Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نقش فریادی جنوری تا مارچ 2023 > 5اردو شاعری میں قدرتی مظاہر کی تصویر کش

نقش فریادی جنوری تا مارچ 2023 |
پنجاب لٹریری فورم
نقش فریادی جنوری تا مارچ 2023

5اردو شاعری میں قدرتی مظاہر کی تصویر کش
Authors

ARI Id

1695781782714_56118429

Access

Open/Free Access

Pages

48

اردو شاعری میں قدرتی مظاہر کی تصویر کشی

ڈاکٹر عبدالمنان چیمہ

اردو شاعری کا ایک  اہم پہلو قدرتی  مظاہر و مناظر  کی تصویر کشی  ہے ۔ ایک طرف  شاعر کی اندرونی  کیفیت  ہوتی ہے اور دوسری طرف وسیع و عریض  کائنات اور اس کے بکھرے ہوئے حسین  قدرتی  مظاہر کا منظر ہوتا ہے۔اردو ادب کے  بہت سارے مشاہیر نے   فطرت نگاری کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ ان کے ہاں  فطرت کے حسن کا ذکر ملتا ہے۔ جن قدرتی  اشیاء کا تذکرہ کرتے ہیں ان میں اپنی دلی کیفیات کا رنگ بھر دیتے ہیں۔ فطرت نگاری میں شاعر اپنی  دلی کیفیات و محسوسات  کو قدرتی نظاروں سے  ہم آہنگ کرتا ہے۔ عصر حاضر میں پیسے کی دوڑ  اور  صنعتی انقلاب  نے کائنات کے  حسین مناظر کو  شدید خطرے سے دوچار  کر دیا ہے۔

زمین پر بڑھتی ہوئی  آلودگی  کا انسان  ، جانداروں اورماحول پر نقصان دہ اثر پڑرہاہے۔اس کی بڑی وجہ قدرتی عناصر کا غیر دانشمندانہ استعمال ہے۔ اس لیے قدرتی وسائل  میں انسان کی مداخلت  کو کم کرنا اور روک تھام  کے لئے کردار ادا کرنا وقت کی اہم  ضرورت ہے۔زمین کی آلودگی نہ صرف انسانوں کی صحت کے لئے خطرناک ہے بلکہ موجودہ  دور میں سرمایہ دارانہ فکر کا حامل انسان معاشی خوشحالی کے چکر میں نسل انسانی کے ساتھ ساتھ  کرہ  ارض پر پائی جانے والی  دیگر مخلوقات    کو بھی  بری طرح متاثر  کررہا ہے۔  بہت سارے  مشاہیر نے اپنی شاعری میں  قدرتی عناصر کے استحصال  اور ماحولیاتی آلودگی کی مذمت کی ہے۔ اردو ادب کے مشاہیرکا  اس قومی وانسانی خدمت  اور قدرتی مظاہر سے محبت کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔

ظفر اقبال ظفر   قدرتی مظاہر کی تباہی   میں انسان کے کردار کی  منظر کشی کرتے ہوئے لکھتے  ہیں :

جنگلی حیات ہوتی ہے معدوم ،ہو توہو
میرا شکار شوق ہے،ماروں گا بے حساب
بھر یار، دوستوں گا  فخر سے
اور ان کو بھی کھلاؤں گا میں تکے اور کباب
نائب خدا کا ہوں ،مر ی مرضی جو کروں!
دریا اگر ہیں خشک تو ،مجھ کو غرض نہیں
پانی ہے میرے گھر میں، میں ٹب میں نہاؤں گا
میں شیو جب بناؤں گا تو نل کروں کیوں  بند!
نائب  خدا کا ہوں،مری مرضی میں جو کروں!
لوگ ہیں بقراط! جو یہ کہتے ہیں مجھ سے
اوزون کی چادر ہوئی چھلنی ،سو وہ میں ہوں
صنعت کی ترقی کا ہے باعث یہ حرارت
موسم میں بپا ہے جو تغیر ، سو وہ میں ہوں
نائب خدا کا ہوں ،مری مرضی میں جو کروں!
اپنے ہی کئے کی میں سزا کا ٹ رہا ہوں
خود اپنے ہی زخموں کو پڑا چاٹ رہا ہوں
نادان ہوں،کم فہم ہوں،پاگل ہوں ،کیا ہوں!؟
جس شاخ پہ بیٹھا ہوں ،وہی کاٹ رہا ہوں

سلیم    واحد سلیم اپنی شاعری میں انتہائی دل نشین انداز  میں کائنات کی وسعتوں اور قدرتی حسن کی تصویر کشی کرتے ہیں۔دنیا کی تمام رنگینی اور رونق انسان ہی کے لیے  بنائی گئی ہے۔ مخلوقات ِ خدا میں انسان کا رتبہ سب سے بلند ہے۔ وہ قدرت کی تمام قوتوں کو تسخیر کر سکتا ہے۔دنیا میں  انسان  اللہ  تعالیٰ کا خلیفہ ہے او رکائنات کے تحفظ کی ذمہ داری بھی انسان کی ذمہ داری   ہے۔کچھ اشعار ملاحظہ کریں:

یہ کائنات کی رنگینیاں ہیں تیرے لیے
کہ آدمی کے لیے ہے جہان بو قلموں
فلک بھی عظمت انساں کے گیت گاتا ہے
یہ مت کہو کہ ستاروں پہ دسترس ہی نہیں

سعیدہ  صبا  سیالکوٹی کی شاعری کی ایک اہم خوبی فطرت نگاری ہے۔ ان کی  نظموں میں فطرت اور مناظر فطرت کی تصویر کشی دیکھی جا سکتی ہے۔اپنی ایک نظم‘‘مری کے مناظر قدرت’’ میں صبا ملکہ کوہسار کے قدرتی دلکش مناظر کا خوبصورت انداز میں نقشہ کھینچتی ہیں۔کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

تجھے گلستاں کی بہاروں میں دیکھا
مہکتے ہوئے سبزہ زاروں میں دیکھا
کہیں جھیل ڈل کے کناروں میں دیکھا
ترا روپ میں نے ستاروں میں دیکھا
ستائش میں ساری فضا دیکھتی ہوں
میں اک سمت شانِ خدا دیکھتی ہوں
رواں ہیں کہیں آبشاروں میں پانی
کرے رقص جیسے کسی کی جوانی
کہ جیسے یہاں ہو رہی نغمہ خوانی
کہیں حور وش مدلقا کی زبانی

مجید امجد  اپنی شاعری میں اپنے احساسات کے اظہار کے لئے قدرتی  مظاہر کا سہارا لیتے ہیں۔ان کی نظموں میں کھیتوں،درختوں،سبزہ، پھول اور رنگوں کا بیان  کثرت سے ملتا ہے ۔ ان  کی فطرت پرستی میں ایک اہم عنصر  یہ ہے کہ وہ اپنے دیس کے دریاؤں، چناروں، کہساروں، کھیتوں سے بے انتہا محبت کرتے ہیں، اس لئے راہ چلتے قدرتی مناظر  اس کی سوچ کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں ۔ مظاہر فطرت کی طرف رغبت سے مجید امجد کا احساسِ جمال نکھر کر سامنے آتا ہے۔ سرسبز کھیتوں میں مست ہواؤں کی موج پر لہکتی ہوئی حسین محبوبہ کا تصور اور اس کی نگاہوں سے نگاہوں کا چار ہونادل کی   احساس و کیفیت کو اور پُر کیف بنا دیتا ہے ۔ مظاہر فطرت سے ان کی محبت جذباتی ہے ۔ فطرت کے نظام میں انسان کے ہاتھوں جو تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اس پر مجید امجد  کے جذبات  مجروح ہوتے ہیں ۔ان کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

بیس برس سے کھڑے تھے جو اس گاتی نہر کے دوار
جھومتے کھیتوں کی سرحد پر، بانکے پہرے دار
گھنے، سہانے، چھاؤں چھڑکتے، بور لدے چھتنار
بیس ہزار میں بک گئے سارے ہرے بھرے اشجار
جن کی سانس کا ہر جھونکا تھا ایک عجیب طلسم
قاتل تیشے چیر گئے اُن ساونتوں کے جسم
گری دھڑام سے گھائل پیڑوں کی نیلی دیوار
کٹتے ہیکل، جھڑتے پنجر، چھٹتے برگ و بار
سہمی دھوپ کے زرد کفن میں لاشوں کے انبار
آج کھڑا میں سوچتا ہوں اس گاتی نہر کے دوار
اس مقتل میں صرف اِک میری سوچ، لہکتی ڈال
مجھ پر بھی اب کاری ضرب اک، اے آدم کی آل

مولانا ظفر علی خاں مناظر قدرت اور فطری جذبات کی عکاسی کرنے میں کمال  مہارت رکھتے تھے۔ وہ ہر واقعہ  یا قدرتی منظر کی پوری تصویر الفاظ میں کھینچ دیتے ہیں۔ ان کے کچھ  اشعار ملاحظہ ہوں:

آئی ہے دبے پاؤں صبا اس کو جگانے
انگڑائیاں لیتے ہوئے سبزے کی ادا دیکھ
سورج کا پتا پوچھتی پھرتی ہے خدائی
بادل کو اس انداز سے گردوں پہ گھرا دیکھ

علامہ اقبال کی کی بہت سی  نظموں میں قدرت حسین مناظر کی دلکش تصویر کشی ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ ان کی متعدد نظمیں فطرت سے ان کے لگاؤ اور دل بستگی کی غماز ہیں۔ علامہ اقبال فطرت کو انسان کے مدِ مقابل سمجھتے ہوئے اسے مسخر کرنے پر زور دیتے ہیں۔ وہ کائنات کے رازوں کو جاننے کے متمنی ہیں۔ تسخیر فطرت کے حوالے سےان کی نظم "روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے" کے اشعار ملاحظہ ہوں:


کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ!
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ!
اس جلوۂ بے پردہ کو پردہ میں چھپا دیکھ!
ایام جدائی کے ستم دیکھ جفا دیکھ!
بیتاب نہ ہو معرکۂ بیم و رجا دیکھ!
ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل یہ گھٹائیں
یہ گنبد افلاک یہ خاموش فضائیں
یہ کوہ یہ صحرا یہ سمندر یہ ہوائیں
تھیں پیش نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں
آئینۂ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ!
سمجھے گا زمانہ تری آنکھوں کے اشارے!
دیکھیں گے تجھے دور سے گردوں کے ستارے!
ناپید ترے بحر تخیل کے کنارے
پہنچیں گے فلک تک تری آہوں کے شرارے
تعمیر خودی کر اثر آہ رسا دیکھ
خورشید جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں
آباد ہے اک تازہ جہاں تیرے ہنر میں
جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں
جنت تری پنہاں ہے ترے خون جگر میں
اے پیکر گل کوشش پیہم کی جزا دیکھ!
نالندہ ترے عود کا ہر تار ازل سے
تو جنس محبت کا خریدار ازل سے
تو پیر صنم خانۂ اسرار ازل سے
محنت کش و خوں ریز و کم آزار ازل سے
ہے راکب تقدیر جہاں تیری رضا دیکھ!

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...