Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نقش فریادی جنوری تا مارچ 2023 > ١۔ محمد الدین فوق کی ادبی خدمات

نقش فریادی جنوری تا مارچ 2023 |
پنجاب لٹریری فورم
نقش فریادی جنوری تا مارچ 2023

١۔ محمد الدین فوق کی ادبی خدمات
Authors

ARI Id

1695781782714_56118425

Access

Open/Free Access

محمد الدین فوق کی ادبی خدمات

ڈاکٹر نصیر احمد اسد

محمد الدین فوق (۱۸۷۷ء) کوٹلی ہر نرائن سیالکوٹ پیدا ہوئے۔ فوقؔ تخلص کرتے تھے۔ فوق بڑے ذہین تھے۔ طالب علمی کے زمانہ میں نظیر اکبر آبادی کی ایک مشہور نظم ‘‘کیا خوب سودا نقد ہے’ اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے’’ کا فارسی نظم میں ترجمہ کیا۔ فوق فطری شاعر تھے اور بچپن سے ہی موزوں طبع تھے۔ فوق نے ۱۸۹۲ء میں شعر کہنے شروع کئے۔ان کا ایک ایک شعر وطن(کشمیر) کی محبت اور اسلام کے درد میں ڈوبا ہوا ہے۔ فوق پہلے شاعر ہیں جنہوں نے مستقل طور پر مسلمانِ کشمیر کی ترجمانی کرتے ہوئے دنیا کو ان کی مظلومیت سے آگاہ کیا۔

آپ کی شاعری کا مقصد مسلمانوں کی اصلاح بھی تھا۔ اقبال نے ‘‘شکوہ’’ اور ‘‘جواب شکوہ’’ نظمیں لکھی ہیں۔ فوق نے بھی اسی طرح ‘‘بڈ شاہ کی روح سے خطاب’’ نظم میں کشمیریوں کی زبوں حالی کا اسی لہجہ میں رونا رویا ہے۔ فوق غزل میں داغ دہلوی اور قومی نظموں میں علامہ اقبال سے متاثر تھے۔ فوق کا شعری کلام ہندوستان کے معروف رسائل میں چھپتا رہا۔آپ کا پہلا شعری مجموعہ ‘‘کلامِ فوق’’ کے نام سے ۱۹۰۹ء میں شائع ہوا۔ اس مجموعے کے دو حصے ہیں۔ پہلے حصے میں ۱۸۹۵ء سے ۱۹۰۱ء تک کا کلام ہے اس حصے میں غزلیں زیادہ ہیں۔ دوسرا حصہ ۱۹۰۲ء سے ۱۹۰۹ء تک کے کلام پر محیط ہے۔ اس حصے میں نظموں کی تعداد بھی خاصی ہے۔ کلامِ فوق کا دوسرا ایڈیشن ۱۹۳۳ء میں شائع ہوا اس کی ضخامت ۱۴۰ صفحات سے بڑھ کر ۲۴۰ صفحات تک پہنچ گئی ہے۔ اس میں پروفیسر علم الدین کا مفصل دیباچہ بھی شامل ہے۔ فوق کا دوسرا شعری مجموعہ ‘‘نغمہ و گلزار’’ کے نام سے ۱۹۴۱ء میں شائع ہوا۔ اس کی ضخامت ۱۸۴ صفحات ہے اس کا دیباچہ مولانا عبد اﷲ قریشی نے لکھا ہے۔

اگر فوق کی شاعری کا مطالعہ کیا جائے تو راکھ کے ڈھیروں میں جذبات و تخیلات کی چنگاریاں دبی نظر آتی ہیں۔ فوق کی شاعری دھوم دھڑکے کی شاعری نہیں۔ آتشِ چنار کی دھیمی آنچ والی شاعری ہے جس میں قومی درد مندی اور اخلاقی آرزو مندی کی تاثیر گھلی ہوئی ہے۔ فوق سیاسی معاملات کو سماجی اور تاریخیپس منظر میں دیکھنے کے قائل تھے۔ فوری طور پر کسی واقعہ یا منظر سے متاثر ہو کر بھی شعر کہتے تھے مگر اس کے سیاق و سباق پر ان کی پوری نظر ہوتی تھی۔ موضوعات کی براہِ راست پیش کش کااسلوب ان کے ادبی اور شعری مزاج کا حصہ تھا۔ وہ جس موضوع پر چاہتے تھے لکھ لیتے تھے لیکن ان کے ہاں موضوعات کا تنوع نہیں کیونکہ انہوں نے خود کو کشمیر کیلئے وقف کر دیا تھا۔ انہوں نے ہر صنف سخن میں شاعری کی ہے۔ بحیثیت شاعر وہ اپنے آبائی وطن سے جس والہانہ پن کا مظاہرہ کرتے ہیں اس پر انہیں شاعرِ کشمیر کا خطاب دیا گیا۔ عبد اﷲ قریشی نے ‘‘شاعرِ کشمیر’’ کے نام سے ایک کتابچہ لکھا ہے۔ علامہ سیماب اکبر آبادی نے ‘‘شاعرِ کشمیر’’ کے نام سے ایک نظم لکھی جو فوق کے شعری مجموعے ‘‘نغمہ و گلزار’’ کے صفحہ ۳۰ پر موجود ہے۔اس نظم کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں

فوق صاحب ہیں جو میرے خواجہ تاش

خوش خیال و خوش مزاج و خوش معاش

پیرو شاگرد داغ دہلوی

زندہ اک تاریخ ہے کشمیر کی

والہانہ عشق ہے کشمیر سے

روح زخمی ہے وطن کے تیر سے

حضرتِ اقبال کے ہیں ہم نشیں

صاحب وجدان و عرفان و یقیں

فوق صاحب کی ہے سب پر فوقیت

درس و حکمت سے ہے ان کو اُنسیت

ان کی نظمیں نسخۂ اکسیر ہیں وہ  حقیقی شاعر کشمیر ہیں کشمیر کے علاوہ فوق نے اپنے دور کے بعض اہم واقعات کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ اپنے دور کے حالات سے متاثر ہو کر فوق نے ہنگامی نظمیں لکھی ہیں۔ ہنگامی اور سیاسی موضوعات پر لکھنے کے اعتبار سے مولانا حالی اور مولانا ظفر علی خاں ان کے پیش رو تھے فوق سیاسی اور ہنگامی شاعری کو دائمی قدر کی چیز نہ بنا سکے لیکن پھر بھی اس شاعری کی اپنی اہمیت و قدر موجود ہے۔ فوق کی نظم ‘‘اتحاد ثلاثہ اور دنیائے اسلام’’ ایسی شاعری کی ایک روشن مثال ہے۔۲۸ ستمبر ۱۹۱۱ء کو جب اٹلی نے ترکی کو اعلانِ جنگ دے کر دنیا کو متحیر و ششدر کر دیا تو ہندوستان کے مسلمانوں میں اضطراب پیدا ہوا۔ اسی اضطراب سے متاثر ہو کر عنوانِ بالا پر ایک نظم لکھی جس کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں

چھائی ہیں کالی گھٹائیں عالمِ اسلام پر

اس میں ایراں ہو’ مراکو ہو کہ ترکستان ہو

نوچ کھایا حرص یورپ نے ہمارے جسم کو

کیوں نہ وقفِ کا ہش و اندوہ دل اور جان ہو

اپنی کوتاہی سے پھر بڑھنے کو ہے دست دراز

اب بھی مسلم بچ رہیں قائم اگر ایمان ہو

جرمنی کو اے مثلث طاقت سچ سچ بتاؤ

آدمی ہو یا بہ شکل آدمی شیطان ہو

کیا ہوئے حفظ مساوات و اخوت کے اصول

کیا تمہیں آزادی و تہذیب کی پہچان ہو

فوق ہمارے قومی شعرا میں سے ایک بڑے قومی شاعر ہیں۔ ان کے اسلوب اور فکر و اظہار میں مولانا حالی’ اقبال’ شبلی اور ظفر کا رنگ نظر آتا ہے۔ قومی شاعری کے حوالے سے فوق کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں

اب کہاں قومی چمن میں وہ بہار

اختلاف رنگ و بو نے کیا کیا

اُدھر ہے جشن تاج کامیابی

اِدھر تقدیر کو تو رو رہا ہے

تجھے مردہ سمجھ کر کیوں نہ روئیں

زمانہ جاگ اٹھا تو سو رہا ہے

نظم کے ساتھ ساتھ فوق کے ہاں غزل میں بھی قومی اور ملی موضوعات بیان ہوئے ہیں۔ حالی اور اقبال نے بھی غزل میں اخلاقی اور قومی مضامین باندھے ہیں۔ فوق کی جدت یہ ہے کہ انہوں نے ایسی غزل کو باقاعدہ ‘‘قومی غزل’’ کا عنوان دیا ہے۔ ان کی ایک قومی غزل کے چند اشعار پیش کئے جاتے ہیں

ہے پھٹے کپڑوں میں پوشیدہ پریشانئ قوم

دل حیراں ہے آئینۂ حیرانئ قوم

لاج ہے پردۂ ناموس کی ستار کے ہاتھ

ننگ اسلام ہوئی جاتی ہے عریانئ قوم

کچھ نہیں اپنے بھلے اور برے کی پروا

کس قدر قابلِ افسوس ہے نادانئ قوم

کوئی حساس شاعر اپنے سماج اور معاشرے سے کٹ کر نہیں رہ سکتا۔ فوق کے یہاں سماجی اور معاشرتی مسائل جیسے موضوعات کی بڑی اہمیت ہے۔ انہوں نے کسانوں اور مزدوروں کیلئے متعدد نظمیں لکھی ہیں۔ اس حوالے سے اشعار ملاحظہ ہوں

مزدور کو خوش رکھنے سے ملتی ہیں دعائیں

نا خوش اسے رکھتا نہیں اچھا یہ قرینہ

اے صاحب سرمایہ نہیں یاد تجھے کیا

اس بارے میں کیا کہہ گئے سرکارِ مدینہ

مزدور کی جو مزدوری ہے فوراً وہ ادا کر

قبل اس کے کہ مزدور کا ہو خشک پسینہ

مزدوروں اور کسانوں کے ساتھ ساتھ فوق نے بد عنوانی اور رشوت کی علامت پٹواری کو بھی اپنے اشعار میں تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ فوق کے نزدیک رشوت لینا معاشرے کی رسم و رواج میں شامل ہے۔

پٹواری کے حوالے سے فوق کی نظم ‘‘منظوم رپورٹ’’ کے چند اشعار پیش کئے جاتے ہیں

یہ مسلم ہے کہ ایسا کوئی پٹواری نہیں!

‘‘ناس مشکہ’’ کی ازل سے جس کو بیماری نہیں

اور بیماری بھی پھر ایسی کہ جو ہے لا علاج

برص کی ممکن دوا ہے’ کوڑھ کا کیا ہو علاج

ان کی رشوت اب رواج و رسم کی صورت میں ہے

بڑھ کے تنخواہوں سے ان کو آمدن رشوت میں ہے

فوق کا کتابچہ ‘‘سکاؤٹوں کے گیت’’ بارہ گیتوں پر مشتمل ہے یہ گیت بچوں اور نوجوانوں میں احترامِ انسانیت اور حبِ وطن کے مقدس جذبات و احساسات پیدا کرتے ہیں۔ یہ گیت ۱۹۲۶ء میں لکھے گئے۔ چند اقتباسات ملاحظہ ہوں

کوئی کرتا نہیں شفقت نہ سہی

عیش دیتا نہیں دعوت نہ سہی

اہلِ دنیا میں مروت نہ سہی

نہ سہی ان کی عنایت نہ سہی

آؤ ہم اپنی مدد آپ کریں

کیوں پسند آئے ہمیں رسوائی

ہم پہ کیوں ہو اثرِ خودرائی

کیوں نہ قوت کی کریں یکجائی

ہم سب آپس میں ہیں بھائی بھائی

آؤ ہم اپنی مدد آپ کریں

فوق کی منظریہ نظمیں ان کے گہرے مشاہدے کی عکاسی کرتی ہیں۔ ان کی منظر نگاری قارئین کیلئے جاذب دل و نگاہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کی شاعری کا ہر منظر متحرک اور متنفس ہو کر ہمارے سامنے آ جاتا ہے۔ اس حوالے سے ان کی نظم ‘‘کشمیر کے ایک جنگل کا نظارہ’’ سے کچھ اشعار ملاحظہ کئے جا سکتے ہیں

جنگل میں زندگی کا کیا لطف آ رہا ہے

سبزہ ہر ایک جانب مخمل بچھارہا ہے

اے سر زمین حمرا رونق ہو کیوں نہ تجھ میں

خود باغبانِ قدرت تجھ کو سجا رہا ہے

ہے کوہ پر الاؤ یا ژونگ کی جھلک ہے

یا چرخ پر ستارہ یہ جھلملا رہا ہے

کیا لطف دے رہی ہے ابرِ کرم کی بوندیں

ہر برگ گل نکھر کر جوبن دکھا رہا ہے

فوق نے اپنی اصلاحی شاعری میں طنزیہ و مزاحیہ انداز سے بھرپور کام لیا ہے۔ اپنے گردو نواح کے ماحول کی سماجی اور معاشرتی بے اعتدالیوں کو تنقید کا نشانہ بنایاہے۔ فوق کا معاشرہ ایک کربناک صورتِ حال سے دوچار تھا۔ انہوں نے اپنے دور کے انسان کی بد اعمالیوں’ کوتاہیوں اور ناکامیوں کی نشاندہی بڑی خوبصورتی سے اپنی شاعری میں کی ہے۔ اس حوالے سے اشعار ملاحظہ ہوں

ایک وہ ہیں کہ جو اجداد کو دیتے ہیں فروغ

ایک ہم نام سلف کو جو مٹا دیتے ہیں

ایک وہ کرتے ہیں تاریکی میں پیدا تنویر

ایک ہم نور کو ظلمت میں چھپا دیتے ہیں ۱۷۲

فوق کی شاعری میں خالص مزاح کے نمونے بھی بکثرت ملتے ہیں

کہتے ہیں قصہ تراسنتے تو سنتے کس لئے

وہ کوئی افسانہ آرائشِ محفل نہ تھا

ایک عالم دیکھ کر حیران ہے

حور کے پردے میں تو انسان ہے

فکرِ دنیا ’ فکرِ دیں’ فکرِ مآل

کس مصیبت میں ہماری جان ہے

بھاگتا پھرتا ہوں آبادی سے میں

شاعری ہے یا کوئی خفقان ہے

فوق کی شاعری میں اخلاقی مضامین بھی بکثرت دیکھے جا سکتے ہیں۔ ایسی شاعری ان کی مقصدیت نوازی کا پرتو ہے۔ لہو و لعب’ شراب نوشی اور عیش و تساہل کے خلاف فوق کے ہاں بہت زیادہ اخلاق آموز اشعار دیکھے جا سکتے ہیں۔

کہاں تک دختِ زر کی بڑھتی جائے گی یہ بد مستی

کہ آخر ہو کے وہ رسوا تری محفل سے نکلے گی

بھلائی کر جو ہے مقصود نام کی خواہش

کہ نیک کام ہی سے نیک نام ہوتا ہے

کہیں سنا ہے ملا اوج پست ہمت کو

کہیں رذیل بھی عالی مقام ہوتا ہے

حلال کرتے ہیں سب کو وہ بے گنہ اے فوق

نہ کیجیے غصہ کہ غصہ حرام ہوتا ہے

فوق کی زبان اور فکر دونوں میں سادگی موجود ہے جو ان کی قادر الکلامی کی دلیل ہے۔ فوق سادہ اسلوب میں اپنے مافی الضمیر کو کامیابی سے قارئین تک پہنچاتے ہیں۔ ان کی فکری سادگی یہ ہے کہ وہ عام معاشرتی اور اخلاقی مضامین کو بیان کرتے چلے جاتے ہیں

پہلے جو تھے زمیں پر اب آسمان پر ہیں

یعنی مکان والے اب لا مکاں پر ہیں

تیروکمان پر ہیں’ تیغ و سنان پر ہیں

قاتل تری نگاہیں اونچی اڑان پر ہیں

اک میں کے میرا قصہ سنتا نہیں ہے کوئی

اک تو کے تیرے چرچے سب کی زبان پر ہیں

تغزل غزل کی بنیادی خوبی ہے۔ فوق کی غزلیہ شاعری میں تغزل کے نمونے بکثرت ملتے ہیں۔ فوق کی غزل میں فکرو خیال کے متعدد زاویے موجود ہیں اور انہوں نے ان زاویوں کو حسنِ اظہار کے متنوع اسالیب میں بیان کیا ہے اور تغزل کا دامن بھی ہاتھ سے چھوٹتا نظر نہیں آتا

کہہ نہیں سکتے زور سے کچھ ہم

بات مانو تو مہربانی ہے

انسان ہوں خمیر میں ہے نسیان

رسوا تو نہ کر اب خطا پوش

آیا بھی گیا بھی دم زدن میں

جھونکا تھا کہ تھا شباب کا جوش

اے شرمِ گنہ نہ کر کنارہ

اے رحمتِ خاص کھول آغوش

ہر شاعر اپنے معاشرے کا عکاس ہوتا ہے۔ معاشرتی احساس ہی مقیاس فن اور معیارِ ہنر ہے۔ فوق کی غزل میں بھی گہرے معاشرتی احساس کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔

بتائے زورِ فہم و عقل سے راز نہاں تو نے

خدائی کی دکھائی شان مشت استخواں تو نے

کبھی سرمایہ داروں کو بھی کھینچ اپنے شکنجہ میں

غریبوں پر زمیں کیوں تنگ کر دی آسماں تو نے

چاند سورج بھی چھپے جاتے ہیں اے ابر محیط

ہند پر کیسی نحوست کی گھٹا آئی ہے

کام بے جا ہیں’ عمل بد ہیں’ خیالات خراب

جو وبا آئی ہے ہم پر وہ بجا آئی ہے

آگے چل کر ابھی دیکھو گے جو ہیں فعل یہی

دہرِ پر فتنہ میں آفت ابھی کیا آئی ہے

فوق نے اپنی نظم کے ساتھ ساتھ اپنی غزل میں بھی داخلی اور ذاتی حالات تفصیلاً بیان کئے ہیں۔ فوق کے ذاتی حالات کی عکاسی زیادہ تر ان کے مقطعوں میں ہوئی ہے۔ ان اشعار سے ان کی زندگی کے کئی گوشے ہمارے سامنے آ جاتے ہیں۔ اس حوالے سے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں۔

فوق پھر تیرا سخن مقبول عام کیوں نہ ہو

فیض ہو تجھ پر اگر کچھ داغ سے استاد کا

اے فوق شاعری کو ادب سے سلام کر

صورت نکال جا کے کہیں روزگار کی

انگلش زبان ہی سے جو آشنا ہو تم

اے فوق پھر ایڈیٹر اخبار کیوں ہوئے

نظم اقبال بھی بے چین تو کرتی ہے مگر

تیرے اشعار بھی اے ذوق مزا دیتے ہیں

غزل میں حمدیہ و نعتیہ اشعار کہنا اردو غزل کی مسلمہ روایت ہے۔ فوق کی بے شمار غزلوں میں حمدیہ و نعتیہ اشعار پائے جاتے ہیں

باغ عالم میں عجب رنگ دکھایا تو نے

درس عرفان ورق گل میں پڑھایا تو نے

طور پر حضرت موسیؑ کو جو آیا تھا نظر

مجھ کو ہر رنگ میں وہ جلوہ دکھایا تو نے

یوسف مصر بھی گر آئے زلیخا ہو کر

آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھوں ترا شیدا ہو کر

مدد اے جلوہ نظارہ محبوبِ خدا

آنکھیں بے کار ہوئی جاتی ہیں بینا ہو کر

فوق کی شاعرانہ خوبیوں کا ذکر اقبال نے کئی بار خود بھی کیا۔۱۹۰۹ء میں پہلی بار جب ‘‘کلامِ فوق’’ شائع ہوا تو اقبال نے تاریخ نکالی اور یہ اشعار کہے۔

جب چھپ گیا مطبع میں یہ مجموعہ اشعار

معلوم ہوا مجھ کر حالِ نصر فوق

شستہ ہے زبان جملہ مضامین ہیں عالی

تعریف کے قابل ہے خیالِ نضرِ فوق

تاریخ کی مجھ کو جو تمنا ہوئی اقبال

ہاطف نے کہا لکھ دے کمالِ نضرِ فوق                                  

فوق کی فکری شاعری میں فنی محاسن بھی بدرجہ اتم موجود ہیں۔ ان کا کلام عموماً صاف اور ہموار ہے جو ان کی قدرتِ کلام کا آئینہ دار ہے۔ وہ عموماً ردیف کا اہتمام کرتے ہیں۔ ان کی ردیفیں عموماً سادہ اور مروج ہوتی ہیں۔ وہ ردیفوں سے دلفریبی کا سامان پیدا کرنے میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔

رفعتِ کہسار کی پروا نہ کر

راہ ناہموار کی پروا نہ کر

فوق اظہارِ فکر کیلئے سادہ تشبیہات سے کام لیتے ہیں۔ ان کی شاعری میں تلمیحات کا حسن بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔ روزمرہ اور لطافت زبان سے بھی فوق نے اپنے کلام کو خوبصورت بنایا ہے۔ اس حوالے سے چند اشعار ملاحظہ ہوں

پردہ برق میں رہ رہ کے چمکنے والے

ابرِ باراں کی طرح مجھ کو رولایا تو نے

یوسفِ مصر بھی گر آئے زلیخا ہو کر

آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھوں ترا شیدا ہو کر

ملتی نہیں ہے جس وفا کی طرح کہیں

‘‘اس عہد میں الہیٰ محبت کو کیا ہوا؟’’

مے خانہ اور شیخ بہ ایں ریش وفش چہ پوش

ہم تو بھلا تھے خیر یہ حضرت کو کیا ہوا؟

کلامِ فوق کے فنی محاسن کے متعلق اکبر الہ آبادی نے جو رائے ظاہر کی تھی وہ مجموعی طور پر ان کے پورے کلام پر صادق آتی ہے۔ اکبر الہ آبادی کی فوق کے کلام کے بارے میں رائے یہ ہے۔

کلامِ فوق بلاشبہ قابلِ داد ہے۔ جب خیالات اچھے ہیں تو کلام کیوں نہ اچھا ہو۔ کلامِ فوق میں فطری آرزوئیں بھی ہیں۔ شوخی کا اظہار بھی ہے۔ قافیے برجستہ ہیں۔ بغیر تکلف کے کلام کا اکثر حصہ ہے اور اثر پیدا کرنا ایسے ہی کلام کا کام ہے۔ بعض اشعار سے دلچسپ رندانہ رنگ قطرہ ہائے مئے کی طرح ٹپک رہا ہے۔ کئی اشعار گنجینۂ معانی ہیں اخلاقی و ہمت افزا اشعار کی بھی کمی نہیں۔ نیچرل کیفیتوں کے اظہار اور کشمیر کے نظاروں میں خوب جوش دکھایا ہے۔نظموں اور غزلوں کی شان نزول نے آپ کی جدت آفرینی کا رتبہ بہت بلند کر دیاہے۔محمد دین فوق نے اپنے آپ کو علم و ادب کے کئی شعبوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ وہ دوسری ادبی مصروفیات کے پیشِ نظر شاعری پر پوری توجہ نہ دے سکے اس کے باوجود ان کی شاعری اپنے عہد کے حوالے سے ایک خاص اہمیت رکھتی ہے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...