Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نقش فریادی جنوری تا مارچ 2023 > 7۔منٹو کے افسانوں میں خاندان کی مذہبی اور ثقافتی حیثیت

نقش فریادی جنوری تا مارچ 2023 |
پنجاب لٹریری فورم
نقش فریادی جنوری تا مارچ 2023

7۔منٹو کے افسانوں میں خاندان کی مذہبی اور ثقافتی حیثیت
Authors

ARI Id

1695781782714_56118431

Access

Open/Free Access

Pages

62

منٹو کے افسانوں میں خاندان کی مذہبی اور ثقافتی حیثیت

وجیہہ ضمیر

منٹو کے ذہن میں بجلی کی سی تیزی توانائیاں تب و تاب تھی ان کا علم حاضر جواب بھی مسلمہ جس طرح تحریر کو ہمیشہ سربلند رہے تھے نو بازی میں بھی وہ ہمیشہ سرخرو ہو کر نکلتے تھے ان کے ذہن کی تیزی وجڈت اور شدت نے ہمیشہ ان کا ساتھ دیا ۔ منٹو بھری محفل میں بلا کسی جھجھک کے بات کہنے کی ہمت رکھتے ہیں انہیں اپنے ادبی قدوقامت کا بی احساس تھا اس لیے بڑوں بڑوں کی بزم میں بھی ان کا انداز بے باک اور بے تکلفانہ اور بے حجابانہ رہتا تھا اور ان کی شوخی طبعی کے آگے سب بے بس ہو جاتے تھے ۔ منٹو نے مذہب پر کبھی سنجیدگی سے غور نہیں کیا تھا اور یہی مذہبی قواعد کی پابندی تو کبھی سوچ لیا تھا لیکن اسلام کے ساتھ والہانہ عشق تھا انہوں نے ہمیشہ مذہب کے نام پر کئے گئے مظالم کے خلاف بغاوت کا علم بلند کیا وہ ایک انسان دوست تھے وہ حقائق سب سے بڑے ترجمان  تھے تقسیم ملک کے جو حالات رونما ہوئے تھے اس سے نقدی شکل ہو چکا تھا وہ اپنے آپ کو یہ قدیم ہندوستان کا وارث سمجھتے تھے کسی بھی معاشرے میں رہنے والے لوگوں کا آپس میں تعلق بہت ضروری ہے جنم لیتا ہے درحقیقت انہی تعلقات کی تشکیل سے معاشرہ جنم لیتا ہے تاہم تعلق کی بھی خام ہوتی ہیں اور سب سے اہم رشتہ خونی رشتہ ہوتا ہے

منٹو نے اپنے افسانوں میں اس کے بارے میں بہت ذکر کیا ہے ویسے غور سے جائزہ لیا جائے تو اس کے افسانوں میں خاندانی رشتوں کا بیان موجود ہے منٹو کے افسانوی مجموعہ"خالی بوتلیں خالی ڈبے" میں موجود ایک افسانہ " ٹو " ہے ۔اس میں والدین اور اولاد کا آپس میں رشتہ کا ذکر کیا گیا ہے اس کا ابتدائی مکالمہ بہت دلچسپ ہے اقتباس ملاحظہ ہو

"میں سوچ رہا ہوں دنیا کی سب سے پہلی عورت جب ماں بنی تو کائنات کا ردعمل کیا تھا ؟ دنیا کے سب سے پہلے مرد نے کیا آسمانوں کی طرف تمتمائی آنکھوں سے دیکھ کر دنیا کی سب سے پہلی زبان میں بڑے فخر کے ساتھ یہ نہیں کہا تھا میں بھی خالق ہوں " 1 میاں بیوی کا رشتہ دنیا میں سب سے زیادہ پائیدار رستہ ہوتا ہے جس کے تجربے اور جغرافیہ تک پہنچنا ناممکن ہے یہ رشتہ اللہ نے کیا خوب بنایا ہے مضبوط اتنا فور سے زیادہ اور کم زور اتنا جیسے مکڑی کا جالا جان نہ پہچان رشتہ داری نہ ہو اجنبی  نکاح کے بعد ایک رشتے میں بن جاتے ہیں ہیں کہ زندگی بھر ایک دوسرے کے لئے جیتے مرتے ہیں اسلام نے بھی اس  رشتے کو بہت اہمیت دی ہے ۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ " تم ان کے لیے لباس ہو اور وہ تمہارے لیے لباس ہیں " 2  اس آیت میں اللہ تعالی نے مرد و عورت یعنی میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے اب اس کا اصلی مقصد جسم کو ڈھانپنا ہوتا ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ میاں بیوی کو چاہیے کہ ایک دوسرے کی خامیوں کو پردے میں رکھیں کہ وہ بی بی کو چاہیے اس کا واویلا نہ مچائے  بلکہ اس کو چھپائے منٹو ایک افسانہ "باسط" ہے اس میں میاں بیوی کا ذکر ملتا ہے جس میں ایک کردار بعثت کا دوسرا سعیدہ کا ہے ان کی آپس میں شادی ہو جاتی ہے وہ بہت شرمیلی اور خاموش رہتی ہے۔ باسط اس کو سمجھاتا ہے کہ تم اتنی شرمیلی کیوں ہوا ہے تم میری بیوی مگر اس کے زیر اثر نہیں ہوتا وہ چھپ چھپ کر کوئی دوا کھاتی ہے واسطے اس کی وجہ بھی پوچھتا ہے مگر وہ اس کو کچھ نہیں بتاتی شروع میں باتیں تو اس کو میں چھوڑ آتا ہے کہ نئی نویلی دلہن ہے اس وجہ سے زیادہ شہرت ملی ہے اصل بات یہ ہوتی ہے کہ سیدہ شادی سے پہلے ہی حاملہ ہوتی ہے وہ اس بچے کو گرانے کے لیے بھی اس کا استعمال کرتی ہے آخرکار اس کے شوہر کو علم ہو جاتا ہے مگر بعثت کا رویہ ایک روایتی شوہر سے ہٹ کر ہوتا ہے۔ "سعیدہ کو اطلاع پہنچی تو اس کو اپنی ماں کے ساتھ آنا پڑا وہ اس طرح زرد تھی پہلے سے زیادہ نڈھال بعثت کو بہت ترس آیا اس سے کہا صحیح ہے جو اللہ کو منظور  تھا ہو گیا تمہاری  طبیعت ٹھیک نہیں رونا بند کرو اور جاو اندر لیٹ جاؤ " 3  ابھی تو فسانے میں منٹو نے مرد کو آر وائے کے ساتھ پیش کیا ہے مذہب کہتا ہے کہ اگر عورت بد کردار ہو جب بات بھی بدکردار ہو تو دونوں کو چاہیے کہ علیحدگی اختیار کرلی یہاں تک کہ اسلام زنا کاری کی سزا بھی مقرر کرتا ہے وہ مذہب سے انصاف نہیں کر سکتے  کیونکہ ثقافتی رویہ ضرورت بن گیا ہے۔اصل میں بات یہ ہے کہ منٹو کو اہم غیر ملکی حقیقت پسند ناول نگاروں سے قلبی لگاؤ پیدا ہو گیا اپنی ادبی زندگی کا آغاز میں منٹو نے روسی اور فرانسیسی افسانہ نگاروں کو پڑھا اور ان کا ترجمہ کیا اس طرح ان افسانہ نگاروں کے ہاں اسے زندگی کی حقیقی آپ نے ایسا رنگ روپ میں بے نقاب ملیں گے منٹو کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ۔منٹو ان افسانہ نگاروں کی حقیقت نگاری سے براہ راست متاثر تھے اس کا اثر یہ ہوا کہ منٹو کے افسانوں میں نثر نگاروں کی جھلک نظر آتی ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ منٹو نے ان کی  تقلید کی بلکہ اس طرح منٹو کی حقیقت نگاری اپنے آئڈیل روسی افسانہ نگار چخوف اور فرانسیسی افسانہ نگار موپساں سے بڑی حد تک مختلف ہیں ۔ حسن عسکری منٹو کا موازنہ موپساں کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ  "جس بات میں منٹو موپساں سے پچھے رہ جاتا ہے وہ موپساں کی نثر ہے وہ موپساں کی جس قسم کی نثر درکار تھی وہ فرانس میں اور کچھ نہیں تو کوئی دوسال سے نشونما پا رہی تھی ۔منٹو کو جن چیزوں کی ضرورت تھی وہ اردو نثر کی روایت میں موجود نہ تھیں منٹو کو پانی پینے کے لیے اپنے آپ کو کنواں کھودنا پڑا ۔ منٹو نے جو کنواں کھودا وہ ٹیڑھا بھینگا سہی اور اس میں جو پانی نکلا وہ گدلا یا کھاری ہی سہی مگر دو باتیں ایسی نہیں جن سے انکار کیا جاسکتا ایک تو یہ کہ کنواں کھودا ضرور دوسرا یہ کہ اس میں پانی نکالا اب زرا گنتے تو سہی کہ اردو کے کتنے ادیبوں کے متعلق یہ دونوں باتیں کہی جا سکتی ہیں "4  ادارہ معاشرے میں اس کی حیثیت بیان کی ہے وہاں عورت کی پارسائی اور وفاداری کے موضوع کو قابل تحریر کرایا ہے اور اس پر روشنی ڈال کر واضح کیا ہے کہ ہر عورت بے وفا نہیں ہوتی ایسی مثالیں منٹو کے افسانوں میں دکھائی دیتی ہیں ۔عورت کیسی پارسائی اور وفاداری کا ثبوت منٹو کے افسانے" ماہی گیر "میں بیان کیا گیا ہے. ماہی گیر افسانے میں بیوی کا نام نہیں بتایا گیا اس افسانے میں یہ دکھایا گیا کہ ماہی گیر کی بیوی اپنے شوہر کی محنت کے باوجود تنگدستی میں مبتلا ہے ۔ ماہی گیر سارا دن ساری رات محنت کرتا ہے مگر پھر بھی غربت نے ڈیرے لگائے ہوئے ہیں وہ اپنی اولاد کے لیے بھی پریشان ہے کے مستقبل میں ان کا بھی یہی مشغلہ ہوگا وہ اللہ تعالی سے اپنے شوہر کی آفیت کی دعا کرتی ہے اور کہتی ہے مالک دودھ کی حفاظت اور میرے بچوں کی بھی حفاظت فرما اپنے شوہر اپنی اولاد کے لیے بہت فکر مند رہتی ہے اور دعا کرتی ہے کہ  " اے خدا ۔۔۔۔۔۔۔۔! اے بے کسوں اور غریبوں کے خدا ان بچوں کا واحد سہارا ، رات کا کفن اوڑھے سمندر کی لہروں کے ساتھ کھیل رہا ہے م موت کے عمیق گڑھے پر پاؤں لٹکائے ہے ۔۔۔۔۔۔۔ صرف ان کی خاطر وہ ہر روز اس دیو کے ساتھ کشتی لڑتا ہے ۔۔۔۔۔ اے خدا تو اس کی جان حفاظت میں رکھیو ۔۔۔۔۔ آہ!اگر یہ صرف نوجوان ہوتے اگر یہ صرف اپنے والد کی مدد کرسکتے !"5 اب اس میں ایک شعر کے ساتھ باپ کے کردار کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ باپ اپنی اولاد کے لیے دن رات محنت کرتا ہے تاکہ کے بچے بھوکے نہ رہیں پر تنقید کرنا یا تحقیق کرنے سے پہلے اس دور کی تاریخی سماجی سیاسی اور مذہبی حالات کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔ترقی پسند تحریک سے قبل کے حالات ایسے تھے کہ مذہبی ٹھیکیداروں نے مذہب کے نام پر عوام کی لوٹ کھسوٹ جاری رکھی تھی ریا کاری عام ہوگئی تھی مزدوروں کا خون چوسا جا رہا تھا سرمایہ دارانہ نظام کے ظلم و ستم کی انتہا کو پہنچ چکے تھے اور صرف عیاشی کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا ان حالات میں عوام کے دلوں میں مذہبی منافرت پیدا کر دی تھی ترقی پسند تحریک کے اثرات نے فنکاروں کو بری طرح متاثر کیا تھا ۔ شاعر اور ادیب ان مذہبی پابندیوں اخلاقی اور سماجی خدمات کو پار کر گئی تھی اور اپنے غم و غصے کا اظہار تک لو اور نظم دونوں میں کر رہی تھی ادب آزاد ہو گیا تھا فنکار آزاد ہو گئی تھی ان آزادیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ فنکار تمام کی پابندیوں سے آزاد ان کی جاتی تھی اسی دور کے مذہبی اخلاقی اور مالی پابندیوں کے خلاف اپنی تخلیقات میں سخت  احتجاج کے رویے کو اپنا لیا تھا ۔  اردو ادب اور زندگی سے قریب لانی زندگی کی عکاسی اور ترجمہ بنانے اور اس کی تنقید حیات کا درجہ دینے میں ترقی پسند نمایاں کردار ادا کیا ہے کہ 36 میں انجمن ترقی پسند مصنفین قائم ہوئی پریم چند کی پہلی کانفرنس کی صدارت لکھنؤ میں کی سجاد ظہیر ،ملک راج آنند وغیرہ ادیب اس انجمن سے وابستہ تھے ۔اس تحریک کی مقبولیت یہ تھی کہ "انگارے "کے افسانوں پریم چند کے افسانے "کفن" پروفیسر مجیب کا افسانہ "کمیا گر" احمد علی کے افسانوں اور اختر حسین رائے پوری کے مضمون" ادب اور زندگی" نے ہندوستان میں ترقی پسند نظریات کی زمین  پہلے ہی ہموار کر دی تھی ملک کے ہر حصے میں ادیبوں نے گرمجوشی سے اس کی تحریک کی  پذیرائی کی "انگارے " کی بعد اردو افسانے میں زبردست لگائی اور اس نے ہر طرح کے موضوعات پر بے باکی سے اظہار کرنے کے دروازے کھول دیئے  ۔ "انگارے " کے افسانوں میں طنز کا انداز بالکل نرالا تھا اس نے ہر طرح کی منظر نگاری بیان کی گئی ہر منظر میں غریبی قوم پرستی گل و بلبل شاعری مذہب کی اجارہ داری جنت و دوزخ محمود آزادی ارفاق ہر چیز کا ذکر تھا۔  سعادت حسن منٹو، بیدی، کرشن چندر، عصمت چغتائی، ارباب اربعہ اردو افسانے کے چار ستون تھے جن پر اردو افسانے کی عمارت کھڑی تھی ۔  منٹو زبردست ہوا تیرا دی کا مالک تھا اس نے اپنے اردگرد سیاسی حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور بے خوفی کے ساتھ اپنے افسانوں میں نامساعد  حالات کا ذکر کیا۔  درحقیقت منٹو انسانی زندگی کو عذاب یہ نظر سے دیکھتا ہے منٹو نے بہت زیادہ قسم پرسی کی زندگی بسر کی اور معاشرتی زندگی کو نہایت قریب سے دیکھا یہی وجہ ہے کہ منٹو کے افسانوں میں بہت ہی تلخ واقعات دیکھنے کو ملتے  ہیں جن کو کسی بھی قیمت جھٹلایا   نہیں جا سکتا۔ منٹو نے طوائف کو بھی عورت کے روپ میں پیش کیا ہے کی اس کے اندر اچھائی اور نسائی جذبات سے لوگ ناواقف ہیں م منٹو نے عورت کے اعلی اخلاقیات و کردار پر بھی روشنی ڈالی اور لوگوں کو غور و فکر کی دعوت دی ۔ دوسری طرف اگر ایک بیوی اور طوائف کے حوالے سے حاصل ہونے والی آسانیوں اور سہولتوں کا تقابل " نطفہ" کا ایک مرد کردار ہوں کہتا ہے  بیوی گھریلو اور سگی قسم کی ہو تو آدمی اسے گالی نہیں دے سکتا اگر رنڈی ہو تو گندی سے گندی گالی بھی دی جاسکتی ہے رنڈی کا کھوٹا اور گھریلو گھر۔۔۔ زمین آسمان کا فرق ۔۔۔ معاشرہ ایک مرد کو اس قدر چھوٹ دیتا ہے کہ وہ نئے جنسی لطف کے لیے اپنی بیوی کی غیر موجودگی میں طوائفوں کو گھر میں لا سکتا ہے ۔لیکن " بارش" " چانکی"  " ہتک" اور " پشاور سے لاہور تک " کے مردوں کی طرح بحثیت بیوی انہیں مستقل جگہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے ۔ لیکن سلطانہ (کالی شلوار) جانکی سوگندھی " فوھا بائی " برمی لڑکی " جیسی طوائفوں میں ایک گھریلو عورت ذندہ ہے ۔ وہ عورت گھر کی طرف شدید جھکاؤ محسوس کرتی ہے ۔ بحثیت ایک طوائف کہ وہ مرد کے استحصال سے واقفیت کے باوجود وہ شادی کے بندن میں بندھنا چاہتی ہے ۔ مردانہ اخلاق کے حامل سماج کی جبریت سے مواقفت اور قبولیت کے لیے اس کے علاؤہ کوئی اور راستہ نہیں ۔ یعنی بحثیت بیوی یا طوائف دونوں طرح سے مرد کا ظلم سہتے رہنا عورت کی مجبوری ہے ۔ ایک طوائف کا ہاں ہر مردانہ استحصال اخلاقی و معاشی سطح پر شدید تر ہوتا ہے  جبکہ موافقت Adjustment کے حوالے سے بحثیت بیوی ایک مرد کے استحصال اخلاقی ہونا دراصل ایسے سماجی دھارے میں انا ہے یہاں ان جیسی سینکڑوں بے بس عورتوں پر ظلم پھر ظلم نہیں لگتا م بلکہ مذہبی ، اخلاقی ، اور سماجی ، اخلاقی ، سماجی اور قانونی جواز اور تحفظ حاصل ہونے کے باعث طوائف ہونے کی بدنامی اور تنہائی سے چھٹکارا حاصل ہو جاتا ہے گو اسے طوائف جتنی حاصل آذادی اور محدود دائرے کو بھی رنگ دینا پڑتا ہے   منٹو کے نزدیک بنیادی اہمیت انسان ہے نہ کہ مذہب اور دھرم ۔ انسانیت اور انسان دوستی ہی اہمیت کی حامل ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ منٹو کی چھوٹی چھوٹی کہانیاں جو بظاہر فسادات پر لکھی گئی ہیں مگر آفاقیت کی حامل ہیں  محمد حسن عسکری نے ان کہانیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ  " فسادات کے متعلق جتنے بھی افسانے لکھے گئے ان میں منٹو کے چھوٹے چھوٹے لطیفے زیادہ ہولناک ہیں  اور سب سے ذیادہ رجائیت امیز ہیں  منٹو کی دہشت اور رجائیت  کی بجائے سیاسی لوگوں یا   انسانیت کے نیک دل خادموں کی  رجائیت نہیں ہے بلکہ ایک فنکار کی دہشت اور رجائیت اور اس کا تعلق بحث و تمحیص یا تفکر سے نہیں ہے بلکہ ٹھوس تخلیقی تجربے سے ہے اور یہی منٹو کے افسانوں کا واحد امتیاز ہے ۔ منٹو کا ایک افسانہ " کتاب کا خلاصہ " اس میں موجو کردار نملا جو ہندو لڑکی کے اس کا مسلمانوں کے گھر انا جانا جگ اس کا باپ سکول ماسٹر ہے جس کا نام لالہ ہرن چرن ہے تقسیم ہند سے پہلے مسلمان اور ہندو مل جل کر رہتے تھے اسم میں کسی قسم کا تفرق نہیں تھا یہاں بھی مذہب کو اہمیت نہیں دی جارہی۔  انور ، سعیدہ اور شمیم یہ تینوں بہن بھائی کا نملا سے بہت لگاؤ تھا اچانک نملا سہمی سہمی رہنے لگی اور اس کا رویہ آن لوگوں سے بدل گیا وہ کسی کو کچھ نہیں بتاتی بلکہ اندر ہی اندر بات کو دبائے رکھتی ہے اچانک ایک دن پتہ چلتا ہے کہ نہر کنارے ایک نومولود بچہ کی لاش پڑی ہے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نملا کا بچہ ہے جبکہ اس نومولود بچے کا باپ خود ماسٹر لالہ ہرن چرن نکلتا ہے

" بڑی بدرو میں ایک نوزائیدہ بچہ مرا ہوا پایا گیا تحقیقات کی گئی تو معلوم ہوا کہ بچہ لالہ ہرن چرن سکول ماسٹر کی لڑکی نملا کا ہے اور بچے کا باپ خود لالہ ہرن چرن تھا ۔۔۔۔ سب کر سکتہ چھا گیا "

منٹو  کے کرداروں کے مطالعہ سے ذندگی کے تلخ حقائق کا ادراک بآسانی کیا جاسکتا ہے اس کے افسانوں کے بیشتر کردار مذہبی تقاضوں پر پورا نہیں اترتے وہ ایک خاص دائرے میں گردش کرتے ہیں ان کے مسائل اپنی ذات سے شروع ہوتے ہیں اور اپنی ذات پر ہی ختم ہوتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ منٹو نے ہر لحاظ سے معاشرت اور مذہبیت کی مکمل تصویر لوگوں کو دکھائی ہے بلکہ جھوٹ اور پردہ پوشی سے کام نہیں لیا بلکہ تلخ حقائق کا نہایت قریبی سے جائزہ لینے کے بعد انہیں لوگوں کر آشکار کیا ہے ۔ دراصل منٹو کے افسانوں کے کرداروں میں انسانوں کے حقیقی چہروں کا عکس بہت واضح ہے جس کی وجہ سے معاشرے نا چاہتے ہوئے بھی جھٹلا نہیں سکتا یہ حقائق اس قدر واضح ہیں کہ انسان کو کبھی کبھار ان سے نفرت ہونے لگتی ہے منٹو ایک بلند پایہ کی مایہ ناز شخصیت کا نام ہے ۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...