Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

نقش فریادی اکتوبر تا دسمبر 2022 |
پنجاب لٹریری فورم
نقش فریادی اکتوبر تا دسمبر 2022

آزاد
Authors

ARI Id

1695781004291_56118401

Access

Open/Free Access

  آزاد

سکندر عباسی

لوگ اسے مینٹل کیس کہہ کر بلاتے تھے۔، کیونکہ اس کا مزاج کسی سے بھی نھیں ملتا تھا۔ وہ بھیڑ میں بھی تنھا رہتا تھا۔ اس کی عادتیں عجیب تھیں۔ اس کی سوچ سماجی سانچے میں ڈھل نھیں پاتی تھی۔ اس کے خیالات بنا پروں کے پرواز رکھتے تھے۔ اس کا طرز حیات عام دنیا سے ہٹ کے تھا۔ دنیا سے باغی دماغ میں وہ انیک سوالوں کے انبار لیٸے پھرتا تھا۔ اس کی سوچوں کے سمندر میں الجھے الجھے سوالات سیپیوں کی مانند چمکتے رہتے تھے جو اسے ہمہ وقت بے سکون رکھتے تھے۔ گھر والوں نے اس کا نام تو کچھ اور ہی رکھا تھا مگر وہ خود کو آزاد کہلواتا تھا۔ یہ ہی وجہ تھی کہ وہ آزاد کے نام سے بدنام تھا کیونکہ لوگ اس کا ذکر مضحکہ خیز انداز میں کرتے تھے۔

آزاد کو بے ترتیبی سے عشق تھا جسکو وہ اپنے لیٸے آ کسیجن گردانتا تھا۔ اس کو خوف تھا کہ اگر یہ بے ترتیبی اس کی زندگی سے بیدخل ہوٸی تو اس کا کی سانسوں کی ڈور ٹوٹ جاٸیگی۔ اسی باعث آزاد کی حیات کا ہر ایک صفحہ بے ترتیب اور بکھرا ہوا تھا۔ اس کے خواب بلکل ایسے معصوم تھے جیسے پرندوں کے خواب ہوتے ہیں۔ وہ قید سے کتراتا تھا، غلامی سے اسے سخت نفرت تھی ، پابندیاں اس کو پسند نھیں تھیں .

آزاد کبھی بھی استری کئے ہوئے  کپڑے نھیں پہنتا تھا ، شکن آلود کپڑے اسے زندگی کی علامت محسوس ہوتے تھے۔ وہ کبھی بالوں کو کنگھی نھیں کرتا تھا اس کے خشک اور بکھرے ہوٸے بال اس کے خیالوں کی طرح ہر قید و بند آزاد تھے۔جدید زمانے میں بھی اس کے پاس موباٸیل فون نھیں تھا۔ وہ موباٸیل کو خیالوں میں خلل ڈالنے والا آلہ تصور کرتا تھا۔ کہاں دن گذارا کہاں رات ہوٸی کب کہاں کتنے دن رات گم رہتا اس کا خود اس کے پاس بھی حساب نھیں تھا۔ مگر اس کی ماں اس کےلٸے ہر وقت اداس رہتی تھی۔ وہ اس سے اس کی اس بے ترتیب زندگی کی شکایت کرتی رہتی تھی۔ آزاد کو اپنی ماں سے بیحد محبت تھی مگر وہ اپنے مزاج کے سامنے اتنا مجبور تھا کہ ماں کی فکر انگیز ہر سوال کے جواب میں اس کے پیروں کا بوسہ لے کر ہاتھ باندہے کھڑا رہ جاتا۔آزاد کے کمرے میں ہر چیز ایسے بکھری ہوٸی رہتی جیسے زمیں پہ درختوں سے گرے ہوٸے خزاں رسیدہ خشک پتے۔آزاد کے ذہنی حالت سب کو مشکوک معلوم ہوتی تھی لیکن جب وہ بولتا تھا تو بڑے بڑے دانإ  اس کے سامنے دنگ رہ جاتے۔آزاد جب چھوٹا تھا تب اس کی ذہنی حالت کو نارمل نہ سمجھتے ہوٸے اس کے علاج کےلٸے مختلف معالجوں سے رجوع کیا گیا مگر سب نے آزاد کو ہر بیماری سے محفوظ قرار دیا تھا۔

آزاد لوگوں سے اتنی بات نھیں کرتا تھا جتنا وہ خود سے مخاطب ہوتا تھا۔ رات اتنی اندہیری کیوں ہوا کرتی ہے؟ دن روشنی کی علامت کیوں ہے!؟ سورج رات کو طلوع کیوں نھیں ہوتا!؟ چاند دن کو کیوں نھیں چمکتا!؟ کانٹے جب گلوں کے ساتھ پلتے پنپتے ہیں تو ان کی طرح خوشبودار کیوں نھیں ہوتے!؟ خاموشی میں بے تحاشا شور کیوں رہتا ہے اور آوازوں میں اتنی خاموشی کیوں ہوتی ہے کہ اپنی دڑکن تک کی آواز سناٸی نھیں دیتی !؟  ہواٸیں آسماں سے کونسا پیغام لاتی ہیں اور خزاٶں کی پیڑوں سے کونسی دشمنی ہے کہ وہ اس کے پتوں کو اس کی کوکھ سے الگ کردیتی ہیں!؟ لہریں جب کناروں کو چوم کر واپس پلٹ کر سمندر کے سینے میں سما جاتی ہیں تو کناروں پہ کیا گذرتی ہے!؟

وہ ایک ایسا وجود تھا جس سے ہر ایک بیزار بیزار رہتا تھا۔ سب کےلٸے وہ ایک ناقابل برداشت بندہ تھا۔مگر کوئی  تھا جو اس کو چاہتا تھا۔ اور وہ پروین تھی۔ اور پروین کی آزاد سے انسیت دیکھ کر آزاد کی ماں کو ایک امید ہو چلی تھی کہ اس کا بیٹا پروین کے پیار کی قوت سے جلد ہی ایک نارمل انسان بن جاٸے گا کیونکہ محبت وہ کچھ کر جانے کی طاقت رکھتی ہے ناممکن سا لگتا ہے۔ کیونکہ جہاں دماغ کے دروازے بند ہوجاتے ہیں  وہاں دل کا دریچہ کھلتا ہے اور ایک خوشگوار جھونکا نٸی زندگی کی نوید  بن کر آتا ہے۔  اگرچہ پروین آزاد کی توجہ حاصل کرنے میں اب تک کامیاب نھیں ہوٸی تھی لیکن اس کو آزاد کی ماں کی سپورٹ ضرور حاصل تھی۔ آزاد گوکہ پروین کے ساتھ پیار سے پیش نھیں آتا تھا لیکن پروین نے امید کا دامن نھیں چھوڑا تھا۔ جب اس نے آزاد سے محبت کا اظھار کر کے زندگی ساتھ گذارنے کی بات کی تھی تب آزاد نے اس کو ایسی دلیلیں دیتے ہوٸے انکار کیا تھا کہ محبت ایک خوشبو ہے، ایسی خوشبو جو ہر پھول کی مہک سے کٸی ہزار گنا پیاری ہے اور خوشبو کو قید نھیں کیا جاتا جبکہ شادی ایک قید ہے پابندی ہے اس لئے  وہ کبھی  نھیں چاہے گا محبت کی خوشبو کو شادی نام کی شیشے میں قید کرے۔

لیکن پروین نے بھی تھیہ کرلیا تھا کہ وہ آزاد کو ہی جیون ساتھی بناکر اس کی بیترتیب زندگی کو ترتیب دے کے رہے گی۔گوکہ آزاد انتہائی  درجے کا ضدی واقع ہوا تھا مگر وہ اپنی ماں کی حکم عدولی کرنے والا نہ تھا۔ اسی لٸے آزاد کی ماں کو پختہ یقیں تھا کہ وہ آزاد کو پروین سے شادی کے لئےضرور رضامند کرلے گی۔

پروین کے اس فیصلے پہ اس کے گھر کا کوٸی بھی فرد راضی نھیں تھا کہ وہ بہت بڑی بیوقوفی کر کے ایسے شخص کے ساتھ زندگی گذارنے جا رہی ہے جو مکمل طور پہ ایک الجھا ہوا وجود تھا۔ اور یہ بلکل ایک خودکشی تھی جو پروین کرنے جا رہی تھی .پروین سے شادی کے بعد بھی آزاد رتی برابر بھی نھیں بدلا۔ وہ شادی کے دوسرے دن ہی اپنے آزاد مزاج کے مطابق کسی کو کچھ بھی بتاٸے بنا کہیں چلا گیا۔

اس کے جانے بعد پروین نے دن رات ایک کرکے بڑی محنت اور محبت سے کمرے کی ایک ایک معمولی سے معمولی چیز کو بھی سلیقے ور ترتیب  سے سیٹ کرکے کمرہ مکمل طور نکھار دیا۔ آزاد کےسارے کپڑے استری کر کے الماری میں ٹانگ دئیے ۔ اس نے آزاد کی ہر ایک چیز کو ترتیب اور تہذيب سے رکھا اور آزاد کے واپس آنے کا انتظار کرنے لگی۔

چند دن بعد اچانک آزاد واپس آیا تو اس کی آنکھیں رت جگوں کے باعث لال تھیں۔ بال بکھرے ہوٸے کپڑوں اور جوتوں کی حالت غیر تھی اور لبوں پہ گہری خاموشی۔

آزاد جب اپنے کمرے میں داخل ہوا تو اتنی ترتیب دیکھ کر اس کو پہلی نظر میں یوں لگا جیسے وہ کسی اور کے کمرے میں آگیا ہے۔ پروین نے آگے بڑہتے ہوٸے اس کے گلے میں اپنی نرم بانھوں کا ہار ڈالا۔ اور بتایا کہ کیسے اس نے محبت سے اس کی ہر چیز کو سلیقے اور ترتیب سے رکھا ہے۔ اور اس کی زندگی میں اب کوٸی بھی بے ترتیبی باقی نھیں رہی۔آزاد اداس اور ویاکل آنکھوں سے کمرے کو دیکھنے لگا۔ پروین کے چھرے پہ اطعمنان والی مسکراہٹ تھی۔ آزاد جیسے سکتے میں آگیا تھا۔ اور پروین اس کے چھرے میں خوشی کے آثار تلاش کر رہی تھی جو اسے نظر ہی نھیں آ رہے تھے۔

ایک دم سے آزاد نے پورے کمرے میں بوکھلاہٹ سے ادہر ادہر دوڑنا شروع کیا۔ اور پورے کمرے کے اندر جنونی انداز میں کچھ ڈہونڈنے لگا۔ پروین پریشان ہوگٸی اور اس نے آگے بڑھ کر اسے کو بازو سے پکڑا۔

´ آزاد ۔۔آزاد۔۔ کیا ہوا ہے۔۔تم کیا تلاش کر رہے ہو ۔۔ مجھے بتاٶ میں تمھیں وہ چیز ڈہونڈ کر دیتی ہوں۔ تم آرام سے بیٹھو ، میں نے تمہاری ہر چیز بڑی ترتیب سے رکھی ہے۔ مجھے بتاٶ تمھیں کیا چاہٸے تم کیا ڈہونڈ رہے ہو۔!؟`

آزاد اس کو اداس، اور خالی آنکھوں سے دیکھنے لگتا ہے۔ اور پھر نیچے زمین پہ بیٹھ کر مخاطب ہوا۔

´تم ڈہونڈ کے دو گی مجھے۔!؟`

´ ہاں آزاد میں ڈہونڈ کر دوں گی۔`

´گم ہی تم نے کی ہے تو تم کیسے ڈہونڈ کر دو گی۔!؟`

´ نھیں آزاد میں نے تمہاری کوٸی بھی چیز گم نھیں کی ، تم سے جڑا ہوا ایک ایک تنکا تک میں نے سنبھال کر رکھا ہے۔ ترتیب سے رکھا ہے `۔آزاد کی کھوئی کھوئی نظریں کمرے کا جاٸزہ لینے لگتی ہیں۔

´ پروین تم نے بے ترتیبی گم کردی ہے۔ ۔۔اب وہ میں کہاں تلاش کروں۔۔ اب سے ترتیب دیٸے ہوٸے کمرے میں میرا دم گھٹ رہا ہے۔۔۔پروین۔۔۔پروین یہ تم نے کیا کردیا۔۔!!!`

پروین اسے سمجھانے لگتی ہے۔

´ آزاد تمھیں تو خوش ہونا چاہٸے۔ یہ ترتیب کتنی دلکش ہے۔ سلیقے سے رکھی ہوئی  ہر چیز کتنی خوبصورت لگ رہی ہے۔ تم بیٹھو۔۔۔آرام سے اوپر بیڈ پر بیٹھو میں تمھارے لٸے چاٸے بناکر لاتی ہوں۔`

پروین چائے  بنانے چلی جاتی ہے۔

آزاد کی بیچینی بڑہنے لگتی ہے۔ سانسیں اکھڑنے لگتی ہیں۔ اس کے اندر  کا آزاد پنچھی پنجرے سے باہر نکلنے کےلٸے پھڑپھڑانے لگتا ہے۔ ترتیب دیا ہوا کمرہ اس کی سانسوں کا تسلسل توڑنے لگتا ہے۔ وہ اٹھ کھڑے ہونے کی کوشش کرتا ہے تاکہ کمرے کی ساری چیزیں پھر سے بکھیر کے اسے پہلے سے زیادہ بے ترتیب کردے مگر اس سے پہلے ہی اس کی بیچین روح اس کے جسم سے آزاد ہوجاتی ہے اور وہ ساکن بت زمیں پہ پڑا رہ جاتا ہے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...