Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نقش فریادی اکتوبر تا دسمبر 2022 > کوزہ گر ۔۔۔اور شہر ِ اوہام

نقش فریادی اکتوبر تا دسمبر 2022 |
پنجاب لٹریری فورم
نقش فریادی اکتوبر تا دسمبر 2022

کوزہ گر ۔۔۔اور شہر ِ اوہام
Authors

ARI Id

1695781004291_56118402

Access

Open/Free Access

کوزہ گر ۔۔۔اور شہر ِ اوہام

عدنان ظفر

ریل کی پٹڑیوں کے پارمضافات میں گاؤں آبادتھا۔ ہر طرف ایک عجیب سی چیختی ہوئی خاموشی تھی۔ راستوں پہ ہر طرف کیچڑ، بارش کا پانی نہ جانے کب سےٹھہرا ہو ا تھا، اور اس  گدلے پانی کے کناروں پر جمی ہوئی  کائی  ماحول کو اور زیاہ ہولناک  بنا رہی تھی۔ چھوٹے چھوٹے مینڈک تیزی سے پھدکتے ادھر سے ادھر جاتے اور ٹروں ٹروں کا راگ آلاپتے اس بے جان خاموشی کو چڑہا رہےتھے۔فیروز ایک کوزہ گر تھا ، جو اسی بستی میں ایک  جھونپڑی  میں محض ٹھنڈی مٹی کے ڈھیر کے سوا کچھ بھی نہ تھا، اور اس نے  برسوں سے کوزے بنانے چھوڑ دیے تھے۔اس کی جھونپڑی میں اشیائے ضروریہ کی کمی اس حد تک تھی کہ جیسے  فالج زدہ  جسم میں حرکت کی کمی ہوتی ہے۔

پس ِ پردہ۔۔۔۔۔۔۔آٹوگراف

اہلِ شہادت ، اہل ِ محسنین  اور اہلِ جمال۔۔۔۔۔۔۔!

افسوس کہ کچھ باقی نا رہا ،          ۔۔۔۔۔۔۔۔سوائے آٹو گراف البم۔۔۔!

قحط الرجال ارزاں،

مردم شماری عروج پکڑ گئی، مردم شناسی ناپید۔

لوحِ ایام پہ سفرِ ِِنصیب لکھ دیا گیا ، مگر آوازِ دوست قحط الرجال کی مانند حرفِ شوق ٹھہری ۔آبِ گم کی تلاش کسی زرگذشت کے راہ کا نشان بن گئی اور شامِ شیرِ یاراں کےخیالو ں کا مدفن بنی۔لیکن آٹو گراف پانے کی خواہش ہنوذ جاویداں اور آٹو گراف البم ابھی خریدا ہی نہیں۔

اسے بچپن ہی سے مٹی سے لگاؤ تھا۔وہ گِل و لا سے ایسے مجہور کوزے بنانا چاہتا تھا ،جو نہ صرف حقیقت سے لبریز ہوں بلکہ ان میں انسانوں کی طرح کی وہ عادتیں بھی پائی جائیں جس سے  سزا اور جزا کا مرتکب ہوا جاتا ہے۔وہ  اپنے سیال کوزوں کی جانب بڑھنا چاہتا تھا، جو اسے چیخ چیخ کر پکارتے تھے کہ اے ابنِ  آدم ! توں چراغ آفریدم (چراغ کا تخلیق کار) ہے ، مگر کبھی تخلیق کے عمل سے گزری ،تخلیق شدہ مخلوق کی بے چینی سے واقف ہوا؟ وہ جو کوزے تم نے بنائے ہیں کیا خبر ،ان کوزوں میں بپھرتی اورلرزتی ہوئی بے چینی اس احساس سے تجھے امر کر دے کہ جس خیال سے تو واقف ہے ۔مگر  !  تو بھی تو معاشی  بے کسی کا جکڑا ہوا انسان ہی  ہے۔ اچانک سے ایک صراحی دار گردن والے کوزے کی گہرائی سے گرج دار صدا بلند ہوئی۔ اے کوزہ گر! اے  میرے محسن ! اے میرے تخلیق کار ، سن !  ذرا غور سے سن !  یہ جو میں ہوں ، وہ تو ہے، اور جو تو ہے ، وہی تو میں ہوں، ہاں وہی میں، جس کی بازگزشت کہیں  تیرے اندر  کے نہاں خانوں میں بسی ہوئی تھی۔ کوزہ گر چونک کر اپنی ساری تخلیقات پہ نظر دوڑاتا ہے۔ ایک ادھیڑ عمر، بوسیدہ سےآدمی کا مجسمہ ، خود سے ہم کلام ہوکر  یہ کہتا ہے، کہ بڑے بڑے محلات میں رہنے والے  مفلس ذہن کے بوسیدہ لوگ ، جن  پر زندگی پنی ساری خوبصورتیوں  اور رعنایوں کے ساتھ ظہور پذیر ہوتی ہے ، جن کی خاطر وقت دوڑتا بھی ہے اور رک بھی جاتا ہے۔   وہ ۔۔۔۔! وہ لوگ ، مگر خالی ۔۔بوسیدہ اور ریت کا ڈھیر ہی تو ہیں۔  جیسے کہ میں۔

اچانک ، پھر قرب  و جوار سے موہنجوڈارو کےآثار والی تہذیب کی خاتون کا کوزہ گویاہوا۔ہوس کے پجاری، ابنِ آدم ! بنتِ حوا کی عصمت کو ریزہ ریزہ تو کرتے ہیں، مگر زچگی کے نو ماہ کے اس قرب ناک دور کے کرب سے واقف نہیں۔ وہ دور بنتِ حوا کے لیے کربناک ہونے کے ساتھ ساتھ خوشی کا لبادہ اوڑھے  محوِ رقصاں ہوتا ہے ،کہ پھر کسی مائی کے ہاں لال ہونے والا ہے ! اور یہی مائی کا لال پھر کسی مائی کا دامن اور ستر  دونوں لال کرنے سے نہ کترائے گا، چاہے وہ کسی سڑک کے کنارے ملے، ہسپتال کے بستر پر، یا پھر سکول ،کالج، یونیورسٹی میں یا پھر گلی میں کھیلتی ہوئی کسی بچی کی صورت۔شمال مشرقی جہت میں موجود سرکار کے اداروں کا ایک کمال اور خوبصورت جہاں آباد تھا ۔ وہاں سے  ایک صدا بلند ہوتی ہے اورایک  دفتر کا کلرک اپنی کرسی پر بمعہ میز اور فائل  کے،  ہاتھ میں قلم لیے اپنے کام میں مشغول دکھائی دے رہا ہے۔ یقینا ً  اس فائل کے نیچے مائع  معیشت کے پہیے نہ لگےہوتے تو نہ ہاتھ میں قلم ہوتا اور نہ ہی یہ موصوف مشغول ِ عمل دکھائی دیتے۔ البتہ ساتھ والی میز پہ بیٹھے ایک اور صاحب سگریٹ کے کش  کے ساتھ چائے کے سپ لے رہے ہیں۔ ادھر دور ہسپتال میں ایمرجنسی وارڈ کے حاضر سروس با ریش ڈاکٹر صاحب رات کی ڈیوٹی پہ اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں ،  کمرے کو کھلا چھوڑا ہوا ہے اور کرسی پربراجمان ہیں اور ٹانگ پہ ٹانگ چڑھائے خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے ہیں، اور مریض قطار اندر قطار منتظر ہیں کہ قبلہ طبیبِ وقت کی کب اپنی  نیند میں خلل محسوس نہ فرمائیں اور مریضِ حالات کا معائنہ فرمائیں۔ اجی معائنہ کاہے فرماویں گے قبلہ، بس حکمِ مجاوری صادر کرتے ہیں کہ شام میں  میرے نجی کلینک  آنا باقی علاج وہیں ہو گا۔

کوزہ گرایک  با کمال فنکار اور ماہر کوزہ گر تھا، کہ حضرت نے جیسے پورے شہر کا ہی نقشہ کھینچ دیا اور زندگی کے تمام شعبہ ہائے جات کو اس  ایک مصنوعی انسانوں کے شہرمیں سمو دیا۔ایک طرف، شہر کی عالی شان  کالج کی عمارت میں  ایک پروفیسر صاحب  ،ماشا اللہ سے  جن کی توند حسبِ توفیق باہر تھی،  اپنے ایک کولیگ سے لجائی ہوئی نظر اور صورت سے درخواست گو تھے کہ یار آج  میرا لیکچر ذرا آپ لے لیں ۔ ان سے استفسار کیا کہ ارے بھئ ، کیوں بھیا؟  کاہے؟ تو قبلہ یوں بے ساختہ  فر مانے لگے کہ یار شام کو اکیڈمی میں لیکچر دینا ہے ، وہ لیکچر تیا ر کر لوں! یہ سن کر دوسرے پروفیسر صاحب دم بخود ہو گئے اور پتھر ہو گئے ۔بعد ازاں نظر دوڑائی تو کسی کونے میں  حضرت ِ انجینیر بھی اپنے کام میں مشغول تھے ،  اور اپنے ماتحت کو بتا رہے تھے کہ کون سا میڑیل استعمال کرنا   ہے اور کون سا نہیں ۔ عمارت کی تعمیر  میں جس جس کونے سے وہ مال  کھدیڑ سکتے تھے  ، ان  تمام کونوں کو  انھوں نے کھدیڑا۔

یہ سارا ماحول اس شہر کا ان پڑھ طبقہ بھی دیکھ رہا تھا ۔ کوزہ گر نے مختلف بازار بھی ترتیب دیے تھے۔ ان بازاروں میں سب کچھ تو تھا سوائے خلوص کے   ، ہر چیز ملاوٹ شدہ، ہر چیز میں ڈنڈی، ہر چیز میں نا جائز منافع خوری کا فن ، ناقص  ، غیر معیاری اور زائد المعیاد چیزوں کی بھرمار۔ گویا اس شہر کو نہ پڑھے لکھے طبقے نے سنبھالا، نہ ان پڑھ نے، نہ ہنر مند نے نہ ہی کسی نابغہ روزگار نے  ۔ چوک میں بیٹھے ایک بزر گ کا مجسمہ یہ ساری کارگزاری اپنے گرد جمع مجمعے کو سنا رہے تھے۔ان کی شخصیت پر اثر تھی، چہرے پہ وجاہت اور پاکیزگی کے ساتھ نور ٹپکتا تھا۔ ان کے پاس بیٹھے مجمع میں موجود بے روزگاروں کے ساتھ ساتھ مثالی لوگوں کا کٹھ تھا جو ایک  مثالی معاشرے کی بنیا د رکھنے پر مصر تھے۔ ارسطو کو  اپنے استاد افلاطون کی محبت  بھی سچ بولنے سے نہ روک سکی، ہر وہ انسان جو  ڈر کی حد سے آگے نکل کر سوچ رہا تھا، وہی آگے جا رہا تھا۔ مگر موجودہ دور کے انسان میں وہ سکت نہیں ۔

 اس لیے کوزہ گر نے وہ کوزے بنائے، جو ہیں تو اس معاشرے کے باشندے اور اس معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں۔ مگر وہ سرمایہ دارانہ نظام کے گرویدہ ہیں۔اس شہر کے سارے مجسموں کے رویوں کو مجسمہ ساز نے بہت خوبصورت پیرائے میں مجسمہ  سازی کے عجائب گھر میں پیش کیا۔ سب لوگ اپنی اپنی سوچ میں ڈوبے ہیں اور اگر رویے ایسے ہوں  کہ سب،نفسہی ، نفسہی کا ورد کرنے والے اس کھوکھلے شہر  میں سب دوسروں کے مسائل پہ ہنستے ہوئے کبھی یہ نہیں سوچ سکتے کہ ہوا جب چلتی ہے تو آشیانے کسی کے نہیں بچتے ۔  مجسمہ ساز نے  انسانوں کو سبق دینے کے لیے ایک چھوٹا سا شہر جانوروں کا بھی بسایا اور اس میں ایک گھر میں موجود ایک چھوٹے سے خاندان کے جانوروں کی کہانی دکھائی ہے۔ اس خاندان میں ایک میاں اور ایک بیوی رہتے ہیں۔ بیوی اپنے میاں سے لڑ کر کہہ رہی ہے کہ آج میں نے گھر میں ایک چوہا دیکھا ہے تو آپ ایک کڑکی خرید لائیں تا کہ اس چوہے سے نجات پائی جائے۔ چنانچہ میاں اگلے دن کڑکی لے آتا ہے۔ اس گھر میں میاں بیوی کے علاوہ ایک عدد بکری، مرغی اور کبوتر بھی رہتے تھے، جن میں قبضہ مافیا چوہا بھی گھس آیا تھا۔ چوہے کو جب پتہ چلا کہ صاحبِ خانہ ایک کڑکی گھر میں لائے ہیں تو وہ باری باری بکری، مرغی  اور کبوتر کے پاس جاتا ہے، اور یہ کارستانی سناتا ہے کہ گھر میں کڑکی آ گئی ہے تو بچ کے رہنا، مگر تینوں تمسخر سے اسے مذاق کا نشانہ بنا دیتے ہیں کہ یہ ہمار ا مسئلہ نہیں تمھارا مسئلہ ہے۔ چوہا  شرمندہ ہو کر واپس چلا گیا۔  ایک دن کڑکی میں سانپ پھنس گیا اور خاتونِ خانہ نے بغیر دیکھے کڑکی کو اٹھا نا چاہا کیونکہ اسے  معلوم نہیں تھا کہ اس میں سانپ پھنسا ہے چوہا نہیں، چنانچہ سانپ نے اسے ڈس لیا۔

طبیب کو لایا گیا تو طبیب نے دوا کے ساتھ رائے دی کہ کبوتر کی ہڈی کو پیس کر دوائی بنا کر زخم پر لگائی جائے تو افاقہ ہو گا، سو سب سے پہلے کبوتر کی بلی دی گئی، طبیب نے یہ بھی کہا تھا کہ مزید طبعیت خراب ہونے پر مرغی کی یخنی پلائی جائے، لہذا مرغی کو بھی زبح کر دیا گیا ۔مگر خاتونِ خانہ کی طبعیت نہ سنبھل سکی اور وہ چل بسیں۔لہذا رسمِ قل خانی کے لیے بکری کو بھی زبح کرنا پڑ گیا۔ اب مرغی، کبوتر اور بکری تو نہ رہے البتہ چوہا ویسے ہی دندناتا پھر رہا تھا۔ لیکن اگر وہ شاید چوہے کی بات کو سمجھ جاتے اور اس کی دور اندیشی کو خاطر میں لاتے تو شاید حالات کچھ اور ہوتے  ۔ کوزرہ گر نے اس کہانی کو اپنے مہجور کوزوں کی مدد سے دکھایا اور انسانوں کا پیغا م دیا ۔ اب یہ ان کی مرضی جو مجسموں کے رویوں سے سمجھیں یا پھر قربانی دے کر ۔۔۔۔البتہ۔۔۔۔۔

فیروز ، فیروز،  سلمیٰ نے دبی ہوئی آواز میں فیروز کو پکارنا چاہا۔  مگر فیروز اپنی بے بسی کا تماشا بنا چپکےسے روتا ہوا مٹی کے ڈھیر کی مانند پڑا رہا۔ادھر سے ریل گاڑی کی گونجتی ہوئی صدا ، پٹڑیوں کی لرزاہٹ اور پرندوں کی چہچہاہٹ نے ماحول کو اور زیادہ ڈراؤنا بنا دیا۔سلمیٰ بالآخر اس  کی جھونپڑی میں گھس جاتی ہے اور فیروز کو جھنجھوڑ کر اٹھاتی ہے۔۔۔۔۔مگر ۔۔۔۔فیروز اپنے مہجوور کوزوں کی طرح مٹی کے ڈھیر کی مانندٹھنڈا ہوا پڑا تھا اور درد کےفاصلے مختصر کر چکا تھا۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...