Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

نقش فریادی جنوری تا مارچ 2023 |
پنجاب لٹریری فورم
نقش فریادی جنوری تا مارچ 2023

٢۔کرونا کارن
Authors

ARI Id

1695781782714_56118439

Access

Open/Free Access

Pages

88

کرونا کارن

شاکر انور

اسکی  آنکھوں کے نیچے دھوپ کی  پتلی سی لکیر بچھی تھی ۔دوپہر کے سناٹے میں دروازے پر اسے دیکھ کر میں حیران ہوا،تھوڑی سی الجھن،کچھ کچھ خوف اور شاید مدھم سنہری امیدوں کو اپنے پیروں میں لپیٹے وہ   جھجھکتی ہوئ مسکرائی۔

اپ نے پہچانا نہیں  میں مسز مالتی ملہوترہ ،کناٹ پلیس میں ہم ملے تھے  کرونا سے پہلے   ۔اب تو پہچانا

اندر آجائیں،    کیسے آنا ہوا   ،صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ  کرتے ہوئے مسکراکر میں نے پوچھا

۔میری مسکراہٹ کے آدھے حصے نے اسکی مسکراہٹ کو مکمل۔کردیا

یہ چٹھی ہے ،  ملہوترہ نے دی ہے۔صوفے پر تنگ لباس میں بپھرے بدن کو سمیٹتے ہوئےوہ بیٹھ گئ ۔مجھے لگا وہ مٹھی میں  ہوا کوبند کر رہی ہو، میں اس سے کچھ پرے بیٹھ کر چٹھی پڑھنے لگا  دل تو چاہا کہ  قریب ہی  بیٹھوں لیکن اندیشہ ہوا، قربت کی جلدی کہیں دوری میں نہ بدل۔جائے

پیارے سنیل جی !آشا ہے سب کشل ہوگا۔کرونا کارن مین آجکل بہت پریشان ہوں۔ورکشاپ  بند پڑا ہے ۔اپ کی گاڑی  کے ڈینٹ پینٹ کا کام بھی نہیں کرسکا  اب تک

مجھے ابھی 5 ہزار کی بہت اوشکتا ہے ۔آپ کی گاڑی کے کام کردوںگا تو اس  سے کاٹ لیجئے گا۔ یقین ہے نراش نہیں کرینگے

آپ کا سچا متر  ملہوترہ

وہ سر جھکائے قالین پر پاوں  کے انگوٹھے رگڑتی رہی  میں اسکی جانب نہیں دیکھ رہاتھالیکن اسےمحسوس ہورہا ہوگا کہ اسے ہی دیکھ رہا ہوں  وہ بھی مجھے نہیں دیکھ رہی تھی لیکن مجھے یقین تھا کہ وہ مجھے ہی دیکھ رہی ہوگی۔کچھ نظریں بغیر دیکھے ہی سب کچھ دیکھ لیتی ہیں 

۔کمرے میں جاکر میں نے ڈھائی ہزار اسی لفافے میں رکھ کر مالتی کو دیا

وہ  کچھ شرمندہ سی آنکھیں ملائے بنا دھنواد کہتی چلی گئی اسکے اندر شاید بےبس جھنجھلا ہٹ کی کسک تھی۔اسکے قدموں میں ہلکی سی لڑکھڑا ہٹ تھی شاید بےبسی کا وہ احساس جو اسے پسپا کر رہی تھی

میں اسے جاتا دیکھتا رہا۔اسے ضرور محسوس ہوا ہوگا کہ میری انگارےجیسی نظریں اسے جلا رہی ہونگی

میں واپس کمرےمیں آیا ۔کھڑکی سے باہر دوپہر کا سناٹا کرونا کو مستحکمi9 کر رہا تھا ۔راستے سنسان، گلیاں خاموش ،صرف ہوا کی تیز چبھتی ہوئ اواز گھوم رہی تھی۔آس پاس ہوا اور آسمان  سڑکیں گلیاں اور درخت اور  پرندے اور دھوپ کی تیز شرارے کے علاوہ کچھ بھی نہیں

.مجھے گلابی ستمبر کی وہ شام یاد آگئی جب کناٹ پلیس میں چلتے ہوئے اچانک ملہوترہ نے آواز لگائ اور پھر گلے لگ گیا۔اسکے ساتھ اسکی نئ نویلی بیوی مالتی بھی تھی  جینز کی پینٹ اور ہاف سلیوز کی  سفید شرٹ میں ملبوس۔یہ  میری پتنی مالتی ہے  لیکن مین اسے مالٹا کہتا ہوں اس نے آنکھ مار کرکہا سمجھ گئے ہوگے کیوں؟. وہ اپنے اندر ساری سنہری شام کی سندرتا سمیٹے سامنے سمٹی سی دونوں گھٹنوں کو جوڑے اپنا چہرہ اس پر ٹکائے نیچے دیکھ رہی تھی

یہ میرا دوست  سنیل پانڈے ،بہت پیارا انسان ہے ،سب کی سہایتا کرنے والالیکن اب تک کنوارہ ہے

وہ ہنسا اور میرے کندھے پر ہاتھ پھیرنے لگا ۔کوئ کری بھی نہیں پھنسائ دلی میں  اب تک  ۔اس کی ہنسی میں  بےتکلفی سے زیادہ بےساختگی تھی

اچھا وہ بےباکی سے ہنسی۔    کہیں؟ کچھ ؟ کہتے ہوئے اس نے

ملہوترہ کو دیکھا  ۔پھر شوخ نظروں  سے مجھے ۔میں بھی جھنیپ مٹانے کو ہنس پڑا حالانکہ میری ہنسی کا کوئ جواز نہ تھا آچا نک ہی مجھے لگا کہ میں بیچ بازار برہنہ ہوگیا ہوں

ارے نہیں مالتی  ایسا نہیں  بس ، میرا یارتھوڑا شرمیلا سا ہے اسکے ہاتھوں کا دباو میرے کاندھے پر میرے احساس  سے زیادہ  تھا

ہم تینوں   جنپتھ مارکیٹ میں دیر تک ونڈو  شاپنگ کرتے رہے پھر فٹ پاتھ پر بیٹھ کرموسیقی سنتے ہوئے کولڈ کافی کی چسکیاں لیتے رہے

مالتی  تمہی  معلوم ہے میرا دوست لیکھک ہے بہت اچھی کہانیاں لکھتا ہے

واو وہ خوشی سے بولی  ۔لیکھک لوگ تو بڑے مہان ہوتے ہیں اور خود کو سمجھتے بھی ہیں

لیکن ایک مسئلہ ہے ان کے ساتھ

وہ کیا ،ملہوترہ نے پوچھا

انکی اپنی ایک الگ دنیا ہوتی ہے کسی کو اس میں  آنے نہیں دیتے لیکن   دوسروں کی دنیا میں خاموشی سےاتر جاتے ہیں۔

ٹھیک کہ رہی ہوں نا سنیل بابو،وہ میری طرف  دیکھتے ہوئے بولی

تم کہ رہی ہو تو ٹھیک ہی کہ رہی ہوگی ۔میں نے اسکی باتوں کو ٹال دیا ۔

لیکن مجھے معلوم ہے کہ لکھنا بہت مشکل کام  ہے ہر کوئ نہیں  لکھ سکتا

میں نے بھی کئ بار لکھنا چاہا لیکن نہیں لکھ سکی۔آپ کیسے لکھتے ہیں ۔

قلم سے ۔میں نے سر جھکائے دھیرے سے کہا

ملہوترہ  بےساختہ ہنس دیا اسکی ہنسی اتنی تیز تھی کہ لوگ پلٹ کر دیکھنے لگے۔مالتی کچھ شرمندہ سی ہوگئ

یار اپنی بھرجائ کو کچھ کتاب  شتاب پڑھنے دے دیا کر ،خوش  ہوجائے گی۔ یہ خوش ہوگی تو میں  خوش  ہوجاوںگا  اس نے مالتی کا ہاتھ پکڑ کر  اٹھتے ہوئے کہا

ملہوترہ جیسے کئ لوگوں سے میری دوستی تھی ۔فروٹ چاٹ والے شکور چاچا  جو کبھی  مجھ سےچاٹ کے پیسےنہیں لیتا ،پترول۔پمپ کے اروند جومیری گاڑی میں پورا پٹرول بھرتا ،اور شمبھو بہاری جو میرے ہی گاوں کا تھا ملائ والی چائے پلاتا ۔میں بھی اکتر اپنے دوستوں کے  کام آجاتا پیسوں سے، لیکن میری عادت تھی ہمیشہ  انکی مانگ سے آدھے پیسے دیتا ۔مجھے معلوم تھا کہ قرض دئے پیسے واپس نہیں ملتے اسی لئے آدھے  دیکر خوش ہوجاتا کہ ادھے بچا لئے

ایک دوپہر دھوپ  اوڑھے وہ بھر آگئی  ۔اس بار اس کے قدموں میں کوئ گرداب نہیں  تھا ۔وہ بےتکلفی سے مجھ سے پتلی سی دوری پر بیٹھ گئ پھر ایک خط جینز کی پچھلی پاکٹ سے نکال کر دیا

سنیل۔بابو ! حالات تو اب زیادہ برے ہوگئے ،آپکو تو سب پتہ ہے ۔اپ ہی تو میرے دوست ہیں  جن کے آگے منہ کھول  سکتا ہون ۔مالتی تو آپکی بڑی پرشنسا کرتی ہے۔ کہتی ہے سنیل بابو تو دھرتی پر بھگوان ہیں ۔آج  ۔مجھے دو ہزار چاہئے بہت ضرورت ہے  امی ہے نراش نہین کرینگے     اپکا دوست ملہوترہ

۔میں نے ایک ہزار روپے اسی لفافے مین رکھ کر اسے دئے  اس نے نظرین جھکائے  لفافہ لیا

اپکا فلیٹ تو بہت ہوادار ہے شاید  ویسٹ اوپن ہے  وہ صوفے سے اٹھتے ہوئے بولی۔بہت اچھا لگتا ہے یہاں پر ۔میرے گھر تو بہت گھٹن ہے ۔تازہ ہوا کو ترس گئ ہوں ۔آپ مجھے کچھ ہوا ادھار دینگے ۔۔۔وہ ہنسی ۔

ضرور کیوں نہیں  لیکن

لیکن کیا ۔ادھار چکا دونگی جب اپ کہیں گے وہ مسکان بھری نظروں  سےدیکھتی ہوئ چلی گئ وہ چلی گئ

خود کو مجھ پر چھوڑ کر ،حالانکہ وہ  رک سکتی تھی،شاید رکنا بھی چاہتی تھی مگر رکی نہین ،میں بھی اسے روک سکتا تھا،روکنا بھی چاہ رہا تھا مگر روکا نہیں اور وہ چلی گئ

وہ بادلوں بھری دوپہر تھی۔میں نے کئ گھنٹوں کے ورک فروم ہوم سے اوب کر اپنے بدن کو ایک انگڑائی سے اوپر کھینچا ،ہاتھوں  کو اوہر نیچے کرکے کرسی سے کھڑا ہوکر باہر زرد پتوں کو تیز ہوا کے بگولوں میں بےبسی سے چکر کھاتا دیکھتا رہا۔ ہوا نے بگولوں کو  دیوار سے لگا رکھا تھا۔اندر کی ہوا آگے ۔کی ہوا کو دھکے دیکر باہر نکالنے میں کوشاں تھی

سڑک  پر سناٹا  تھا ایک بیکراں  سناٹا، موت جیسا ،کبھی کبھی پولیس وین یا ایمبولینس تیزی سے گزرتی کہ اچانک گھنٹی بجی ۔ دروازے پر کوئ پورا جسم ڈھانپے، ماسک لگائے کھڑا تھا

پہچانا نہیں   وہ آنکھوں سے مسکرا رہی تھی

پھول  کو کوئ  بھی نام دو خوش بو سے پہچانا جاتا ہے مالتی ۔

اندر آجاو۔  مین نے پورا دروازہ  کھول دیا، ادھا بھی کھول  سکتا تھا  ۔وہ کچھ گھبرا ئ سی لگی ۔جلدی سے ایک پرچی تھمادی

سنیل بابو ! بہت دبدھا مین ہوں  اپ ہی میرے متر ہیں جس سے کچھ کہ سکتا ہوں  ابھی مجھے 1000روپے  کی بہت ایمرجنسی  ہوگئ ہے ۔نراش نہیں کرینگے اور ایک بنتی ہے کہ پیسے پورے دینگے  اپکا کیول دوست  ملہوترہ

مین نے پرس سے پیسے نکال کر اسی لفافے مین ڈال کر مالتی کو بڑھایا۔لفافہ لیتے ہوئے اس نے ایک  چھن کیلئے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ پر چھوڑ دیا ۔اسکے نرم گلابی ہتھیلی نے مجھے ایک نڈر سا خیال دیا ۔ اسے اپنی طرف کھینچ لوں ،مین کھینچنا ہی چاہتا تھا کہ اس نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا   وہ ریشمی مسکراہٹ بکھیرے چلی گئی میرے ہاتھ مین صرف اسکی گرماہٹ رہ گئ،، مجھے اپنی رگوں میں بےبسی کی لہریں امنڈتی محسوس  ہوئ ،میں نے جھک کر گملے میں کھلے گلاب کو سونگھا  ،جب زندگی میں خوشبو نہیں تو گلاب سے کیا لینا ۔میں نے گلاب توڑا اور  پھینک دیا   کچھ دیر بعد ہی

  پھر گھنٹی بجی اور مالتی  دروازے  سے ہی ایک پرچی تھماکر چلی گئ

سنیل بابو! آپ سے ایسی آشا ہرگز نہین تھی ،آپ اتنے کمینے ہونگے ،مین نے جب بھی آپ سے پیسے ماںگےآپ نے ادھے دیکر ٹرخادیا اور آج تو اپ نے حد ہی کردی میں نے 1000مانگا اور آپ نے500 روپے دئے۔اپ نے میری پتنی کی جوانی اور  خوبصورتی کی قیمت پانچ سو روپے  لگائ ۔شرم انی چاہئے آپکو ۔ مجھے  گھر نا  اتی ہے اپکو دوست کہتے ہوئے۔

مالتی چلی گئی اورمیں باہر اسی بگولے کو ڈھونڈ تارہا جو اب شاید میرے دل مین چکر لگارہا تھا۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...