرے کرب اور آشوب کی غمناکی سے عبارت ہے۔درد کی یہ لہر ان کی ہر کہانی میں محسوس ہوتی ہے۔

افسانہ ”ہیرو“ ایک ایسے لڑکے کی کہانی ہے جو بچپن میں ہی ماں باب کی چھاﺅں سے محروم ہو گیا اور پھر اس کی پرورش اس کی سگی خالہ نے کی جس میں بچے کی بھلائی سے زیادہ اپنا مفاد پیش نظر تھا۔

وہ جو حکم پر حکم مانتا گھوم چکا ہوتا اس آخری حکم پر نہال ہو جاتا اور شوال کوسینے سے لگائے ادھر اُدھرگھومتا رہتا اس کی ساری تھکن رفوچکر ہوجاتی وہ جیسے جیسے کھلکھلا کر ہنستی ہو نثار ہوتی نظروں سے دیکھتا ۔پانچ سال کا ہی تو فرق تھا دونوں میں لیکن وہ اندر سے خاصا بڑا ہوگیا تھا اس نے وقت سے پہلے ہی بہت سی ذمہ داریاں اٹھا لی تھیں۔“              (اقتباس:افسانہ ،ہیرو)

اس کو ہیرو بننے کا بہت شوق تھا وہ خیالوں کی دنیا میں خود کو ہیرو تصور کرکے پھولے نہ سماتا۔ گزرتے وقت کے ساتھ شوال کی محبت نے اس کے دل میں ڈیر ے ڈال لیے اور پھر اس کی خوشی کی خاطر اپنی جان کی قربانی دے کر وہ امر ہو گیا اور سچ میں ہیرو بن گیا۔آفتاب احمد جو حاشر کو موت دے کر اپنی کہانی کا ہیرو بننا چاہتا تھا اب حاشر کی موت کو گلے لگا کر امر ہوگیا۔

افسانہ ”یہ میرا جنون“ ایک بھائی کی بے وفائی اور دوسرے بھائی کے بدلے کی بھینٹ چڑھ جانے والی معصوم لڑکی کی کہانی ہے جس کی ساری عمر رشتے سنبھالنے میں گزر گئی اور جب خوشیوں میں حصہ لینے کی باری آئی تو انتقام کی آگ میں اس کی اپنی زندگی راکھ بن گئی۔ہمارے معاشرے کا المیہ ہے دشمنی اور انتقام کی آگ میں کئی زندگیاں برباد ہوتی ہیں معاشرہ عورت سے جینے کا حق بھی چھین لیتا ہے بنا اس کا قصور جانے مجرم قرار دے کر عمر بھر کی سزا اس کا مقدر بنا دی جاتی ہے۔

شبو“ ایک مجبور جوان لڑکی کی کہانی ہے جو اپنے بیمار باپ اور چھوٹے چھوٹے بہن بھائیوں کی خاطر جھوٹ کے سہارے زندگی کو سہار دینے کی کوشش کرتی ہیں ۔پڑھی لکھی باشعور لڑکی کی کہانی جوجانتے بوجھتے ہوئے بھی دوغلے معیار کی زندگی گزار رہی تھی۔اور عورت ہونے کی توہین کر رہی تھی جھوٹ بول کر لوگوں کو روغلا کر پیسے لیتی ہے۔

معافی نہیں مل سکتی“ ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے جو سات بہنوں میں سے ایک تھی جس سے سب بہنوں اور ماں کو بھائی اور بیٹا بن کر سہارا دیا اور اس معاشرے میں اپنا سہارا بھی خود بنی۔جب مرد محبت کا دھوکہ دے کر عورت کو بے وقوف بناتا ہے تو عورت کو کمزور ہو جاتی ہے۔ اقتباس دیکھیئے :

مجھ سے بات کرو میں خدا اور رسول کو گواہ بناکر کہتا ہوں میرا تم سے رشتہ ہے کوئی گہرا تعلق ۔میں پیچھے نہیں ہٹوں گا لیکن تم جواب نہیں دوگی تو خودکشی کر لوں گا۔جو اپنا خیال نہیں رکھ سکتا وہ کسی دوسرے کا خاک خیال رکھے گا۔فریال نے بے اختیار لکھااور میسج بھیج دیا۔“ (افسانہ :معافی نہیں مل سکتی)

مرد عورت کی ہار کو اپنی کامیابی تصور کرتا ہے اور عورت کو اپنی عزت نفس بہت عزیز ہوتی ہے جب عزت نفس مجروح ہوتی ہے تو وہ بے موت مرجاتی ہے اسکا بھرم اسکے اصول اور اسکا اعتماد جب ان کو ٹھیس لگتی ہے تو وہ اندر باہر سے ختم ہو ثمینہ سیدکے موضوعات اور پلاٹ میں ایک شائستگی اور لطافت کا احساس ہوتا ہے معلوم ہوتا ہے پڑھنے والا کہانی کے ساتھ پر سکون سفر کر رہا ہے انہوں نے ممنوعہ موضوع پر بھی لکھا ہے لیکن لطافت کا دامن نہیں چھوڑا بلکہ ان کا فن مزید نکھر کر سامنے آتا گیا ہے۔ اس ضمن میں معرف فکشن نگار نیلم احمد بشیر لکھتی ہیں کہ:

ثمینہ سید آج کے دور کی تعلیم یافتہ حقائق سے آگاہ ، سنجیدہ افسانہ نگار ہیں۔ انہوں نے کسی فرضی دنیا میں کھولی لہذا وہ بڑی بہادری سے ممنوعہ موضوع پر لکھ رہی ہیں اور اپنے قارئین کو متاتر کر رہی ہیں۔مجھے قومی امید ہے کہ ثمینہ کا فن وقت کے ساتھ ساتھ مزید نکھرتا چلا جائے گا اور وہ دنیائے ادب میں کامیابی سے ایک کے بعد دوسرا قدم رکھتی منازل طے کرتی جائیں گی

(نیلم احمد بشیر (مضمون) ”حکایات خونچکاں “مشمولہ: ردائے محبت)

ثمینہ سید نے سماج سے روز مرہ کے موضوعات کو چن کر افسانے میں پیش کیے ہیں ان میں ایک لاشعوری تسلسل اور موضوعات میں تنوع اور بو قلمونی رنگ پایا جاتا ہے۔وہ انسانی زندگی کی مختلف شکلوں کو ہمارے سامنے پیش کرتی ہیں اسی حوالے سے معروف فکشن نگار بانو قدسیہ ،ثمینہ کے افسانوں کے بارے میں فرماتی ہیں کہ:

میں خوش ہوں اور بہت مطمن بھی کہ نثر لکھنے والی عورتوں میں یہ نام ثمینہ سید پوری انسانیت اور زمانہ سازی لیے ابھر گر سامنے ٓرہا ہے۔ثمینہ سید کا سفر تسلسل لیے ہوئے ہے۔موضوعات میں تنوع ہے ارتقاءہے صد شکر ہے کہ جمود نہیں۔میں نے ثمینہ کا ہاتھ پکڑ کر دل کی ہوری سچائی سے کہا یہ سفر رکنا نہیں چاہیے میں تمہارا نام ادب کے چند نمایاں ناموں میں دیکھتی ہوں“(فلیپ: کہانی سفر میں ہے)

ثمینہ سید کے موضوعات ہر رنگ کے ہیں لیکن ان میں ایک روایتی افسانہ نگاری کا عنصر بھی پایا جاتا ہے۔تنوع کے باوجود اسلوب میں سادگی اور سلاست کے ساتھ ساتھ روایت کا احساس دلاتے ہیں ۔ان کے موضوعات سماج کی اکثریت کی  نمائندگی کرتے ہیں۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...