Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نقش فریادی جنوری تا مارچ 2023 > اردو ادب کی تنقیدی تاریخ___ ایک جائزہ

نقش فریادی جنوری تا مارچ 2023 |
پنجاب لٹریری فورم
نقش فریادی جنوری تا مارچ 2023

اردو ادب کی تنقیدی تاریخ___ ایک جائزہ
Authors

ARI Id

1695781782714_56118432

Access

Open/Free Access

Pages

67

اردو ادب کی تنقیدی تاریخ___ ایک جائزہ

عبداللہ نعیم رسول پی ۔ایچ۔ ڈی اسکالر

 نظریاتی حوالے سے دنیائے ادب سید احتشام حسین کو ایک ترقی پسند ادیب کے طور پر جانتی ہے۔ آپ کی ادبی شخصیت کی کئی جہتیں ہیں، آپ نے افسانہ ، مضمون ،تاریخ ، تنقید ، ڈرامااور سفرنامہ لکھا۔ زیرِ نظر ان کی کتاب‘‘ اردو ادب کی تنقیدی تاریخ’’ ہے۔ کتاب کے نام سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ اردو ادب کی تنقید کی تاریخ ہے جبکہ یہ اردو ادب کی تاریخ کی کتاب ہے ، تنقیدی تاریخ تو صرف نام ہے، تاریخ بھی ایسی جو نامکمل، تحقیق سے دور کا واسطہ نہیں۔

 یہ کتاب کئی بار اشاعت کے عمل سے گزر چکی ہے۔ ۱۹۸۳ء میں اس کتاب کی پہلی اشاعت ہوئی جبکہ زیرِ نظر اشاعت دسویں ہے جو انڈیا ( نئی دہلی) کے ادارے قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان سے ۲۰۱۶ ء میں شائع ہوئی۔ اس اشاعت کے ۳۴۱ صفحات ہیں۔ کتاب کا پیش لفظ ڈائریکٹر قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان پروفیسر سید علی کریم نے لکھا۔ مذکورہ کتاب ۱۴، ابواب پر مشتمل ہے جو ترتیب وار درج کیے جاتے ہیں۔

۱۔             اردو زبان اور ادب کی ابتدا               ۲۔            اردو، دکن میں                             

۳۔            دلّی، اٹھارویں صدی میں                   ۴۔            اردو نثر کی ابتدا اور تشکیل                

۵۔            اودھ کی دنیائے شاعری                   ۶۔            نظیر اکبر آبادی اور ایک خاص روایت کا ارتقا

۷۔           قدیم دّلی کی ٓخری بہار                        ۸۔            اردو نثر: فورٹ ولیم کالج اور اس کے بعد

۹۔            نئے دور سے پہلے: نظم اور نثر              ۱۰۔           نیا شعور اور نیا نثری ادب

۱۱۔           نشاط ثانیہ کی اردو شاعری                  ۱۲۔           نظم میں نئی سمتیں

۱۳۔          نثر کے نئے روپ                           ۱۴۔          موجودہ ادبی صورتِ حال

                اردو زبان و ادب کے آغاز پر روشنی ڈالتے ہوئے سید احتشام حسین ہندوستان میں مختلف قوموں کی آمد اور ان کی بولیوں کا ذکر کرتے ہیں۔ مثلاً دراوڑوں اور آریاؤں کی آمد ، ان کی ثقافت اور زبانیں ، سنسکرت، پراکرت(ملی جلی بولیاں)، پالی، ماگدھی، شور سینی زبانیں اور بولیاں ۔برِ صغیرمیں مختلف قومیں اپنی زبانوں اور ثقافت کے ساتھ ساتھ لسانی و ثقافتی تبدیلیاں لائیں۔ ۱۰۰۰ء کے لگ بھگ (مسلمانوں کی آمد کے ساتھ ہی) جدید زبانوں کی ترقی کا دور شروع ہوتا ہے۔ اردو کے ارتقا کے بارے مصنف کا خیال ہے [۱]کہ یہ زبان مختلف زبانوں اور بولیوں کے ملاپ سے وجود میں آئی اور مختلف زبانوں کے الفاظ اس میں شامل ہوتے گئے تا آں کہ یہ اردو کی شکل میں واضح ہوئی۔ ابتدا میں یہ زبان اردو، ہند، ہندی، ہندوی، زبانِ دہلی، دکھنی، گجراتی، ریختہ، زبانِ اردو اور زبان اردوئے معلی کے نام سے موسوم رہی۔ اردو زبان و ادب کے ابتدائی نقوش بابا فرید ، شیخ حمیدالدین ناگوری، شیخ شرف الدین بو علی قلندر، امیر خسرو، شیخ سراج الدین، شیخ شرف الدین منیری، مخدوم اشرف، شیخ عبد الحق ردولوی، گیسو دراز، سید محمد جون پوری، شیخ بہاؤالدین باجن اور شاہ ہاشم ایسے صوفی شخصیات سے ملتے ہیں۔ ان صوفیا کے کلام میں ہندوستانی(اردو) زبان کے کئی الفاظ موجود ہیں۔

                 سید احتشام حسین کے مطابق اردو نثر کی ابتداء دکن سے ہوئی۔ خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کی معروف تصنیف‘‘معراج العاشقین’’ پندرھویں صدی عیسوی میں لکھی گئی اور یہ اردو کی پہلی نثری تصنیف ہے۔ گیسو دراز کے پوتے عبداللہ حسینی نے ‘‘نشاط العشق’’ کا اردو میں ترجمہ کیا۔ میراں جی شمس العشاق نے ‘‘شرح مرغوب القلوب’’، برہان الدین جانم نے ‘‘کلمۃ الحقائق’’،‘‘ہشت مسائل’’، ‘‘ذکرِ جلی’’، خلیفہ امین الدین اعلی نے ‘‘گنجِ مخفی’’ تحریر کی۔ اس کے علاوہ میراں جی خدا نما، محمد قادری نور دریا، میراں حسینی، شاہ معظم نے بھی اردو میں نثر لکھی۔ ان تمام مصنفین کے رسائل اور کتب میں عربی و فارسی کے الفاظ کثرت سے ملتے ہیں، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ حضرات عالمِ دین تھے، دوسرا یہ کہ ان کتابوں کا موضوع تصوف، معرفت اور طریقت ہے۔ دکن کی نثری تاریخ کی بحث میں چند ایک ناموں کا بیان تو ہے مگر جو نام لکھے ہیں ان میں سے بھی بعض ادیبوں کی کتب یا رسائل کا ذکر موجود ہے باقی ندارد۔۔۔قاری تشنگی محسوس کرتا ہے۔ ( دکن کی اردو نثر پر مفصل کام ہونے والا ہے۔ البتہ ڈاکٹر جمیل جالبی[۲]، ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ[۳] نے دکن کی نثر پر اپنے تئیں تحقیق کی ہے ۔)

                 دکن کی اردو شاعری میں ہمیں جو صنف سب سے زیادہ ملتی ہے وہ مثنوی ہے ۔ نظامی کی ‘‘کدم راؤ پدم راؤ’’، رستمی کی ‘‘خاور نامہ’’ کے علاوہ ملک خوشنود، دولت شاہ، عبدل اور مقیمی کے نام ملتے ہیں۔ بیجاپور میں نصرتی اور ہاشمی معروف شاعر ہو گزرے۔نصرتی نے تین مثنویاں‘‘گلشنِ عشق’’، ‘‘علی نامہ’’ اور ‘‘تاریخِ سکندری’’ لکھیں۔ ہاشمی نے ‘‘یوسف زلیخا’’ لکھی۔ گولکنڈہ کے کئی بادشاہ شاعر تھے اور ادب کی ازخود سرپرستی کرتے تھے۔ یہاں زیادہ تر مرثی[۴] لکھے گئے۔ گولکنڈہ کی تاریخِ شاعری میں ایک اہم نام قلی قطب شاہ ہے جو اردو کا پہلا صاحبِ دیوان شاعر تھا۔ اسی عہد میں ملّا وجہی ایک اہم فارسی شاعر کے طور پر سامنے آتا ہے۔ اس نے اردو میں بھی لکھا۔ اس کی مثنوی‘‘قطب مشتری’’ اور نثری تصنیف ‘‘سب رس’’ بہت معروف ہوئی[۵]۔دوسرا بڑا شاعر غواصی ہے جس نے ‘‘سیف الملوک و بدیع الجمال’’ اور ‘‘طوطی نامہ’’ مثنویاں لکھیں۔ ابنِ نشاطی نے ‘‘پھول بن’’ لکھی۔شاعری میں دکن کا پہلا بڑا شاعر ولیؔ، دوسرا قاضی محمود بحریؔ اور تیسرا بڑا شاعر سراج الدین اورنگ آبادی ہوئے۔

                دہلی میں شاعری کا پہلا باقاعدہ دور پہلے مغل بادشاہ محمد شاہ سے شروع ہوتا ہے جو کہ خود بھی شاعر تھا۔ اکبر، جہانگیر، شاہجہان کے دربار سے بہت سے شاعر وابستہ تھے جیسے ابو الفضل، فیضی، عرفی، نظیری وغیرہ۔ دلی میں فائز[۶]، آبرو، ناجی، حاتم، مظہر جان جاناں[۷]، مضمون، تاباں درد، سودا، میر اہم شاعر ہو ئے۔

                ‘‘اردو ادب کی تنقیدی تاریخ’’ میں شاعروں کا ذکر کرتے ہوئے مصنف کا اسلوب اردو تذکروں جیسا ہے۔ شاعر کا مختصر تعارف بتا کر اس کا نمونۂ کلام دیا جاتا ہے۔ مثلاً

‘‘ناجی کا نام سید محمد شاکر تھا۔ یہ نواب امیر خاں کے یہاں سپاہیوں میں تھے۔ ان کی طبیعت کا رجحان ظرافت اور مزاح کی طرف بہت تھا اور کہا جاتا ہے ہر وقت ہنسی کی ایسی باتیں کرتے تھے، جن سے روتے ہوئے لوگ ہنس پڑتے تھے مگر وہ خود نہ ہنستے تھے۔ تقریباً ۱۷۵۴ء میں ان کا انتقال اس وقت ہوا جب ان کی عمر ابھی زیادہ نہ تھی’’۔[۸]

نمکین حسن دیکھ کر پی کا                                    رنگ گل کا لگا مجھے پھیکا

______________

آج تو ناجی سجن سے کر تو اپنا عرض حال                  مرنے جینے کا نہ کرو وسواس، ہوتی ہے سو ہو

                 اہم شاعروں دردؔ، سوداؔ، میرؔ کا تذکرہ نسبتاً تفصیل سے کرتے ہیں ، جس میں پیدائش سے انتقال تک کے حالات کے علاوہ ان کے مجموعوں کے نام اور شاعری پر رائے دیتے ہیں، مگر ان کی رائے خالص تنقیدی نہیں ہوتی صرف محاسنِ کلام کا ذکر کرتے ہیں۔ میر کے بارے لکھتے ہیں

‘‘وہ اکبر آباد(آگرہ) میں تقریباً ۱۷۲۵ء میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد ایک صوفی فقیر تھے۔ بچپن سے ہی میر دن رات صوفیوں اور عالموں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے، ان کی باتیں سنتے اور سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔۔۔چھ دیوانوں کے علاوہ میر کی اور بھی کئی کتابیں ملتی ہیں جو فارسی میں ہیں۔ ذکرِ میر، نکات الشعرا، فیضِ میر فارسی نثر میں ہیں اور بڑی تاریخی اور ادبی اہمیت رکھتی ہیں۔ ان کے علاوہ ایک فارسی مجموعہ کلام بھی ملتا ہے۔میر نے اپنی زندگی تکلیف اور بدحالی میں گزاری تھی اس لیے انھیں اجڑی ہوئی دلی کی علامت کہنا غلط نہ ہو گا۔۔۔میر آج تک غزل کے سب سے بڑے شاعر مانے جاتے ہیں۔ ان کے شعر تیر کی طرح دل میں اتر جاتے ہیں۔ سیدھی سادی بول چال کی زبان میں اتنا مزا اور مٹھاس، اتنا زہر اور اتنی تلخی دلی جذبات کی اتنی نازک مصوری اور جذبات کا اتنا طوفانی جوش تخلیق شعر کا ایک معجزہ معلوم ہوتا ہے۔ انھوں نے پراثر مرثیے بھی کہے ہیں مگر ان میں غزلوں کی المناک فضا نہیں ہے۔ اسی طرح انھوں نے مثنویاں بھی لکھی ہیں جن میں ان کا معیار محبت واضح ہوا ہے۔ مگر بادشاہ وہ غزل ہی کے ہیں کچھ نمونے پیش کیے جاتے ہیں:

ہستی اپنی حباب کی سی ہے                                  یہ نمائش سراب کی سی ہے

نازکی اس کے لب کی کیا کہیے                              پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے

بار بار اس کے در پہ جاتا ہوں                              حالت اک اضطراب کی سی ہے

میر ان نیم باز آنکھوں میں                                ساری مستی شراب کی سی ہے

دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہو سکے                         پچھتاؤ گے سنو ہو! یہ بستی اجاڑ کے[۹]

                اسی طرح میر کے آٹھ مزید اشعار بھی درج کیے گئے ہیں۔یوں میر کا ذکر پانچ چھ صفحات تک چلا جاتا ہے۔

                 ایسا لگتا ہے احتشام حسین کے پاس جو معلومات تھیں وہی کتاب میں درج کر دیں گئیں، حقائق تک پہنچنے کا تردد نہیں کیا گیا۔ ادیبوں اور شاعروں کے بہت سے ادبی پہلو اور ادبی کارناموں کے بارے اہم معلومات کتاب میں موجود نہیں، گویا تحقیقی نقطۂ نظر کی کمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جالبی نے کہا تھا کہ‘‘ پروفیسر احتشام حسین اردو کے اہم نقاد ہیں۔ لیکن ان کا رشتہ چونکہ تحقیق سے قائم نہیں تھا اسی لیے ان کی تحریروں میں بہت سی بنیادی باتیں غلط اور نادرست مفروضات پر کھڑی نظر آتی ہیں’’۔[۱۰] اوپر دیے گئے اقتباس کی پہلی سطر کو ہی دیکھیں، میر کی تاریخِ ولادت یوں درج کرتے ہیں‘‘(میر) تقریباً ۱۷۲۵ء میں پیدا ہوئے تھے’’ لفظ ‘‘تقریباً’’ سے پتا چلتا ہے کہ ان کی بات میں تشکیک کا عنصر ہے۔

                اودھ(لکھنؤ) کا تذکرہ کرتے ہوئے جراتؔ، انشاؔ، رنگینؔ، مصحفیؔ، ناسخؔ، آتشؔ ایسے غزل گوؤں کے علاوہ مرثیہ نگاری کی روایت میں انیس و دبیر کا بطور خاص تذکرہ کرتے ہیں ، اسی عہد میں مثنوی کا ایک بڑا نام میر حسن سامنے آیا۔

                ‘‘اردو ادب کی تنقیدی تاریخ’’ میں زمانی ترتیب موجود ہے ۔ اودھ کے شاعروں کے بعد وہ پھر سے دلی کے آخری دور کے شعرا کا ذکر کرتے ہیں جن میں غالبؔ، ذوقؔ، مومنؔ، ظفرؔ کو شامل کرتے ہیں۔ یوں علاقائی اور دبستانوی تقسیم بھی قائم ہو جاتی ہے۔

                احتشام حسین نظیر اکبر آبادی کو نظم میں نئی روایت کا بانی قرار دیتے ہیں اور ان کے عہد کو نظم کی ترقی کا عہد کہتے ہیں۔ شاعری کے قدیم اور جدید دور کے وسط میں نواب مصطفی خاں شیفتہ، مجروح، داغ، امیر مینائی کے نام درج کر تے ہیں اور نشاۃ ثانیہ میں حالی، آزاد، اکبر الہ آبادی، اقبال، شاد، ریاض خیر آبادی، فانی، عزیز، ثاقب، اصغر، حسرت، جگر، یگانہ وغیرہ کو شامل کرتے ہیں۔بارہویں باب ‘‘نظم میں نئی سمتیں’’ میں رومانی شاعر اور ترقی پسند شاعروں کا ذکر کرتے ہیں۔ رومانی میں جوشؔ، حفیظ جالندھری، اختر شیرانی اور ترقی پسندوں میں فیض، مجاز، علی سردار جعفری، ساحر لدھیانوی، مجروح سلطان پوری، اختر الایمان اور قاسمی کا ذکر موجود ہے۔ فراق کو ترقی پسند مصنف لکھتے ہیں جبکہ ان کا نام رومانی شعراء کے ساتھ کرتے ہیں۔ حالاں کہ شاعری میں فراق جدید شاعر تھے۔ اگرچہ ان نظم نگاروں نے نثر کی اصناف میں بھی لکھا مگر مصنف نے بالخصوص نظم کو ہی موضوع بنایا ہے۔

                شاعری کی تمام اصناف کے بارے بتاتے ہیں جن میں غزل، نظم، مرثیہ، مثنوی، قطعہ، قصیدہ وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح نثر کی اصناف مضمون، ناول، ڈراما، سوانح ، سیرت ، تاریخ وغیرہ۔۔۔ان کے خیال میں اردو نثر کو انیسویں صدی میں فروغ ملا، فورٹ ولیم کالج اور سر سید تحریک نے اردو نثر کے ارتقا میں اہم کردار ادا کیا، جس میں حالی، شبلی، نذیر ایسے اہم نام شامل تھے۔

                 ادب معاشرے کا عکاس ہوتا ہے۔ معاشرہ ادب پر اثر انداز ہوتا ہے اور ادب معاشرے پر اثر انداز ہوتا ہے۔اسی لیے احتشام حسین بار بار سماجی ،سیاسی اور معاشی حالات کو موضوع بناتے ہیں اور پھر ان حالات کی وجہ سے زبان و بیان کی تبدیلیوں کا ذکر کرتے ہیں۔ مثلاً آٹھویں باب کی ابتدا یوں کرتے ہیں

‘‘ادبی نثر کے لیے جس طرح کا ماحول ہونا چاہیے وہ آہستہ آہستہ ہندوستان میں پیدا ہو رہا تھا۔ اٹھارھویں صدی کا خاتمہ ہوتے ہوتے تاریخ نے ایک اور کروٹ بدلی تھی اور زندگی نئے حدود کی طرف بڑھ رہی تھی۔ مغل سلطنت کی کمزوری کے باعث اس کھنڈر پر نئی طاقتیں نئے راج محل کھڑے کر رہی تھی۔ مگر سب کے سب جاگیردار سماج کی معاشی بنیادوں پر قائم تھے۔ اسی دور کے اندر ایک بدیسی طاقت بیوپار کی راہ سے دیس پرچھائی جا رہی تھی۔ اس کے عمل دخل نے نئے معاشی مسائل کو جنم دے کر زندگی میں نئے بحران اور خیالات میں نئے دھارے پیدا کر دیے تھے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازمین کے جوڑ توڑ کے مقابلے میں ہندوستان کے بدحال و بد عنوان بادشاہ اور امراء نہ ٹھہر سکے۔تجارتی مراعات کی ظل عاطفت میں برطانوی راج کے پروردہ نئے سرمایہ داروں نے وہ جال بچھایا جس میں نہ صرف ہندوستان کی دولت پھنس کر رہ گئی بلکہ پوری زندگی ہی اپنے مرکز سے ہٹ گئی۔۔۔اس نئے ماحول میں انگریزوں نے ایسا جادو کیا کہ ہندوستانی مزاج کے زندگی سے مطابقت پیدا کرلینے اور منظم ہونے والے رجحان دب سے گئے۔ ہونے کو تو ملک میں شجاع الدولہ، علی وردی خاں، حیدر علی، مراٹھے، نظام، مغل، راجپوت، سکھ، روہیلے اور جاٹ سبھی تھے، مگر یہ کبھی کسی مقصد پر متحد نہ ہو سکے بلکہ ایک دوسرے سے جنگ کر کے کمزور ہوتے چلے گئے یا انگریزوں نے انہیں شکست دے دی۔’’[۱۱]

                اس اقتباس سے پروفیسر احتشام حسین کا ادبی تاریخ نویسی کا نظریہ بھی معلوم ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک ادبی تاریخ نویسی کے لیے ادب کو سماجی، سیاسی، تہذیبی، ثقافتی اور معاشی تناظر میں دیکھنا ضروری ہے۔گویا وہ ادب میں سائنٹفک نقطۂ نظر رکھتے ہیں۔ وہ صرف داخلی کیفیات و جذبات تک ادب کو مخصوص نہیں سمجھتے بلکہ ان کے ہاں خارجی ماحول بھی ادب کی تخلیق میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس حوالے سے علی احمد فاطمی کا مضمون ‘‘تہذیب۔ادب اور احتشام حسین’’ اہم مضمون ہے۔

                آزاد، حسینی میاں ظریف، محمد عبداللہ، مرزا نظیر بیگ، طالب بنارسی، احسن لکھنوی، پنڈت بیتاب، آغا حشر کاشمیری، شرر لکھنوی، پنڈت کیفی، امتیاز علی تاج وغیرہ نے اردو ناٹک لکھ کر اسے ترقی دی۔

                 مولوی عبد الحق، سید سلیمان ندوی، مولانا عبدالماجد دریابادی، لالہ شری رام، شیرانی، عندلیب شادانی، محی الدین قادری زور، نصیر الدین ہاشمی، عبد القادر سروری، ڈاکٹر سید عبداللہ نے اردو تحقیق و تنقید کو فروغ دیا۔

                اردو ادب کو رسائل و جرائد اور اخبارات نے بھی ترقی دی ۔ ایسے ادیب جنہوں نے ان ذرائع سے ادب کو پھیلایا ان میں عہدِ متوسطین میں سے مولوی محمد باقر، سر سیداحمد خان، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا محمد علی جوہر،مولانا ظفر علی خان، خواجہ حسن نظامی، شیخ عبد القادر، مولوی عبدالحق اہم نام ہیں ۔

                ‘‘نثر کے نئے روپ’’ میں انیسویں صدی کے اہم افسانہ نگار پریم چند کے افسانوں اور مجموعوں کے نام لکھنے کے بعد اسے ترقی پسند قرار دیتے ہیں جبکہ پریم چند ایک حقیقت پسند افسانہ نگار ہے۔ ترقی پسندوں نے اکثر یہی کیا کہ جہاں کہیں انصاف اور معاشرتی طبقات کی بات نظر آئی وہاں ترقی پسند کا لیبل چسپاں کر دیا۔ اسی لیے وہ اقبال کو بھی ترقی پسند شاعر کہتے ہیں۔ حالاں کہ ترقی پسند ایک خاص نظریے کے لوگ ہوتے ہیں۔ ترقی پسند افسانہ نگاروں کا بالخصوص ذکر کرتے ہیں مثلاً احمد علی، سجاد ظہیر، رشید جہاں۔۔۔علاوہ ازیں کرشن چندر، منٹو، بیدی، اختر حسین رائے پوری، عصمت چغتائی، حیات اللہ انصاری، خواجہ احمد عباس، ممتاز مفتی، حسن عسکری، عزیز احمد، ہنس راج، مرزا رسوا، ڈاکٹر احسن فاروقی، عظیم بیگ چغتائی وغیرہ ادیبوں کے افسانوں اور ناول کے علاوہ اس دور کے ناقدیں فراق، مجنوں، آل احمد سرور، ممتاز حسین، پروفیسر کلیم الدین احمد، پروفیسر وقار عظیم، نور الحسن ہاشمی کے ادبی کارناموں کو موضوعِ بحث بناتے ہیں۔

                آخری باب ‘‘موجودہ ادبی صورتِ حال’’ میں نئی شاعری، نیا افسانہ، نیا ناول اور نئی تنقید پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان اصناف پر مغربی ادب کا خاصا اثر ہے، ایک طرف ہمارے ہاں مغربی ادب کی طرز پر لکھا جانے والا ادب ابہام کا باعث بن رہا ہے تو دوسری طرف نئی چیزیں بھی سامنے آرہی ہیں۔ مذکورہ باب میں تقسیمِ ہند کے عرصے کے ادبا کا بیان ہے۔ جن میں ہندوستان اور پاکستان کے اہم ادیب شامل ہیں۔

                مجموعی طور پر دیکھا جائے تو یہ ادبی تاریخ کی کتاب معلوماتی ضرور ہے پر تحقیقی نہیں۔ کیوں کہ تحقیقی طریقہ کار اختیار نہیں کیا گیا ۔بعض شخصیات کی ولادت و انتقال کی تاریخیں ہی درج نہیں۔ متنازع بیانیہ موجود ہیں۔ تنقید بھی تاثرات تک محدود ہیں۔ ترقی پسندادب کو نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کتاب کا اسلوب سادہ ہے اورتذکروں کی طرز کی نثر معلوم ہوتی ہے۔ کتاب ستّر کی دہائی تک کے ادبا و شعرا کا احاطہ کرتی ہے۔ کتاب کے آخر میں نہ کوئی حوالہ ہے اور نہ ہی کتابیات جس سے اس کا تحقیقی ہونا ثابت ہو ۔تنقیدی حوالے سے اگر اس کا مطالعہ کیا جائے تو یہ کتاب تاریخ کی ایک عام سادہ سی کتاب ہی محسوس ہوتی ہے ۔

                اس کتاب میں بہت سے ایسے حوالے دیکھے جا سکتے ہیں جو قابلِ بحث بھی ہیں اور قابلِ اصلاح بھی۔ لیکن ایسا ہر کتاب میں ہوتا ہے ۔سوائے اللہ رب العزت کے کوئی شے مکمل نہیں اور تحقیق میں تو اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ہمیشہ گنجائش رہتی ہے اور در کھلے رہتے ہیں ۔

حواشی و تعلیقات

۱۔             نصیر الدین شاہ ہاشمی کے مطابق اردو کا خمیر دکن سے اٹھا، سید سلیمان ندوی اردو کا ابتدائی مقام سندھ کو قرار دیتے ہیں، حافظ محمود شیرانی کا نظریہ پنجاب میں اردو کا ہے جبکہ ڈاکٹر شوکت سبزواری اردو               کا آغاز دہلی میں دیکھتے ہیں۔

۲۔            تاریخ ادبِ اردو(جلد اول) ،ڈاکٹر جمیل جالبی ،مجلسِ ترقیِ ادب لاہور ،طبع چہارم :۱۹۹۵ء

۳۔            اردو نثر کا آغاز و ارتقا(انیسویں صدی کے اوائل تک)،ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ، مجلس تحقیقاتِ اردو حیدر آباد، س۔ن

۴۔            کیوں کہ گولکنڈہ میں اہلِ تشیع کی حکومت تھی۔

۵۔            اردو زبان میں نثری صورت میں لکھا جانے والا پہلا قصہ۔

۶۔            احتشام حسین کے مطابق فائز پہلا شاعر ہے جس نے اپنا مجموعہ خود مرتب کیا۔

۷۔           ایہام گوئی کی مخالفت کی اور سادہ گوئی کی تحریک چلائی۔

۸۔            اردو ادب کی تنقیدی تاریخ،سیّدٍ احتشام حسین، قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان، نئی دہلی، انڈیا، ۲۰۱۶ء

۹۔            اردو ادب کی تنقیدی تاریخ،ایضاً

۱۰۔           ادبی تحقیق، جمیل جالبی، ڈاکٹر، مجلس ترقی ادب، لاہور، جون ۱۹۹۴ء

۱۱۔           اردو ادب کی تنقیدی تاریخ، سیّداحتشام حسین، ایضاً

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...