Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نقش فریادی اکتوبر تا دسمبر 2022 > ۔حکیم محمد صادق سیالکوٹی ؒکی اردو سیرت ’’جمالِ مصطفیؐ‘‘کا تعارف وجائزہ

نقش فریادی اکتوبر تا دسمبر 2022 |
پنجاب لٹریری فورم
نقش فریادی اکتوبر تا دسمبر 2022

۔حکیم محمد صادق سیالکوٹی ؒکی اردو سیرت ’’جمالِ مصطفیؐ‘‘کا تعارف وجائزہ
Authors

ARI Id

1695781004291_56118392

Access

Open/Free Access

حکیم محمد صادق سیالکوٹی ؒکی اردو سیرت ’’جمالِ مصطفی‘‘کا تعارف وجائزہ

ڈاکٹر محمد انصر جاوید گھمن

 اردو سیرت  کی کتاب "جمالِ مصطفیﷺ"مولاناحکیم محمدصاد ق سیالکوٹی رحمہ اللہ کی ایک مشہور تصنیف ہے ۔ یہ کتاب نعمانی کتب خانہ حق سٹریٹ اردوبازار، لاہورسے چھپی ہے ۔اس کتاب کا  سرورق بہت زیادہ خوبصورتی سے مزین کیاگیاہے، جس کی ابتدااللہ تعالیٰ کے ارشادِ پاک "اور ہم نے آپﷺ کو سب جہانوں کے لیے رحمت بناکربھیجاہے۔"کے ساتھ درج ذیل شعر سے کی گئی ہے:

سیلاب رنگ و نور طلوع سحر میں ہے                تابندہ کہکشاں تیر گر سفر میں ہے

 حکیم صاحب اپنی کتاب کا تعارف  ان الفاظ میں کرواتے ہیں:

"اس کتاب میں آرامِ جاں، سکون ایمان، کاشفِ سرکن فکان، دلدارِ مسکان، غم خوارِ عاصیاں، ممدوحِ قُدْسَیاں، سرخیلِ نوریاں، رحمتِ عالمیاں، سید الکونین، سید الثقلین، حبیبِ خدا، اشرف الانبیاء، شافعِ روزِ جزاء، حضرت محمد مصطفیﷺکا حسن صحیح معنوں میں اپنی راعنائیوں کے ساتھ جلوہ بار ہے۔"

 مولانا حکیم محمد صادق سیالکوٹی رحمہ اللہ نے حسنِ صورت بھی بیان کیاہے اور حسنِ سیرت بھی بیان کیاہے۔ حکیم صاحب نے مندرجہ بالا القابات جو بیان کیے ہیں در حقیقت یہ رسول اللہﷺ کی سیرت کے مختلف پہلو ہیں جو حکیم صاحب نے بڑے حکیمانہ انداز میں بیان فرمائے ہیں۔ پھرحکیم صاحب نبیﷺ کی سیرت کو اشعارکی صورت میں بیان کرتےہیں اور آفتابِ نبوت میں آفتابِ کردار کو نمایاں کرتے ہیں۔جن میں سے چند حسب ذیل ہیں:

نگاہ برق نہیں چہرہ آفتاب نہیں

وہ آدمی ہے مگر دیکھنے کی تاب نہیں

کہکشاں ہے تیرے اہرار مقدس کا غبار

تیرے نقش پا ہیں فردوس بریں کے لالہ زار

 حکیم صاحب بڑے باذوق آدمی ہیں۔ وہ شعر و شاعری کو بھی رسول اللہe کی سیرت کے لیے استعمال کرتے ہیں اور حکیم صاحب عربی ادب کے بھی شائق نظرآتے ہیں بلکہ آپ عربی زبان کے بھی ماہر تھے اور اپنی کتابوں میں حضرت امام بوصیری رحمہ اللہ  کی شاعری کو بہت زیادہ جگہ پر سجایاہے جیساکہ آپ نے مندرجہ ذیل اشعاربھی لکھے:

"اور وہ ذاتِ مبارک آیتِ کبریٰ ہے عبرت کرنے والے کے واسطے اور وہی ہے نعمتِ عظمی غنیمت گننے والے کو۔"

"آپ نے سیر فرمائی ایک شب میں حرمِ مکہ سے حرمِ بیت المقدس تک۔ جیسے چودھویں رات کا چاند چلے اندھیری رات میں۔"

"اور ترقی کرتے گئے یہاں تک کہ پہنچے قاب قوسین کے رتبہ کو جو نہ ادراک کیاجاسکتاہے اورنہ طلب کیاجاسکتاہے۔"

   ان اشعار میں حکیم صاحب نے رسول اللہﷺ کی عظمت ورفعت اورمقام ومرتبہ بذریعہ معراج بیان کیاہے اوربتلایاہے کہ حقیقت میں آپ کی سیرتِ طیبہ کا ہی نتیجہ ہے کہ اللہ نے آپ کو معجزات سے نوازاہے اورآدمی تو قاب قوسین تک نہیں پہنچ سکتا۔ بلکہ کوئی نبی اور رسول بھی اس مرتبہ تک نہیں پہنچ سکتا، کیونکہ ان کی سیرت کا مرتبہ اور کردار وگفتار کا مقام اتنا نہیں ہے جتناکہ سید الکونینﷺ کی سیرت کا مقام ومرتبہ ہے۔ آپ اس کتاب کے تعارف کے بعد دیکھیں کہ حکیم صاحب نے اس کتاب میں آپ کی سیرت کو حسن وجمال اورآپﷺ کے تخلیقی پہلو کو مدنظر رکھ کر مطالعہ کیاہے۔ بعدازاں فہرست کو لاتے ہیں۔

خطبہ رحمت اللعالمین تحریرکرنے کے بعد اس کا ترجمہ لکھتے ہوئے فرماتے ہیں:

"یہ نبی کریمﷺ کا وہ جامع خطبہ ہے جو حضورe اپنے ہر وعظ اور تقریر کے شروع میں پڑھاکرتے تھے۔ جوحدیث کی کتب مسلم، ابو داود، ترمذی وغیرہ میں موجود ہے۔"

جمالِ مصطفیﷺسے کیامرادہے؟حضرت العلام حکیم محمد صادق سیالکوٹی رحمہ اللہ   فرماتے ہیں کہ اس سے مراد ہے ان ہی رسول رب العالمین، رحمت اللعالمینﷺ کی صفتوں، بزرگیوں، وصفوں، خوبیوں، نعمتوں، فضیلتوں، مقاموں، شانوں، اور وصفوں کا چمن زار ہے جس کے گلہائے رنگارنگ کی مہک مشام جان کو معطرکرتی اورایمان کو تازگی بخشتی ہے۔ حکیم صاحب نے اردو ادب نثر اوراشعار میں پیش کیاہے۔ صفحہ نمبر 21 تا 34 میں حکیم صاحب اس میں بھی ادبی اسلوب کو اپناتے ہوئے درود وسلام بھیجتے ہیں۔ اللہ اس نیرِ بطحاء، انجمِ طہ، ماہِ دنی، مہرِ تدلّٰی، زینتِ کعبہ، رونقِ منبر، گوہرِ وحدت، آیۂ رحمت، کانِ فتوت، بخرِ نبوت، جانِ دو عالم، شافعِ محشر پر کروڑوں، نیلوں، پدموں، سنکھوں کی تعداد بھرا درود وسلام نازل فرما:

  اس کتاب جمال مصطفی میں مولانا حکیم محمدصادق سیالکوٹی رحمہ اللہ نے نبی کریمﷺ کی سیرت کا آغاز تاریخی انداز میں آپ کی ولادت باسعادت سے شروع کیا ہے، بلکہ پوری دنیا کی تخلیق سے پہلے کے واقعات کو بھی تحریرفرمایاہے۔ ابھی اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام  کو پیدا فرمایا ہی تھا تو ان کی پشت پر ہاتھ پھیرا تو پوری انسانیت کی تخلیق کی تو ان سے اپنی ربوبیت کا وعدہ لیا۔ کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں؟ انھوں نے کہا: کیوں نہیں‘‘ توہی ہمارا رب ہے۔ پھر دوسرا وعدہ صرف ان حضرات سے لیا جن کے سروں پر نبوت ورسالت کے تاج سجا دیے گئے تھے، یعنی آدم علیہ السلام  سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام  تک تمام انبیاء علیہم السلام سے عہد واقرارلیا کہ جب کبھی ان میں سے کسی کو بھی اللہ تعالیٰ کی کتاب وحکمت دے کر دنیا میں لوگوں کی ہدایت کے لیے بھیجاجائے اور اس کی زندگی میں رسول (حضرت محمدﷺ) آئیں تو ان پر ایمان لانا اور ان کی دین میں مددکرنا ان کا فرض ہوگا۔ سب نبیوں سے یہ اقرار اور وعدہ لے کر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "کیا تم اقرار کرتے ہو؟ سب نے کہا: ہاں! ہم اقرار کرتے ہیں۔" پھر فرمایا:"گواہ رہو اور میں بھی اس اقرارکرنے پر گواہ ہوں۔ سنو! اب اس عہد اور میثاق سے جو پھرا وہ فاسق ہے اور اطاعت سے باہرآنے والاہے۔ "

سیرت النبیﷺ کی خصوصیات تاریخی اندازمیں۔ نبی کریمﷺ کی عمر کے ابتدائی سال دیہاتی زندگی میں بسر ہوئے تھے۔ اس لیے سادگی وبے تکلفی نے حضورﷺکے ساتھ نشوونما پائی تھی۔ لڑکپن کا زمانہ ایسے وقت میں کٹا تھا جب کہ قوم حرب الفجار وغیرہ لڑائیوں میں مصروف تھی۔ اس لیے امنِ بسیط اور ہمدردیِ عامہ کی قدر ومنزلت شروع ہی سے حضور ﷺکے خاطر نشین تھی۔ 25 سال کی عمر تک حضورﷺ نے شادی نہیں کی۔ تجرد کا یہ زمانہ جو عین عنوانِ شباب کا عالم تھا، کمال عفت، عصمت، شرم وحیا، سے سفرہوا۔ دیکھنے والوں کی شہادت موجودہے کہ حضورe ہرپردہ نشین کنواری لڑکیوں سے بڑھ کر شرم والے تھے۔

آنحضرتﷺ نے معاش کے لیے تجارت کو پسند فرمایا تھا اور اس طرح ان بلند حوصلہ لوگوں کے لیے جو ثبات واستقلال معاملہ فہمی اور ضرورت شناسی، حلم و بردباری سے متصف ہوں، ہدایت فرمائی کہ تجارت سے بہتر اورکوئی معاش نہیں۔ مردانہ جمال میں کمال حسین، حسب ونسب میں عالی خاندانی ہونے پر بھی ایک بیوہ عورت سے جو عمر میں حضورﷺ سے پندرہ برس بڑی تھی، پہلا نکاح کیا اور اس سے عقد کی ضرورت وعظمت پر نہایت شاندار نمونہ قائم فرمایا۔ یہ بیوی نہایت متمول تھی، لیکن آنحضرتe نے اپنی قانعانہ قابلیت اورزاہدانہ سیرت کی وجہ سے اپنے آپ کو اپنی بیوی یا اپنے خاندان کی مالی امداد سے ہمیشہ مستغنی ثابت کیا اور اس طرح اپنی مدد آپ کرنے والوں کو سرِ راہ ایک مشعل روشن فرمائی۔ آنحضرتe نے تھوڑے ہی عرصے میں اپنی صادقانہ وہمدردانہ زندگی کا اثر خونخوار عرب میں پھیلادیاتھا۔ اورسب کے دلوں میں اپنے لیے عزت ومحبت کے ساتھ جگہ بنالی تھی اور اس طرح لوگوں کے لیے ایک درخشندہ مثال قائم فرمادی کہ کیوں کر نیکی اور صداقت کی طاقت ظلم اور جہالت کو مغلوب کرسکتی ہے۔

 مولانا حکیم محمدصادق سیالکوٹی رحمہ اللہ  نے نبی کریمﷺکی سیرت کی خصوصیات کے لحاظ سے تقابلی جائزہ پیش کیاہے۔ جس میں دیگر انبیاء کے ساتھ ان کی سیرت کو سامنے رکھ کرنبی کریمﷺ کی سیرت کو اجاگرکیاہے۔ اللہ تعالیٰ کے پیغام پہنچانے میں جس طرح پہلے انبیاء کو مشکلات پیش آئیں تو ان کا تقابل آپ کی مشکلات اور پریشانیوں سے کیا جائے تو وہ کئی گناہ زیادہ ہیں، لیکن جب ان کے مدِ مقابل صبرواستقامت سے ان مصائب کا مقابلہ کیاجائے توجس طرح سے پہلے انبیاء اور رسل نے ہجرتیں کیں تو آپﷺ نے ان سے بڑھ کر اپنے اصحاب و اہلِ بیت کے ساتھ ہجرتیں فرمائیں اور آپ نے ایسی سیرت کے نقوش چھوڑے اوربے مثال کردار ادا کیا کہ دیگر انبیائے کرام علیہم السلام  نے تو بعض دفعہ دل برداشتہ ہوکر بدعائیں بھی کیں اور عذابِ الٰہی کی دعائیں کیں اور ان قوموںپرعذاب نازل ہوئے، لیکن آپﷺ نے سخت مصائب اور تکالیف دیے جانے پر ارشاد فرمایا:

"اے اللہ! میری قوم کو بخش دے، پس بے شک وہ نہیں جانتے۔"

آپﷺ نے فرمایا:

’’جاؤتم آزاد ہو آج تم کو کوئی پکڑ نہیں ہے۔‘‘

اس معاملے میں آپ کی سیرت دیگر انبیاء علیہم السلام سے نمایاں نظرآتی ہے۔ حکیم صاحب نے بڑے خوبصورت انداز میں تقابلی جائزہ پیش کیاہے۔  بعد ازاں رحمۃ للعالمین کے فضائل کا عنوان باندھ کر تفصیلاً آپﷺکی فضیلت کو بیان کیا۔ آپe کا حلیہ مبارک اور سرور کائنات کے گزر اوقات، لباس، کھانے، پینے، سونے، رونے وغیرہ کا یہاں تک کے آپ کے جنازے کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس کتاب کا مکمل جائزہ لیا جائے تو مندرجہ ذیل سیرت کے پہلو نمایاں نظر آئیں گے۔ آپ کے اخلاق و اقدار، چلنے پھرنے، رہنے سہنے و دیگر اندازِ زندگی۔

   اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ حکیم صاحب نے اس کی تحریر عام فہم اور سادہ رکھی ہے اور اس کو موجودہ حالات و واقعات کو مدِ نظر رکھ کر تحریر کیا ہے اور اس بات کو واضح کیا ہے کہ جس کی عظمت اور شان کا یہ عالم ہو کہ آپﷺ تمام نبیوں کے امام ہوں اور قاب قوسین او ادنیٰ کا مقام حاصل ہو تو پھر اس ہستی کی اطاعت اور فرمابرداری خود بخود ہی کر کے انسان فخر محسوس کرتا ہے اور صحابہ کرامy کی ایسی مثالیں بہت زیادہ ملتی ہیں اس لیے حکیم صاحب نے اس کتاب میں زندگی کے تمام پہلوئوں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔

حکیم صاحب نے آپﷺکی عظمت اور شان کو بیان کرنے کی بڑی کوشش کی ہے، لیکن اس کے باوجود کئی فضیلت کے پہلو رہ گئے ہیں جن پر گفتگو کرنا ضروری تھی۔ مثلاً آپ کی عظمت غیر مسلموں کی نگاہ میں کیسی ہے؟ اپنے تو شان بیان کرتے ہی ہیں، لیکن اگر کوئی کرے تو ’’اَلْفَضْلُ مَا شَھِدَتْ بِہِ الْأَعْدَائُ‘‘ کا مصداق ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ حوالہ جات کی کمی ہے اور کسی حوالہ کی تخریج نہیں کی گئی اور نہ ہی کتاب کے مصادر و مراجع لکھے گئے جو اہلِ علم کے نزدیک انتہائی ضروری ہے اور کتاب ھٰذا میں بعض مقامات میں موضوع سے ہٹ کر گفتگو کی گئی ہے۔ جس کی وجہ سے کتاب کا حجم تو بڑھ گیا ہے، لیکن گفتگو بامقصد نہیں ہوئی اور ان عنوانات کو بلا ترتیب رکھ دیا گیا ہے۔ جس سے کتاب کی جامعیت کی کمی محسوس ہوتی ہے اور کئی جگہوں میں مشکل الفاظ کو بیان کیا گیا ہے اور وضاحت ضروری ہونے کے باوجود نہیں کی گئی اور کتاب میں اشعار کی تشریح نہیں کی گئی اور نہ ہی مکمل حوالہ دیا گیا جس کی وجہ سے اشعار کا مفہوم سمجھنے میں عام آدمی قاصر ہے۔ بہر کیف ان کمزوریوں کو دور کر دیا جائے تو کتاب اپنے موضوع پر بے مثل ہے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...