Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نقش فریادی جنوری تا مارچ 2023 > مرزامحمد. رفیع سودا کے اشعار میں سائنسی شعور

نقش فریادی جنوری تا مارچ 2023 |
پنجاب لٹریری فورم
نقش فریادی جنوری تا مارچ 2023

مرزامحمد. رفیع سودا کے اشعار میں سائنسی شعور
Authors

ARI Id

1695781782714_56118430

Access

Open/Free Access

Pages

53

مرزا محمد رفیع سودا کے اشعار میں سائنسی شعور

سجاد نقوی،سیالکوٹ

اردو شاعری کی سرفرازی ، دل کشش رنگا رنگی اور پر کشش خیال بندی میں اٹھارویں صدی کے شعرا کا کردار نا قابل فراموش ہے۔اس دور کے شعرا کرام نے اردو نظم کی تمام اصناف میں طبع آزمائی کر کے اردو شاعری کو زینت بخشی اور زبان و بیان کو پختگی کے زیور سے آراستہ کیا۔اسی دور کے ایک عظیم الشان ،قادر الکلام اور ملک الشعرا،استاد مرزا محمد رفیع سودا کا اسم گرامی شعری افق پر اظہر من الشمس ہے۔اردو شاعری کی کلاسیکل روایت ذکر سودا کے بغیر ادھوری اور بے ذائقہ ہے۔میر تقی میر اور خواجہ درد آپ کے معاصرین میں شامل ہیں۔لیکن ان دونوں شاعروں میں مرزا سودا اپنا ایک الگ مقام و مرتبہ رکھتے ہیں۔کچھ ناقدین میر اور سودا کے کلام کے درمیان مقابلے کی زد میں میر کو سودا پر ترجیح دے کر جانبدارانہ رویہ اختیار کرتے ہیں۔جبکہ سودا تمام شعرا سے ہٹ کر اپنے شعری میدان میں پرکھے جائیں تو نہ صرف شعریات پر پورا اترتے دکھائی دیتے ہیں بل کہ وہ اردو کلاسیکل روایت کے مایہ ناز شاعر گردانے جاتے ہیں۔

مرزا رفیع سودا ،خان آرزو کے صحبت نشین تھے اور ان کے مشورے پر فارسی سے اردو شاعری کی جانب راغب ہوئے اور یکتائے زمانہ کہلائے۔آپ نے اردو نظم کی قریباً تمام رائج اصناف مثلاً غزل ، قصیدہ ، مرثیہ ،رباعیات، قطعات، مثنوی، ہجو گوئی وغیرہ پر طبع آزمائی کی۔چوں کہ آپ قصیدے کا فطری ذوق اور رجحان رکھتے تھے اس لیے اردو شاعری میں بہ طور قصیدہ نگار آپ کو مقبولیت دوام حاصل ہے۔

آپ نے اردو قصیدے کو ایک نیا آہنگ عطا کیا۔آپ کے قصائد میں معنی آفرینی ،پرواز تخیل ،بہاریہ ،رندانہ و مستانہ تشبیب ،شان و شکوہ اور طمطراق تاثیر پائی جاتی ہے۔

مرزا رفیع سودا بہ طور غزل گو اپنے منفرد اور عمدہ نشاطیہ آہنگ کے مالک ہیں۔ہم اگر کلیات سودا کا بہ غور مطالعہ کریں تو ہمیں اس چمن میں ہر رنگ اور ہر ادا کا پھول نظر آئے گا جس کی خوشبو اپنے حصار میں جکڑ لیتی ہے۔

گلستان کلیاتِ سودا میں دل کش تشبیہوں اور اچھوتے استعاروں کی رونقیں ،مشابہتوں ،جذبات نگاری ، تلمیحات، پیکر تراشی اور مرقع نگاری کے برگ و بار، خوبصورت انداز اختراع اور لفظیات اور مضمون بندی کے پھول، نکہت ِ گل و گلشن ، نورِ  شمس و قمر ،فارسی روایت پر مبنی محاروے ،فارسی تراکیب و لفاظی ،مرکب الفاظ اور بلا کی تاثیر سے معطر فضا ملتی ہے۔

مرزا سودا کا تعمیر زبان اور اس کی ترویج میں کردار مسلم الثبوت ہے۔ہمارا مخصوص موضوع چوں کہ سائنس ہے اس لیے سودا کے اعتراف فن سے متعلق محمد حسین آزاد کی ایک کیمائی انداز میں کچھ سطور ملاحظہ ہوں

"جن اشخاص نے زبان اردو کو پاک صاف کیا ہے مرزا کا ان میں پہلا نمبر ہے انھوں نے فارسی محاروں کو بھاشا میں کھپا کر ایسا ایک کیا ہے جیسے علم کیمیا کا ماہر مادے کو دوسرے مادے میں جذب کر دیتا ہے اور تیسرا مادہ پیدا کردیتا ہے کہ کسی تیزاب سے اس کا جوڑ کھل نہیں سکتا۔ انھوں نے ہندی زبان کو فارسی محاروں اور استعاروں سے نہایت زور بخشا۔اکثر ان میں سے رواج پاگئے۔اکثر آگے نہ چلے۔انھی کا زور طبع تھا۔ جس کی نزاکت سے دو زبانیں ترتیب پاکر تیسری زبان پیدا ہوگئ اور اسے ایسی قبولیت عام حاصل ہوئی کہ آیندہ کے لیے وہی ہندوستان کی زبان ٹھہری ،جس نے حکام کے درباروں اور علوم کے خزانوں پر قبضہ کیا۔اسی کی بدولت ہماری زبان فصاحت اور انشاء پردازی کا تمغا لے کر شائستہ زبانوں کے دربار میں عزت کی کرسی پائے گی۔اہل ہند کو ہمیشہ ان کی عظمت کے سامنے ادب اور ممنونی کا سرجھکانا چاہیے" (1)

چند اشعار دیکھیں  :

گل پھینکے ہے عالم کی طرف بلکہ ثمر بھی

اے خانہ بر انداز چمن کچھ تو ادھر بھی  (2)

فکرِ معاش و عشقِ بتاں یادِ رفتگاں

اس زندگی میں اب کوئی کیا کیا کِیا کرے (3)

کیفیت چشم اس کی تجھے یاد ہے سودا

ساغر کو مرے ہاتھ سے لیجو کہ چلا میں (4)

گلا لکھوں اگر تیری بے وفائی کا

لہو میں غرق سفینہ ہو آشنائی کا (5)

جس روز کسی اور پہ بیداد کرو گے

یہ یاد رہے ہم کو بہت یاد کرو گے (6)

نہ جیا میری چشم کا مارا

نہ تری زلف کا بندھا چھوٹا(7)

میں کیا کروں ادائے غضبناک کا بیاں

بجلی سا میرے سامنے آکر کڑک گیا (8)

آدم کا جسم جب کہ عناصر سے مل بنا

کچھ آگ بچ رہی تھی سو عاشق کا دل بنا(9)

میرا یہ تحقیقی مضمون مرزا محمد رفیع سودا کے مخصوص اور شاز و نادر پہلو سائنسی تخیل اور فطری لگاو کے بیان ہر مبنی ہے۔

کلیات رفیع سودا کو اگر سائنس کے تناظر میں جانچا جائے تو ہمیں کئی اشعار میں فطری بیان اور سائنسی حقیقتوں کا ثبوت ملتا ہے۔

تحریر ہذا میں ہم مرزا محمد رفیع سودا کے اشعار میں ،قوت نامیہ ،زحل سیارہ، بگولا ، شرار برق ، شرار شعلہ یعنی لاوا، خوف آب ، عناصر و مرکبات،  دوائے تلخ  اور نرگسیت وغیرہ جیسی اصطلاحات کی صورت  علم نباتات ، علم حیوانات ،علم فلکیات ، علم کیمیاء ، علم طبعیات اور علم نفسیات کا احاطہ کریں گے۔

تمام جانداروں مثلاً نباتات اور حیوانات وغیرہ میں فطری طور پر پھولنے پھلنے اور نشوونما کی طاقت پائی جاتی ہے۔ یہ طاقت قوت نامیہ (Faculty of growth )کہلاتی ہے۔قوت نامیہ کی اصطلاح مقبول ماہر علم حیاتیات مسٹر ڈارون کے نظریہ ارتقا سے متعلق ہے۔فطرت نے نباتات ،حیوانات اور انسانوں میں جسمانی طور پر ہر پہلو سے آگے بڑھنے اور نمو پانے کی صلاحیت رکھی ہے۔اس صلاحیت کے محرکات میں غذا اور ہارمونز اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ماحول میں اطراف و جوانب یا موسم بہار میں کسی باغ میں جتنے پھول ،پھل ، کونپلیں ، چھوٹی بڑی شاخیں اور ٹہنیاں دکھائی دیتی ہیں ان سب میں اسی قوت کا کرشمہ ہے۔نباتات فوٹو سینتھسیز کے عمل کے ذریعے اپنی غذا خود تیار کرتے ہیں اور یہی غذا تمام تنے میں پہنچ کر قوت نامیہ کا کردار ادا کرتی ہے۔تہہ خاک تاریکی میں ننھا سا نہال بیج جب لگایا جاتا ہے تو اس کے تناور شجر تک کی صورت اختیار کرنے میں قوت نامیہ کلیدی اور قوت نمو کا کردار انجام دیتی ہے۔

دوسری طرف حیوانات اور انسانوں میں بھی نمو اسی قوت کے سبب یقینی ہوتی ہے۔مرغ کا بچہ ہو یا انسان کا ،سب ہی شکم مادر میں اسی قدرتی قوت کے سبب جسمانی پرورش کے مراحل طے کرتے ہیں۔

قوت نامیہ کی اس اصطلاح کو مرزا سودا نے کس قدر عمدگی سے سائنسی آہنگ کے ساتھ آراستہ کر کے موسم بہار کی مناسبت سے بیان کیا ہے۔

قوتِ نامیہ لیتی ہے نباتات کا عرض

ڈال سے پات تلک پھول سے لے کرتا ہے پھل(10)

حدِ ایام کی بس از مددِ نامیہ سے

بچہِ مرغ ِ چمن تخم سے آتا ہے نکل (11)

برگ پیدا کرے تا باغ میں ہر ایک نہال

پھوٹے تا نامیہ سے شاخِ شجر میں کونپل (12)

زمین بہار کے موسم میں اس قدر زرخیز اور جوشِ روئیدگی کی طاقت حاصل کر چکی ہے کہ گاو جس کے سینگ پر زمین کھڑی ہے۔اس سینگ سے بھی زمینی مٹی کے جوش روئیدگی سے کونپل پھوٹ پڑا ہے۔

جوش روئیدگی خاک سے کچھ دور نہیں

شاخ میں گاو زمیں کے بھی جو پھوٹے کونپل (13)

قدیم دور میں ایک مذبی اسرائیلی تصور تھا کہ زمین سارے جہان کا مرکز ہے اور یہ زمین خود کسی گائے یا بیل کے سینگ پر نصب ہے جبکہ خود گائے کسی مچھلی یا کچھوے کے پیٹ پر کھڑی ہے۔

لیکن اس فرسودہ اور بے بنیاد تصور کی حقیقت ما سوائے من گھڑت کہانی کے کچھ نہیں۔ مرزا رفیع کا دور اٹھارویں صدی پر مبنی ہے اس لیے اس دور میں یہ تصور عام تھا کیوں کہ سائنس ابھی شروعات کے مراحل میں تھی لہذا اگلی صدیوں میں ہمیں معلوم ہوا کہ زمین نہ ہی سارے جہان کا مرکز ہے اور نہ یہ کسی گائے کے سینگ پر نصب ہے بلکہ زمین ایک آزاد سیارہ ہے اور کائنات کا چھوٹا سا حصہ ہے۔

زمین کے ساتھ کئی اور بھی سیارے موجود ہیں جو اپنے اپنے مدار میں محوِ گردش ہیں۔سیاروں کی اپنی زاتی کوئی روشنی نہیں ہوتی یہ سورج اور ستاروں کی روشنی منعکس کرتے ہیں جس کی وجہ سے روشن دکھائی دیتے ہیں۔انھی میں سے ایک سیارہ زحل ہے۔زحل کو دور قدیم میں علم نجوم والے سیاہ اور سست ستارہ تصور کرتے تھے۔

جبکہ دور جدید میں معلوم ہوا کہ زحل سیارہ ہے لیکن کچھ کچھ مشابہتیں قریباً درست رہیں مثلاً زحل کا سیاہ اور سست ہونا۔کیوں کہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ سیارے خود سیاہ یا بے نور ہوتے ہیں ان کی اپنی کوئی روشنی نہیں ہوتی۔ زحل کی رفتار سب سے سست تو نہیں لیکن دیگر چند سیاروں سے کم ضرور ہے۔

مرزا رفیع سودا امام علی علیہ السلام کی مدح میں کہتے ہیں کہ

مہر سے جس کے منور ہے یہ دل جوں خورشید

روسیہ کینے سے جس کے رہے مانند زحل (14)

یعنی کہ جو امام علی سے عقیدت رکھتا ہے اس کا دل خورشید یعنی سورج کی مانند چمکتا دمکتا ہے اور جو کوئی بغض و عناد رکھے اس کا دل اور چہرہ زحل سیارے کی مانند سیاہ رہتا ہے۔

زحل کی رفتار کے بارے ایک اور شعر میں کہتے ہیں کہ

میخ سے نعل کی اس کے میں اگر دوں تشبیہ

کرے دوری کو تمام اپنے بیک آن زحل (15)

کیوں کہ امام علی کا گھوڑا برق رفتار تھا مرزا کی مراد یہ ہے کہ امام علی کے کے گھوڑے کے نعلین یا صم سے زحل کو اگر تشبیہ دوں تو زحل لمحوں میں گھوڑے کے نعلین کے صدقے اپنی دوری یا گردش کو مکمل کرلے۔یہاں معلوم ہوتا ہے کہ رفیع جانتے ہیں کہ زحل کی رفتار دیگر سیاروں سے کم ہے۔

تمام آسمانی مخلوق یا افلاکی اشیا حرکت میں ہیں اور یہ حرکت مدام ہے۔سورج، چاند ،ستارے ،سیارے ،کہکشاں اور دیگر مصنوعی افلاکی اجسام بھی آسمانی اصول کے تحت متحرک ہیں۔مرزا سودا اس فطری اصول سے نہ صرف واقف تھے بلکہ اپنے اشعار میں محبوب کی نسبت سے ان کا بیان بھی کرتے ہیں

پھرتے ہیں رات دن خراب گردشِ چشم میں مدام

رشک سے تیرے مہر وماہ خانہ بہ خانہ کو بہ کو (16)

جستجو کر کے تجھ آفت کو بہم پہنچایا

باز آتے نہیں گردش سے یہ افلاک ہنوز (17)

مرزا کے ایک شعر سے بگ بینگ تھیوری کی جھلک محسوس ہوتی ہے۔کائنات کی ابتدا اور اس کے وجود پر کئی نظری مباحث موجود ہیں لیکن اس ضمن میں سائنس کا علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ بگ بینگ تھیوری ایک اہم ترین تھیوری ہے جس کے نتیجے میں یہ تمام کائنات اور ہزار قسم کا مادہ(مٹی) وجود میں آیا۔

سودا نے اس کے لیے " چاک " کا لفظ برت کر مذکورہ تھیوری کی نسبت کو اجاگر کیا ہے

دنیا تمام گردشِ افلاک سے بنی

ماٹی ہزار رنگ کی اس چاک سے بنی(18)

مردہ انسان اور جانور ،گلے سڑے پھل اور پودے جب زمین میں دفن کیے جاتے ہیں تو زمین کی مٹی ان سے قوت نمو اور زرخیزی حاصل کرتی ہے کیوں کہ بل الخصوص انسان اور جانور کے اجسام وٹا منز اور دیگر مفید مرکبات کا تانا بانا ہوتے ہیں۔ زمین میں دفن ہونے کے بعد یہ حسین ترین اور تازہ لالہ و گل کی صورت نکلتے ہیں۔اسی لیے آپ کو شہر خموشاں ہرا بھرا دکھائی دے گا۔اس سائنسی عمل پر مبنی ذہن سودا کا شعری کمال دیکھیے

لالہ و گل سے نہ پوچھو یہ زمینِ سرخِ رنگ

خونِ ناحق نے ہماری خاک سے مارے ہے جوش(19)

گل زمیں سے نکلتا ہے برنگِ شعلہ

کون جاں سوختہ جلتا ہے تہ خاک ہنوز (20)

سودا کے اشعار میں تصوف کے تناظر میں سحاب(بادل) کے ٹکرانے سے پیدا ہونے والی گرج چمک یا شرار برق (Thunder-storm-effect )اور سنگ یا پتھروں کی رگڑ سے پیدا ہونے والے چنگاری (Stones fire due to friction ) کا تذکرہ ملتا ہے۔جس میں کوہ سے موسی کی نسبت تلمیح کو احسن انداز سے اپنایا گیا ہے یہ دونوں روشنی کی صورت خدا کے نور ہونے یا اسکی تجلی کی نشانیاں ہونا ظاہر کرتے ہیں۔

غافل غضب سے ہوکے ،کرم پر نہ رکھ نظر

پُر ہے شرارِ برق سے دامن سحاب کا (21)

ہر سنگ میں شرار تیرے ظہور کا

موسی نہیں جو سیر کروں کوہِ طور کی (22)

عام خیال میں بنیادی طور پر چار اجزا مٹی ہوا پانی اور آگ اس کائنات کی بناوٹ میں اہم سمجھے جاتے ہیں۔انسان کا جسم بھی انھی اجزا سے بنا ہے مگر سودا کے بقول عاشق چوں کہ ہمہ دم بے چین اور اضطراب کی کیفیت میں جلتا کڑھتا ہے اس لیے گویا ہوتے ہیں کہ

آدم کا جسم جب کہ عناصر سے مل بنا

کچھ آگ بچ رہی تھی سو عاشق کا دل بنا (23)

جدید سائنس کے زوایے سے دیکھا جائے تو سودا کا مصرع اولی مذید وسعت پاتا ہے ۔آج ہم جانتے ہیں کہ انسان کا جسم مختلف عناصر و مرکب سے مل کر بنا ہے جس میں ہر طرح کے بنادی عناصر جیسے آئرن ،کاربن ،کیلشیم ، پروٹینز اور دیگر وٹامنز کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔

اردو شاعری میں محبوب کو مرکزی مقام حاصل ہے۔ادبا و شعرا نے محبوب سے جڑی تمام کیفیات احساسات کا ذکر کیا ہے۔محبوب کا ذکر اور محبوب کا سامنے آنا باعث سکون سمجھا جاتا ہے اور حقیقی سائنس بھی یہی ہے۔دوسری طرف محبوب اگر لعن طعن کرے ،ملامت کرے یا گالیاں دے تو ان دشنام کو بھی گلے کا ہار سمجھا جاتا ہے۔ سودا نے اسی تصور کو یعنی محبوب کی دشنام کو کڑوی یا تلخ دوا سے تشبیہ دی ہے۔

بخشے ہے یوں دل کو میرے تقویت دشنامِ یار

جوں دوائے تلخ سے پاوے بیمار فیض( 24(

یہاں سے سودا کے علم ادویات (Pharmaceutical knowledge ) کا ادراک ملتا ہے کہ ادوایات بے شک اپنے کیمائی ساخت اور اور تلخ اجزا شامل ہونے سے کڑوی ہوتی ہیں لیکن باوجود اس کے بیمار کے لیے فیض اور شفا کا کام دیتی ہیں۔

ایک شعر میں ماہر تشخیص مرض کے طور پر سامنے آتے ہیں،شعر ہے کہ

پند سے تیری زاہد ! حال مرا یہ مے سے ہے

سگ کا گزیدہ جس طرح دیکھ ڈرے ہے آب کو (25(

سگ گزیدہ سے مراد کتے کا کاٹا ہوا ہے۔جب کوئی درندہ صفت کتا یا ہلکان کتا کسی انسان کو کاٹتا ہے تو اس انسان کے اندر (rabies) وائرس داخل ہوجاتا ہے جو انسان کے دماغی خلیات اور اعصاب پر حملہ کرتا ہے۔انسان کی غدودیں اور گلا سوجھن کا شکار ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے انسان کچھ کھا اور خصوصاً پی نہیں سکتا کیوں کہ اسے شدید تکلیف ہوتی ہے اور جب وہ پانی کو دیکھتا ہے تو نفسیاتی و جسمانی طور پر خوف کھاتا ہے۔اس بیماری کو (Hydrophobia in rabies)کہتے ہیں۔لیکن اسے تشبیہ کے طور پر سودا نے برتا ہے۔ کہتے ہیں کہ اے زاہد جب تو شراب نوشی کے بارے پند و نصحیت کرتا ہے اور اس کے نقصانات بتاتا ہے تو شراب کو دیکھ کر میرا حال بھی ایسا ہوجاتا ہے جیسے کوئی سگ گزیدہ پانی سے ڈرتا ہے۔

نرگیست نفسیاتی اصطلاح ہے جس کے معنی الفتِ زات ، خود پسندی اور خود پرستی ہے۔اس پر مبنی اشعار دیکھیے

میں عاشق اپنا اور معشوق اپنا آپ ہوں پیارے

گہے پروانہ اس مجلس میں گاہے شمع محفل ہوں (26(

پوج مجھے اس دیر کہن میں کیا پوجے ہے پتھر کو

مجھ وحشی کو سنا برہمن بتوں نے اپنا رام کیا(27(

گرمیوں میں بعض اوقات شدید ہوا افقی سمت میں خاک یعنی گرد و غبار کو بھی اپنے ساتھ اٹھا لے جاتی ہے جسے بگولے کہا جاتا ہے۔انگریزی میں (Tornado) کے نام سے مقبول ہے۔

کیا جانیے کس عالی دور انکی ہے یہ خاک

اٹھتا ہے بگولا جو ہوا ڈھیر ہوا پر (28(

اپنے کلام یا محبوب سے اپنی باتوں کی تاثیر کے حوالے سے لاوا (megma) کی ایک جھلک اور تشبیہ دیکھیے

اثر ان باتوں نے تجھ میں نہ کیا سن کے جنھیں

سنگ سے نکلے شرر شعلہ شرر سے باہر(29(

آتش فشاں کے ظاہر ہونے کے پس منظر میں کئی سنگریزے اور چٹانیں اس انتہائی درجہ حرارت پر پگھل کر سیال مائع میگما میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔

ان چنیدہ اشعار میں سائنسی معلومات کے کئی راز منکشف ہوتے ہیں۔جو آفاق میں سودا کی کلاسیکل اور فکری و فنی عظمت میں اضافہ کرتے ہیں۔

بہ قول سودا

ہُنر ہے گرچہ فنِ شاعری آفاق میں سودا

اگر نادان کو پہنچے تو اس میں عیب ہو پیدا

حواشی

1۔محمد حیسن آزاد،مولانا؛آب حیات، لاہور:علم و عرفان پبلشرز،سن اشاعت :ستمبر 2015ء، ص:143-1442

2۔مرزا محمد رفیع سودا،انتخاب کلیات سودا(اردو)؛مرتبہ :فاروق ارگلی،نئی دہلی : ناشر فرید بک ڈپو،سن اشاعت اول:ستمبر2005ء،ص290

3۔ایضاً؛293

4۔ایضاً؛185

5۔ایضاً؛37

6۔ایضاً؛282

7۔ایضاً؛68

8۔ایضاً؛75

9۔ایضاً؛60

10۔ایضاً؛383

11۔ایضاً؛383

12۔ایضاً؛389

13۔ایضاً؛383

14۔ایضاً؛384

15۔ایضاً؛386

16۔ایضاً؛206

17۔ایضاً؛117

18۔ایضاً؛227

19۔ایضاً؛124

20۔ایضاً؛117

21۔ایضاً؛40

22۔ایضا؛34

23۔ایضاً؛60

24۔ایضاً؛128

25۔ایضاً؛199

26۔ایضاً؛161

27۔ایضاً؛76

28۔ایضاً؛105

29۔ایضاً؛111

30۔ایضاً؛52

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...