Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نقش فریادی جنوری تا مارچ 2023 > ٣۔ عساکر میں نعت کا ابتدائیہ اور افواجِ پاکستان کے نعت گو

نقش فریادی جنوری تا مارچ 2023 |
پنجاب لٹریری فورم
نقش فریادی جنوری تا مارچ 2023

٣۔ عساکر میں نعت کا ابتدائیہ اور افواجِ پاکستان کے نعت گو
Authors

ARI Id

1695781782714_56118427

Access

Open/Free Access

Pages

29

عساکر میں نعت کا ابتدائیہ اور افواجِ پاکستان کے نعت گو

شاکر کنڈان(سرگودھا)

فوج اور نعت اگر چہ دو مختلف موضوعات ہیں لیکن یہ دونوں موضوع جابتداء سے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ۔فوج کو ہم عسکریت سے منسلک کرتے ہیں اور عسکریت کو ہتھیاروں کے استعمال سے سے ۔

ماہرین ِلسانیات یا علمائے تاریخ کا کہنا ہے کہ پانچ ہزار سال قبل مسیح سے پہلے کی تاریخ ہماری معلومات سے اوجھل ہے لیکن انسانی وجود کو وہ کروڑوں سال پر محیط بتاتے ہیں ۔اگر اس مفروضے کو مان بھی لیا جائے تو پھر بھی ہمیں اسی دور سے تاریخ و تہذیب کے آغاز کوبھی تسلیم کرنا پڑے گا جو ہماری تاریخ ہمیں بتاتی ہے ۔میری سمجھ سے تو یہ بالا ہے کہ ہم مٖفروضوں کوسچ ماننے میں تو تاخیر نہیں کرتے لیکن سچ کا سامنا کرتے ہوئے ہماری جان جاتی ہے ۔

در اصل جومعلوم تاریخ ہمیں پانچ ہزار سال قبل مسیح ملتی ہے یہ وہ ہے جس کے بارے میں توریت ہماری رہنمائی کرتی ہے یا پھر قرآنِ مجید فرقانِ حمید ہمیں آگاہ فرماتا ہے ۔یہاں پانچ ہزار سال کو ماننے کے لئے تو ہم تیار ہیں لیکن اسلام کی دی ہوئی باقی آگاہی سے ہم آگاہ ہونا ہی نہیں چاہتے کیوں کہ ہمارے ذہنوں پر دوسروں کے علم کا بھوت اس حد تک سوار ہو چکا ہے کہ ہمیں اپنی ذات پر اعتماد ہی نہیں رہا ۔دوسروں کی لغویات کو ہم نے سچائی کے مقام پر فائز کر دیا اور اپنے حقائق کو تسلیم کرنے سے اس لئے قاصر رہے کہ ہم تحقیق سے پہلو تہی کرتے ہیں ۔

توریت کے بابِ پیدائش میں پہلا انسان حضرت آدم ؑ کو تسلیم کیا گیا ہے اور قرآنِ مجید میں بھی آدم ہی جنت سے نکال کر زمین پر بھیجے جانے والے پہلے انسان قرار پاتے ہیں ۔ہم دوسروں کی بات کو سچ ثابت کرنے کے لئے کبھی آدم کے معنی لے کر بیٹھ جاتے ہیں اور کبھی آپ سے پہلے کئی اور آدموں کے وجود کی کہانی لے کر بیٹھ جاتے ہیں ۔جب کی ان تاویلات کا نہ تو کوئی ثبوت ہے اور نہ ہی کوئی پر مغز دلیل ۔

بہر حال حضرت آدم ؑ کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل میں سے قابیل کے ہاتھوں ہابیل کے قتل میں استعمال ہونے والا ہتھیارایک پتھر کا ذکر ہمیں قرآن مجید اور بائبل میں بڑی تفصیل سے ملتا ہے ۔اس بات سے قطع نظر کہ بائبل یا ما قبل کے دیگر صحائف اصلی حالت میں موجود ہیں یا نہیں ۔ہمیں ان کتب کے نزول اور ان کے ہونے پر ایمان لانا ہے۔اب وہ کس حالت میں ہیں ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ۔اگر تحریف سے وہ صحائف دس فیصد بھی محفوظ رہ گئے ہیں تو اس قدر تو ہمیں دیکھنا ہے کہ ممکنات میں کچھ تو ہو سکتا ہے اور توریت کے بابِ پیدائش میں جو عمروں کا تناسب دیا گیا ہے یا جو افتراق ہے ان کی جمع تفریق سے حضرت آدم ؑ کے زمین پر وجود کی عمر۵۵۱۷سال قبل مسیح بنتی ہے جسے جب معلوم تاریخ پر منطبق کیا جاتا ہے تو علمائے تاریخ کے پانچ ہزار سال تقریباً درست ثابت ہوتے ہیں ۔قابیل کے ہاتھوں ہابیل کے قتل کے بعد خیر اور شر کی جنگ جاری رہی حتیٰ کہ حضرت نوحؑ (۳۸۶۲قم)کی نبوت کے دوران طوفان کا عذاب نازل ہو ااور سب کچھ بہا کر لے گیا (مؤٔرخین کے جغرافیائی حدود کے اختلاف کے قطع نظر)۔ اس کے بعد ایک نئی تاریخ اور نئی تہذیب نے جنم لیا ۔اس سے قبل لوہا دریافت ہو چکا تھا اور لوہے کو ڈھال کر ہتھیار بنانے کا عمل بھی شروع ہو چکا تھا ۔نئی تہذیب میں میسو پو ٹیمیا اور مصر کی آپس میں لڑائیوں کے دوران قبائل یا کنبے اپنے سردار کی سر براہی میں جنگوں میں حصہ لیتے تھے ۔یہاں تک کہ سومیریوں نے پہلی بار لازمی فوجی خدمت کا نظام نافذ کیا

یہاں تک تو فوج کی شروعات کا احوال تھا ۔نعت کی ابتدا کو اگر ہم اسی حوالے سے دیکھیں تو سیرت النبی کی کتابوں نیز تاریخِ اسلام جسے آج ہم تاریخِ عالم کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں ،سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ حضرت آدمؑ جب جنت سے نکل کر اِس زمین پر اترے تو انہوں نے پائے آسمان پرایک کلمہ لکھا ہوا دیکھا ۔وہ تھا :

                                لا الہٰ الا اللہ   محمدالرَّسول اللہ               (صلی اللہ علیہ وسلم)

گویا یہ پہلی نعت تھی لیکن جب ہم منظوم نعت کے آغاز کی بات کرتے ہیں تو تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ حضورنبی مکرم ﷺ کی ولادت سے ایک ہزار یا آٹھ سو سال پہلے جب یمن کا حکمران تبع الحمیری مکہ مکرمہ سے ہوتا ہؤایثرب(بعدہ’ مدینۃالمنورہ)پر حملہ آور ہوتا ہے اور محاصرہ کرنے کے بعد خوراک کی کمی ہونے پرمحصورین کی جانب سے مہمان نوازی پر حیران ہو کر المختصریہ اشعار لکھتا ہے                 ؂

                                شہدت علیٰ احمد انہ’                         نبی من اللہ باری النسم

                                فلو مدَّ عمری الیٰ عمرۃِِ                        لکنت وزیر لہ’ و ابنِ عم

                                وجا ہد ت ُبالسیف اعداءَ ۃ                   و فرجت عن صدر کلّٰ غم

                                لہ’ امۃ‘’سمیت فی الزبور                   لہ’ امۃ‘’فیہ خیر الامم

                                                                                                ......

                                و یاتی بعدہ’رجل عظیم                      نبی‘’لایرخصُّ فی الحرام

                                یسمیٰ احمد یا لیت انی                            اعمّر بعد مبعث بعام

                ترجمہ: میں نے نبوت ِ احمدﷺ کی گواہی دی کہ وہ اللہ کی طرف سے سچے (نبیِ بر حق)پیغمبر ہیں۔

                                اگر میں اُن کے زمانۂ بعثت تک زندہ رہا تو ان کا وزیر(مدد گار) بنوں گا اور چچیرا بھائی۔

                                اور اُن کے دشمنوں کے ساتھ تلوار سے جہاد کروں گا اور اُن کے سینے سے ہر غم دور کر دوں گا ۔

                                اُن کی امت کا تذکرہ زبور میں آیا ہے ۔جس میں خیر الامم کہا گیا ہے ۔

                                                                                                ......

                                ان کے بعد ایک عظیم آدمی آئے گا یعنی ایسا نبی جو حرم کی حرمتوں کو پامال نہیں کرے گا ۔

                                اس کا اسم گرامی احمدؐ ہو گا ۔اے کاش میں اس کی بعثت کے ایک سال بعد تک زندہ رہوں۔

تاریخ میں حضور نبی کریم ﷺ کی شان میں یہ اشعار تا حال اوّلیت کا درجہ رکھتے ہیں ۔اس کے بعد نعت تو گاہ گاہ کہی جاتی رہی لیکن عہدِ نبوی میں شعر کہنے ولوں کی تعداد ڈاکٹر عبدالحمید ندوی کے مطابق پانچ سو کے لگ بھگ تھی ان میں سے مسلم اور غیر مسلم ہر دو شعرا نے نعت شریف کہنے کا شرف حاصل کیا ۔ ڈاکٹر شاہ محمد کے مطابق صرف حضور نبی کریم ﷺ کے خاندان میں کم و بیش سینتیس(۳۷ )افراد شاعر تھے ۔ان میں سے سترہ(۱۷) مرد اور بیس (۲۰) خواتین تھیں ۔آپ ﷺ کے ساتویں نمبر کے دادا کعب بن لوئی اور ان کے بھائی سامہ بن لوئی دونوں شاعر تھے ۔ان دونوں کا عہدبعثت سے پانچ سو ساٹھ (۵۶۰)سال پہلے کا ہے۔اِن میں کعب بن لوئی کی نعت تاریخ میں محفوظ ہے ۔پھر آپ کے دادا کے پردادا قصی بن کلاب کی نعت بھی تاریخ کا حصہ ہے۔آپﷺ کے دادا عبد المطلب ،آپﷺ کے چچاؤں میں سے حضرت عباسؓ،حضرت حمزہؓ،حضرت ابو طالب ،حضرت زبیراور چچا زاد بھائیوں میں حضرت علی ؓ،عبد المطلب،حضرت عقیل ؓ،حضرت جعفر طیارؓ، حضرت عبداللہؓ بن زبیربن عبدالمطلب،ابو سفیان بن حارث،عبیدہ بن حارث،نوفل بن حارث اور حضرت عبداللہؓ بن عباس ۔ان سترہ مردوں میں سے اکثریت ایسے شعرا کی ہے جو صاحبِ سیف بھی تھے اور انہوں نے نعتِ رسول ﷺ بھی کہی۔اور عہدِ نبوی میں جب عساکرِ اسلام کے شعرا کا جائزہ لیتے ہیں تو حضرت حسان ؓ بن ثابت کے علاوہ تمام شعرا مردِ میدان بھی دکھائی دیتے ہیں اور توصیفِ نبئ اکرم ﷺ میں روایت کا حصہ بھی ۔

حضرت جبریل ؑآخری بار حضور ﷺ کے پاس اس دنیا میں تشریف لائے تھے ۔آپؑ جہاں ایک معزز اور افضل فرشتہ تھے وہیں آپؑ کی ایک نعت بھی تاریخ و سیّر کی کتب میں ملتی ہے اور جہاں تک آپؑ کے صاحبِ سیف ہونے کا تعلق ہے تو جنگِ بدر میں جو تین ہزار فرشتے حضورﷺ( اسلامی فوج )کی مدد کے لئے اللہ تعالیٰ نے بھیجے تھے اُن میں سے ایک ہزار کے دستے کی قیادت آپؑ فرما رہے تھے ۔نعت کا یہ سفر عرب کے عسکری شعرا سے نکل کر عجم میں آتا ہے اور پھر برِ صغیر میں پہنچ کر ورفعنالک ذکرک کی تفسیر بن جاتا ہے ۔

میں یہ بتانا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ جہاں آج تک اس بات پر اتفاق ہے کہ پہلی نعت ایک عسکری نے کہی تھی وہاں یہ بھی حقیقت ہے کہ لفظ نعت کا مادہ بھی پہلی بار ایک عسکری نے ہی استعمال کیا ۔اور یہ تھے حضرت علی ؓ۔آپؓ نے حضور خاتم النبیین ﷺ کا مکمل حلیہ ٔ اقدس بیان کرتے ہوئے اپنے لئے ناعت کا لفظ استعمال کیا جو ‘‘نعت’’ کا اسمِ فاعل ہے ۔

امام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذیؒ،جامع ترمذی میں حضرت ابراہیم بن محمد بن حضرت علی کرم اللہ وجہہ’سے ایک حدیث نقل کی ہے ۔ یہ حدیث حضرت ابراہیم نے اپنے دادا حضرت علیؓ کی زبانی بیان کی ہے ،جس میں حضور پُر نور حضرت محمد ﷺ کے شمائل، اوصاف اور حلیہ مبارک بیان کیا گیا ہے ۔حدیث چوں کہ طویل ہے اس لئے صرف وہ چند الفاظ جن میں حضرت علی ؓ نے اپنے لئے لفظ نعوت استعمال کیا ہے نقل کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔

                                                ‘‘یَقُوْلُ نِاعِتُہ’لَمْ اَر قَبْلَہ’وَلَا بَعْدَہ’مِثْلَہ’ ﷺ’’[۱]      

                ترجمہ(آپﷺ کا وصف بیان کرنے ولا کہتا ہے میں نے آپ جیسا نہ آپؐ سے پہلے اور نہ بعد میں کوئی دیکھا ہے ۔)

صاحبِ سیف و قلم کی نعت گوئی جزیرۃالعرب سے نکل کر ایران سے ہوتی ہوئی برِ صغیر میں داخل ہوتی ہے ۔یہاں بھی اُسے حضرت نظام الدین اولیاء اور بابا فرید الدین گنج شکر کے بعد ایک عسکری شخصیت لے کر آگے بڑھتی ہے اور لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیتی ہے ۔اُن کی نعتیں          .

                                                نمی دانم چہ منزل بود شب جائے کہ من بودم

                                                بہر سو رقصِ بسمل بود شب جائے کہ من بودم

                اور

                زہے روشن ز رویت چشمِ بینش                            :                وجودِ کیمیائے آفرینش

ہر مسلمان کے لبوں سے ادا ہوتی ہوئی سنی جاتی ہیں ۔یہ شخصیت امیر خسرو (۱۲۵۳ء۔۱۳۲۵ء)کے نام سے نہ صرف اپنی پہچان بناتی ہے بلکہ کئی علوم میں اپنا لوہا بھی منواتی ہے ۔ آپ بلبن کے عہد سے محمد تغلق کے عہد تک عسکری خدمات انجام دیتے رہے[۲]۔            

فارسی سے نعت کی روایت اردو میں داخل ہوئی ۔اردو میں نعت کو بہت فروغ ملا جس میں فوج سے تعلق رکھنے والے شعرا نے بھی اپنا حصہ ڈالا اور تقسیمِ ہند پر مسلمانوں نے جب اپنے لئے الگ ریاست قائم کی تو عسکری نعت گو شعرا ء بھی حصہ بقدرِ جثہ اس مملکت میں شامل ہوگئے ۔ سو ہم یہاں عساکرِ پاکستان میں نعت گوئی کی روایت کو چار ادوار میں تقسیم کرکے دیکھنے کی کوشش کریں گے ۔

پہلے دور میں ان شعرا کا ذکر مقصود ہے جو قیامِ پاکستان سے قبل کسی نہ کسی عہدے پر فوج کا حصہ رہے لیکن تقسیم پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے پہلے ہی فوج سے سبک دوش ہو گئے ۔دوسرے حصے میں وہ نعت گو جو قیامِ پاکستان سے قبل سبک دوش تو ہوئے لیکن پاکستان کے نقشے پر ابھرنے کے بعد دوبارہ پاک فوج کو جوائن کیا ۔تیسرے وہ اہلِ سخن جو تقسیمِ ہند سے پیشتر برطانوی فوج کا حصہ تھے اور اپنی ملازمت کو جاری رکھتے ہوئے افواجِ پاکستان میں شامل ہوئے اور اپنی خدمات جاری رکھیں ۔چوتھا طبقہ ان شعرا پر مشتمل ہے جنہوں نے پاکستان کے وجود کے بعد پاک فوج میں شمولیت اختیار کی ۔ [۳]

پہلے حصے کے شعراء میں شامل ہیں، لیفٹیننٹ مولانا ظفر علی خان جن کے شعری مجموعوں میں اگر چہ بہت سی نعتیں شامل ہیں لیکن الگ سے جو مجموعۂ کلام منظرِ عام پر آیا وہ ہے ‘‘ظفر علی خان کی نعت ’’یہ مجموعہ آپ کی وفات کے کافی عرصہ بعد پروفیسر جاوید اقبال نے ترتیب دیا اور ماہنامہ نعت لاہور کے پلیٹ فارم سے راجا رشید محمود نے اسے شائع کیا ۔صوبیداراے ڈی طالب(اللہ دتا طالب)کا نعتیہ مجموعہ ‘‘انوارِ طالب’’ کے نام سے شائع ہوا۔ صوبیدار میجر عزیز جے پوری کا نعتیہ مجموعہ ‘‘نغمۂ عندلیب’’،حوالدار مولانا عبد الغفور اسلم جالندھری‘‘عقیدت کے پھول’’،حوالدار باقی صدیقی‘‘زادِ سفر’’،سپاہی قصری کان پوری‘‘نورِ ازل’’، سپاہی لالۂ صحرائی کے تقریباً بارہ نعتیہ مجموعے شائع ہوئے ہیں جن کے نام ہیں :بارانِ رحمت،لالہ زارِ نعت، قصیدہ نعتیہ، نعت ستارے، نعت ہلارے، نعت دھنک، پھولوں کے پھول، نعت چراغاں ،نعت سویرا، نور پرے، نعت شفق، لالۂ صحرا۔پائیلٹ افسرخواجہ ریاض الدین عطش‘‘وردِ نفس’’اور ایئر مین قمر صدیقی کا مجموعۂ نعت‘‘حرف حرف روشنی’’

دوسرے دور کے شعراء میں سید ضمیر جعفری(یکم جنوری ۱۹۱۶ء۔۱۲ مئی ۱۹۹۹ء) جو تقسیمِ ہند سے قبل کیپٹن کے عہدے سے ریٹائر ہوئے لیکن قیامِ پاکستان سے کچھ عرصہ بعد پاکستان آرمی میں شمولیت اختیار کی اور میجر کے عہدے سے پنشن پائی ۔آپ کی ۵۶ کے لگ بھگ کتابیں شائع ہو چکی ہیں ۔‘‘نعت نذرانہ’’آپ کا نعتیہ مجموعہ ہے جب کہ ‘‘ارمغانِ ضمیر’’حمد، نعت اور منقبت پر مشتمل شعری مجموعہ ہے ۔  ؂               

وہ جس نے آدمی پر چاند سورج کے سفر کھولے          :               وہ جس نے سب سے پہلے بند دروازوں کے در کھولے

سپاہی نادر شاہ (۳ مارچ ۱۹۲۴ء)۱۹۴۴ء میں برطانوی فوج میں بھرتی ہوئے لیکن قیامِ پاکستان سے قبل ۱۹۴۷ء میں اسے خیر باد کہہ دیا ۔جہادِ کشمیر کے باعث دوبارہ ۱۹۴۹ء میں پاک فوج کو اپنی خدمات پیش کر دیں اور تین سال تک عسکری فرائض انجام دیئے ۔آپ کے دو شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں سے ‘‘حسنِ ازل’’میں آپ کا نعتیہ کلام ہے ۔

                ماسٹر وارنٹ افسر رحمان کیانی(۳۰؍اگست ۱۹۲۴ء۔فروری ۱۹۹۰ء) ۱۹۴۳ء میں رائل انڈین ایئر فورس میں ایئر مین بھرتی ہوئے ۔آپ جنگِ عظیم دوم کے ختم ہوتے ہی فوج سے الگ ہو گئے لیکن پاکستا ن کے معرضِ وجود میں آنے پر ۱۹۴۹ء میں پاک فضائیہ میں شمولیت اختیار کی اور ۱۹۷۴ء تک اس سے وابستہ رہے ۔اگر چہ آپ کے سات شعری مجموعوں میں اکثر کلام نعتیہ ہے لیکن‘‘ شمشیرِ ضیا بار’’میں آپ کا نعتیہ رزمیہ کلام شامل ہے ۔آپ کی ایک نعتیہ مسدس نبی الملاحم سے ایک بند ملاحظہ ہوں :       ؂

                                توپ و تفنگ و دشنہ و خنجر ،صلیبِ دار     :               ڈرتے نہیں کسی سے محمد کے جاں نثار

                                ماں ہے ہماری اُمِ عمارہ سی ذی وقار        :               ہم ہیں ابو دجانہ ؓ و طلحہ ؓ کی یادگار

                                                                ہاں! مفتی و فقیہہ نہیں، مان لیتے ہیں

                                                                ناموسِ مصطفیﷺ پہ مگر جان دیتے ہیں

آپ کو شاعرِ رزم اور شاعرِ جہاد کے اعزازات سے بھی نوازا گیا ۔

سارجنٹ جاوید فتح محمد(۱۰؍ اکتوبر ۱۹۲۶ء۔غالباً ۲۰۱۵ء)کا اصل نام محمد فتح تھا اور اسی نام سے آپ متحدہ ہندوستان میں بری فوج میں بھرتی ہوئے لیکن چند ہی سال بعد بقول اُن کے صحت کی خرابی کی بنا پر ملازمت چھوڑنا پڑی قیامِ پاکستان کے بعد دوبارہ جاوید فتح محمد کے نام سے ایئر فورس میں بھرتی ہوگئے ۔آپ کی تقریباً ۱۴ کتب شائع ہوئیں ۔جن میں‘‘ گنبدِ خضریٰ ’’ بزبانِ پنجابی اور ‘‘مقصودِ کائنات ’’اردو زبان میں نعتیہ مجموعے ہیں ۔

صوبیدار محمد افضل تحسین (۱۹۲۷ء۔۲۵ دسمبر ۱۹۹۱ء)رائل انڈین آرمی میں سپاہی کی حیثیت سے ۱۹۴۳ء میں بھرتی ہوئے ۔لیکن والدین چوں کہ اس کے مخالف تھے لہٰذا اُن کے ایما پر یہ ملازمت چھوڑ دی ۔وجودِ پاکستان کے بعد دوبارہ فوج میں شامل ہوئے اور ایجوکیشن کور سے پنشن پائی ۔آپ نے بہت لکھا اور کئی فرضی ناموں سے لکھا ،جیسے فلائٹ لیفٹیننٹ ظفر اقبال قریشی،لیفٹیننٹ کمانڈر خضر اقبال، ظفر اقبال، خضر خضری،وغیرہ آپ کی وفات کے کافی عرصہ بعد راقم نے اُن کی حمد و نعت کا مجموعہ ‘‘افضل تحسین کی حمدو نعت نگاری’’کے عنوان سے شائع کیا ۔افضل تحسین کی ایک نعت کے دو اشعار:                        ؂

                                ممکن ہے کہاں مدحتِ سرکارِ دو عالمﷺ :             ہے حق پہ عیاں عظمتِ سرکارِ دو عالم ﷺ

                                مومن بھی ثنا خواں ہیں فرشتے بھی ثنا خواں :            خود حق بھی کرے مدحتِ سرکارِ دو عالمﷺ

تیسرے طبقہ کے شعراء میں سب سے پہلا نعتیہ مجموعہ جو ملتا ہے وہ ہیں لاہور کے باسی میجر محمد عاشق(۱۷؍ اگست ۱۹۱۶ء)۔آپ نے ۱۹۴۲ء میں جونیئر کمشنڈ افسر کی حیثیت سے رائل انڈین آرمی کو جوائن کیا ۔۱۹۴۵ء میں آپ کو رائل انڈین آرمی میں کمشن ملا ۔آپ نے ۱۹۵۸ء میں پاکستان آرمی سے ریٹائر منٹ لے لی لیکن ۱۹۶۵ء اور ۱۹۷۱ء کی دونوں پاک بھارت جنگوں میں آپ نے حصہ لیا ۔‘‘جنونِ زار ’’آپ کی غزلوں کا مجموعہ‘‘غالب پی ٹی کورس پر’’ مزاحیہ نثر اور ‘‘عقیدت کے پھول’’آپ کی نعتوں کا مجموعہ ہے جو غالباً قیامِ پاکستان کے بعد کسی پاکستانی فوجی کا پہلا نعتیہ مجموعہ ہے ۔                ؂

                                شاہ راہِ آگہی کو کشادہ بنا دیا   :               بے لوث و مہر و لطف و مروت کا راستہ

                                انسانیت کو سیرتِ اقدس سے مل گیا      :تقویٰ و زہد و کاوش و محنت کا راستہ

اسی دور میں ایک اور شخصیت جو بہت ہی مختصر عرصے کے لئے فوج کے منظر نامے میں سامنے آئی اور پھر ہمیشہ کے لئے پالیس کو اپنی خدمات پیش کر دیں وہ ہے پاکستان پولیس کے انسپکٹر جنرل چوہدری فضل حق(۱۱ فروری ۱۹۲۴ء۔ ۶ فروری ۲۰۱۴ء)۔آپ رائل آرمی آرڈننس کور میں نائب صوبیدار کی حیثیت سے شامل ہوئے ۔مارچ ۱۹۴۷ء میں جب کہ آپ صوبیدار تھے ایجوکیشن کور میں کمشن حاصل کیا ۔اکتوبر ۱۹۴۷ء میں سکول آف آرمی ایجوکیشن مری میں کورس پر بھیجے گئے۔جنوری ۱۹۴۸ء میں ابھی ٹریننگ ہی کر رہے تھے کہ آپ کو پولیس میں منتخب کر لیا گیا ۔آپ کے سات شعری مجموعے ‘‘آہنگِ حجاز’’۔‘‘میرِ عرب’’۔ ‘‘نمِ صحرا’’ ۔ ‘‘سوئے حرم’’۔‘‘خارِ مژگاں’’۔مثنوی مولا علی’’اور ‘‘سورج ’’شائع ہوئے ۔ان تمام میں اگر چہ نعتیہ کلام شامل ہے لیکن اوّل اوّلذکر چاروں مجموعے نعتیہ ہیں ۔آپ کی نعت کو مختصر نمونہ:   ؂

                لب پہ آیا ہے ترا نام رسولِ عربی ﷺ                   :               ہیں معطر دہن و کام رسولِ عربی ﷺ

                میں ہوں دامانِ شب و روز پہ اک نقشِ جمیل             :               تو ہے کونین کا انجام رسولِ عربی ﷺ

سپاہی سلیم اختر فارانی (۱۹۲۸ء۔۲۲ نومبر ۱۹۸۳ء)دوسری جنگِ عظیم کے اختتام پر رائل لیکٹریکل مکینیکل انجینئر کور میں بھرتی ہوئے ۔قیامِ پاکستان پر۵۰۹ ای ایم ای ورکشاپ الہ آباد سے آپ کی خدمات ۵۰۱ ورکشاپ راول پنڈی کو دے دی گئیں ۔جہاں سے کچھ ہی عرصہ بعد آپ نے ریٹائر منٹ لے لی اور گوجراں والا میں جہاں آپ کا خاندان ہجرت کرکے آباد ہوا تھا رہائش اختیار کی ۔آپ کے تین نعتیہ مجموعے ‘‘نغمۂ فاراں’’،‘‘ضیائے ہفت رخشاں’’اور ‘‘عودِ گلستانِ رسولﷺ’’منظرِ عام پر آئے ۔             ؂

                نہیں ہے انؐ سا مشفق کوئی بھی سارے زمانے میں      :               سراپا مہر رخشاں ہیں جہاں میں جلوتِ ہستی

                انہیؐ کی ذات سے قائم ہے شرفِ نوعِ انسانی              :               ملی ہے ابنِ آدم کو شکوہِ شوکتِ ہستی

افواجِ پاکستان کے نعت گو شعراء کی روایت کے چوتھے درجے میں وہ نعت گو شامل ہیں جو خالصتاً جیشِ پاکستان کاحصہ ہیں ۔انہوں نے اپنی ملازمت کا جتنا عرصہ بھی گزارا وہ پاکستان کی افواج میں ہی گزارا ۔

میجر یوسف رجا چشتی(۶ ستمبر ۱۹۲۸ء۔۲۸؍اگست ۲۰۰۷ء)نے ۲۷ سال کا عرصہ پاکستان آرمی کی سگنل کورمیں گزارا۔ آپ کا خاندانی نام ارباب محمد یوسف تھا ۔احمد فراز ،محسن احسان اور یوسف رجا چشتی میں بچپن سے ہی گاڑھی چھنتی تھی ۔آپ نے اپنی زندگی میں ایک ہی شعری مجموعہ ‘‘لو قسم اٹھاتے ہیں ’’شائع کروایا لیکن آپ کی وفات کے بعد آپ کا نعتیہ مجموعہ ‘‘عقیدتیں ’’ کے عنوان سے شائع ہؤا ۔

پنجابی کے شیکسپیئر وارث شاہ کے گرائیں حوالدار امان اللہ خان المعروف اجمل جنڈیالوی (۵؍اکتوبر ۱۹۳۰ء۔)میٹرک کرنے کے بعد فوج میں سپاہی بھرتی ہوئے اور ریٹائر منٹ تک ماسٹرز کی ڈگری حاصل کر چکے تھے ۔ابتدا میں غزل لکھی لیکن بعد میں نعت کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ۔یہ الگ بات کہ صرف ایک نعتیہ مجموعہ ‘‘کشکولِ ادراک’’ہی شائع ہو سکا ۔عروض میں ماہر تھے اور بقول آپ کے رموزِ ادب مولانا عبد الحق سے سیکھے ۔ مختلف رسائل میں آپ کا بہت سارا کلام بکھرا پڑا ہے ۔

پنجابی کے چھاچھی لہجے اور اردو کے شاعر وارنٹ افسر غلام ربانی فروغ بھی ادب کے ان مسافروں میں سے ہیں جنہوں نے دورانِ ملازمت اردو اور پنجابی لٹریچر میں ماسٹرز کی ڈگریاں لیں اور ریٹائر منٹ کے بعد تدریس کے شعبے سے خود کو وابستہ کیا ،ایئر میں سے سبکدوشی تک چوبیس سال ایئر فورس کو دیئے۔ ‘‘وسناں رہوے گراں ’’پنجابی شعری مجموعہ اور ‘‘حرفِ نیاز ’’آپ کا اردو نعتیہ کلام ہے ۔

مفسرِ قرآن، مذہبی پیشوا ،ایک صوفی اور تنظیم الاخوان کے امیر سپاہی مولانا محمد اکرم اعوان (۳۱ دسمبر ۱۹۳۴ء۔۷ دسمبر ۲۰۱۷ء) نے میٹرک کے بعد گورنمنٹ کالج چکوال میں داخلہ ہی لیا تھا کہ خاندانی دشمنیوں کے باعث فوج میں بھرتی ہونا پڑا ۔ابھی تھوڑا عرصہ ہی گزرا تھا کہ انہوں نے محسوس کیا کہ شاید اُن کو کسی اور مقصد کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور پھر وہ ملازمت کو خیر باد کہہ کر سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کے شیخ اللہ یار خان کی بیعت کرکے تبلیغ کے لئے وقف ہو گئے ۔آپ نے دارالعرفان منارہ کو رشدو ہدایت کا مرکز بنالیا ۔آپ نے عربی، انگریزی اور اردو میں چالیس کے لگ بھگ نظم و نثر کی کتب تصنیف کیں ۔ان میں ‘‘حمد و نعت’’اور ‘‘متاعِ فقیر آپ کے دو شعری مجموعے شائع ہوئے ۔

کرنل سید مقبول حسین (یکم جون ۱۹۴۲ء)نے ۱۹۶۲ء میں سگنل کور میں کمشن حاصل کیا اور ۳۱ سال کی خدمات کے بعد سبک دوش ہوئے ۔آپ کی خدمات کے سلسلے میں حکومتِ پاکستان نے آپ کو تمغۂ امتیاز سے بھی نوازا ۔اردومیں آپ کی تقریباًتین نثری کتب اور آٹھ شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں‘‘ عشقِ محمدﷺ’’ آپ کا نعتیہ مجموعہ ہے ۔خانۂ خدا اور روضۂ رسولﷺ پر حاضری کے بعد مختلف رسائل میں ّپ کی اکثر نعتیں پڑھنے کو ملتی ہیں ۔

برِ صغیر کے معروف شاعر ناطق بدایونی کے فرزند سکواڈرن لیڈر فیروز ناطق خسرو (۱۹ نومبر ۱۹۴۴ء)اردو اور تاریخِ اسلام میں ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد کچھ عرصہ تدریس سے وابستہ رہے اور پھر ایئر فور س میں کمشن لے کر ایک مدت تک عسکری خدمات انجام دیتے رہے ۔ریٹائر منٹ کے بعد کراچی میں سکونت پذیر ہوئے اور اپنی تمام نگارشات کو کتابی صورت میں منظرِ عام پر لے آئے۔ آپ کی اب تک سات کتب شائع ہو چکی ہیں ۔‘‘ہزار آئینہ’’آپ کا مجموعۂ حمد و نعت ہے ۔ دو شعر ملاحظہ ہوں:        ؂

                                متاعِ اہلِ بصیرت جو ہے وہ ایک کرن    :               حضورؐ آپ کے سینے کے بیچ سے نکلی

                                چہار سمت ہے جاری ابھی بھی اس کا سفر :               وہ رہگزر جو مدینے کے بیچ سے نکلی

تعلیم سے حد درجہ محبت کرنے والا شخص سپاہی محمد اصغر اعجاز (۱۵ دسمبر ۱۹۴۹ء)میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد فوج میں سپاہی بھرتی ہوا اور اپنا سارا وقت کتاب کو دان کر دیا۔پندرہ سالہ مدتِ ملازمت کے بعد اگر چہ آپ سپاہی ہی سبکدوش ہوئے لیکن آپ کے پاس ایم اے اردو،ایم اے اسلامیات، ایم اے سیاسیات ،ایم اے تاریخ ،ایم اے پنجابی اور بی ایڈ کی ڈگریاں موجود تھیں جب کہ بقول آپ کے مختلف اصناف اور موضوعات کی نصف درجن کے لگ بھگ کتابیں بھی آپ کی شائع ہو چکی تھیں اور اب جن کی تعداد ڈیڑھ درجب کے لگ بھگ ہے ۔‘‘سراج منیر ’’آپ کا نعتیہ مجموعہ ہے ۔

چیف وارنٹ افسر محمد ساجد ڈھلوں نوری(۱۹۵۰ء) نے ایف اے کیا اور پاکستان ایئر فورس میں ایئر مین کی حیثیت سے شمولیت اختیار کر لی ۔ریٹائر منٹ کے بعد نارووال سے لاہور منتقل ہوئے اور اپنے ادبی ذوق کی تکمیل کی لئے اردو اور پنجابی زبانوں میں اسلامیات اور نعتِ سرورِ کونین ﷺ کی طرف متوجہ ہوئے ۔ اب تک آپ کی تقریباً آٹھ کتب نثر اور نظم میں شائع ہو چکی ہیں ۔اردو میں ‘‘صراط‘’ نجات ’’ اور‘‘معراجِ محبت ’’ اور پنجابی میں ‘‘سوہنے دیاں گلاں’’آپ کے معروف نعتیہ مجموعے ہیں۔

راقم الحروف کیپٹن عطارسول المعروف شاکر کنڈان (۲۰ جون ۱۹۵۱ء)میٹرک کے بعد پاک فوج میں سپاہی کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی ۔اٹھارہ سال رینک میں گزارنے کے بعد کمشن حاصل کیا ۔ریٹائر منٹ کے بعد یونیورسٹی آف سرگودھا میں تقریباً دس سال تک تدریسی خدمات انجام دیں۔ایم فل اور پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈر ہونے کے علاوہ پینتیس تصانیف و تالیفات شائع ہو چکی ہیں۔‘‘نغمۂ محمدی سے نکلی آب جو ’’نعتیہ مضامیں اور ‘‘خلعتِ توقیر’’نعتیہ مجموعۂ کلام ہے ۔

عسکریت کو شعری ہیئت میں ڈھالنے والے نائیک محمد اکرم باجوا (یکم جنوری ۱۹۵۲ء)فوج میں سپاہی بھرتی ہوئے ۔فاضل اردو کے بعد آپ نے ایم اے تک تعلیم حاصل کی اور مقررہ مدتِ ملازمت پوری ہونے کے بعد سبک دوشی اختیار کی ۔بعدازاں وہاڑی کے ایک نجی کالج میں لیکچرر شپ اختیار کر لی ۔اردو اور پنجابی میں ایک درجن سے زائد کتب آپ تصنیف و تالیف کر چکے ہیں جن میں نثر کی زیادہ اور نظم کی کتب کم ہیں ۔‘‘قلم سے روشنی پھوٹے ’’کے نام سے آپ کا نعتیہ کلام کتابی صورت میں شائع ہو چکا ہے ۔آپ کا نعتیہ اسلوب ملاحظہ فرمائیے:           ؂

                حوصلے سرکارؐ کے دیکھے ہیں کائنات نے   :               شعبِ بو طالب کے اُس محصور کے مہمان کے

                آپؐ شہرِ علم ہیں اور دانش و حکمت کا باب                :               آپ ﷺ وہ امی ہیں جو تلمیذ ہیں رحمان کے

نیوی میں بطور سیلر میڈیکل کے شعبے میں بھرتی ہونے والے اورنگ زیب(۲ فروری ۱۹۵۲ء۔۱۲ فروری ۲۰۱۰ء)جسے لوگ عدیم یوسفی کے نام سے جانتے ہیں ایف ایس سی کرنے کے بعد ۱۹۷۲ء میں فوج کا حصہ بنے۔ دورانِ ملازمت ایل ایس ایم ایف کا کورس مکمل کیا اور ملازمت کے بعد اپنا کلینک بنا لیا ۔ادب میں آپ تصوف کی طرف مائل تھے ۔نثر میں ‘‘مقصدِ تخلیقِ کائنات اور انسان ’’آپ کی با مقصدکتاب ہے ۔ ‘‘مشک بار ’’کے نام سے آپ کا نعتیہ مجموعہ شائع ہو چکا ہے ۔وفات سے قبل آپ کا مسودہ ‘‘حقیقتِ روحانیت ’’پریس میں جا چکا تھا ۔راقم کی نظر سے یہ مسودہ گزر چکا تھا ۔اگر یہ کتاب چھپ جاتی تو تصوف کے موضوع پر ایک عمدہ اضافہ ہوتا ۔

ایک شاعر،سفر نامہ نگار،منظوم سیرت نگار، ادیب، مرتب اور مؤلف سوار سبحان الدین(۳۰ مئی ۱۹۵۲ء) جو اردو ادب میں حاجی گل بخشالوی کے نام سے اپنی پہچان اردو دنیا میں بنا چکے ہیں ،میٹرک کے بعد فوج کے شعبہ آرمڈ کورمیں سوار(سپاہی) کی حیثیت سے شامل ہوئے ۔ آپ نے کچھ عرصہ فوج میں گزارا اور پھر خیر باد کہہ کر اپنا کاروبار کرنے لگے ۔بالآخر ملک سے باہر چلے گئے اور ایک طویل عرصہ گزارنے کے بعد واپس لوٹے ۔آپ کی تقریباً بتیس تصانیف، تالیفات اور مدون کتب شائع ہو چکی ہیں ۔جن میں آپ کے نعتیہ مجموعے ‘‘منظوم سیرت النبیﷺ’’، ‘‘گلزارِ محمدﷺ’’اور گلستانِ نعت’’بھی شامل ہیں ۔ترتیب دیئے ہوئے نعتیہ مجموعے ان سے الگ ہیں ۔        ؂

                                بخت بیدار ہیں وہ جن کو خدا لے جائے   :                ہم کو بھی کاش مدینہ میں قضا لے جائے

                                جامِ کوثر کے لئے وہ نہ پریشاں ہو گا        :               دل میں جو اپنے محمد ﷺ کو بسا لے جائے

آرمی ایجو کیشن کور میں خدمات انجام دینے والے لیفٹیننٹ کرنل شاہد کوثری (۵ مارچ ۱۹۵۴ء)فیصل آباد میں پیدا ہوئے لیکن ریٹائر منٹ کے بعد اسلام آباد میں سکونت اختیار کی ۔انگریزی اور اردو میں آپ لکھتے ہیں ۔ انگریزی اور اردو میں۱×۱ نثری تصنیف کے علاوہ آپ کا نعتیہ مجموعہ ‘‘ہا لہ ٔ رحمت’’ کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے ۔

میجر محمد اسلم سیالوی(یکم جنوری ۱۹۵۸ء)کی جنم بھومی مشائخ کی بستی سیال شریف ضلع سرگودھا ہے۔ آپ فاضل دارالعلوم سیال شریف ،بعدہ’ عربی اور ایجوکیشن میں ایم اے کیااور ایجوکیشن کور میں کمیشن حاصل کیا ۔ملازمت کے دوران جہاں سعودی عرب میں خدمات انجام دیں وہیں امیریکن یونیورسٹی قاہرہ (مصر) سے ایڈوانس عریبک کورس بھی کیا ۔پنشن یاب ہونے کے لاہور میں اقامت اختیار کی ۔‘‘اوجِ سعادت ’’کے نام سے آپ کا نعتیہ مجموعہ شائع ہو چکا ہے ۔

آرمی میڈیکل کور میں خدمات ادا کرنے ولے حوالدار محمد سلیم محرم (۱۹ فروری ۱۹۵۷ء)میٹرک اور ڈسپنسری کورس کرنے کے بعد فوج میں بھرتی ہوگئے ۔تعلیمی سلسلے کو بھی جاری رکھا اور ایف اے کیا اور سبکدوشی کے بعد سوئی گیس سٹیشن ہیڈ کوارٹر ڈسپنسری فیصل آباد میں ملازمت اختیار کر لی ۔تعلیمی قابلیت کو مزید آگے بڑھایا اور درسِ نظامی، فاضل نظامی،بی اے اور ایم اے کی اسناد حاصل کیں ۔آپ کا ایک مجموعۂ کلام ‘‘چشمِ آہو ’’کے نام سے اور ایک نعتیہ مجموعہ ‘‘ثنائے سرورِ عالم ﷺ’’کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے ۔

شیخ الحدیث،عالمِ دین چیف ٹیک پیر غلام رسول قاسمی قادری نقشبندی (۱۳ جنوری ۱۹۵۸ء)میٹرک کے بعد ایئر فورس میں بھرتی ہوئے ۔دوران ملازمت گریجو ایشن کیا۔اسی دوران پیر سید فیروز شاہ قاسمی سے روحانی فیض پایا اور دین کی تبلیغ کی طرف مائل ہوئے ۔ آپ نے عربی، فارسی، انگریزی، پنجابی،سندھی ،پشتو اور اردو زبانوں پر اپنی گرفت مضبوط کی اور ان تمام زبانوں کو اظہار کا ذریعہ بنایا ۔ان تمام زبانوں میں آپ کی تیس کے لگ بھگ کتب شائع ہو چکی ہیں ۔آپ کا نعتیہ مجموعہ ‘‘خیر الکلام فی مدح سید الانام’’شائع ہو چکا ہے جس میں مذکورہ تمام زبانو ں میں نعت موجود ہے ۔           ؂

                جس کی سرکار کے کوچے سے شناسائی ہے                 :               اُس نے فردوس میں واللہ جگہ پائی ہے

                کب سے ویرانۂ مغرب میں بھٹکنے والو                     :               اُن کے دربار چلے آؤ ، بہار آئی ہے

کیپٹن غنی عاصم نے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد فوج میں شمولیت اختیار کی ۔میڈیکل کور میں ڈاکٹر کی حیثیت سے چند سال کی خدمات کی انجام دہی کے بعد رخصت لے لی ۔کچھ عرصہ صحرائے عرب میں گزارا اور پھر ڈیرہ غازی خان میں اپنے لوگوں کی خدمت کرنے لگے ۔آپ کے چار شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن میں سے ‘‘نکہت ِ بادِ بہاری ’’نعتیہ مجموعۂ کلام ہے ۔

سراپا محبت و محنت چھب تحصیل جنڈ کے ساغری قبیلہ کے فرد چیف ٹیک شوکت محمود شوکت (۲ نومبر۱۹۶۷ء) نے ایئر فورس میں ملازمت کے دوران ایم اے، ایم فل، ایل ایل بی،شریعۃ لاء، اور بی ایڈ کی اسناد حاصل کیں ۔میڈیکل بورڈ کے بعد کچھ عرصہ وکالت کی اور پھر تدریس سے وابستہ ہو گئے۔آج کل گورنمنٹ کالج پنڈی گھیب میں پرنسپل کے فرائض انجام دے رہے ہیں ۔آپ کے چار شعری مجموعے اور دو مرتبہ کتب شائع ہو چکی ہیں ۔جن میں ایک حمدیہ اور ‘‘معراجِ سخن ’’نعتیہ مجموعہ ہے ۔           ؂

                                پڑھوں درود تو آرامِ جاں میسر ہو          :               غموں کی دھوپ میں اک سائباں میسر ہو

                                عطا ہو ں کوثر و تسنیم سے دھلے الفاظ      :               کہوں جو نعت ، معطر زباں میسر ہو

حوالدار محمد یعقوب فردوسی (یکم فروری ۱۹۶۸ء)ایف ایس سی نامکمل چھوڑ کر پہلے ریلوے اور پھر فوج میں ایک لمبا عرصہ گزار کر پنشن یاب ہوئے ۔اردو اور پنجابی زبانوں میں شعر، کہانی، افسانہ، ناول اور کالم لکھا لیکن اردو ماہیا میں نام کمایا اور ریکارڈ بنائے ۔ دو درجن کے لگ بھگ آپ کی تصانیف شائع ہو چکی ہیں ۔‘‘مدینہ مدینہ پیارا مدینہ’’آپ کا پہلا نعتیہ مجموعہ تھا اور یہ بھی ماہیا کی ہیئت میں تھا ۔فردوسی کے دو ماہیے دیکھیے :         ؂

                یوں دل کو لبھاتا ہوں                        : آپ کے روضے کی         :                تصویر بناتا ہوں

                اک وجد میں رہتا ہوں      :               شاہِ مدینہ ﷺ کے        :                جب ماہیے کہتا ہوں

فرنٹیئر فور س رجمنٹ کے نائیک امیر قلم خان(۱۰؍ اکتوبر ۱۹۶۸ء) جو ادبی دنیا میں راحت امیر نیازی کے نام سے پہچانے گئے کے ذوق کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ پانچ جماعت تک تعلیم حاصل کی اور آج کئی کتابوں کے مصنف اور مرتب ہیں ۔آپ کی ادبی خدمات پر ایم فل کا ایک مقالہ بھی لکھا جا چکا ہے ۔کئی رسالوں کی ادارت ،ریڈیو کے پروگراموں میں حصہ اور ایک پبلشنگ ادارہ کا انتظام آپ کی مصروفیات ہیں ۔آپ کا نعتیہ مجموعہ ‘‘ترا دستِ شفا چاہوں’’ شائع ہو چکا ہے ۔ 

مردان کے ایک چھوٹے سے گاؤں پئی خیل کے باسی نائیک شاہ روم ولی (۱۰ مارچ ۱۹۸۶ء)اردو ادب میں بہت کم عرصے میں اپنا مقام بنانے میں اتنے کامیاب ہوئے کہ اردو دنیا میں اپنی پہچان رکھتے ہیں ۔ایف اے کرنے کے بعد فوج میں شمولیت اختیار کی ۔مردان سے ایک رسالہ ‘‘املاک’’ کے نام سے نکال رہے ہیں اور‘‘ وجود کا سورج’’، ‘‘دکھ مسافر ہیں ’’، ‘‘چراغ’’ اور ‘‘گفتن’’ کے بعد حال ہی میں آپ کا نعتیہ مجموعہ ‘‘آفرینش ’’ کے نام سے شائع ہؤا ہے جس کی انفرادیت شاعری میں پہلا مکالماتی نعتیہ مجموعہ ہونا ہے ۔ نمونہ ٔ کلام حاضر ہے :          ؂

                                اس نے کہا کہ تیرگی مٹنے کا حل بتا          :               میں نے کہا کہ نور ہمارے رسول ﷺ ہیں

                                اُس نے کہا کہ دورِ جہالت تمام شد         :               میں نے کہا شعور ہمارے رسول ﷺہیں

آخر میں اپنے دو نعتیہ اشعار کے ساتھ اجازت چاہوں گا ۔            ؂

                                تھا راعنا پہ صورتِ انظر بدل دیا                            :               ابہام کا ہر ایک تصور بدل دیا

                                نعتِ نبی نے معنئ ترتیل کھول کر          :                ہر ساز ختم کر دیا ہر سُر بدل دیا

                                                                                ﴿٭﴾

حوالہ جات

۱۔             جامع ترمذی، امام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی، ابواب المناقب،حدیث نمبر ۱۵۷۲

۲۔            دیکھیے راقم کی کتاب ‘‘مقالاتِ نو’’مطبوعہ رنگِ ادب کراچی،۲۰۱۷ء،نیز چوہدری عبدالغفور نے اپنے مضمون ‘‘امیر خسرو اور حسن سنجری کی عسکری خدمات ۔دونوں کی زندگیوں کا موازنہ ’’ مطبوعہ مجلہ تاریخ و ثقافت پاکستان،جولائی تا دسمبر۔۲۰۱۷ء

۳۔            اس پوری بحث میں صرف اُن شعراء کا ذکر مقصود ہے جن کے نعتیہ مجموعے شائع ہو چکے ہیں ۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...