Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

نقش فریادی اکتوبر تا دسمبر 2022 |
پنجاب لٹریری فورم
نقش فریادی اکتوبر تا دسمبر 2022

تبصرے
ARI Id

1695781004291_56118389

Access

Open/Free Access

تبصرے

"گونجتی سر گوشیاں"کی گونج

نعمان نذیر

دور حاضر میں تانیثی تھیوری،تانیثی تنقید غالب مو ضوعات میں سے ہے۔ جس کی بنیاد زیادہ تر ایک رواج عام کی سی بن گئی ہے ۔بہت غیر متعلقہ موضوعات اور بحثوں کو تانیثیت کے ساتھ جوڑا جارہا ہے۔ یہ تو رہی صورتحال تنقید کی۔اب تخلیق کی بات کی جائے تو یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ہمارے ہاں اس ضمن میں تخلیقات کی صورتحال کیا ہے؟ خوین قلم کار اپنے آپ کو مردوں کے قائم کردہ ڈسکورس سے باہر نکالنے میں کامیاب ہوئی ہیں؟اور اس کا جواب ہاں میں ہے تو اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ اس بندش کو توڑنے کی نوعیت کیا ہے؟کیا وہ محض ضد کا رویہ رکھے ہوئے ہیں اور عورت کا بیان ایسی صورتحال میں کر رہی ہیں جو عورت کے استحصال پہ ختم ہو ساتھ ہو ہو یا واقعی اپنی ذات یا ہم جنسوں کے جذبات کی عکاسی کرتی دکھائی دیتی ہیں۔محض عورت کے ساتھ ہونے والے استحصال کے بیان کا نام ہی تانیثی شعور نہیں،کہ اس کی مظلو میت کی داستانیں رقم کر کے ہمدردی کے وقتی جذ بات وصول کر ے بلکہ اس کردار کو ایک مکمل کردار گروپ میں بھی دکھانا چاہیے کہ ان کو پڑھ کہ روایتی لا چارگی کے بجائے ہمت کی مثال بھی قائم ہو۔

اردو افسانے کا شمار اردو کی اہم اصناف میں ہوتا ہے دور حاضر میں اس کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔جہاں انسان کے پاس خود کے لئے بھی وقت نہیں ہے۔خواتین قلم کاروں نے بھی اس میں اہم اضا فے کیے ہیں۔ اسی تناظر میں اپنی نوعیت کی ایک منفرد تحریر ''گونجتی سرگوشیاں'' کے نام سے منظر عام پر آئی۔ اس کتاب میں سات افسانہ نگاروں کے افسانے شامل ہیں۔ یہ ساتوں خواتین افسانہ نگار ہیں جن کا تعلق مختلف علاقوں، سماج اور شعبوں سے ہے۔ کتاب میں ان سات خواتین کے 135 افسانے شا مل ہیں۔مر تبین میں فر حین خا لداور صفیہ شاہد ہیں جو مصنفین میں بھی شامل ہیں۔ یہ دو نوں افسا نہ نگار افسا نے کے فنی لوزام سے بخو بی آ گاہ ہیں۔ باقی افسانہ نگاروں میں ابصار فاطمہ کا تعلق سندھ اور ثروت مجیب کا تعلق کابل افغانستان سے ہے۔ ابصار فا طمہ ماہر نفسیات بھی ہیں۔اندرون سندھ سے تعلق کے باعث وہ وہاں کی عورت کی سماجی اور نفسیاتی صورت حال سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ثروت نجیب کے افسا نوں میں افغانستان کے بد لتے ہوئے سیاسی سماجی تناظرات سے لے کر قدامت پسند رواجوں اور رسومات کے تنا ظر میں عورت کی زندگی کا بیان ملتا ہے۔معا فیہ شیخ، فاطمہ عثمان اور سمیرا ناز جد ید عہد کی نمائندہ افسانہ نگار ہو نے کے ناطے جد ید عہد میں عورت کے ما ضی و حال کے مسا ئل کو زیب قر طاس کر تی ہیں۔

ان افسا نہ نگاروں کے افسانوں میں عورت کی بے بسی کی تصویر ہی پیش نہیں کی گئی بلکہ اس کے کردار کو ایک عام کردار کی طرح دکھایا گیا ہے۔عورتوں کے مسائل کے ساتھ سا تھ ان کی نفسیات کی کیفیت کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ صفیہ شاہد کا افسا نہ ''طیب'' میں عورت کومظلوم نہیں بلکہ بظاہر قصوروار لیکن درپردہ بے جا پابندیوں کے خلاف اٹھنے والی آواز کی صورت میں دکھایا گیا ہے۔ فر حین خا لد کا افسانہ'' ڈبل ایکس ایل ''میں عورت کو انسان سے زیادہ ایک ڈیکوریشن پیس کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ معاشرہ اس میں موجود کسی کمی کی وجہ سے اسے رد کر تا ہے تو حسن کی صورت میں ہمہ تن استحصال کو تیار۔جس کی وجہ سیعورت مختلف نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہو جاتی ہے۔

فاطمہ آسمان کے افسانے'' مجرا''میں عورت کا مختلف حالت میں استحصال دکھایا ہے۔جہاں مفت علاج میں ڈاکٹر، انصاف کی امید میں وکیل اور مجروح کرنے والی سیاست دان استحصال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس استحصال کی نوعیت محٖض جنسی ہی نہیں بلکہ ایک کمزور کے طور پہ ہر طر ح کا استحصال کیا جا تا ہے۔ 135 افسا نوں پہ مشتمل اس کتاب میں نازک اور حساس مو ضو عات پہ بات کی گئی ہے۔ عورت کی نمائندگی بہ طور ادیب ادب میں ایک اہم اضا فہ اور اس روایت کو مستحکم کر نے کی ایک عمدہ کاوش ہے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...