Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

نقش فریادی اکتوبر تا دسمبر 2022 |
پنجاب لٹریری فورم
نقش فریادی اکتوبر تا دسمبر 2022

چوتھادروازہ
Authors

ARI Id

1695781004291_56118399

Access

Open/Free Access

چوتھادروازہ

خالدفتح محمد

اُس کی اُداسی،پریشانی،لاتعلقی اور غمی بالکل اُسی طرح تھی جیسے پہلے شوہر کی موت سے چند دِن پہلےتھاجو کچھ ہوجانے کی دلیل تھی یا نایافتنی کا احساس۔ یہ خیال آتے ہی وہ پریشان ہوگئی۔وہ اگر پہلے شوہر سے خوش نہیں تھی تو دوسرے کے ساتھ ایسا قریبی تعلق نہیں تھا کہ اُسے اُس کے مر جانے کا دکھ ہو : دکھ تو کسی بھی موت کا ہوا کرتا ہے۔ یہ آدمی اُس کی مادی زندگی کی ضروریات پوری کرتارہاتھااور اُس میں کوئی ایسی خرابی بھی نہیں تھی لیکن وہ اُس کے ساتھ خود کو جوڑ نہ سکی ۔ وہ ذہنی طور پراُس سے اُتنا ہی دور رہی جتنا پہلے خاوند سے تھی۔پہلے خاوند سے شادی اگر اتفاق نہیں تھاتو اُسے منصوبہ کہنابھی مناسب نہیں،اُسے جو آدمی پسند تھااُس کے ساتھ شادی ممکن نہیں تھی کیوں کہ وہ آدمی اچھی شہرت نہیں رکھتاتھا۔اُسے شراب کی عادت تھی ،ہر وقت نشے میں ہوتااور جب کبھی اُسے دیکھتا،احترام میں نظر نیچے کرکے ایک طرف ہٹ کے کھڑا ہوجاتا۔وہ اُس کے پاس سے گزرجانے تک وہیں کھڑارہتا۔شروع میں اُسے اُس کا ایک طرف ہٹ کے کھڑے ہونا نشے کا حصہ لگالیکن جب یہ ہمیشہ ہی ہونے لگاتواُسے احساس ہواکہ وہ ایسا اُس کے لیے کرتاہے اور وہ اُسے ایسی نظر سے دیکھنے لگی جس سے ارد گرد کے باقی لوگ نہیں دیکھتے تھے:وہ اب پاس سے گزرتے ہوئے ہمیشہ مسکرادیتی۔یہ مسکراہٹ بالکل واضح نہیں تھی،ہونٹوں کی ہلکی سی جنبش،آنکھوں میں ہلکی سی روشنی کا سایہ،گالوں پر ہلکی سی سرخی کا کھنڈ جانااور چال کا ہلکے سے شتابی ہو جانا۔ جب یہ سب ہو رہاہوتااور وہ خود بھی نہیں جانتی تھی کہ ہورہاہے ،وہ آدمی اِِس تبدیلی دیکھ رہاہوتااور اُس کی اُسے دیکھنے کی خوشی اُداسی میں تبدیل ہو جاتی۔ اُسے شک تھاکہ وہ زیادہ دیر جیے گا نہیں اور کسی خوب صورت عورت کا اُسے دیکھ کے دوبارہ دیکھنے کی خواہش میں اتناخوش ہوجانا اچھا تو لگتاتھالیکن وہ نہیں چاہتاتھاکہ کوئی اُسے پسند کرے ،سوائے اُن چند لوگوں کے جو اُسے پیدا ئش سے جانتے ہونے کے باوجود ایک طرح سے بیگانگی کاشکار تھے۔

وہ جب اپنے گھر سے نکلتی تو وہاں کھڑاہوتاجہاں سے اُس نے گزرنا تھااور اپنے ساتھ یہی عہد کرکے آتاکہ آخری بار وہاں کھڑا ہونے آیاہے ۔ اُسے اُس کی واپسی کے وقت کا بھی پتاتھااورپرانے عہد کونہ توڑتے ہوئے نئے کے ساتھ وہاں پھر آن موجود ہوتا۔ اگر کسی دِن نہ آسکتا،وہ اُس کے نہ آنے کی وجہ تو نہیں جانتی تھی اور نہ ہی وہ بتا سکتاتھاکہ وہ شدید دردِ سر میں مبتلا ہے ۔ اُسے مایوسی ضرور ہوتی اور وہ سوچتی: شبیر اگر آہی جاتاتو کچھ حرج بھی نہیں تھا۔شبیر کو وہاں نہ آنا مزید سر درد کا سبب بنتااور وہ سوچتا: رابعہ کیا سوچتی ہوگی؟رابعہ کپڑے سینے کی ایک فیکٹری میں کام کرتی تھی جہاں اُس کا مردوں کے ساتھ واسطہ رہتااور اُس کے اندر مرد کا خوف ایک وبا کی طرح بھرا ہواتھا۔ وہ جب تنخواہ لینے کے لیے قطار میں لگتی اور اُسے پیسے تھمانے والے بوڑھے کلرک کا غلطی سے ہاتھ چھو جاتاتو رابعہ کو ہمیشہ ایک کراہت کا احساس ہوتا۔اُسے محسوس ہوتاکہ وہ پلید پیسے لے رہی ہے گو وہ کلرک اُس کے باپ سے عمر میں زیادہ محسوس ہوتاتھا۔ اب کلرک ہر مہینے تنخواہ دیتے وقت رابعہ کے ہاتھ کو چھوتااور کبھی کبھار تھام بھی لیتا،جیسے ہتھیلی پر نوٹ رکھتے ہوئے اتفاقاً تھاما گیا ہو۔ رابعہ کی شروع کی کراہت اب لاتعلقی میں تبدیل ہو گئی ؛یہ ایک معمول بن گیاتھا۔رابعہ اور شبیر کے درمیان میں کبھی کوئی بات تو نہیں ہوئی تھی لیکن دونوں کو ایسے محسوس ہوتاکہ وہ پہروں ایک دوسرے کے ساتھ باتیں کرتے رہتے ہیں۔وہ شادی کرناچاہتے تھے،رابعہ غریب تھی لیکن خوب صورت اور شبیر پیسے والا تھالیکن شرابی؛ہر کوئی جانتا تھاکہ شرابی کا کوئی مستقبل نہیں ہوتااور مستقبل والا شرابی نہیں ہوتا چناں چہ یہ رشتہ کبھی زیر غور نہیں آیا،جب کہ بوڑھا کلرک اپنی چیک بک اور بنک سٹیٹ مینٹ کے ساتھ رابعہ کے گھر پہنچ گیا۔ داماد کی عمر کا معاملہ اُس کی بنک سٹیٹ مینٹ نے حل کردیا؛مرد اور گھوڑا کبھی بوڑھے نہیں ہوتے۔رابعہ کی بوڑھے کلرک عباس کے ساتھ شادی ہو گئی۔ اِس شادی میں رابعہ کی ایک ہی شرط تھی کہ وہ کارخانے میں کام کرنا بند نہیں کرے گی،وہ شبیر کو ہر روز دیکھنا چاہتی تھی لیکن شبیر اُسے کبھی نظر نہیں آیا۔وہ اُس کے متعلق کسی سے پوچھ بھی نہیں سکتی تھی کہ اُس کی رہائش کہاں تھی؟ وہ صرف اُس کانام جانتی تھی کیوں کہ وہ شبیر شرابی مشہور تھا۔اُس نے شبیر کو دوبارہ دیکھاتو نہیں لیکن دوبارہ دیکھنے کی اُمید پر کارخانے میں کام کرتی رہی۔

بوڑھا کلرک عباس رنڈواتھااور اُس کی جوان اولاد اپنی اپنی زندگی جی رہے تھے ۔ رابعہ کے آنے سے عباس کلرک کو پہلی مرتبہ اپنا گھر رہنے کے قابل لگا؛پہلی بیوی گھر کوایک سرائے ہی سمجھتی رہی تھی ،گو اُس کے بچے تو پیدا ہوئے لیکن اُس نے کلرک عباس کو کبھی بطور خاوند قبول نہیں کیاتھا۔ رابعہ کو کلرک عباس بھا تو نہیں سکتاتھا لیکن ساتھ رہتے ہوئے اُسے بوڑھے کے ساتھ ہمدردی ضرور ہو گئی تھی۔ بوڑھاکلرک اُس کی خواہشات کے علاوہ ہر ضرورت کا خیال رکھتا،وہ مطمئن ہوتے ہوئے بھی غیر مطمئن تھی ،وہ بغاوت کرنا چاہتی تھی لیکن اُسے بغاوت کے انجام سے بھی خوف آتا تھا۔وہ انجام سے نمٹنے کو تیارتو تھی لیکن اُس میں بغاوت کے آغاز کرنے کا حوصلہ نہیں تھاجس کی وجہ سے وہ اپنی ضروریات کے پوراہونے پر ہی اکتفا کیے رہی۔

پھر وہ اُداس رہنے لگی۔ اُداسی شروع ہونے سے پہلے بھی وہ اُداس ہی رہتی تھی لیکن اِس اُداسی کی نوعیت مختلف تھی؛نئی اُداسی اُسے تھکائے رکھتی،جیسے ایک طویل سفرطے کر کے آئی ہو۔یہ اُداسی اپنے ساتھ ایک طرح کی لا تعلقی بھی لائی جس کی وجہ سے وہ اپنے ارد گرد سے کٹ گئی اور ایک غمی کا احساس اُسے گھیرے رہتا۔جب وہ اِس دور میں سے گزر رہی تھی تو ایک پریشانی اُس کی سوچ پر دستک دینے لگی اور وہ جانتی تھی کہ پریشانی کے ساتھ ہمیشہ خوف بھی منسلک ہوتاہے ۔وہ خوف زدہ رہنے لگی اور اِسی خوف میں گھری رابعہ کا ایک دِن کلرک عباس کی موت سے سامناہو گیا۔گھر میں کلرک عباس کی اولاد اور کچھ رشتے دار وں نے پڑاؤ ڈال لیا۔وہ سب اُسے کسی نہ کسی طرح مطمئن نظر آئے ،جیسے یہ ایک دِن ہونا ہی تھا۔ سب کچھ روز وہاں ہی رہے۔ چند کمروں کے گھر میں وہ اپنے کمرے میں ہی سوتی تھی اور یہ سوچتی رہتی کہ اُن کے جانے کے بعد وہ زندگی کو کس طرف لے کر جائے گی؟کلرک عباس کا چھوٹا بیٹا،جو عمر میں اُس سے بڑاتھااور ہروقت اُس کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتا،ایک رات ،جب وہ سوئی ہوئی تھی،اُس کے بستر میں گھس گیا۔یہ کہا نہیں جاسکتاکہ وہ اُسے پسند آگئی تھی یا وہ اپنے مرحوم باپ سے بدلہ لینا چاہتا تھا۔ وہ گھبرا گئی اور اُسی گھبراہٹ میں اُسے بستر سے نہ توباہر دھکیل سکی اور نہ ہی شور کیا،بس ایک بے نام سی مدافعت کے بعد ہتھیار ڈال گئی۔ وہ اگلی رات بھی آیا ،تب وہ اُس کی منتظر تھی۔رابعہ کو دونوں راتوں میں پہلی مرتبہ ایسی گہری نیند آئی جس کو وہ بھول چکی تھی ۔ اُس بیٹے نے اپنے بہن اور بھائیوں کو قائل کرلیاکہ رابعہ کی شادی اُس کے سسر کے ساتھ کر دینی چاہیے۔ سسر بیوی کی وفات کے بعد تنہائی کا شکار تھااور شادی کے بعد رابعہ کا اکلاپا بھی جاتا رہے گا۔اب وہ اُس اچھی پکی ہوئی سبزی کی طرح بن گئی تھی جو پڑوسیوں کے گھروں میں چکھنے کے لیے بھیجی جاتی ہے۔ رابعہ کو اِس رشتے میں اپنے لیے ایک سہولت بھی نظر آئی: کلرک عباس کے بیٹے کا بوڑھا سسر تو اُس کے کسی کام کا نہیں ہوناتھالیکن وہ اُس کے لیے ایک ٖڈھال تو ہوگاجب کہ وہ اُس کے داماد کے ساتھ اپنی نا مکمل خوہشوں کو تکمیل دیتی رہے گی۔ شادی کے بعدوہ ایسا کر نہ سکی۔ بوڑھا سسر اُس کے گھر میں ہی منتقل ہوگیا۔وہ اپنی زندگی سے مطمئن تو نہیں تھی لیکن اُسے سہارنے والا کوئی تھابھی نہیں؛والدین فوت ہوچکے تھے اور اُس نے زندگی توگزارنی تھی۔شادی کے بعد ایک دِن کلرک عباس کا چھوٹابیٹااپنے رشتے کی تجدید کے لیے آیا تو رابعہ کے بے رنگ ہو چکے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔ رات کو جب وہ اُس کے بستر میں گھساتو رابعہ کو پتا ہی نہ چلا۔ اُس نے اتنی سخت مدافعت کی کہ وہ خود بھی حیران رہ گئی ، اُس نے شور مچانے کی بھی دھمکی دی۔ کلرک عباس کا بیٹا کچھ خوف اور کچھ رشتوں کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اُس سے پرے ہو گیا۔

وہ ایک بار پھر ،دو راتوں کی بہار کے بعد،خشک اورکانٹوں والے جنگل میں داخل ہو گئی۔وہ اُسی طرح زندگی گزار رہی تھی جیسے کلرک عباس کے ساتھ زندہ تھی۔ وہ بے خواہش تو تھی لیکن دو راتیں اُس کے اندر زندہ تھیں۔وہ اپنی محرومی اور تکمیل کی خواہش کے درمیان میں ایسے گم تھی کہ اُسے اُداسی اور غمی کے بوجھ نے دبا لیا۔ وہ پہلے پریشان ہوئی اور پھر خوف زدہ ہوگئی۔ کیا اُس کا یہ بوڑھا خاوند بھی مرنے جا رہاتھا؟ اگر وہ مر گیاتو کیاکوئی اُس کے ساتھ شادی کرے گا؟َوہ تو موت کا ہرکارہ تھی؛اب ہر کوئی اُس سے دور بھاگے گا۔وہ اُٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے بوڑھے کی لمبی عمر کی دعا مانگتی لیکن وہ اپنے پر طاری پریشانی،خوف ،اُداسی اور غمی کو دور نہ کر سکی ۔ ایک وقت ایسا آیا کہ اُس نے خود سے سمجھوتا کرلیااور بوڑھے کی موت کا انتظار کرنے لگی۔

بوڑھا گھر کے ایک کونے میں چارپائی پر اپنے مخصوص آسن میں بیٹھااپنی ہی دنیا میں گم تھااور رابعہ کو اُسے اُس گمشدگی کی حالت میں دیکھ کے حیرت ہوتی کہ وہ عنقریب فوت ہونے والا ہے جب کہ اُسے اپنے فوت ہوجانے کے بارے میں علم ہی نہیں تھا۔وہ کسی طرح اُسے بتانا چاہتی تھی جواتنا مشکل تھاکہ اُسے ممکن نہ لگا۔ وہ یہ بھی جانتی تھی کہ کسی کو اُس کی موت کی پیش گوئی کرنامناسب بھی نہیں۔ وہ اپنے مستقبل کے بارے میں پریشان تھی؛وہ جانتی تھی کہ اُس کے فوت ہوتے ہی اُس کے داماد نے ایک بار پھر اُس کے ساتھ ہم بستری کی کوشش کرنی ہے۔کیا وہ اِس بار ہتھیار ڈال دے گی ؟شاید وہ ہتھیار نہ ہی ڈالے!گو وہ محرومی سے سمجھوتاکر چکی تھی لیکن یہ جنگ کب تک لڑی جا سکتی تھی ؟دور ہونے کے باوجودوہ خاوند سے مزیددور رہنے لگی ،وہ خواہش کرنے لگی کہ بوڑھا جلد از جلد فوت ہو جائے ۔یہ بھی چاہتی تھی کہ وہ لمبی عمر پائے۔وہ ایک ایسا سہاراتھا جسے کھونا بھی نہیں چاہتی تھی۔ کلرک عباس کے فوت ہونے کے بعد وہ اُس کے گھر والوں کے رحم و کرم پرآ گئی تھی جنھوں نے اُسے سنبھال لیاتھالیکن اب وہ نہ تو اُن کے رحم و کرم پر تھی اورنہ ہی اُن کی ذمے داری۔اب تو اُس کے سسرال وہ لوگ تھے جنھیں وہ جانتی تک نہیں تھی۔ کلرک عباس کے چھوٹے بیٹے کی بیوی کا کیا رویہ ہوگا؟ وہ اپنے باپ کی بیوہ کو خاندان کا حصہ قبول کر لے گی؟کیا کلرک عباس کی اولاد اُسے اہمیت دے گی ؟ وہ تو اب اُس کے خاندان کا حصہ نہیں رہی تھی۔چھوٹے بیٹے کی کوشش سے وہ اُنہی کے گھر میں ٹکی ہوئی تھی۔وہ اپنی اُلجھنوں میں الجھے جاتی تھی اور کسی نتیجے پر پہنچے بغیرمزید اُلجھنوں کا شکار ہوئے جاتی تھی۔وہ یہ بھی سوچتی کہ اُس کے پاس کوئی حل تھابھی نہیں اور یہ بھی جانتی تھی اُلجھن تبھی ختم ہوتی ہے جب اُسے حل کیا جائے۔

وہ سارادِن صحن میں چکر کاٹتی رہتی اور انہی چکروں میں اُس نے گلی میں دیکھا،وہ گلی میں دیکھنے سے ہمیشہ کتراتی تھی۔اُسے اپنے بوڑھے خاوند کے شک کا خدشہ رہتاکیوں کہ وہ جانتی تھی ایسے خاوند ،جو کسی کام کے نہیں ہوتے،بے حد شکی مزاج ہوتے ہیں ۔اُسے گلی میں سے گزرنے یا دیکھنے والوں کا بھی خوف رہتاکہ وہ کیا سوچیں گے کہ بوڑھاگھر کے اندر بیٹھاہے اور یہ باہر جھانکتی اور کسی کو تاڑتی ہے؟ رابعہ نے پنی اُلجھنوں میں الجھے ہوئے ،صحن کے چکر کاٹتے کاٹتے باہر گلی میں دیکھاتواُسے یقین نہ آیا۔وہ چکرا گئی۔ اُس نے جو دیکھااُس کو یقین بنانے کے لیے اُس نے صحن کا ایک چکر لگاکے گلی میں پھر جھانکاتو اُسے یقین آیا کہ جو اُس نے دیکھاوہ ویسے ہی تھا۔گھر کے سامنے کے دو گھروں کے درمیان میں ایک خالی جگہ تھی جہاں کبھی چھوٹا سا گھر ہواکرتاتھا۔ اُس خالی جگہ میں جہاں اب آس پاس والے گھر اپنا کوڑاپھینکتے تھے ،وہاں شبیر کھڑاتھا۔ وہ بالکل اُسی طرح طرح کھڑاتھا جیسے کبھی اُس کے انتظار میں ہوتا۔ کیا وہ جانتا تھاکہ رابعہ یہاں رہتی ہےَ؟کیا اُس کا وہاں کھڑے ہونا محض اتفاق تھا؟اگر وہ جانتا تھاکہ وہ یہاں رہتی ہے تو وہ کب سے یہاں کھڑا ہو رہاہے ؟ اُسے خود پر غصہ بھی آیاکہ وہ گلی میں باہر دیکھنے سے ویسے ہی خائف رہتی رہی اور سودے سلف کے لیے بوڑھے کو کیوں بھیجتی آئی تھی؟وہ اچانک پریشان ہو گئی اور پریشانی کے ساتھ خوف زدہ بھی۔اگر وہ اُس کے لیے وہاں کھڑا ہوتاہے تو لوگ کیا سوچتے ہوں گے؟ اگلے ہی خیال نے اُس کی ہمت بندھائی کہ شبیر کا وہاں کھڑے ہونااتنا معیوب نہیں تھا،جتنا کلرک عباس کے سوگ میں ہونے کے باوجود اُس کے بیٹے کے ساتھ دو راتیں بسر کرنا۔

رابعہ نے ایک بار پھر گلی میں دیکھا۔ اب وہ پر اعتماد تھی۔اُسے زندگی میں ایک طویل عرصے کے بعد پہلی بار خوشی محسوس ہوئی۔شبیر کو دیکھ کے اُسے لگاکہ وہ مانوس فضاؤں میں ہے۔شبیر ایسے ہی کھڑا ہوتاتھااور وہ کسی قدر شرماتے ہوئے،اِتراتے ہوئے اوراعتماد کرتے ہوئے ،پاس سے گزرا کرتی تھی۔اتنے سال وہ کہاں رہا تھا؟اُس کے بیوی بچے ضرور ہوں گے؟ اُسے اپنے اندر ایک گھٹن سی ہوئی اور اُس نے لمبی سانس لی۔ شاید اُس کے بیوی بچے نہ ہی ہوں؟اُسے اپناآپ سکون سے محسوس ہوا۔ وہ اپنے خیالوں سے نکلی؛اُس نے شبیر کی طرف دیکھا،وہ اُسے دیکھ رہا تھا۔ اُسے شبیر کی نظر بالکل خالی لگی،اُس جگہ کی طرح جہاں وہ کھڑا تھا۔رابعہ نے سوچاکہ وہ شبیر کے متعلق کچھ نہیں جانتی اور شبیر اگر وہاں کھڑاتھاتو اُسے رابعہ کے متعلق سب کچھ معلوم ہوگا۔ اُسے اگر شبیر کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھالیکن وہ تو اُس کے متعلق جانتاہوگاکہ وہ ابھی تک گردش میں ہے۔وہ اپنے خاوند کی متوقع موت کی پیشگی اطلاع کسی طرح جان چکی تھی اور اُس کی موت کے بعد اُس نے اُس کے رشتہ داروں کے رحم وکرم پر ہونا تھا۔ اُس نے پھر شبیر کی طرف دیکھاجس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔جواب میں وہ بھی اپنائیت سے مسکرائی۔ اُس نے اُسی مسکراہٹ کے ختم ہونے سے پہلے شبیر کو اندر آنے کا اشارہ کیا !

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...