Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

نقش فریادی اکتوبر تا دسمبر 2022 |
پنجاب لٹریری فورم
نقش فریادی اکتوبر تا دسمبر 2022

پسلی
Authors

ARI Id

1695781004291_56118400

Access

Open/Free Access

پسلی

ڈاکٹرمجاہد عباس

لیکچرار شعبہ اردو، نمل، اسلام آباد

’’پسلی‘‘ کا بستہ اندر باہر سے دوات    کی سیاہی کے سبب  اس کے دل کی طرح داغ دار تھا۔  پلاسٹک کی  ایک پرانی دوائیوں والی شیشی میں چند پرانی  لیریں ، چند قطرے  نلکے یا نالے کا پانی اور ایک سیاہ پڑیا  ڈال کر اس نے دوات بنانے کی ترکیب  اپنےہم جولیوں سے سیکھ لی تھی۔ شیشی کا ڈھکن ٹوٹا ہوا تھا جسے اس نے ایک لیر  کی مدد سے   مضبوطی سے باندھ رکھا  تھا مگر اکثر اوقات دوات کے سیاہ قطرے اس  کےقاعدے، تختی اور بستے  میں رچ بس جاتےتھے۔ اس کا قلم  کانے  کا تھا جس کی نوک پر دوات جم کر کسی پھوڑے کے کھرنڈ جیسی ہو چکی تھی۔ وہ  سکول کے احاطے میں  داخل ہونے سے پہلے ایک لمحے کے لیے رکتا اور پھر دانت بھینچتا ہوا آگے بڑھ جاتا۔ وہ جب  تختی پر  الف ب ج لکھتا تو اس سے ایک حرف بھی سیدھا نہ لکھا جاتا۔ لکھتے ہوئے وہ  اپنے ہاتھ کو اپنے ذہن کے تابع کرنے کی کوشش میں  یوں محو ہوجاتا کہ اسے خبر ہی نہیں رہتی تھی اور اس کے بدن کی تختی ٹیڑھی ہو جاتی ہے۔ استاد کی  آواز اسے چونکا دیتی اور وہ کچھ دیر کے لیے سیدھا ہو جاتا  اور اگلا حرف لکھتے ہوئے پھر اس کا سرڈھلک جاتا، آنکھیں  ترچھی دکھائی دیتیں اور وہ بہتی ناک کو الٹی آستین سے  اپنی ہی دھن میں  رگڑتا رہتا تھا۔

سکول سے گھر تک پہنچتے  ہوئے اسے کئی دشوار راستوں سے گزرنا پڑتا۔ایک ایک کر کے اس کے ہم مکتب راستے میں چھوٹتے جاتے اور وہ اکیلا رہ جاتا۔ویسے بھی وہ سب کے ساتھ گھلتا ملتا نہیں تھا کیونکہ اکثر لڑکے اس کی  جسمانی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے  اور اس پر رعب جماتے تھے۔   وہ  کچے پکے راستوں، سرکنڈے کے جھاڑوں اور  کوندروں سے  ننگے پیروں  کھسکتا ہوا جھونپڑی  نما گھر میں داخل ہوتا جہاں اس  کےچار بہن بھائی، اپنے اپنے   ٹوٹے دانتوں سے خشک نوالے  توڑ رہے ہوتے۔ وہ بھی  بستہ ایک طرف پھینک کر اس چھینا جھپٹی سے اپنے جینے کا سامان کرتا تھا۔  اگرچہ اس کا سرمایہِ کل بھی  سب بہن بھائیوں کی طرح وہی ناطاقتی تھی تاہم اس کا  بہن بھائیوں میں سےبڑا ہونا اس کے لیے غنیمت تھا۔ابھی آخری نوالہ اس کے منہ میں ہوتا کہ اسکی ماں کا حسب ِ معمول طعنہ’’ تو  بھی باپ کی طرح مارا جائے گا‘‘ اسے بیقرار کر دیتا اور وہ   رونی صورت بنا کر پکی سڑک پر نکل جاتا جہاں سے کبھی چار آنے مل جاتے  یا  پھر  لوح ِ دل پر لہجوں  کے داغ دھبے لگتے رہتے۔

سکول کے احاطے میں داخل ہونے سے پہلے وہ حسب ِ معمول رکا اور پھر آگے بڑھ گیا۔ اس نے دیکھا کہ آج استاد کے ساتھ ایک  اورشخص بھی موجود ہے جو قطار میں بیٹھے بچوں کا معائنہ کر رہا ہے۔ اسے بھی استاد  نے قطار کے آخر میں بیٹھ جانے کا اشارہ کر دیا۔ وہ   شخص تمام بچوں کی حرکات و سکنات کا انتہائی غور سے مشاہدہ کر رہا تھا،سکول کے بچے  اس شخص کو غذا  کا ڈاکٹر بتا رہے تھے جب کہ اسے اس شخص کے ہاتھ میں کوئی کھانے کی چیز نہیں دکھ رہی تھی۔ اس مقصد کے لیے اس  نے کئی بار  استاد کی میز پر، دیوار کے ساتھ پڑے بنچ اور اس شخص کی کرسی کے نیچے  نظریں دوڑائی تھی ۔بعض بچے اسے نفسیات کا ڈاکٹر سمجھ کر اپنا موازنہ گلی میں گھومتے "دینوں" سے کر رہے تھے جس  سے کسی قسم کی گالی کی توقع کی جا سکتی تھی یا وہ کسی کو بھی  ایک ایسا ڈھیلا یا پتھر مار سکتا تھا جو جان  لینے کے لیے کافی ہو جاتا۔ وہ شخص سب بچوں کو باری باری بلا کر ان کا معائنہ کر رہا تھا اور ساتھ ساتھ   تمام معلومات ایک سروے فارم میں درج کر رہا تھا۔ جب  اسے بلایا گیا تو وہ ڈرتے ڈرتے  اس شخص کے پاس گیا۔ اس نے فارم  اٹھاتے ہوئے پوچھا۔

آپ کا نام۔۔۔!

پسلی۔۔۔!

کیا۔۔۔!

کیا بتایا اپنا نام۔۔!

  اپنا نام بتاتے ہوئے اس کا چہرہ شام ِ غریباں کی طرح دھواں دھواں ہو گیا  اور  ایک نیلا کرب اس کے چہرے پر سے ہوتا ہوا اس کے وجود میں سرایت کر گیا۔

یہ کیسا نام ہے۔  وہ شخص حیران ہونے لگا۔ اسے اپنی سماعت پر یقین نہیں آ رہا تھا۔

ڈاکٹر صاحب اس کا نام ’’پسلی ‘‘ہے آپ بے شک اس کی پسلیاں گن لیں نظر آتی ہیں سب۔ ہم سب بھی اس کو لٹا کر گنتے ہیں۔ ایک  نو سالہ لڑکے نے ہنستے ہوئے کہا!

سب نے قہقہہ لگایا۔ وہ شخص بھی ہنسنے لگا۔

’’پسلی ‘‘ کا دل اس بٹیرے کی طرح پھڑک رہا تھا  جو شکاری کے جال میں پھنس گیا ہو۔ اس شخص نے  اسے لٹا کر اس کامعائنہ کیا اور ساتھ ساتھ  فارم پر کرتا رہا۔

اس نے دیکھا کہ  اس کی آنکھوں میں پیلاہٹ نے گھر کر رکھا ہے حتیٰ کہ پپوٹوں پربھی پیلے دھبے نمایاں ہیں،  سر کا گھیرمعیار سے کافی کم  لیکن اس کے دھڑ کے مقابل بڑا محسوس ہو رہا تھا۔اس نے  اس کے سر کی پیمائش کرتے ہوئے موازنہ کرنے کے لیے دوسرے بچوں کی طرف دیکھا جو اس تماشے پر دانت نکال رہے تھے۔ اس کے اکثر دانت   جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھے اور اب پتلی نوکدار  کتھئی رنگ کی تیلیاں بن چکے تھے۔ اس کا چہرہ  کسی قدیم مخطوطے کا بوسیدہ  ورق محسوس ہو رہا تھا۔ اس شخص نے   جب اس کے سینے اور پیٹ سے چیٹھڑے ہٹائے تو اس کی پسلیوں کے پنجرے  سے جیسے پرندہ اڑ چکا ہو۔ بچوں نے  شور مچاتے ہوئے اس کی پسلیاں گننا شروع کر دی تھیں جو مکان کی چھت پر رکھی خالی کڑیوں کی طرح   الگ الگ گنی جا سکتی تھیں۔اس شخص نے اس کی پسلیوں  پہ ہاتھ رکھا اورانہیں  ایک ایک کر کے ٹٹولا   ۔"پوری ہیں" وہ دوسرے بچوں کی طرف دیکھ کر  ہنستے ہوئے  مخاطب ہوا۔ مٹی کے گارے اور گھاس کے سبزے سے لبریز پیروں کو جن کی لکیریں مٹ چکی تھیں اور جن پر کانٹوں نے نقطہ دار گہری مہریں ثبت کر رکھی تھیں، اس نے دیکھنا  ضروری نہیں سمجھا اور اسے اٹھ جانے کو کہا۔ یہ فارم اس کی پوری فائل میں الگ تھلگ تھا۔

رات نے اپنے پر پھیلائے  اور  قریہ قریہ  قرنوں تک اندھیروں میں ڈوبتا چلا گیا۔ بستی، راستے، فصلیں، افق تا افق سیاہی کے پہاڑ کے سائے میں مدت تک خاموش ہو چلے۔وقت کی آندھی نے چہروں کے حلیے بگاڑ ڈالے اور بالوں کے رنگ بدل دیے۔ وقت کی اوٹ  میں اس بستی کی زمینیں  دونوں موسموں کی چوبیس فصلیں پکا چکی تھیں۔

جب صبح ہوئی  تو بستی میں کہرام بپا تھا۔  بستی کے سردار کا سر زخمی تھا اور وہ خون میں لت پت موت  کا بیتابی سے انتظار کر رہا تھا۔ اس کا طرہ ِ ابیض سرخ ڈھال بن چکا تھا۔ تنفس اس کے نتھنوں  میں خراٹے لے رہا تھا۔بیٹے جائیداد کے  کاغذات پر اس کے انگوٹھوں کے نشانات لگوا رہے تھے۔   قبضے کی تمام زمینیں  اس کی اولاد میں برابر بٹ چکی تھیں۔

اسی دوران لوگ اس کے قاتل کو جکڑ کر ایک  درخت کے ساتھ باندھ رہے تھے۔ اس کے  سر اور منہ کو ایک بوری سے ڈھانپ دیا گیا تھا اور اس کی آنکھوں پر کس کر ایک پٹی باندھ دی گئی تھی۔ وہ لوگ پولیس  کو اطلاع دے کر اس  کی آمد کا انتظار کر رہے تھے۔

 پولیس نے آتے ہی پھرتی سے اسے گرفتار کیا اور ساتھ لے گئی۔ محکمانہ  کارروائی کے بعد پولیس نے اسے عدالت میں پیش کیا اور گواہان نے گواہی دے۔ عدالت  میں مقدمے کے دوران، نفسیات کے ڈاکٹر کی رپورٹ بھی شامل کی گئی تھی جس میں لکھا تھا کہ سردار کا قاتل ’’عسل خان‘‘ ذہنی طور پر بالکل صحت مند ہے۔عدالت نے کارروائی مکمل ہونے پر کچھ ہی دنوں میں مقدمے کا فیصلہ سنا دیا اور یہ  الفاظ ایوان ِ عدالت کی دیواروں سے ٹکرانے لگے۔

’’ تمام عدالتی کارروائی مکمل ہونے  اور اس  مقدمے کا  ہر پہلو سے مفصل جائزہ لینے کے بعدعدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ عسل خان عرف’’ پسلی‘‘ کوسردار کے قتل کے جرم میں پھانسی کی سزا  دی جاتی ہے اور ہدایت کی جاتی ہے کہ اجالا ہونے سے پہلے پہلے اسے دار پر لٹکا دیا جائے۔‘‘    

اگلے دن اخبار میں خبر شائع ہوئی کہ سردار کے قاتل ’’پسلی‘‘ کوپھانسی دینے کے لیے اس کے پیروں سے بیس کلو گرام  کا باٹ  بھی باندھا گیا تھا۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...