Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نقش فریادی جنوری تا مارچ 2023 > ۴ناول رقص نامہ میں سندھی عناصر اور سندھی سماج

نقش فریادی جنوری تا مارچ 2023 |
پنجاب لٹریری فورم
نقش فریادی جنوری تا مارچ 2023

۴ناول رقص نامہ میں سندھی عناصر اور سندھی سماج
Authors

ARI Id

1695781782714_56118428

Access

Open/Free Access

Pages

42

ناول رقص نامہ میں سندھی عناصر اور سندھی سماج

کومل شہزادی،پی ایچ ڈی اسکالر

سندھ کی سرزمین دنیا کی واحد دھرتی ہے جہاں پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام کے قدم پڑے اور ان کی اولاد کا جنم و دفن ہوا ، ھابیل بن آدم دادو ضلع کے کا چھو کے علائقے کا سبوجبل ( پہاڑ) میں مدفون ہے حضرت محمد ﷺ کو بھی سندھ کی سر زمین سے بیحد پیار و محبت تھی جن کے حوالہ جات آگے آئیں گے۔قرآن پاک میں سندھی قوم کا ذکر ہوا ہے ،کتنے ہی سائنس اور تاریخی حوالہ جات ذاتی تجربات و مشاہدات کی بنیاد پر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ سندھ ہی انسانی و حیوانی ارتقا کا جنم بھومی ہے ۔جب تمام دنیا کی دھرتی برف کے تہوں سے برف پوش تھی تب سندھ کی دھرتی ہی وہ واحد خطہ ارض تھا جہاں برف نہیں ہوتی تھی  اور گرم رہنے والا خطہ تھا ،جہاں انسان اور حیوان موجود تھے ،شونکہ سردی میں انسان اور جاندار کا زندہ رہنا ممکن ہی نہیں ہوتا اور گرم علاقہ صرف سندھ کی سرزمین ہے سائنس  بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہے ۔سندھ کی تاریخ عربوں کھربوں برس پرانی ہے ، سندھ کا خطہ تاریخ کے ان خطوں میں شمار کیا جاتا ہے جہاں مسلسل آبادی و خوشخالی رہی ہے ۔سندھ کی سرزمین پرموہن جو دڑو ، ہٹرپہ کی عظیم تہذیبوں نے جنم لیا جن کا مرکز موہن دڑو رہا ہے ،موہن جودڑو کی نسبت سے علما سے ملاقاتوں میں یہ بات سامنے آئی ہے  کہ عاد قبیلے کا جد امجد موھن نامی ایک شخص تھا ،جنہوں نے رنی کوٹ کا قلعہ تعمیر کروایا ۔سر زمین سندھ کو اپنے مورث اعلیٰ حضرت سندھ سے منسوب سات دریاؤں سے بھی منسوب کیا جاتا ہے ۔یہ سات دریا ہمالیہ کے پہاڑوں کے برف پوش ٹیلوں کی چوٹیوں سے چھوٹے چھوٹے چشموں کی صورت میں بہتے ہیں۔سندھ کی تاریخ نامعلوم دور سے زمین دو تہوں میں چھپائی گئی ہے ۔یہ انسان کی پیدائش کا مرکز ہے بلکہ ایسا کہنے میں کوئی مبالغہ نہ ہوگا کہ ارتقا کا گھر ہے ۔سندھ کی سرزمین ،قدامت اور تہذیبی اولیت اس سائنسی وکمپیوٹرائز  دور میں تمام دنیا میں مقبول ہوچکی ہے ۔اسی ضمن میں امریکا کی خاتون محققہ اومیل کی تحقیقی کتاب  جس کا سندھی میں ترجمہ سندھو تہذیب سندھو دھرم جا یورپ میں قدیم آثار کے عنوان سے عطا محمد بھنبرو نے کیا ہے جس میں انہوں نے سندھ کی تہذیب کو دنیا کی تہذیبوں مثلا مصر ، میسو  پوٹیما ،عراق ،دجلا فرات  کی تہذیبوں سے بالا تر کہاں ہے ۔اور یہ بھی ثابت کیا ہے کہ یہ تمام مذکورہ تہذیبیں سندھو تہذیب  کا مقابلہ کسی بھی  صورت میں نہیں کر سکتیں۔لیکن سردار سندھی نامی ایک مصنف اپنی محدود  سوچ اور کم علمی  کے باعث ابھی تک دجلا فرات کی تہذیب میں پھنسا ہوا ہے کہ دجلا  فرات میں پرانے گاؤں ملے ہیں اور زراعت بھی وہاں شروع ہوئی ۔انیسویں اور بیسویں صدی عیسوی میں سندھ کے معاشرے اور تمدن کی خصوصیات کا جائزہ لینے کے لیے ضروری ہے کہ یہاں کے تہذیبی حالات پر نظر ڈالی جائے۔ سندھ اس برصغیر میں اسلامی تہذیب و تمدن کا بڑا مرکز رہا ہے ۔برصغیر میں سند میں ہی وہ ملک ہے ۔جہاں سب سے پہلے اسلام کا آفتاب طلوع ہوا ۔سندھ ہی کو یہ فخر حاصل ہے کہ اس کو باب الاسلام کہا جاتا ہے ۔ حجاز سے جو اسلامی علم و عمل کی موجیں اٹھیں وہ دریائے سندھ سے ٹکرائیں اور اس برصغیر کو اسلام کے نور سے منور کردیا ۔سندھ میں حجاز سے اسلامی علوم اور روحانی قافلوں کی آمد ورفت شروع ہوئی اور سندھ کی اسلامی علوم و فنون کا مرکز بنا دیا ۔ عربوں کی سادہ زندگی نے سندھ کے تمدن اسلام کے وہ تحائف ہیں جو عربوں کے آنے کے بعد سندھ میں عام ہوئے ۔برطانوی عہد سے پہلے ہندو اور مسلمانوں کے تعلقات انتہائی شگفتہ نظر آتے ہیں۔ ان کی زندگی کے ہر شعبے میںخلوص و محبت ،اتحاد و یگانگت اور مذہبی رواداری تھی۔لیکن انگریزوں کے عہد میںیہ رواداریاں ختم ہوئیں اور برصغیر کے ہر خظے پر جہاں بھی انگریز نے اقتدار حاصل کیا پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو پر عمل کیا ۔سندھ کی معاشرتی زندگی میں کوئی توازن نہ تھا۔سندھ کی سماجی حالت اس درجہ تباہ تھی کہ زندگی کی ساری لذتیں اونچے طبقے کے لوگوں کے لیے مخصوص تھیں۔ سندھ کے غریب طبقے جانوروں جیسی زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے ۔ضرورت کے بغیر سندھ کے دیہی  لوگ حرکت نہیں کرتے۔یہ لوگ سارا دن بیٹھے رہتے ہیں اور ساری رات تمباکو نوشی اور باتوں میں گزار دیتے ہیں۔تقریبا تمام لوگ ہی کسی نہ کسی نشے کا استعمال ضرور کرتے ہیں۔بھنگ چونکہ سب سے زیادہ سستی ہے اس لئے وہ عام ہے۔ سندھی گانوں کے بہت شوقین ہیں ان کے ہاں اچھے ساز بھی ہیں اور اچھے گویے بھی ہیں۔اردو ناول میں دیہی ماحول اور معاشرت کی عکاسی میں عبداللہ حسین ،شوکت صدیقی،ابوالفضل صدیقی اور مستنصر حسین تاڑر وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔وہیں جیم عباسی بھی شامل ہیں۔دیہات اور شہر کے فرق کو سامنے رکھتے ہوئے اگر ہم پاکستان کے دیہی اور بلدیاتی آبادی کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ پاکستان   کی کل آبادی کا ستر فیصد سے زیادہ حصہ دیہات میں سکونت پذیر ہے اس بات کی وضاحت  جاننے کے لیے کسی خطے کی اصل تہذیب و معاشرے کا جائزہ لینے کے لئے ہمیں دیہات کی طرف ہی رجوع کرنا پڑتا ہے ۔کسی بھی خطے کی تہذیب و معاشرت کی حقیقی بنیادوں کا سراغ لگانے کے لئے  ہمیں شہر چھوڑ کر دیہات کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔آج کل سندھ ،پاکستان کا ایک جزو ہے ،  سندھ کا نام سن کر جو تصور ہمارے ذہن میں آتا ہے وہ اسی چھوٹے سے ملک کا تصور ہوتا ہے ۔سندھ کی دیہی معاشرے پر اب بات کریں تو سندھ کی معاشرتی زندگی میں کوئی توازن نہ تھا۔سندھ کی سماجی حالت اس درجہ تباہ تھی کہ زندگی کی ساری لذتیں اونچے طبقے کے لوگوں کے لیے مخصوص تھیں۔ سندھ کے غریب طبقے جانوروں جیسی زندگیبسر کرنے پر مجبور تھے ۔ضرورت کے بغیر سندھ کے دیہی  لوگ حرکت نہیں کرتے۔ناول میں سندھ کی جو صورت گری ہوئی ہے وہ دراصل انسانی مسائل اور آشوب حیات ہی کے حوالے سے ہوئی ہے ۔ان کا پہلا ناول ''رقص نامہ ''2021ء میں شائع ہوا ۔جس کا لوکیل سندھ کی دیہی معاشرت ہے ۔یہ ایک منفرد ناول ہے جس کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔تین سو پینتیس صفحات پر مشتمل یہ ناول سٹی پریس بک کراچی نے شائع کیا ہے ۔ناول ''رقص نامہ ''جس میں ہمیں سندھ کے دیہی کلچر کی عکاسی ملتی ہے ۔''اس ناول کے ذریعے سندھ کی دیہی معاشرت کی اردوفکشن میں کامیاب مقام حاصل ہے۔"١

دیہی زندگی میں پنچائیت ایک خاص اہمیت کی حامل ہوتی ہے ۔پنچ جو فیصلہ کردیتے ہیں وہ حتمی ہوتا ہے ۔اسی طرح جیم عباسی نے ''رقص نامہ ''میں سندھ کی دیہی معاشرت پائے جانے والے اس پہلو کی بھرپور انداز میں عکاسی کی ہے ۔ناول میں پیر سید عبدالرحمن یہ کردار ادا کرتا ہے ۔کہ پورے دیہات میں اس کے اجازت نامے کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا ۔یہاں تک کہ کسی کا معمولی سا معاملہ بھی ہو وہ پیر صاحب کے سامنے پیش کیا جاتا ہے ۔دیہی مسائل سے لے کر کسی کے بچے کے سکول جانے تک تمام کاموں کو کرنے کے لیے اول اجازت نامہ پیر صاحب سے لینا ضروری ہوتا ہے ۔ایسا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ان کی اجازت کے بغیر کوئی کام کر لیا جائے ۔دیہی معاشرت میں یہ پنچائیت سسٹم جسے ہم جرگہ بھی کہہ سکتے ہیں ۔ناول '' رقص نامہ '' میں  مذہبی عقائد ،مذہبی انتہا پسندی اور مذہبی جبر کو بھی موضوع بنایا گیا ہے جس سے سندھی دیہی معاشرت کی بھرپور عکاسی ملتی ہے ۔انگریزی علاج اور انگریزی پڑھائی دونوں گاؤں میں ممنوع تھی ۔سائیں عبدالرحمن شاہ کی باتوں پر سب دیہی طبقہ لبیک کہتا تھا اور ان سب کا ماننا تھا کہ اپنے مرشد کی بات ماننے والا اور اُس کے بتائے راستے پر چلنے والے کا ادھر بھی بیڑا پار اور آگے بھی ۔اس لیے مرشد کا دامن پکڑ کر چلو ۔انگریزی تعلیم اور انگریزی علاج کو اس معیوب سمجھا جاتا تھا کہ یہ سب کرنے والا بے دین ہوجاتا ہے ۔

''یہ سب دین میں خلل پیدا کرنے کے لیے شیطانی حربےہیں۔ان سے دور رہو۔خود کو بھی بچاؤ،اپنی اولاد کو بھی بچاؤ"٢

مذہبی جبر اور گوٹھ کے دیہات پر مذہبی شدت پسندی عروج پر تھی ۔اور یہ سب نظام سائیں کا رائج کیا ہوا تھا ۔سلیمان شاہ ایک دفعہ دوستوں ساتھ نہر پر چلا جاتا ہے ۔جس پر سائیں سخت غصہ کرتے ہیں کہ ایسے بچے آوارہ ہوجائیں گے اور دین سے دور ہوجائیں گے ۔اتنے چھوٹے نہر پر جانے کی ہمت کرگئے ۔پھر انہیں ہوٹل پر جانے سے کون روکے گا ۔یہ ہی بازاروں میں کل کو آوارہ گردی کریں گے۔سائیں اس کو سخت سزا دینا چاہتا ہے کیونکہ یہ سائیں کی اولاد ہے تو اس کے ایمان کا ذمے دار بھی سربراہ ہے ۔سائیں کا خیال ہوتا ہے کہ یہ آج نہ سدھرے گا تو کل کواس کی بداعمالیاں مجھے جہنم تک جا پہنچائیں گی ۔سلیمان شاہ اور عبداللہ کو نظام کی خلاف ورزی کرنے پر دونوں کو سو مرتبہ اٹھک بیٹھک کی سزا دی جاتی ہے ۔پورے گوٹھ پر مذہبی جبر کا نظام لاگو تھا ۔جس کی خلاف ورزی پر سزا تک دی جاتی تھی تاکہ کوئی بے دینی کی جانب نہ نکل جائے۔سندھ کی دیہی معاشرت میں پیرومریدی کا نظام عروج پر تھا جس کو ناول نگار جیم عباسی نے بہت عمدہ انداز میں تحریر کیا ہے ۔دیہی طبقے کا اس کی جانب رجحان اور پیر کے ہر حکم پر لبیک کہنا ان کی اولین ترجیحات میں شامل تھا ۔

ناول میں ایک جگہ جیم عباسی نےاندرون  سندھ کی مختصر تاریخ پر بھی روشنی ڈالی ہے ۔کہ سندھ کا ایک بڑا علاقہ ڈاکو راج میں جی رہا تھا ۔پولیس بے بس بن چکی تھی اور فوجی حکومت ہونے کے باوجود کچھ بھی کرنے سے قاصی تھی۔لوگ اپنی مدد آپ کے تحت معورچے بنائے ساری ساری رات جاگتے رہتے ۔اخباریں اغوا کی خبروں سے بھری ملتیں۔حالات یہ تھے کہ غریب و امیر کا فرق مٹ گیا تھا ۔جو ملتا اغوا ہوجاتا۔یہ سندھ کے کچھ علاقے کی صورت حال کا تذکرہ سندھ کی تاریخ پر بھی روشنی ڈال رہا ہے ۔''حاجی غلام مصطفیٰ اسی صورتحال کے باعث پانچ عدد ہتھیاڑوں کے لائسنس بنوالایا تھا۔''٣اسی طرح ناول کے دوسرے حصے میں بھی سندھ کی تاریخ پر روشنی ڈالی گئی ہے جس سے سندھ کا احوال بہترین انداز میں بیان کیا گیا ہے ۔جو سندھ کی تاریخ میں اہمیت کا حامل ہے ۔مے خانے میں بیٹھ کر سائیں صوفی ،رام داس اور سب بیٹھ کر اس پر تفصیلی روشنی ڈال رہے تھے کہ سندھ والوں کا شیراز جیسا نصیب نہ تھا ۔رام داس یہ سب بیان کرتے ہوئے دکھی تھا ۔غلام شاہ کلہوڑو پر کیا گیا ظلم اور دوسری جنگ کے وقت غلام شاہ کلہوڑا نے سندھو دریا کی دوسری شاخ جو کَچھ کے علاقے سے گزر کر سمندر میں گرتی تھی ،اس کو اپنی حد اندر بڑا پشتہ بنوا کر کَچھ والی شاخ کا پورا بہاؤ روک دیا ۔سندھ کی مختصر تاریخ سے سندھ میں آنے والی حکومتوں کا مختصر احوال ناول نگار جیم عباسی نے جس انداز سے کرداروں کی زبانی بیان کروایا ہے وہ قابل داد ہے ۔

دیہات میں پیر کی وفات کے بعد اس کا بڑا صاحبزادہ گدی نشین ہوکر دیہی افراد کے لیے اُسی طرح پیر ومرشدی کا کردار ادا کرتا ہے جیسے اس سےپہلے سائیں کرتے ہیں۔جدھر مریدین کے لیے سائیں عبدالرحمنٰ شاہ کی وفات آفت تھی ۔سندھ کے دیہی علاقے گوٹھ میں ایسے معاملات بلکہ دیہی معاشرت میں ہر جگہ ایسا ہی ددیکھنے کو ملتا ہے ۔ناول نگار نے اس پہلو کی عکاسی عمدہ انداز میں کی ہے ۔سندھ کی دیہی معاشرت کے ساتھ ویسے ہی کردار سندھی دیہی معاشرے کی عکاسی کرتے دکھائے گئے ہیں ۔

ناول کے دوسرے حصے میں سندھ کی دیہی معاشرت کی عکاسی کچھ اس انداز میں کی گئی ہے جو ناول کے پہلے حصے سے بہت مختلف ہے ۔جس میں مے خانے میں دوغلا ماحول جس میں مے اور کنجریوں کو ناچتے ہوئے وغیرہ شامل ہے جو ایک طرف فقیر کا کردارہے دوسری جانب ان کاموں کی طرف مائل ہے ۔بیک وقت دوماحول دوگلے پن کا ظاہر کرتا ہے۔

ناول کے دوسرے حصے میں بھی پیروفقیری کو دکھایا گیا ہے لیکن پہلے اور اس حصے کی پیری میں بیت امتیاز پایا جاتا ہے ۔دیہی طبقے میں پیر کو اعلیٰ درجے پر رکھا جاتا ہے کیونکہ دم و تعویزات کا کام بھی پیر سے لیا جاتا ہے ۔مے خانے میں صوفی حیدربخش کے پاس وہی لوگ شوق سے آتے تھے ۔صوفی کے پاس کبھی کوئی دعا یاترکیب کے لیے آجاتا جن کی مدد کے لیے صوفی ہر وقت تیار رہتا ۔ناول نگار جیم عباسی نے صوفی کی پیری کو کچھ یوں دکھایا ہے ۔

''دعا تعویز سے لے کر سرکاری آفیسوں کے کام ،تھانے

اور اسپتال تک کے کام شامل تھے ۔''۴

پورے ناول میں سندھ کا دیہی لب و لہجہ ،سندھی دیہی کلچر،دیہی منظر نامہ ،سندھی زبان میں کہلوائے گئے کرداروں سے مکالمے سب سندھ کے دیہی معاشرت کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں ۔دیہی علاقوں میں فصل تیار ہوتو سب گاؤں میں خوشی کی لہر آجاتی ہے ۔ان کی محنت کی وصولی ان کو ملنے کے قریب ہوتی ہے ۔دیہی علاقوں میں ابھی بھی گھوڑا سواری اور ٹانگے کی سواری عام ہے ۔یہ ہی دیہی معاشرے کی روایات ہیں جوابھی بھی باقی ہیں ۔ناول ''رقص نامہ '' میں بھی مصنف نے دکھایا ہے کہ سندھ کے دیہی علاقوں میں سواری کے لیے ابھی بھی ٹانگے کی سواری ہے ۔سائیں جب لانگری فقیر کے ساتھ سفر کرتے ہیں تو وہ ٹانگے کی سواری کا انتخاب کرتے ہیں ۔''تانگے کی پطھلی سیٹ پر بیٹھے تسبیح کے دانے پھیرتے ان کے چہرے پر چمک تھی ۔اگلی سیٹ پر کچبان کے ساتھ بیٹھا لانگری نسخہ خاص اور معجون والے مرتبان گود میں سنبھالے ہوئے تھا ۔''۵سندھ کی دیہی معاشرت پر لکھا جانے والا ایک اہم ناول ہے ۔ناول میں کرداروں کے مکالمے سے سندھی لب و لہجہ ظاہر ہوتا ہے محض لفظ ہی نہیں کرداروں کے کیے گئے مکالمے میں جملہ سازی میں بھی دیہی سندھ کے بھرپور اثرات ملتے ہیں۔ناول ''رقص نامہ '' میں جیم عباسی نے وہی مکالمے استعمال کیے ہیں جو سندھ کے دیہی افراد کی زبان تھی ۔اسی طبقے کے لوگوں سے وہی مکالمے ادا کروائے جو سندھ کے دیہی معاشرت کی عکاسی کرتے نظر آتے ہیں ۔ناول میں مصنف نے مکالمے جیسے تحریر کیے ہیں ان میں سے کچھ ملاحظہ کیجیے:

''سائیں،ایک ہندو تھا بالچند ۔اسے کسی مسلمان نے وانڑیو

کہا۔وانڑیو لفظ ہندو کو خواری کے لیے بولتے تھے۔تحقیرا

وانڑیو کہتے تھے۔''٦

علاوہ ازیں سندھی شاعری میں شاہ عبدالطیف بھٹائی اور سچل سرمست کے اشعار بھی ناول کے دوسرے حصے میں تحریر کیے ہیں۔سندھی زبان میں شاعری کرنے والوں میں ان کے نام اہمیت کے حامل ہیں ۔سندھی ایک قدیم زبان ہے ۔یہ ہی وجہ کہ سندھی ادب بھی قدیم ہے ۔سندھی لوک ادب کے علاوہ سندھی زبان  میں شاعری اور نثر کا ایک وسیع ذخیرہ موجود ہے ۔سندھی زبان سے واقفیت رکھنے والے تو ان شعرا شاہ لظیف اور سچل سرمست کی شاعری سے بخوبی واقف ہوں گے ۔سندھ کے دیہی افراد سے ویسے مکالمے جو اُن کے دیہی زبان کو نمایاں کرتے ہیں ۔ناول نگار نے ویسے ہی الفاظ چنے ہیں ،جو کرداروں پر خوب بھاتے ہیں ۔کرداروں کے لب و لہجہ سے بھی سندھ کی دیہی معاشرت دیکھی جاسکتی ہے ۔

المختصر،جیم عباسی نے سندھ کے دیہی لوگوں کے رہن سہن ،سماجی رویوں،دیہی کلچر اور سندھ کی تاریخ و ثقافت کی بھرپور عکاسی کی ہے ۔اس ناول میں جیم عباسی نے سندھ کے خدوخال کو بھرپور انداز میں پیش کیا ہے ۔مزید برآں سندھ کے دیہی لوگوں کی طرززندگی اور طرزاحساس ،مذہبی جبر ،مذہبی شدت پسندی ،مذہبی عقائد ،توہم پرستی پر عمدہ انداز میں روشنی ڈالی ہے ۔رقص نامہ '' میں  مذہبی عقائد ،مذہبی انتہا پسندی اور مذہبی جبر کو بھی موضوع بنایا گیا ہے جس سے سندھی دیہی معاشرت کی بھرپور عکاسی ملتی ہے ۔کس طرح دیہی علاقوں میں مذہبی صورت حال ہے ناول میں اس کو بھی پیش کیا گیا ہے۔

سائیں عبدالرحمن شاہ نے گاؤں میں ایک قانون بنایا ہوتا ہے کہ نماز نہ پڑھنے والے کو سزا اور جرمانہ ہوگا ۔اگر کوئی کسی نماز پر نہ پہنچتا تو جرمانہ ادا کرنا اُس پر عائد ہوتا ۔دینی انتہا پسندی کا یہ عالم تھا کہ جس نے گاؤں میں رہ lکر اس نظام کی خلاف ورزی کی ۔اُس پر سزا نافذ ہوتی تھی. ۔مذہبی جبر اور گوٹھ کے دیہات پر مذہبی شدت پسندی عروج پر تھی ۔اور یہ سب نظام سائیں کا رائج کیا ہوا تھا ۔سندھ کی دیہی معاشرت میں پیرومریدی کا نظام عروج پر تھا جس کو ناول نگار جیم عباسی نے بہت عمدہ انداز میں تحریر کیا ہے ۔

حواشی

١۔جیم عباسی ،رقص نامہ ، کراچی :سٹی پریس، 2016ء ،ص40

٢۔ایضا،ص22

٣۔ایضا،ص232

۴۔ایضا،ص280

۵۔ایضا،ص319

٦۔ایضا،ص228

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...