Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

نقش فریادی جنوری تا مارچ 2023 |
پنجاب لٹریری فورم
نقش فریادی جنوری تا مارچ 2023

١۔بندھن کا بوجھ
Authors

ARI Id

1695781782714_56118438

Access

Open/Free Access

Pages

83

بندھن کا بوجھ

ثمینہ سید(لاہور.پاکستان)

"اس سے پہلے کہ آپ ہمیں کہیں سیر کےلیے لے جاتے,یا ہمارے ساتھ باہر کی دنیا میں سانس لیتے.کچھ یادگار وقت بتاتے.یہ دن آگئے.اور اب........آپ بھی اس قید کے ہاتھوں بے بس ہیں.بہت شوق تھا اکیلے صبح سے شام بلکہ رات گئے تک مٹرگشتی کا. اب کیجئے جناب."

شفق نے مسکراتے ہوئے گہرا طنز کیا.تو حبیب احمد اسے گھور کررہ گئے.جزبز ہوتے اٹھے اور غصے سے بولے

"بچوں کے سامنے میری بےعزتی کرنے سے فرصت ملے تو ایک کپ چائے لاؤنج میں پہنچا دینا..اور ہاں ملازمہ کے ہاتھ بھیجنا."

"جی اچھا" شفق نے شانے اچکائے.ان رویوں نے اسے بھی لاپرواہ بنا دیا تھا.وہ اس خوش فہمی سے نکل آئی تھی کہ بیوی نہ چاہتے ہوئے بھی" ملازمہ "بنی رہے تو دل میں جگہ بنا ہی لے گی..کچھ دیر بیٹھی رہی بچوں کی کھلی کتابوں میں دلچسپی کی کوئی چیز ,کچھ نیا ڈھونڈنے کی کوشش کرتی رہی.کیونکہ پچھلے ایک سال سے یہی سب کچھ ہورہا تھا.وبا کے ہاتھوں قیدوبند کی صعوبتیں,آن لائن کلاسز,کھانے پکانے,ایکدوسرے کی ہی شکلیں دیکھنا, بےوقت چائے اور  طنزیہ بک بک.

کبھی کبھار سکول والوں کے پرزور اصرار پر شفق اور حبیب احمد کو سلیقے سے تیار ہوکر کمپیوٹر کے آگے بھی بیٹھنا پڑتا.والدین کی حیثیت سے بہت سی چیزیں سمجھنا پڑتیں اور کئی طرح کے سوالوں کے جواب دینا پڑتے. وہ خود بہت ذہین فطین طالبہ تھی.ہمیشہ پہلی پوزیشن پہ اسی کی اجارہ داری رہتی تھی .یونیورسٹی میں بھی گولڈ میڈل سے نوازا گیا تھا.اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اسکے ابا اس کی پسند اور دل چسپی کو ترجیح دیتے تھے . اسی کی منتخب کردہ سمت میں اسے چلنے دیا جاتا تھا .ناصرف اس کا ساتھ دیتے پیسہ بھی لگاتے. لیکن نجانے کیوں نازنخرے اٹھانے والے یہی والدین بیٹیوں کی شادی کے وقت روایت پسند اور کٹھور بن جاتے ہیں.وہ آگے پڑھنا چاہتی تھی ایم فل ,پی ایچ ڈی کے بعد شادی کرنے کا سوچنا چاہتی تھی .لیکن امی کو خدشوں کے ناگ ڈستے رہتے.لڑکی کی عمر زیادہ ہوجائے گی تو اچھا رشتہ نہیں ملے گا.,اسکی سوچ پکی ہو جائے گی تو ہماری نہیں سنے گی اور سب سے بڑھ کر تو امی کو شیطان کے شر سے خوف آتا رہتا.اکثر کہتیں

" شیطان انسان کے ساتھ ہی ہوتا ہے ہرپل نجانے کب حاوی ہوجائے.ہماری نانی کہتی تھی برائی اور بےراہروی تو قبر کی دیواروں تک پیچھا کرتی ہے.مرتے مرتے بھی گناہ سرزد ہوسکتا ہے.اور ہم پڑھنے کی آزادی دے کر لڑکیوں کو شتر بے مہار کر چھوڑتے ہیں."

"تو اللہ کا نام لے کے رشتہ ڈھونڈ بھلئیے لوکے....میری بیٹی میرا فخر ہے ,مان ہے میرا.مجھے کبھی شرمندہ نہیں کروائے گی. "ابا جی کہتے تو شفق کی آنکھیں بھر آتیں.

تب ان باتوں کے معنی سمجھ میں نہیں آتے تھے یہ خدشے یہ مان کے تالے عقل سے ماورا لگتے تھے لیکن اب......اب جب وہ ایک بڑے بزنس مین حبیب احمد کی بیوی بن چکی تھی.دو بیٹیوں کی ماں بن چکی تھی.تو گاہے بگاہے امی کی باتیں دل کے دروازوں پہ دستک دیتی رہتی تھیں.

"امی حق بجانب تھیں .لیکن شادی کرتے وقت بیٹی کی پسند,عمر اور ذوق کا خیال رکھ لیتیں تو.....کیا برائی تھی.. "شفق اکثر کام نپٹاتے اسی طرح کے فقرے بڑبڑاتی رہتی تھی.

بچے سکول چلے جاتے اور میاں صاحب کروفر سے تیار ہوکر اپنے کام پہ چلے جاتے.اس کے سسرال والوں کی ایک بڑے مال میں کروڑوں روپے کی دکانیں اور بزنس تھے. اونچی سے اونچی اڑان ہوتی.ایکدوسرے سے بڑی گاڑیاں,کئی کئی کنال پہ پھیلے گھر ,میک اپ زدہ چہرے,باہر کے کھانے اور دنیابھر میں گھومنے پھرنے کی آزادی تھی .باہر سے پڑھ لکھ کے آئے نوجوان بھی اسی بزنس میں لگ جاتے.سب پہ دوکو چار کرنے کی دھن سوار تھی.کمی تھی تو محبت کی اور شدید کمی تھی تو ساتھ کی ,تعلق میں خلوص کی اور زندگی میں ٹھہراؤ کی.جو شفق جیسے مڈل کلاسیوں کا خاصا بڑا مسئلہ تھا. وہ چاہتی تھی حبیب احمد اسے اور دونوں بیٹیوں کو ساتھ لے کر دنیا دکھائیں.اکٹھے بیٹھ کے کھانا,پینا ,دیر تک باتیں کرنا اور اپنی مرضی کے پکوان بنانا جیسے.. عام سے خواب تھے.وہ مرد کے ساتھ کو حصار کی طرح اپنے گرد لپیٹننا چاہتی تھی.

لیکن ہر چھوٹے سے چھوٹے کام کے لیے نوکر تھے.کھانے کی ہدایات خانساماں کو دی جاتیں.حبیب احمد اکثر طنز کے تیر چلاتے رہتے.

"یہ مڈل کلاسیے شوق کہیں دفن کردو شفق بیگم .اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے آپ پر توجہ دو.اس گھر گر ہستی کی یا سگھڑاپے کی ضرورت نہیں ہے مجھے..

 اور ہاں گاڑی خود چلانا سیکھو,پیسہ خرچ کرنے کے طریقوں پر غور کرو .وہ جو تمہاری ذہانت تھی ناں اس کی یہاں کسی کو بالکل بھی ضرورت نہیں ہے. زندگی کے ساتھ دوڑنا سیکھو تاکہ میری بچیوں کی اچھی تربیت کرسکو.فیشن اور ٹیکنالوجی کا دور ہے بی بی...رٹو پن اور ذہانت کے زعم میں رہنے کا نہیں".

شفق نے اپنی اخلاقیات اور تربیت کے مطابق نجی زندگی کا آغاز کیا تھا,رشتوں کو بنانے اور نبھانے کی ہر کوشش کردیکھی تھی. لیکن یہاں سب اپنی مرضی اور اپنی پسند کے سانچوں میں ڈھلے ہوئے تھے.ہر کوئی دوسرے کو نیچا دکھانے کی سرتوڑ کوشش میں تھا.وہ کبھی ان سب کے ساتھ بھاگنے لگتی.شاپنگ,پارلرز,پارٹیاں,فیشن شوز,سوشل ورک..ہوٹلنگ سب کچھ کرتی اور کبھی تنہائی کے صحراؤں میں نکل جاتی.بےاعتنائی کے سر پٹ گھوڑے اس کی خاک اڑاتے.تو وہ گم ہوتے ہوتے گمراہ ہونے لگی.مضطرب روح کےچین کے لیے راستے ڈھونڈنے نکل پڑتی.

بےشمار طنزاور روکھے رویے شفق کے رگ و پے میں اترتے اورزہر بھرتے جارہے تھے.گھر میں ہر طرح کا آرام اور سہولتیں تھیں جن کی وجہ  سے ہر دیکھنے والی آنکھ شفق کو خوش قسمت کہتی.کوئی کیا جانے ان کےرشتے میں کتنی گھٹن اور سرد مہری تھی.حبیب احمد تعلق کی انتہا پہ بھی اسے"ناشکری عورت"کہتے ہوئے الگ ہوتے.جو لمحے ان کو درکار ہوتے ان میں شفق پوری طرح انکا ساتھ نہیں دے پاتی تھی.جب جب شفق کو تنہائی تنگ کرتی وہ انہیں احساس دلانے کی کوشش کرتی وہ کبھی توجہ نہ دے پاتے.

انسان مشین بن کر ہر ضرورت پوری کرسکتا ہے.لیکن جذبے.....ان کی اپنی سرکشی ہے ,اپنی مرضی,اپنا ہی رچاؤ.ان پر زور زبردستی نہیں چلتی.اگر زبردستی کرنے کی کوشش کی جائے تو تعلق تڑک کر رہ جاتا ہے اور منہ زور ہواؤں کی طرح مرضی کے رخ پہ نکل جاتا ہے.... یہی شفق کے ساتھ ہورہا تھا. تمام پیسے والوں کی طرح اسے بھی ڈپریشن ہونے لگا,زبان درازی ہونے لگی.کچھ دن لمبی چپ چلتی اور باقی سارے دن دوبدو لڑائی ہوتی رہتی.وہ گھنٹوں گھر سے باہر اپنی مرضی کا وقت گزارتی تو حبیب احمد کی بےتوجہی کا ملال جاتا.

اچانک زندگی نے پینترا ہی بدل لیا.روایتوں ,حکایتوں اور دوڑتی بھاگتی مشینوں کو سٹاپ لگ گیا.ایسی رکاوٹ....ایسا ٹھہراؤ در آیا جو انسان کی سوچ, اندازے اور سمجھ سے بہت اوپر تھا تو انسان کا کسمسانا,الجھنا, مضطرب ہونا لازم تھا.وقت نے مٹھی بند کرلی.زندگی کو اسٹیٹس کا ناچ نچانے والے خود ایک انوکھی ,ان چاہی تال پہ تھرکنے لگے.بےبسی انتہاؤں پہ تھی.ساری دنیا ہی ایک دم بے بس ہوگئی." وبا" کی مرضی کے مطابق روزوشب کی ترتیب بنائی جانے لگی.گھر آباد اور گلیاں ,بازار ویران ہونے لگے.ہر طرف سناٹا اور ہابندیاں تھیں

گھر سے باہر اور چور جگہوں میں پنپنے والے سچے جھوٹے رشتے دم توڑنے لگے.اب گھروں میں قید سچے رشتوں میں ملاوٹ کرنے والے لوگ مرغِ بسمل کیطرح تڑپ رہے تھے. وبا زوروں پہ تھی اسے سائنس کی کوئی چال,گھناؤنی سازش کہا جاتا تو کبھی مذہب سے دوری کو وجہ گردان کر خوف وہراس پھیلایا جاتا. راتوں میں گھروں کی چھتوں پہ بےوقت اذانیں دے کر سمجھا جاتا کہ یوں روٹھے ہوئے رب کو منا لیں گے.اور وہ مان ہی جائے گا. پھر سے کن کہہ کے دنیا کو جِلا بخشے گا.

وقت وبا کے چنگل میں جکڑا اڑیل پن دکھا رہا تھا .انسانوں کو  دھڑا دھڑ موت نگل رہی تھی اور قبریں اگلنے لگی تھیں. قبرستانوں کی اراضی ناکافی لگنے لگی تو لاشیں دریا برد ہونے لگیں.ہر طرف سناٹا تھا.موت کا سناٹا .کسی صورت بھی کاروبارِ حیات ڈگر پہ نہیں آرہے تھے. بے نتھے بیل جیسے خود سر مرد ..مرضی کی مالک ہوچکی بیویوں کے سر پر سوار تھے.بیویاں بھی نوکروں کو فارغ کرکے خود ہرکام کرنے پہ مجبور تھیں .ہر کوئی دوسرے کی نحوست سے بچنا چاہتا تھا. اایسے میں سب سے بڑا اور صبرآزما کام دن رات کے تمام گھنٹے بیویوں اور شوہروں کے مزاج کے مطابق چلنا تھا.بے شک راستے کھوٹے ہوچکے ہوں.دل نفرتوں سے اور منافقتوں سے بھر چکے ہوں.جذبے سرد بھی پڑ چکے ہوں بستر گرم رکھنا تھے.

بہت ہی کم لوگ تھے جنہوں نے فاصلہ رکھنے کے دنوں میں فاصلے مٹائے ہوں اور محبت کی راہگزر پہ چل پڑے ہوں.ورنہ طلاقوں کی شرح زیادہ ہورہی تھی.آن لائن موٹیویٹرز اور ماہرِنفسیات رواج پارہے تھے.اسی اتار چڑھاؤ میں جذبوں سے ملمعے اتر رہے تھے.شوہر جو مہینہ بھر وضعدار بنے پھرتے رہتے تھے اب روز آپے سے باہر ہوجاتے.

 ایسے میں شفق کا حیران ہونا بنتا ہی تھا ناصرف حبیب صاحب کے محبت سے لبریز لہجے میں بلانے پہ حیران ہوتی تھی وہ تو خود پر بھی حیران تھی .آج شام سے ہی مزاج میں ملاحت اتر رہی تھی . وہ مسکرا مسکرا کر سج سنور رہی تھی .چال میں بھی مستی در آئی تھی.سمٹتے ہوئے فاصلے اسے خوش فہمیاں دے رہے تھے.اس نے بخوشی سمیٹ ڈالے.ایسے ہی بہکتے پل میں حبیب احمد نے اس کا ہاتھ تھاما تو وہ کسی معمول کی طرح چلتی گئی .مقابل کرم پہ خوش ضرور تھا لیکن بار بار چونک رہا تھا.انداز,ادائیں اسے زیربار کیے دے رہی تھیں.بیوی سے اکثر مرد ایسی محبت کی توقع نہیں کررہے ہوتے.شریف بنے رہتے ہیں تا کہ بیوی بھی حد میں اور اوقات میں رہے.لیکن اب اس وبا نے گھروں تک ہی محدود کردیا تھا تو رشتے ہی غنیمت لگ رہے تھے سارے چھل کپٹ دم توڑ چکے تھے.اصل چہرے چھپانے مشکل ہورہے تھے.

کمرے کے مہکتے سناٹے میں ہلکی سی روشنی تھی جیسے دانستہ بےخبری ہو. کوئی جان بوجھ کے انجان بن رہا ہو.خوشی سےدھوکہ کھاناچاہتا ہو.

جب جادو سر چڑھ کے بول رہا تھا تو حبیب احمد نے شفق کو دیوانگی سے چومتے ہوئے سرگوشی کی.

"بہت مس کررہا تھا میری جان..شیلا ....شیلا مائی ڈئیر ......شیلااااااااا .....لویو ڈئیر...سسکاری بھری آواز نے شفق کے حواس بحال کردئیے.وہ پوری طرح  بیدار ہو گئ.

شفق نے آواز کی ٹوٹتی,لرزتی ,نشے میں ڈوبی بازگشت پہ خود کو گہرے سمندر میں گرتا محسوس کیا. ماحول کا سارا سحر ایک چھناکے سے ٹوٹ گیا تھا..لفظوں اور لہجوں کا شور حواس مختل کرنے لگا.لیکن موت جیسی چپ بھی تھی.سو بھید کھولتی زہریلی چپ بدن نیلے کررہی تھی ....وہ ایک طرف گرتی ہوئی دوہرے درد سے بےحال تھی ...بالکنی سے جھانکتی ہلکی سی روشنی میں اس اپنے ...لیکن یکسر اجنبی شخص کو پھٹی پھٹی نظروں سے دیکھ رہی تھی.

"میں شیلا نہیں ہوں. "وہ پوری قوت سے چلائی.

"سمجھے آپ۔۔۔۔میں شیلا نہیں ہوں"وہ بندھن کے بوجھ تلے دبی بری طرح کراہی.

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...