Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نقش فریادی اکتوبر تا دسمبر 2022 > ۔ ڈاکٹر سکندر حیات میکن کی تحقیقی و تنقیدی کتاب

نقش فریادی اکتوبر تا دسمبر 2022 |
پنجاب لٹریری فورم
نقش فریادی اکتوبر تا دسمبر 2022

۔ ڈاکٹر سکندر حیات میکن کی تحقیقی و تنقیدی کتاب
Authors

ARI Id

1695781004291_56118391

Access

Open/Free Access

ڈاکٹر سکندر حیات میکن کی تحقیقی و تنقیدی کتاب " ادبی ستارے پر ایک اجمالی نظر ۔۔

وجیہہ ضمیر

تحقیق ایک دقیق کام ہے ۔جس میں ہم پر وہ آشکار ہوتا ہے جو ہم سے مخفی ہوتا ہے یا کسی  چیز کی اصل تک پہنچنا یا  پھر اس اصل کے قریب قریب تحقیق پہنچا دیتی ہے ۔ قرآن پاک کہتا ہے کہ مفہوم ہے کہ جب فاسق تم تک کوئی خبر لائے تو اس کی خوب تحقیق کر لیا کرو " یعنی غور و فکر کرنا اسلام میں پسند کیا گیا ہے

اگر ایک کام پر تحقیق کی جائے تو ضروری نہیں اس تحقیق سے اخذ شدہ نتائج حتمی ہوں بلکہ ایک موضوع پر ہر پہلو سے الگ مطالب و مفاہیم ہم تک پہنچ سکتے ہیں بلکہ پہلے کی گئی تحقیق سے راہیں ہموار ہوتی ہیں

نت نئے ادبی گوشوں کو متعارف کروانا بعض لوگوں کا جنون ہوتا ہے اور یہ ہی ادب میں کسی کام کرنے کا محرک بھی ہوتا ہے ورنہ ادب میں تو جمود طاری ہو جائے ، ڈاکٹر سکندر حیات میکن کسی تعارف کے محتاج نہیں آپ تحقیق کے معاملے میں ادبی قارئین کے سامنے کوئی نا کوئی پوشیدہ پہلو ڈھونڈ نکالتے ہیں جس کی وجہ سے مختلف محققین اور ادب کے قارئین کے لیے راہیں ہموار ہوتی ہیں ابھی حالیہ ان کا ادبی کارنامہ " ضیا بار افراد کےخطوط " بنام اصغرعلی (علی گڑھ) پر  تربیت پایا ہے اور کیا ہی شاندار کھوج نکالا ہے ۔ یہ انسان کی مسلسل اور انتھک کوشش کا نتیجہ ہوتی ہے ۔ وہ شخصیت سازی کو ایک کوزے میں بند کرنا  بخوبی جانتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ایک ذندہ شخصیت کو کس تناظر میں بیان کیا جاتا ہے ورنہ بڑے بڑے محقق ذندہ ادبی شخصیات پر تحقیق کرنے سے گھبراتے ہیں ۔

ان  پی ایچ ڈی کا مقالہ  کا عنوان,  اردو میں ادبی تحقیق آزادی کے بعد,  ہے ۔

ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کم عمری میں ہی شہرت آپ کے تعاقب میں لگ جائے یہ مقام دو صورتوں میں حاصل ہو سکتا ہے یا تو پھر محنت کے بل بوتے پر یا پھر  خداداد صلاحیتوں کی بنا پر۔

ڈاکٹر سکندر حیات میکن 3 جون 1983 کو پیدا ہوئے ۔ ان کی تعلیم کی بات کی جائے تو انہوں نے پی ۔ایچ۔ڈی اردو کر رکھی ہے جن نامور شخصیت کے پاس انہوں نے مقالہ کیا ان کا نام محترم ناصر عباس نیر صاحب ہے ۔ ان کی پی ایچ ڈی کا عنوان "اُردو میں ادبی تحقیق آزادی کے بعد" ہے یہ  مقالہ 5 ابواب میں الگ الگ  5 کتب کی صورت میں چھپ چکا ہے  

ڈاکٹر سکندر حیات میکن سن دو ہزار نو سے گورنمنٹ کالج شاہپور صدر میں بطور لیکچرار اردو خدمات سرانجام دے رہے ہیں انہوں نے جن  موضوعات پر تحقیقی کام کیا ان کی فہرست بنانا قدرے مشکل ہے ۔ ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم نے " کندن چہرے " میں ان کی شخصیت کا ذکر کیا ہے جبکہ ان پر ڈاکٹر انور سدید   خاکہ لکھ چکے ہیں

۔ تحقیق کرنا نت نئے موضوعات پر کھوج لگانا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے ان کی تحقیقات میں

عطاء الحق قاسمی : شگفتہ مسافر ،

حکم اذاں (کالم)مرتب

جامعاتی تحقیق: چند اہم زاویے ،

بحر ارب کے دو شناور ،

اردو میں سوانحی تحقیق (نمائندہ موضوعات کا مطالعہ و جائزہ )

افسانوی نثر پر تحقیق (آذادی کے بعد )

اردو شاعری پر تحقیق (آزادی کے بعد )

تحریکات و تنقیدات پر تحقیق (آزادی کے بعد )

غیر افسانوی نثر پر تحقیق (آذادی کے بعد )

رفیع الدین ہاشمی : شخصیت و خدمات

تنقیدی و تخلیقی ستارے (خصوصی مطالعہ ڈاکٹر ناصر عباس نیر) جیسی کتب نمایاں ہیں۔

ان کی کتاب "تنقیدی و تخلیقی ستارے " (خصوصی مطالعہ ڈاکٹر ناصر عباس نیر) 2021 کو شائع مثال پبلشرز رحیم سینٹر پریس مارکیٹ آمین پور ، فیصل آباد والوں نے شائع کی  یہ کتاب انہوں نے اپنے استاد محترم کی عقیدت میں رقم کی ہے ۔ ناصر عباس نیر نو آبادیاتی مطالعہ کے بنیاد گزار ہیں ۔ لفظ و معنی کے تعلق سے بخوبی واقف ہیں ان کے افسانوں میں رومان میں ایک محرک ہے جو انسان اپنی نظروں میں محسوس کر سکتا ہے عوامی انسانوں کے دکھ  کو محسوس کرنے والے ہیں وہ ہنسنے والوں کے ساتھ ہنستے ہیں اور رونے والوں کے ساتھ روتے ہیں ایک لکھاری  دور اندیش ہوتا ہے جو خود کو سماج کا آئینہ دار سمجھتا ہے ناصر عباس نیر کا اسلوب مشکل ہے مگر تخلیق کے جوہر پڑھنے سے کھولتے جاتے ہیں وہ قاری کو ٹھہراو کا  کہتے ہیں اس مقام پر رکو   تاکہ  تیزی کی بنا پر ان کی نظروں سے  ادبی جواہر اوجھل نہ ہو جائیں نوآبادیات اور جدیدیت کے مطالعہ پر  وہ ید طولی رکھتے ہیں ۔ ڈاکٹر سکندر حیات میکن نے جس طرح ان کی شخصیت سازی پر قلم چلایا ہے وہ ایک مشاہدے کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ اس کتاب میں انہوں نے جن محققین اور ناقدین کی آراء سے اس کتاب کو زینت بنایا ہے اس کی بناوٹ میں خوبصورتی پیدا ہوتی ہے  ناصر عباس نیرکی شخصیت کے ساتھ ساتھ ان کے افسانوی ادب اور تنقیدی شعور کو بحث بنایا گیا ہے۔انہوں نے اردو تنقید کو اس قدر تقویت بخشی ہے کہ وہ اس کو مغربی تنقید کے مقابلے میں لا کھڑا کرتے ہیں اور یہ مطالعہ کے بغیر نہ گریز ہے ان کے ہاں مشرقی ومغربی جمالیات کی فضا موجود ہے انہوں نے تنقید کے دامن کو وسعت بخشی ہے اس زمرے میں سکندر حیات میکن رقم طراز ہیں کہ

" ناصر عباس نیر فکر اور دانش کے حسین امتزاج کا نام ہے انہوں نے مغربی تنقید اور خیالات کے ساتھ اردو تنقید کے تفکرات سے خود کو آگاہ کیا ہے نے لسانی مباحث اور نئی تنقیدی تھیوریوں اور تنقیدی رجحانات اور انکے گہرے  تخلیقی اور تنقیدی شعور کا ثمر ہے"

ان کے ہاں روایت سے جڑت ہے وہ روایت سے انحراف نہیں کرتے بلکہ روایت سے جڑی ہوئی افکار کو وہ اپنے افسانوں کا بھی موضوع بناتے  ہیں ۔معاشرے کے عام کرداروں کو خاص کر نںچلہ طبقہ سے وہ اپنے افسانوں کو ہوا دیتے ہیں ان ہی کرداروں سے افسانے کی ہوا کا تانا بانا بنا جاتا ہے سرمایہ درانہ طبقے اور جاگیر دار طبقے کی رہن سہن پر طمانچہ رسید کیا ہے جن کی خلوت و جلوت میں۔ فرق روا ہوتا ہے اور یہ ہی فرق ان کو غریب طبقے سے روا رکھتا ہے ،اس کتاب میں انہوں نے جس خاص باریکی اور خاص قرینے سے ناصر عباس نیر کو بطور "نثر نگار  " کے متعارف کروایا ہے ناصر عباس نیر صاحب کی   نثر  پر باقاعدہ "چراغ آفریدم" 2000کو  منظر عام پر آئی  جو کاغذی پیراہن لاہور سے شائع ہوئہ جس میں کل چوبیس انشائیے تھے ۔ان کے انشائیہ سے متعلق سکندر حیات میکن کہتے ہیں :

"ڈاکٹر ناصر عباس نیّر نے اپنے انشائیوں میں تازہ معنی کی تخلیق اور انفرادی راویوں کی دریافت کی ہے اور ان کو تخلیقی تقاضوں سے مزین کرکے پیش کیا ہے"

تنقید ایک فکر کا نام ہے جو بلا تفریق ادب کو پرکھتی ہے ۔ ادب اور تنقید لازم و ملزوم ہیں سکندر حیات میکن نے  ڈاکٹر ناصر عباس نیر کی جو فکر کا پہلو "جدید اور مابعد جدید تنقید ایک تحقیقی مطالعہ" کے نام سے متعارف کروایا وہ قارئین کے لیے نئی راہیں ہموار کرتی ہیں۔

وہ ناصر عباس نیر کے تنقیدی شعور اور تنقید شناسی کو سراہنے سے   کجروی سے کام نہیں لیتے بلکہ کشادہ دلی سے ان کے فن کو تسلیم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں وہ لکھتے ہیں کہ

" بحر تنقید کے شناور ڈاکٹر ناصر عباس نیر کثیر الجہت شخصیت ہیں مجید امجد اور وزیر آغا شناسی میں ناصر عباس نیّر نے بڑی بصیرت اور بصارت سے قلم اٹھایا ہے مجید امجد اور وزیر آغا ناصر عباس نیر کے مضامین استناد کا درجہ رکھتے ہیں"

لسانیات زبان کی ایک شاخ ہیں جس میں سائنسی اصولوں کے تحت زبان کا مطالعہ کیا جاتا ہے ۔ مگر المیہ یہ ہے کہ بعض قاریین لسانیات اور زبان کو ایک چیز قرار دیتے ہیں ۔ اس کتاب میں وہ ناصر عباس نیر کے "لسانیات اور تنقید " کے عنوان سے تنقیدی اور تحقیقی مضامین کا ذکر کرتے ہیں جو پہلی بار 2009 میں منظر عام پر آئی ۔  لسانیات اور زبان کے فرق کو سمجھاتے ہوئے نظر آتے ہیں لسانیات اور زبان ایک ساتھ ہیں مگر ان کے فرائض مختلف ہیں ۔

ڈاکٹر سکندر حیات میکن اس حوالے سے ناصر عباس نئیر سے متعلق لکھتے ہیں کہ

" انہوں نے زبان و ادب کے امتیاز کے ساتھ ساتھ لسانیات اور تنقید میں ایک حد فاضل کھینچی ہے جس میں لسانیات اور تنقید کے الگ الگ مقاصد اور فرائض کی نشاندہی نہیں کی ہے۔"

ڈاکٹر سکندر حیات میکن نے اس کتاب میں ان عنوانات کے تحت ناصر عباس نیر کی ادبی خدمات کو روشناس کروایا ہے جس سے ادب کے قاری کے لیے آسانی پیدا ہوئی ہے ۔ معذور دماغوں کے لیے یہ مغز دوا ہے ۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے مجید امجد کی شخصیت پر بھی قلم کشائی کی ہے ۔ مجید امجد کی شخصیت کو محققین نے کبھی سنجیدہ نہیں لیا مگر  محترم ڈاکٹر ناصر عباس نیر صاحب نے مجید امجد کی شخصیت کے گمشدہ پہلوؤں کو روشناس کروایا ہے ۔اور یہ اردو ادب پر دان ہے ۔ ڈاکٹر سکندر حیات میکن نے مجید شناسی کے حوالے سے ڈاکٹر ناصر عباس نیر صاحب کے فن کو سراہا ہے ۔ مجید امجد فطرت کے شاعر ہیں ۔فطرت کی خوشبو اور آب و ہوا کو وہ اپنی نتھنوں سے محسوس کرتے ہیں اور یہ المیہ ہی کہ ایسے فطرت شناس شاعر کو نظر انداز کیا گیا ہے ۔ حس جمالیات کے شاعر کو ڈاکٹر ناصر عباس نیر صاحب نے جمال کے پیکر میں پیش کیا ہے کہ قارئین ان کی فطرت شناسی پر مبنی شاعری سے حظ محسوس کر سکیں ۔ ڈاکٹر سکندر حیات میکن اس زمرے میں لکھتے ہیں کہ

" مجید امجد کے شعری میلان اور حقیقی بس یہ تو نے انہیں تخلیقی شعور عطا کیا ہے ناصر عباس نیّر نے مجید امجدکی مغائرت ، تنہائی ، اور دکھ کے تجربے کے ضمن میں مجید امجد کے انفرادیت کو پوری طرح واضح کیا ہے ناصر عباس نیّر نے مجید امجد کی نظموں میں قدیم اساطیری انسانوں اور دھرتی کی قوت نمو  کے حوالے سے نئی  معلومات کا انکشاف کیا ہے ۔انہوں نے مجید امجد کی سطحوں  سے ایسے ایسے نکتے نکالے ہیں جو مجید امجد کی شعری تفہیم میں ایک انقلابی قدم کی حیثیت رکھتے ہیں"

ڈاکٹر سکندر حیات میکن نے ڈاکٹر ناصر عباس نیر کے جو مضامین " عالمگیریت اور اردو اور دیگر مضامین " تخلیقی شعور کا بھی ذکر کیا ہے ۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیر صاحب کثیر الجہت شخصیت کے مالک ہیں۔  یہ ان کی کتاب 2015 میں سنگ میل والوں نے شائع کی اس میں تحقیقی اور تنقیدی مضامین شامل ہیں ۔ جو مختلف نوعیت کے ہیں ۔

ڈاکٹر سکندر حیات میکن نے جس خاص باریک بینی اور محبت سے یہ کتاب تحریر کی یہ ان کی اپنے استاد اور نقاد ڈاکٹر ناصر عباس نیر کی عقیدت میں لکھی گئی ہے جس میں مشاہدے کی آنکھ سے ایک شخصیت کو دیکھا اور ان کی شخصیت اور فن کو قارئین کے سامنے لے کر آئے ۔

اس کے دوسرے  حصے میں پانچ شخصیات کو اور ان کے فن کو ایک کوزے میں بند کرنے کی کوشش کی گئی ہے تحقیق ہوتی وہی ہے  جو مختصر مگر جامع ہو ۔ بالکل سکندر حیات میکن نے کم لفظوں میں ادبی خزینے کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے ایک محقق کو یہ سہولت درکار ہوتی ہے اور جس چیز پر تحقیق کر رہا ہے اس کو جیسے چائیے تحقیق کر سکتا ہے ۔ ڈاکٹر سکندر حیات میکن نے ڈاکٹر اختر شمار کی شاعری اور ان کی تصانیف پر مفصل نوٹ لکھا ہے۔اختر شمار کی شاعری میں صوفیانہ زندگی کا فلسفہ اور ہم آہنگی بتدریج پائی جاتی ہے  اور یہ رنگ ایک قلبی واردات لیے ہوئے ہے ۔

بنیادی طور پر انہوں نے "روشنی کے پھول سے اپنے شعری سفر کا آغاز کیا اور پھر بھی اس سفر میں جو حسین موڑ آیا جس کے سحر کے گرفت میں قارئین آگئے وہ موڑ تھا " عاجزانہ " جس نے سفر تکمیل سن 2018 میں کیا۔

ان کے اس شاعر کے کلام میں محبت اور امن کی خوشبو آتی ہے

" مت کسی کا گلہ کرو بھائی

سب پہ راضی رہا کرو بھائی

وہ جھگڑے رہیں بھلے تم سے

صلح کرتے رہا کرو بھائی "

اس نمونہ کلام میں امن وشانتی اور بھائی چارگی کی پرچار ملتی ہے ان کے ہاں تشبیہات و استعارات کا بھی بتدریج ذکر ملتا ہے جو شاید ادیب اپنی تخلیق میں استعارہ کا استعمال کثرت سے کرتا ہے وہ غیر معمولی تخلیقی صلاحیتوں کا حامل ہوتا ہے ۔ڈاکٹر سکندر حیات میکن نے ڈاکٹر اختر شمار کے شعری مجموعہ " عاجزانہ" کا اس کتاب میں ذکر کیا تاکہ ایک ادب کا قاری ان کی تخلیقی جہات سے واقف ہو جائے ۔

جس میں حصے مزاح ہو وہ غیر معمولی اور تخلیقی دن کا مالک ہوتا ہے ہے اردو مزاح کو ہمارے اردو ادب میں خاص اہمیت کا حامل ہے ۔ سنجیدہ ادب لکھنا ذیادہ مشکل نہیں مگر مزاح لکھنا آسان بھی نہیں کیوں کہ اس میں مزاح کے ساتھ ایک اصلاحی پہلو اور کوئی نہ کوئی خرابی بیان کی جاتی ہے ۔ مزاح میں یہ ہوتا ہے کہ انسان اتنا ہنسے کہ اس کی آنکھوں سے آنسوں ا جائیں آنسو اس لیے نہیں بلکہ ان آنسوں میں معاشرتی ناہمواریوں پر ہمدردی کی بنا پر یہ آنکھوں سے آنسوں چھلک جائیں ۔ ڈاکٹر اشفاق احمد  ورک طنز و مزاح اردو نثر میں خوب نام کمایا چکے ہیں ہیں ان کے مزاح میں شگفتگی اور اصلاحی پہلو غالب ہے ۔"نوعیت  پر  تحقیقی و تنقیدی  مضامین کا مجموعہ ہے۔ جس میں کل 17 مضامین ہیں ان کے مضامین پر مبنی جو شاہکار ہے۔ ان میں" سر  سید کے اسلوب میں طنز کے رنگ" شاعر فردا دوش جس میں "اقبال کی فکر و عظمت" کو موضوع بنایا گیا ہے .ڈاکٹر  سکندر حیات  نے ان کو مزاح کے ساتھ اقبال  فہم کے طور پر بھی پیش کیا  ہے۔اس  میں اکبر الہ آبادی ،علامہ اقبال،مشتاق احمد یوسفی، اور خالد اختر  پر مضامین لکھے گئے ہیں  ڈاکٹر سکندر حیات  اس زمرے میں کہتے ہیں۔

" ڈاکٹر اشفاق احمد ورک جب کسی فن پارے پر نگاہ ڈالتے ہیں تو اس کے باطن میں جھانکنا خود پر لازم کرتے ہیں "

پروفیسر غازی علم دین کی تازہ  تصنیف" میثاقِ عمرانی" کو موضوع بنایا گیا ہے جو مفکرین کے تصورات فکر پر مبنی کتاب ہے جن کی فکر کو پیش کیا گیا ہے ان میں اور ابن خلدون، فارابی اور  شاہ ولی اللہ وغیرہ شامل ہیں ڈاکٹر سکندر حیات میکن اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ

"غازی صاحب نے معاشرتی انتشار کا کھوج لگانے کے لیے مذکورہ تینوں مفکرین جو آپ نے اپنے عہد کے مشہور ماہر عمرانیات گردانے جاتے ہیں اس کی حکیمانہ فکر کا تجزیہ کیا ہے "

"مولانا غلام رسول مہر احوال و آثار" یہ ڈاکٹر محمد آصف اعوان کی تصنیف ہے. اس میں غلام رسول مہر کی شخصیت اور ان کے ادبی کارنامے کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس کتاب کے کل تین ابواب ہیں یہ المیہ ہے کہ غلام رسول مہر پر بہت کم کام کیا گیا ہے آصف عوان  کا یہ کارنامہ ہے کہ انہوں نے اس ادبی شخصیت کو ادب کے قارئین کے سامنے پیش کیا ہے ڈاکٹر سکندر حیات میکن رقم طراز ہیں کہ

"ڈاکٹر محمد آصف اعوان کی یہ کاوش نہ تو سندی تحقیق کی غرض پر مبنی ہے اور نہ ہی کسی تعارف کی تمنا کی متنی ہے "

جی شخصیات نے اردو ادب کے میدان کو وسعت دی ایک نہ مولانا شبلی نعمانی کا بھی ہے وہ کثیر الجہت شخصیت کے حامل تھے۔ڈاکٹر خالد ندیم نے ان کی آپ بیتی کو پہلی بار ترتیب دیا  اور یہ ایسا ادبی کارنامہ ہے کہ  مولانا شبلی نعمانی  کی زندگی کے ہر گوشے کو روشناس کروانے کی کوشش کی گئی ہے اس میں زمانی ترتیب کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔ڈاکٹر سکندر حیات میکن لکھتے ہیں کہ

"ڈاکٹر خالد ندیم کا یہ تحقیقی کارنامہ ایک دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے"

"مطالعہ اسلوب کے تقاضے" ڈاکٹر منور مقبول عثمانی " کا تحقیقی مقالہ ہے اسلوب کسی بھی تخلیق کار کے لکھنے کا انداز ہوتا ہے اس ضمن میں بہت کم کتب لکھی گئی ہیں یہ تحقیقات گراں قدر اضافہ کا موجب ہے ۔اس  میں گیاں چند جین کی کتاب ایک بھاشا دو لکھاوٹ  دو ادب " جبکہ علامہ عبداللہ یوسف علی کی تصنیف " انگریزی عہد میں ہندوستان کے تمدن کی تاریخ " اور اس کے علاؤہ انور سدید کے نثری اسلوب کی اولین نمود " جیسے مقالات کو اس کتاب میں شامل کیا ہے ۔ منور عثمانی نے تین مقالات جو یکجا کیا ہے۔  ڈاکٹر سکندر حیات میکن نے منور عثمانی کی اس کاوش کو سراہا ہے ۔  " یہ کتاب ناقدین اور محقیقین کے لیے راہ نما کا کام دے گی "  "اردو ادب کی تاریخی تنقید اور تجزیہ ایک تجزیہ"

ڈاکٹر اورنگزیب نیازی کسی تعارف کا محتاج نہیں ہیں چکر آ رہے نیازی کے ہاں تنقیدی شعور ادب کے بارے گہری وابستگی ان کی مسلسل مطالعہ کا نتیجہ ہے ڈاکٹر سکندر حیات میکن نے اس حصے میں ڈاکٹر اورنگزیب نیازی صاحب کی علمی ادبی اور تفریحی سفر پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی ہے اس کی تحقیقی کاوشوں کا ذکر کیا گیا ہے۔

" کڑوے رسیلے مضامین " جو 2005 میں مغربی پاکستان اردو اکیڈمی ،لاہوت سے شائع ہوئے ۔ یہ تحقیق کرنے والوں کے لیے ایک دقیق کاوش ہے ڈاکٹر عالم زیب نیازی صاحب کی کتاب اردو ادب کی تاریخی تنقید و تجزیہ کیا اس کتاب کا کارنامہ یہ ہے کہ اس میں اہم ادبی تاریخوں کو سمویا گیا ہے۔

اور پھر دن مورخین کی ادب میں ایک ساتھ ہے ان کے نقطہ نظر کو بیان کیا گیا ہے ۔طالب علموں کے لیے یہ کتاب بہت سود مند ہے کیونکہ اس میں ادبی تاریخوں کا تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا ہے ۔ڈاکٹر سکندر حیات میکن کہتے ہیں کہ

"حسن تہذیب ،ترتیب، اور قرینے  کے ساتھ مرتب کردہ یہ مضامین ادب شناسوں کے لیے بالعموم اور ادبی تاریخ کی پر رکھنے والوں کے لے بالخصوص بے حد مفید ثابت ہوں گے۔"

کراچی میں اردو غزل اور نظم، باکمال تصنیف:

شاہد کمال شاعر بھی ہیں ۔ ان کے شعری مجموعہ منظر عام پر آ چکے ہیں ۔ پاکستان میں کراچی اردو ادب کا گہوارا رہا ہے اس مٹی میں بہت سے شعرا اور ادبا کا خمیر اٹھایا گیا ہے ۔ شاہد کمال نے " کراچی میں اُردو غزل اور نظم " میں کراچی کے شعرا کا ذکر کیا ہے ۔ ڈاکٹر سکندر حیات میکن نے اس کتاب کی ابواب بندی پر بات کی ہے اس کتاب کے کل تین ابواب ہیں ۔ اس میں کراچی کی کوکھ سے جنم لینے والوں شعرا کی ادبی وقار کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ڈاکٹر سکندر حیات میکن اس ضمن میں کہتے ہیں کہ

"شاہد کمال نے شراب کو جس تہذیب اور تہہ داری کے ساتھ پیش کیا ہے وہ بہت کم ناقدین  کے حصے میں آتا ہے۔ مذکورہ تصنیف کراچی کے ادبی منظر نامے کے ساتھ ساتھ شاہد کمال کی تخلیقی، تنقیدی، اور ادبی کارناموں کا ایک نمایاں عکس ہے"

تعبیر حرف کی حرف شناسی

یہ مضامین و مقالات پر مشتمل ڈاکٹر غفور شاہ قاسم کی کتاب ہے جو 2014 میں شائع ہوئی چوک سکندر حیات میکن نہیں کی اس کتاب سے متعلق مفصل بیان کیا ہے اس کے کل دو حصے ہیں پہلا حصہ  شاعری پر مبنی تنقیدی کتاب ہے۔ دوسرا حصہ نثر پر مشتمل ہے۔ جس میں یونس جاوید طارق اسماعیل ساگر ، مستنصر حسین تارڑ پر تنقیدی مضامین شامل ہیں ۔ڈاکٹر سکندر حیات میکن اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ

"تعبیر حرف میں ڈاکٹر غفور شاہ قاسم نے نشاط تعبیر میں بڑے نشاطیہ آہنگ میں تعبیر حرف کو مزید دو منازل کی طرح لے جانے کے خواب کی طرف واضح اشارہ کیا ہے "

بابو نگر سے دعوت شیراز تک ،

حسین احمد شیرازی ایک مزاح نگار ہیں جن کی مزاح نگاری میں نفاست اور شائستگی پائی جاتی ہے صرف یہی نہیں وہ معاشرتی ناہمواریوں کو کریم کے سامنے لے کر آتے ہیں وہ سیاست پر بخوبی نظر رکھتے ہیں اور پھر ان پر ہلکے انداز سے تنگ بھی کرنے سے گریز نہیں کرتے. ڈاکٹر سکندر حیات میکن نے حسین احمد شیرازی کی کتاب "دعوت شیراز "اور" بابو نگر" کو اس کتاب میں شامل کیا ہے۔

طنز و مزاح کا تعلق دلچسپ واقعات کی مدد سے معاشرتی مسائل کو بیان کرنے کا ہے بابو نگر بھی ان کی مزاح نگاری پر مبنی کتاب ہے۔ ان کا مزاحیہ ادب کا مشاہدے کی آنکھ کیے ہوئے ہے۔  ڈاکٹر سکندر حیات میکن کہتے ہیں کہ

" حسین احمد شیرازی کا اسلوب دلکش اور جاذبیت سے لبریز ہے"

ان کے فن کو بہت سے جدید ہمعصر مزاح نگاروں نے سراہا بھی ہے جن میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان، عطاالحق قاسمی، ڈاکٹر رؤف پاریکھ اور ڈاکٹر اشفاق احمد ورک شامل ہیں۔

سنجیدہ ادب لکھنا اتنا مشکل نہیں ہوتا جتنا مزاح لکھنا کیونکہ اس میں اصلاح کا پہلو ہوتا ہے پر مسکراہٹ بکھیرنا بھی اس کتاب میں ڈاکٹر سکندر حیات میکن نے  ڈاکٹر محمد کلیم مزاحیہ تصنیف " صاحب بہادر کی نگری میں " کو بھی متعارف کروایا ہے اس کتاب میں کل تیرہ مزاحیہ مضامین شامل ہیں ۔مزاح نگار کے برجستہ جملوں میں معاشرتی مسائل اور انسانی رویے بتدریج دکھائی دیتے ہیں ۔ڈاکٹر سکندر حیات میکن لکھتے ہیں کہ

" صاحب بہادر کی نگری" ایک سچے مزاح کے قلم کی پھلجھڑیاں ہیں جن میں تصنیع اور بناوٹ کا رنگ نظر نہیں آتا ہے "

تعبیر و تفہیم منفرد مجموعہ مضامین ،

تعبیر و تفہیم " عبدالعزیز ملک کا تحقیقی کام ہے جنہوں نے مختلف مضامین کا تنقیدی جائزہ پیش کیا ہے ۔انہوں نے کشور ناہید پر " کشور ناہید کی تحریروں میں تانیثی رجحان " کے نام سے کام کیا ہے اس میں انہوں نے تنقیدی نظریات کو پیش کیا ہے انہوں نے سائنسی اور احساسی  پہلوؤں پر بھی گفتگو کی ہے پچیدہ اور مبہم تجربات کو پیش کرنا  کوئی آسان کام نہیں ہے۔کشور ناہید کی شاعری اور تحریروں میں نسائی جذبات اور احساسات کی دلکش پیشکش کی گئی ہے اس کے علاوہ انہوں نے "آزادی سے قبل اردو ناول کے تناظر میں تانثیت پسندی" کے عنوان سے تحقیقی مقالہ پیش کیا ہے ۔ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش کے افسانوی مجموعہ" صبح ہونے تک" جائزہ بھی پیش کیا ہے یہ تعبیر و تفہیم کی خوبی ہے کہ اس میں عبدالعزیز ملک کی محنت بتدریج دکھائی دیتی ہے۔

اس زمرے میں ڈاکٹر سکندر حیات میکن لکھتے ہیں کہ

"تعبیر و تفہیم سے واضح ہوتا ہے کہ عبدالعزیز ملک کا مطالعہ سطحی نہیں بلکہ گہرا ہے"

"اذن  سفر دیا تھا" کیوں ایک سفرنامہ ایران

ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر کا سفرنامہ ابن سفر دیا تھا کیوں جو ایران کے حوالے سے ہے ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر چوک ہمارے بھی ہیں لہذا انہوں نے اس سفر نامے کو ایران کی تاریخ کے تناظر میں لکھا ہے ۔ڈاکٹر سکندر حیات میکن لکھتے ہیں کہ

"ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر کے اپنے سفرنامے میں ادبی اور تاریخی رنگوں کو باہم آمخیت کر دیا ہے اس سفر نامے میں ادبیت بھی چھلکتی ہے اور تاریخی آثار بھی اپنی آب و تاب کے ساتھ چمک رہے ہیں"

فضا اعظمی کے فلسفہ خوشی کا تجزیاتی مطالعہ (ایک تجزیہ )

محقق نئے گوشوں سے متعارف کرواتا ہے ڈاکٹر سکندر حیات میکن نے کیسے ایک کتاب میں اتنے محققین کو سنانے کے لیے لیے دریا کو کوزے میں بند کرنے کی کوشش کی ہے نسیم انجم ادیب ہیں  وہ افسانہ نگار اور ناول نگار بھی ہیں  ۔انہوں نے فضا اعظمی کی شاعری پر تحقیقی کام کیا ہے نسیم انجم نے فضا اعظمی کی دو شعری مجموعہ" خوشی کی تلاش"" خوشی کے نام کلاسکہ " کا تحقیقی مقالہ پیش کیا جس کا نام "فضا اعظمی کے فلسفہ خوشی تجزیاتی مطالعہ "ہے۔

ڈاکٹر سکندر حیات میکن نے نسیم انجم کی اس کاوش کو سراہا ہے اور اس سے متعلق وہ لکھتے ہیں کہ

" نسیم انجم نے اپنی تصنیف فضا اعظمی کے فلسفہ خوشی کا تجزیاتی مطالعہ " میں فضا اعظمی کی سوچ اور فکر کے دھاروں کی جو توسیع کی ہے وہ نہایت عمدہ ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ نسیم انجم نے اس تخلیقی خوشی کی روح کو پا لیا ہے"

ڈاکٹر سکندر حیات میکن کی تنقیدی بصیرت ان کے وسیع مطالعہ کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔وہ جن موضوعات کو موضوع تحقیق بناتے وہ شاز و نادر ہی کوئی محقق محسوس کرے وہ ادب کو مختلف زاویے سے دیکھتے ہیں خاص کر عصر حاضر کی علمی و ادبی شخصیات اور موضوعات پر ان کی گہری نظر ہے اس کتاب میں جامع اور مختصر انداز میں تحقیق کی گئی ہے ۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...