Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نقش فریادی اکتوبر تا دسمبر 2022 > زرد آدمی کی سیاہ کہانی

نقش فریادی اکتوبر تا دسمبر 2022 |
پنجاب لٹریری فورم
نقش فریادی اکتوبر تا دسمبر 2022

زرد آدمی کی سیاہ کہانی
Authors

ARI Id

1695781004291_56118403

Access

Open/Free Access

زرد آدمی کی سیاہ کہانی

    شاکر انور

ہر کوئی اسے مردہ سمجھتا تھا،حالاں کہ وہ مردہ نہیں تھا ۔مردہ ہونے کے لیے مرنا ضروری ہوتا ہے جیسے رات کہنے کیلئے رات کا ہونا،مسکرانے کیلئے خوشی اور رونے کیلئے آنسو کا ہونا۔وہ تو زندہ تھا مگر زندوں میں مردے جیسا زندہ ۔خواہشات جذبات سے یکسر عاری ۔بس صرف دھڑکنوں کو گنتا ہوا ایک انسان، زدر چہرے والا،آںکھیں غار کے اندر بجھتی ٹمٹماتی ہوئ، لمبا قد آور بڑے سر والا آدمی،وہ اب چالیس سال کا ہوگیا تھا،اسے خود حیرت ہوتی کہ وہ چالیس کا کیسے ہو گیا اسے تو بچپن میں ہی مرجانا تھاکسی نے اس کے بارے میں کہا تھا کہ یہ مشکل سے دس سال۔تک زندہ رہیگا اسکے کان بہت چھوٹے ہیں دس سال بعد وہ ہر روز مرجاتا یآ خود کو مرتا محسوس کرتامگر وہ زندہ رہا۔دس سال بعد وہ دس سال اور بھی زندہ رہا۔اب وہ بیس سال کا ہوگیا اور زندہ رہا،پھر بیس سال مزید اور اب وہ چالیس سال کا ہوگیا۔اور زندہ رہا۔ہر رات سونے سے پہلے وہ اپنے کان چھو کر دیکھتامگر وہ بڑے نہیں ہوئے ۔اسے نہ جانے کیوں یقین تھاجس دن اسکے کان بڑے ہوںگے وہ اسکی زندگی کا آخری دن ہوگا وہ اپنی زندگی کوبس بلاوجہ  کھینچ رہا تھا بلکہ زندگی اسے کھینچ رہی  تھی   ۔اسے بہت ساری باتیں ناگوار لگتی تھیں،۔اسےاسکول جانا پسند نہیں تھا وہاں ماسٹر بدرو تھے جو اس کو کن بچا کہکر  چھیڑتےاور بلاوجہ اس کے کان کھینچتے اور اسکی پٹائ کرتے اسکی پٹائ  کی کوئ وجہ نہیں  ہوتی لیکن پھر بھی وہ کرتے۔ایک دن غصے میں آکر اس نے بورڈ پر ماسٹر  بدرو کی جگہ بدروح لکھ دیا ۔  اس نے انکے گھر اور اسکول  کی۔دیواروں پر  بھی ماسٹر بدروح لکھ دیا تھا جو اسکی بھرپور پٹائی کی وجہ  بنی تھی  پھر اس نے اسکول  چھوڑ  دیا اوردلبرداشتہ ہوکر ،اپنا گاو ں ہمیشہ  کیلئے خیربادکر کےکراچی آگیا اسے  ۔یہ شہر عجیب سا لگا ۔ لوگ بھوکوں  کو کھانا  بھی کھلاتےاور چند پیسوں  کے عوض بے دردی سے گولی بھی مار تے ۔ اسنے ایک پرنٹنگ پریس میں کام شروع کر دیا۔وہ ایک معمولی آدمی تھا۔معمولی سے بھی زیادہ معمولی آدمی۔ جسکی خود اپنی نظروں میں کوئی حیثیت نہیں تھی۔اسکا کوئ دوست۔نہیں تھا۔اسکی شخصیت میں کبھی کوئی بات نہیں رہی۔وہ گرمی بلکل پسند نہیں کرتا جیسے بہت سارے لوگ پسند نہیں کرتے۔وہ اندھیرے اور سمندر سے ڈرتا جیسے بہت سارے لوگ ڈرتے ہیں اور کچھ نہیں بھی ڈرتے۔اسے نیپال کو نیپال کہنا ا چھا لگتا لیکن کلکتہ کو کولکتہ کہنا برا لگتا۔اسے اس بات کی حیرت ہوتی کہ کوے اور فلپائنی ایک دوسرے کو کیسے پہچان لیتے ہیں وہ ہمیشہ اکیلا رہتا۔وہ صبح سیر کرنے جانا چاہتا مگر کبھی جا نہیں سکاجیسے بہت سارے لوگ نہیں جاتے مگر کچھ لوگ چلے بھی جاتے ہیں۔ اس نے کبھی نہیں سوچا کہ تتلی اتنی خوبصورت کیوں ہوتی ہے ،اور پھولوں میں رنگ اور خوشبو کہاں سے آتی ہے  ،سمندر میں موجیں کیوں پیدا ہوتی ہیں اور چاندنی میں گاؤں کیوں خوبصورت لگتا ہے۔

اسنے پہلی بار اپنے دل میں اپنی خالہ زاد بہن طاہرہ کیلئے محبت جیسی چیز محسوس کی۔وہ اس سے شادی کا بھی خواہش مند ہوامگر اسکے خالو نےاسکے چھوٹے کان کی وجہ سے انکار کردیا اسے اس انکار پر زیادہ افسوس نہیں ہوا۔اسے  افسوس ہوا اور بس۔پھر طاہرہ کی شادی ہوگئی کچھ دنوں بعد اسکے شوہر کا انتقال ہوگیا حالانکہ اسکے کان بڑے تھے۔وہ اکثر طاہرہ کو یاد کرتا طاہرہ سے زیادہ اسکے آنسو وں کو جو اس نے اس دن بہائے تھےجب ماسٹر بدروح نے اسکی  پٹائ کی تھی۔ وہ بہت رویا تھا اور وہ بھی بہت روئ ۔پھر وہ چپ ہوگیا مگر وہ روتی رہی ۔وہ پھر رونے لگاتھا۔

اسے ہیجڑوں سے ہمیشہ خوف آتا۔اسے بہت ساری چیزوں سے خوف آتا جیسے بہت سارے لوگوں کوبہت ساری چیزوں سے اتامگر کچھ لوگوں کو نہیں بھی اتا۔وہ رات کے اندھیرے کے آخری پہر میں چمگادڑ کے پھڑپھڑانے سے نہیں ڈرتااور کتوں کے بھونکنے سے بھی نہیں لیکن وہ سردیوں میں نہانے سے ڈرتا اور کالی بلی سے بھی ڈرتا۔اسے کویٹہ عنابی ہوٹل کی کڑک چائے پسند تھی۔ اسے غصہ بہت کم آتا اور جب آتا تو جاتا نہیں اور جب جاتا تو پھر چلا جاتا۔وہ اپنی بےبسی اور کمزوری کو اندر ہی اندر چھپا کر غصے کو پالتا رہتا۔اسےمحسوس ہوتا جیسے اسکے جسم میں کوئ انگارہ دہک رہا ہو کبھی تیز کبھی مدھم۔وہ بہت ساری باتیں نہیں جانتا جیسے بہت سارے لوگ نہیں جانتے۔اسے نہیں معلوم کہ اکسپریسو کافی کا موجد کون ہے اور مزہ کیسا ہوتا ہے۔ اس نے کافی کا نام سنا تھا اور بس

۔وہ اپنے کام میں ماہر تھا پرنٹنگ   کے دونوں مشینوں پر مہارت سے وہ کام کرتا۔اسکا سیٹھ اکثر خوش ہوکر اسے گالی دیتا اور برگر کھلاتا اور وہ ساری گالیاں مسجد کے نکڑ پر بیٹھے دایاں ہاتھ کٹے فقیر ہر الٹ دیتا

بھنچ۔۔۔کام کیوں نہیں کرنا سالا ہٹا کٹا ہڈ حرام  وہ۔اسے ایک روپیہ اور ایک گالی دیتا اور آگے بڑھ جاتا۔وہ کام کے بعد کویٹہ عنابی ہوٹل سے دودھ پتی چائے پی کر گھر جاتا۔راث کو سونے سے پہلے چمگادڑ کے پھڑپھڑانے اور کتوں کے بھونکنے کا انتظار کرتا پھر پھڑپھڑانے اور بھونکنے کی آواز کے بعد وہ سو جاتا۔

آج اسے تنخواہ کے ساتھ سیٹھ نے بونس بھی دیا ۔وہ۔بہت خوش تھا۔اسے اچانک ہی ایک انجانی سی خوشی کا احساس ہوا۔کیوں اور کیسے ،اسے نہیں معلوم۔اس نے لٹن پان والےکی دکان سے ایک میٹھا پان منہ میں دباکر ایک سگریٹ سلگا ئ اور بس اسٹینڈ کی طرف بڑھا۔اچانک رینجر کے آفس سے قبل ایک جہاز اس کے اوپر سے گزرا۔وہ  اپنے دونوں ہاتھوں کو سر پر رکھ کر کھڑا ہوگیا۔وہ ڈر گیا ۔وہ ہمیشہ جہاز سے ڈرتا۔اسے نہیں معلوم کہ جہاز کا موجد رایٹ برادرز تھا یا کوئی اور۔اسے تو بس جہاز سے ڈر لگتا جیسے بہت سارے لوگوں کو لگتا ہے اور کچھ لوگوں کو نہیں بھی۔اسٹاپ سے پہلے دو موٹر سائیکل سواروں نے اسے روکاموبائل اور پیسے نکال۔ اسکے کنپٹی پر پستول تھا ۔ تو کہتا تھا کہ ہڈ حرام  کام کیوں نہیں کرتا  ہے ۔اج سے کام شروع کر دیا۔دو میں سے دوسرا وہی دایاں ہاتھ کٹا فقیر تھاجسے وہ ایک روپیہ اور ایک گالی دیتا تھا موبائل نہیں ہے۔وہ بولا

جھوٹ بولتا ہے بھڑوے ،ایک زور دار مکا اس کے منہ پر لگا اسے بھی غصہ آگیا لیکن وہ کمزور زرد انسان بےبسی میں کچھ نہیں کرسکا بس  اسکے منہ پر پان کی پیک پھینک دیابس وہ اتنا ہی کرسکتا تھا جو آس کے بس میں تھا ۔دوسرے ہی لمحے گولی چلی اور وہ زمین پر گر پڑا ۔وہ اپنی جیب کو پوری طاقت سے پکڑے تڑپتا رہا  کچھ دیر بعد ہی وہ مر گیا۔اسکے مرنے پر کوئ نہیں رویا۔کون روتا،کوئں۔رونے والا نہیں تھا.   کچھ لوگوں کے مرنے پر کوئ نہیں روتا ، کچھ روتے بھی ہیں کچھ نہیں بھی  جو روتے ہیں وہ بھی کچھ دنوں بعد مر جائے ہیں اور جو نہیں وہ بھی.اس نے اپنی جیب کو مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا مردے کی گرفت کااندازہ صرف  مردہ نہلانے والا ہی لگا سکتا ہے۔۔۔بڑی مشکلوں سے اسے الگ کیا گیا ۔جیب سے پیسے کی بجائے صرف ایک خط نکلا

پیاری طاہرہ۔اج میں بہت خوش ہوں لیکن اس خوشی نے مجھ کو خوفزدہ کردیا ہے۔میرے ساتھ ہمیشہ ا یسا ہی ہوتا ہے ۔خوشی راس نہیں آتی ۔ مجھے سیٹھ نے تنخواہ کے ساتھ بونس بھی دیا ہے ۔میرے پاس اب اتنے پیسے ہوگئےکہ بہ آسانی تم کو رخصت کراسکتا ہوں ۔پیسے سیٹھ کے پاس جمع کردیا ہے۔اگلے ماہ میں رخصتی کرانے آرہا ہوں میرا انتظار کرنا تمہارے ساتھ محبت اور چاہت کے لمحات گزار کر مجھے نئ زندگی مل جائے گی مجھے یقین ہے ۔میں زندہ رہنا چاہتا ہوں تمہارے لیے تمہارے نام کے ساتھ۔     ۔۔۔۔۔۔۔تم میرا ساتھ دوگی نا

آگے خون کے داغ سے الفاظ مٹ گئے تھے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...