Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

نقش فریادی جنوری تا مارچ 2023 |
پنجاب لٹریری فورم
نقش فریادی جنوری تا مارچ 2023

٣۔مقناطیس
Authors

ARI Id

1695781782714_56118440

Access

Open/Free Access

Pages

92

مقناطیس

 ڈاکٹر جمیل حیات

 ‘‘اگر آپ خودکوشش نہیں کریں گے تو اِس مصیبت سے آپ کو کوئی اور نہیں نکالے گا۔’’

 بزرگ کافی دیر سے اُسے سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے۔

 ‘‘آخر آپ سمجھتے کیو ں نہیں؟ مانا کہ بہت مشکل ہے لیکن آپ پڑھے لکھے ہیں۔یہ جانتے ہیں کہ اِس کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا۔ ’’

 وہ ہمہ تن گوش تھا۔ ‘‘ بجا فرمایا حضرت آپ نے۔ ’’ بڑی دیر کے بعد بالآخر اُس نے زبان کھولی۔ ‘‘ پھر بھی آپ اللہ والے ہیں۔ دعا بھی تو تقدیر بدلتی ہے۔’’بزرگ مسکرائے، اُن کا دلآویز تبسم مایوس اور نا امید لوگوں کے لیے زندگی کی علامت تھا تاہم وہ اِس وقت بہت بکھرا ہوا ، بے حدتھکا ہوا لگ رہا تھا اُس کی نظر اُن پر تو تھی مگر ذہن کہیں اور تھا۔ ‘‘ میاں تم ٹھیک کہتے ہو ، لیکن یہ بھی جانتے ہو کہ اللہ اُس وقت تک کسی قوم یا فرد کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے۔ ’’

 اُس کی نگاہوں میں دنیا جہاں کا کرب تھا۔ ‘‘ اِس کا مطلب ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’

 ً ‘‘ہاں۔ ’’ اُ نہوں نے اُس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ‘‘ اب یہ صرف آپ پر منحصر ہے۔ آپ کوشش تو کریں، مالک کرم کرے گا۔’’

 شام کا اندھیرا چھا چکاتھا۔جب وہ بزرگ سے اِجازت لے کر نکلا۔سڑک پر چلتے ہوئے وہ اپنے خیالوں میں گم تھا ، جب اچانک ہی کسی گاڑی کے زور سے بریک لگانے کی آواز نے اُسے چونکا دیا:

 ‘‘او بھائی ! اگر خودکشی کا اِتنا ہی شوق ہے تو کہیں اور جا کر مرو۔’’

 ڈرائیور چِلا رہا تھا۔اُس نے مُڑکر دیکھا تو ایک پِک اپ کھڑی تھی اور تیس بتیس سالہ آدمی اُسے گھور رہا تھا۔اُس نے معذرت کی۔ تھوڑی دیر بعد وہ سٹاپ پرپہنچا گاڑی کھڑی تھی وہ بیٹھ گیا اور اس دن کی یاد اس کے ذہن و دل میں خوف کے سانپ کی صورت کلبلانے لگی جس سے پہلے وہ اپنے حال میں مست ایک خوش فکر آدمی تھا ۔

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 سلمان خورشید نجی بنک میں منیجر کی پوسٹ پر فائز تھا۔ وہ چار بھائی تھے اور چاروں شادی شُدہ تھے۔اُس سے بڑا ارسلان خورشید ، جب کہ چھوٹے نعمان خورشید اور ارمان خورشید۔ تینوں حساس ادارے میں ملازم تھے ، جب کہ ایک بہن تھی عدیلہ، وہ بھی شادی شُدہ تھی۔زندگی پُرسکون گزر رہی تھی۔اُن کے والد کا اِنتقال ہو چکا تھا ، والدہ چھوٹے بھائی کے ساتھ رہائش پذیر تھی جب کہ بڑا بھائی ارسلان علیحدہ گھر میں رہتا تھا۔اور وہ تینوں ایک حویلی میں ، تاہم سب کے پورشن علیحدہ تھے۔

 سلمان ٹھنڈے مزاج کا حامِل پستہ قد ، فربہ جسم اورقبول صورت آدمی تھا۔تاہم اُس کے تینوں بھائی خوش شکل اور درازقد تھے۔وہ اپنے بابا پر گیا تھا جب کہ بھائی اور بہن ماں پر۔ گزشتہ تین دن سے وہ محسوس کر رہا تھا کہ نعمان کا روّیہ ٹھیک نہیں۔شام کا وقت تھا ، نعمان کافی دیر سے ماں کے پاس بیٹھا باتیں کر رہا تھا۔وہ اُٹھا تو سلمان ماں کے پاس چلا گیا۔

 ‘‘ کیا بات ہے امّاں ؟’’

ًً ً ‘‘بیٹا ! تم اپنی بیوی کو سمجھاؤ کہ وہ چھت پر نہ جایا کرے۔ ’’

یہ حکم اُس کے لیے بہت حیران کُن تھا۔

 ً ً ‘‘کیا مطلب ؟ ’’ اُسے سمجھ نہیں آئی۔

‘‘ نعمان بہت غصے میں ہے۔اُسے بھابی کا چھت پہ جانا اور باہر جانا پسند نہیں۔ ’’

 ً ‘‘ماں جی آپ کو پتہ ہے کہ چھت پہ فصیل پھِری ہوئی ہے اور اوپرسے کوئی بندہ بھی اِدھر نہیں جھانک سکتا۔چھت پہ صرف اُسی وقت جاتی ہے جب کپڑے سُکھانے کے لیے اوپر تار پہ لٹکانے ہوں اور باہر وہ عظمیٰ کو سکول لانے لیجانے کے لیے جاتی ہے۔آپ جانتی ہے کہ وہ بہت اچھی عورت ہے۔ ’’

وہ نرم لہجے میں ماں سے پھر مخاطب ہوا :

 ً ً ‘‘اُسے آج کیوں تکلیف ہو رہی ہے ؟ ہماری شادی کو دس سال ہو گئے ہیں، اورآج تک میں نے عالیہ میں ایسی کوئی بات نہیں دیکھی۔ مجھے اُس پر مکمل اعتبار ہے۔’’

 اتنے میں نعمان بھی آگیا اور غصے میں اُس نے سلمان کو مخاطب کیا :

 ‘‘اپنی بیوی کو سمجھاؤ ! ورنہ میں اُسے سیدھا کر دوں گا۔’’

اُسے بھی غصہ آگیا : ‘‘یار ہوا کیا ہے؟ میری بیوی ہے میں اِسے جانتا ہوں ۔ تمھارے ساتھ کوئی مسئلہ ہے تو میرے ساتھ بات کرو۔’’

اِتنی دیر میں عالیہ بھی وہاں آگئی۔نعمان نے دیر نہیں لگائی۔ اور عالیہ کو لات رسید کر دی،درمیان میں سلمان آگیا۔ نعمان نے اسے بھی لات رسید کر دی اور پھر اُس کا گَلا دبانا شروع کر دیا۔ماں نے شور مچایا۔ سلمان لڑائی بھڑائی والا بندہ نہیں تھا۔اِسی وجہ سے اُسے کافی مار پڑی، دوسرا اُس نے بھائی پر ہاتھ نہیں اُٹھایا۔اُس کی معصوم بیٹی یہ سب دیکھ رہی تھی۔وہ بیچاری رونے لگی۔بڑی مشکل سے بیچ بچاؤ کرایا گیا۔نعمان غصے سے بھرا ہوا تھا۔ اُس نے عالیہ کو بے نقط سنائیں۔

 ‘‘ میں بتا رہا ہوں تمھیں اور تمھارے شوہر کو نہیں چھوڑوں گا ۔ تباہ کر دوں گا تمھیں ۔ ’’

عالیہ شوہر کو پِٹتے دیکھتی رہی تھی اور روتی رہی تھی ۔ وہ بیچاری عورت ذات تھی بد دعائیں دے سکتی تھی ، وہ کُھل کر دے رہی تھی۔

 وہ نومبر کی ایک سرد اور خاموش رات تھی۔کمرے میں ۔ تاہم وقفے وقفے سے سات سالہ عظمیٰ کی سسکیوں کی آواز یں آجاتی تھیں۔

 ‘‘کہا تھا نا کہ یہاں سے نِکلو۔لیکن تمھیں تو ماں سے محبت ہے۔جب تک ماں ہے اِس گھر سے نہیں جاؤں گا۔دیکھ لیا، ماں اِنہی لوگوں کے ساتھ ہے۔ ’’

عالیہ روتے ہوئے کہنے لگی۔

 ‘‘یار ماں بے بس ہے۔ ’’

 ‘‘بے بس نہیں ہے ، اندر سے خوش ہے ورنہ اُسے روک نہیں سکتی تھی کہ بڑا بھائی ہے ۔بڑی بھابی تو ماں کے برابر ہوتی ہے اور یہ مجھ پر اِلزام لگا رہا ہے، اور وہ بھی بالکل بے بنیاد۔’’

 ‘‘اچھا نا یار ! اب چُپ بھی کر جاؤ۔’’

 ً ً ؔ‘‘یہ سارا کیا دھرا اُس کی بیوی کا ہے، وہ چاہتی ہے کہ ہم نکلیں اور وہ ہماری جگہ پہ قابض ہو جائیں۔’’

وہ ساری رات جاگتے رہے ، اُس رات اُنہوں نے کھانا بھی نہ کھایا۔سات سالہ عظمیٰ بہت حساس تھی، اِصرار کے باوجود اُس نے بھی کھانا نہ کھایا۔

 یہ اگلے دن کی بات ہے ، عالیہ کھانا بنا رہی تھی کہ نعمان کی بیوی ، فروہ چولہے کے پاس سے گزری۔ سلمان نے دیکھ لیا۔وہ پہلا دن تھا جب اُس کے ذہن میں یہ خیال گزرا کہ کہیں اُس نے کھانے میں زہر نہ ملا دیا ہو۔ اُس نے اِس شک کا اِظہار عالیہ سے کیا تو اُس نے کہا کہ وہ ایسی جرأت نہیں کر سکتی ، تم پریشان نہ ہو۔تاہم عالیہ کے بے حد اِصرار اور منت کے باوجود اُس نے کھانا نہیں کھایا۔ پھر یہ معمول بن گیا، عین کھانے کے وقت یا پانی بھرتے وقت فروہ وہاں سے گزرتی اور پھر عالیہ اور سلمان کا جھگڑا شروع ہو جاتا۔اُس نے ماں سے شکایت کی تو ماں نے بھی فروہ کی حمایت کی کہ وہ اپنے گھر میں ہوتی ہے، تمھاری غلط فہمی ہے۔

 سلمان کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ وہ لوگ اُسے زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ پھر ایک اور واقعہ ہوا، وہ قبرستان میں گیا ہوا تھا، بابا کی قبر پہ فاتحہ پڑھتے ہوئے اُس کے پاؤں کے بالکل پاس سے سانپ گزر گیا۔وہ گھبرایا ہوا گھر واپس آیا تو عالیہ اُس کی حالت دیکھ کرپریشان ہو گئ:

 ‘‘ سلی ! کیا ہوا تمھیں ؟ ’’ اُس کے منہ سے آواز نہیں نکل رہی تھی۔ ‘‘ وہ۔۔۔۔وہ۔۔سانپ ۔۔۔وہ میرے پاس سے ۔۔۔پاؤں کے بالکل پاس سے گزرا ہے۔ پتہ نہیں اُس نے کاٹا ہے یا نہیں۔ لیکن شاید کاٹا ہے۔ شاید نہیں۔’’

وہ اپنے حواس میں نہیں تھا۔عالیہ اُس کے پاس بیٹھ گئ :

 ‘‘مطمئن ہو جاؤ ! نہیں کاٹا۔ اگرکاٹا ہوتا توتم اِس وقت یوں کھڑے ہو کر باتیں نہ کر رہے ہوتے۔’’

عالیہ جانتی تھی کہ اب وہ پانی نہیں پئے گا، اُس نے سُن رکھا تھا کہ سانپ کاٹ لے تو پانی نہیں پیناچاہیے کیونکہ پانی پینے کی صورت میں موت یقینی ہے۔ عالیہ کی ہزار منتوں کے باوجود اُس نے پانی نہیں پیا۔ وہ ساری رات پیاس سے تڑپتا رہا۔پھر یہ بھی معمول بن گیا زہر اُس کے ذہن کے کونے کھدرے میں بیٹھ گیا۔ راستے میں چلتے چلتے وہ کالے رنگ کا دھاگہ دیکھتا یا بال دیکھ لیتا تو اُن کو پکڑ کر دو حصوں میں کاٹ لیتا ، تب اُس کو یقین ہوتا کہ سانپ نہیں ہے۔

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ‘‘یار ! گرمی بہت شدید ہے اور تم نے بوٹ اور جرابیں پہن رکھی ہیں۔ دماغ کو گرمی پہنچے گی۔ چپل پہنا کرو۔’’

ارمان نے سلمان کو بوٹ پہنے دیکھا تو کہا۔

 گھر میں سب کو پتہ چل چکا تھا کہ سلمان کے ساتھ کیا مسئلہ ہے۔اِس لیے اُس نے اُسے سمجھایا۔

 ‘‘اور بھابی کہہ رہی ہے کہ تم دو دو تین تین دِن پانی نہیں پیتے۔ میرے بھائی ! اِس طرح پانی کی کمی ہو جائے گی اور کئ بیماریاں جنم لیں گی۔’’

 تھوڑے توقف سے اُس نے پھر کہا :

 ‘‘اور ہاں ! جس نے ہونا ہوتا ہے وہ ہو کر رہتا ہے۔اِس لیے اپنے آپ کو یوں برباد نہ کرو، پڑھے لکھے ہوکچھ خیال کرو۔’’

 ً وہ چپ چاپ سنتا رہا۔اُسے کیسے بتاتا کہ وہ تو اِس مصیبت سے نکلنا چاہتا ہے لیکن اِس پر اب اُس کا اِختیار نہیں ہے۔

 اُس دن عالیہ اپنی امی کے گھر گئ ہوئی تھی ، سلمان نے پانی بھرا اور پھر اُسے کہیں جاناپڑ گیا۔اُس نے کمرے کوتالہ لگایا اور چلا گیا۔ واپس آیا تو اُسے فکر لاحق ہو گئ کہ پتانہیں کسی نے پانی میں کچھ ملا نہ دیا ہو۔اُسے اِحساس تھا کہ اُس کی قوتِ ارادی بہت کمزور تھی ۔چنانچہ وہ قابو نہ پا سکا اور سارا دن بھوکا پیاسا بیٹھا رہا۔ماں نے اُ سے کھانے پر بلایا تو اُس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اُسے بھوک نہیں ہے۔شام کو وہ دکان سے سیب لے آیا۔ماں کو پھر انکار کیا اور رات کو سیب کھا کر سو رہا۔عالیہ تین دن بعد گھر آئی تو سلمان کی حالت دیکھ کر دھک سے رہ گئ۔

 ‘‘یہ کیا حالت بنا رکھی ہے تم نے ؟ ’’وہ چلائی۔

 امی بھی رونے لگ پڑی ، اُنہوں نے عالیہ کو بتایا کہ اِس نے تین دن سے کچھ نہیں کھایا۔ ‘‘ اب اِسے مجھ پر بھی اعتبار نہیں ہے۔ ’’عالیہ بیٹھ کر رونے لگی۔ تھوڑی دیر بعد اُس نے کھانا پکایا تو سلمان نے کھایا۔

 رات کو جب وہ سونے کے لیے لیٹے تو عالیہ نے اُس سے پوچھ لیا:

‘‘ تم صبح گھر سے ناشتہ کرنے کے بعد جب بنک جاتے ہوتو وہاں سے پانی کیو ں نہیں پیتے؟ ’’

 ‘‘یار ! میری چپڑاسی سے تلخ کلامی ہو گئ ہے۔ میں ڈرتا ہوں کہ اُس سے پانی مانگوں تو کہیں وہ پانی میں کچھ ملا نہ دے۔’’

 ً ً ‘‘تم پاگل ہوتے جا رہے ہو اور مجھے بھی پاگل کر دو گے۔’’

 ‘‘اپنے اوپر رحم کرو اور نہیں تو کچھ عظمیٰ کا ہی خیال کر لو۔ اُس کے ذہن پر منفی اثرات پڑیں گے۔ تم کھانے میں کیڑے نکالتے ہو ، میں تین تین بار کولر کو کنگھالتی ہوں پھر بھی تم پانی نہیں پیتے۔کئ بار تم گلاس کو دھوتے ہو۔ ’’

 عالیہ اُسے کہہ رہی تھی اور وہ ازل کا بدقسمت آنسو بہا رہا تھااپنی بے بسی پر۔

 ‘‘دیکھو تم آٹھ سے دس گھنٹے بنک میں ہوتے ہو، اور پانی تک نہیں پیتے۔ تمھارے جسم سے پانی ختم ہو جائے گا۔بولو ! پھر کیا کرو گے تم، کون سنبھالے گا تمھیں ؟ ’’

 ً ‘‘ میں کیا کروں عالیہ ! مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی۔ہوٹل سے میں نے کھانا کھانا چھوڑ دیا،میرے ذہن میں ایک ہی ڈر ہے کہ کوئی مجھے زہر نہ دے دے۔ میں نے دوستوں سے ملناچھوڑ دیا۔رشتہ داروں کے گھروں میں جانا چھوڑ دیا ۔ سب مجھ سے ناراض ہو گئے۔ میں اگر کہیں جاتا بھی ہوں تو اگلا مجھے جتنا مرضی کہے میں اُس سے نہیں کھاتا، میں کیا کروں ؟ ’’

حقیقت بھی یہی تھی ۔وہ اپنے گھر میں قید ہو کر رہ گیا تھا۔صبح بنک جاتا، تو ایک کپ چائے اور آدھا پراٹھا۔۔۔ یہ اُس کا ناشتہ تھا۔پھر پانچ بجے اُسے چھٹی ہوتی اور چھ بجے وہ گھر واپس آتا۔ اِس دوران وہ بھوکا پیاسا رہتا۔چلتے چلتے وہ راستے میں کبھی ایک طرف تو کبھی دوسری طرف دیکھتا، مبادہ کہیں سے سانپ نہ نکل آئے۔گھر آتا تو بیوی کی خیر نہ ہوتی:

 ‘‘ کھانا بناتے وقت ہانڈی کی طرف دیکھا تھا یا دوسری طرف دیکھتی رہی تھی؟ ’’

وہ بیچاری اُسے سمجھاتے سمجھاتے تنگ آ چکی تھی۔

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 اُنہی دنوں اسے ایک نئی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔وہ دفتر میں بیٹھا تھاکہ ایک آدمی ملنے آگیا۔ باتوں کے دوران سلمان کو یوں لگا جیسے اُس آدمی نے سلمان کے منہ میں کچھ ڈال دیا ہو، اُس کے دل کی دھڑکن یک دم تیز ہو گی ٔ ،بہت مشکل سے اُس نے اپنے آپ پر قابو پایا۔ جب وہ گھر پہنچا تو اُس نے پہلے تو حلق میں اُنگلی ڈال کر قے کی، کافی دیر کی کوشش کے بعد بھی کچھ نہ نکلا۔ نکلتا بھی کیسے کہ صبح سے بھوکا پیاسا جو تھا۔ پھر کافی دیر کلّی کرتا رہا۔ اِس نئی مصیبت کے بعد اُس کا باہر رہنا عذاب ہو گیا۔پھر یوں ہوا کہ وہ کھانا کھا رہا ہے تو اسے اُلجھن سی ہوئی اور اُس نے حلق میں انگلی ڈال کر قے کر دی۔

 جب عالیہ گھر پر نہ ہوتی تو صرف عدیلہ کا گھر تھا جہاں وہ جاتااور کھانا کھاتا۔ اُس دن عدیلہ کی خیر نہ ہوتی، وہ روٹی ایسے کھاتا کہ ایک نوالہ کسی روٹی سے توڑتا اور ایک نوالہ کسی دوسری روٹی سے۔اُسے دیکھ کر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ اکنامکس میں ایم فِل کرنے والا یہ آدمی جو ایک بہت عمدہ اور اچھی ملازمت بھی کر رہا تھااندر سے کتنا ٹُوٹا پھُوٹا تھا۔سچ کہا تھا کسی نے کہ انسان بہت اچھا اور بہت زیادہ کما سکتا ہے لیکن کھا اُتنا ہی سکتا ہے جتنا اُس کے نصیب میں ہے۔اور ایسا لگتا تھا کہ رزق اُس سے رُوٹھ گیا تھا۔

 اُس کی حالت خراب ہوتی گئی، کھانا پینا کم ہوتا گیا۔ اب اُس کے سینے میں تکلیف ہونے لگی۔اُسے گھر والے سمجھاتے،لیکن وہ سنی ان سنی کر دیتا۔ اب تو نعمان بھی راضی ہو گیا تھا، وہ بھی اسے سمجھاتالیکن اب اُسے سمجھ نہیں آتی تھی۔گھر میں اُس کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی۔ تاہم وہ وقت پر بنک پہنچ جاتا، اور وہی وقت اُس کے لیے عذاب ناک ہوتا۔اُس کے تعلقات بالکل ختم ہو گئے تھے لے دے کے سفیر رہ گیا تھا وہ آتا رہتا تھا۔حالانکہ اب سلمان اُس سے بھی دُور ہی رہتا تھا۔اُس وقت بھی وہ اپنے دفتر میں ہی بیٹھا تھا جب اچانک سفیر آ پہنچا :

 ‘‘اچھا ہوا جو تم موجود ہو، سناؤ ! کیا ہو رہا ہے۔سفیر اُس کا بہت اچھادوست تھالیکن جب سے اُس کے ساتھ یہ مسئلہ بنا ، سلمان نے اُس کے گھر جانا بھی چھوڑ دیا تھا کہ اگر اُس نے کھانے کا کہہ دیا تو کیا ہو گا؟ ’’

 ‘‘ آج کھانا اکٹھاکھائیں گے۔ ’’

وہی ہوا جس سے سلمان دامن بچاتا تھا، ‘‘ نہیں یار! آج بہت کام ہے، میں تمھارا ساتھ نہیں دے سکوں گا۔ تمھارے لیے منگوا لیتا ہوں۔ ’’

 ‘‘او یارا ! ہم نے کون سا باہر جا کے کھانا ہے جو تمھارا وقت ضائع ہو گا، یہیں منگوا لیتے ہیں۔ ’’

سفیر نے گرمجوشی سے کہا۔ ‘‘بہت دن ہو گئے تم گھر پہ بھی نہیں آرہے، خیریت ہے کہیں ناراض تو نہیں مجھ سے؟’’

ً ‘‘ارے نہیں یار ! ایسی کوئی بات نہیں، کچھ مسائل ہیں۔انشاء اللہ بہت جلد آؤں گا تمھاری طرف۔ ’’

 ً ‘‘اچھا تمھیں یہ بتانے آیا تھا کہ پرسوں میرا نکاح ہے۔تم لوگوں نے آنا ہے۔شادی تو بعد میں ہو گی۔’’

ً ً ‘‘ ٹھیک ہے جناب ! ضرور آئیں گے۔ ’’سفیر کے جانے کے بعد وہ پھر سوچ میں پڑ گیا ۔یہ ایک نئی مصیبت آگئ ، اب پھر کھانا نہ کھانے کا کوئی بہانہ سوچنا پڑے گا۔اُس کے ساتھ یہ مسلسل ہو رہا تھا۔

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 بہن کے مسلسل اصرار پر وہ ماہرِ نفسیات کے پاس چلا گیا۔ ڈاکٹرحسنین نے اُس کی بات بہت غور سے سُنی :

 ‘‘برخوردار ! یہ انسانی ذہن بھی بہت عجیب و غریب چیز ہے۔گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ اصل میں یہ موت کا خوف ہے۔سانپ ہو یا زہر، یہ علامت ہے موت کی ۔اب موت تو اٹل ہے،آپ اِس خوف سے کہ کہیں سانپ نے نہ کاٹ لیا ہو دو دو دن تک پانی نہیں پیتے۔ اِس سے آپ کوکوئی دوسری بیماری لگ جائے گی اور آپ سوچ بھی نہیں سکیں گے کہ کیا ہو گیا۔’’

 ‘‘ بحیثیت مسلمان یہ ہمارا ایمان ہونا چاہیے کہ موت برحق ہے۔ اِس لیے آپ مطمئن ہو جائیں۔ویسے یہ ایک بیماری بھی ہے جس کو شیزوفرینیا بھی کہتے ہیں۔اِس میں انسان وہم کا شکار ہوجاتا ہے۔’’

وہ وہاں سے بھی اُٹھ کر آگیا ۔

 ایک دن ماں نے اُس سے کہا :

 ‘‘بیٹا سلمان !نماز پڑھا کرو، تمھیں سکون ملے گا۔’’

وہ نماز کے لیے کھڑا ہو ا تو اُس کے ذہن میں سینکڑوں اندیشوں نے سر اُٹھایا، ‘‘ اگر نماز پڑھتے وقت پاؤں پر کسی چیز نے کاٹ لیا تو۔۔۔ ’’

 اُس نے نماز توڑ دی۔۔۔۔وہ بہت زیادہ ذہنی ٹُوٹ پھُوٹ کا شکار ہو چکا تھا۔۔۔

وہ گھر میں ہوتا تو فرج کو تالہ لگا دیتا، پانی کی بوتلوں کو خود بھرتا۔ اُنہیں فرج میں رکھتا، فرج کو تالہ لگا دیتا لیکن جب پانی پینے کے لیے فرج سے بوتل نکالتا تو سوچ پہلے ہی سے اُس کے اندر موجود ہوتی : ‘‘جب بوتل میں پانی بھر کے رکھ رہے تھے ،تو کہیں اُس وقت کسی نے اُس میں کچھ ملا نہ دیا ہو۔’’

یہ سوچ آتے ہی وہ بوتل کورکھ دیتا۔ایک اور مسئلہ جو اُس کے ساتھ شروع ہو گیا تھا کہ وہ آدھا آدھا گھنٹہ صابن سے ہاتھ دھوتا رہتا۔پھر کافی دیر کُلّی کرتا رہتا۔تب کہیں جا کے وہ مطمئن ہوتا اور پھر کھانا کھاتا۔چارپائی پر لیٹے لیٹے اچانک اُچھل پڑتا اور پھر عالیہ کو کہتا کہ دیکھو ! کہیں کسی چیز نے میری کمر پہ کاٹاتو نہیں ہے۔وہ بیچاری بھی عذاب ناک زندگی گزار رہی تھی لیکن صابر شاکر تھی ۔عالیہ نے کوئی درگاہ نہیں چھوڑی جہاں اُس نے سلمان کے لیے دعا نہ کی ہو۔ لیکن شاید کہیں کمی تھی جو دعا پُوری نہیں ہو رہی تھی۔وہ ساری ساری رات جاگتا رہتا ، رات بھر وہ خدا سے باتیں کرتا رہتا۔ ‘‘ یا اللہ ! مجھے اِس مصیبت سے نکال ۔۔ ’’

لگتا تھا کہ خدا بھی اُس سے ناراض تھا۔

 وقت گزرتا رہا، سردیوں میں تو وہ کمرے میں سوتا رہا اِس لیے رات کو نیند آ جاتی تھی لیکن جب گرمیاں آئیں تو اُس کے لیے ایک اورعذاب تیار تھا۔ چونکہ صحن ایک تھا اِس لیے سب گھر والے رات کو باہر صحن میں سوتے تھے۔ پہلی رات کو ہی اُسے اِس پریشانی نے گھیر لیا کہ اگر رات کو کسی نے اُسے سوتے میں کچھ دے دیا تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ جاگتا رہا ، نیند سے لڑتا رہا ۔۔۔۔جب آنکھ لگتی نادیدہ خوف اُسے جگا دیتا۔ کب آنکھ لگی اور وہ سو گیا اُسے پتہ نہ چلا ۔پھر یہی ہوتارہاجب تک وہ جاگ سکتا ،جاگتا رہتا اور تھوک پھینکتا رہتا ۔

 ایک دن اُس کے جی میں آئی تو وہ جامع مسجد کے خطیب حضرت مولانا عبدالرشید فاروقی کے پاس چلا گیا۔ ایک چھوٹے سے کمرے میں مولانا زمینی بستر پر لیٹے ہوئے تھے۔بستر کے ساتھ الماری تھی جو کہ کتابوں سے بھری ہوئی تھی۔وہ بھی قالین پر اُن کے پاس بیٹھ گیا، مولانا نابینا تھے۔

 سلمان نے اُنہیں سلام کیا تو اُنہوں نے گرمجوشی سے جواب دیا۔جب اُس نے بات شروع کی تو وہ غور سے سننے لگے۔اُنہوں نے بات سننے کے بعد اُسے مخاطب کیا: ‘‘ سلمان میاں ! بندہ دشمن کو بھی تنگ نہیں کرتا ،آپ سجنوں کو کیوں تنگ کر رہے ہو؟ ’’

 سلمان حیران ہو گیا ، چند لمحے تو اُسے سمجھ ہی نہیں آئی کہ مولانا کا اشارہ کس طرف ہے۔پھر جب بات سمجھ آئی تو وہ گنگ رہ گیا۔ مولانا نے اُسی شیریں لہجے میں بات جاری رکھی : ‘‘ ایسا کرو کولر میں سے ایک گلاس پانی مجھے پلاؤ۔ ’’ سلمان نے پانی پلایا ،وہ پھر بولے : ‘‘میاں !اب ایک گلاس خود بھی پیو اور ہاں پریشان مت ہونا۔ میں تو گھڑے کا پانی پیتا ہوں پر مجھے پتا تھا کہ آج تم آؤ گے اِس لیے کولررکھوا دیا تھا اور فقیر کے پاس سے تمھیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی، پانی پی لو۔ ’’

 وہ دو گھنٹے وہاں بیٹھا رہا۔مولانا نے اُسے تفصیل سے سمجھایا کہ یہ رب کی طرف سے آزمائش ہے۔ اُسے گھبرانا نہیں چاہیے، وہ جی بھر کر پانی پیے ۔جب وہ وہاں سے اُٹھا تو اُس نے سوچ لیا تھاکہ وہ مولانا کی تمام باتوں پر عمل کرے گا۔

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گاڑی کے ہارن نے اُسے ماضی سے حال کی طرف لوٹا دیا۔ وہ گاڑی میں بیٹھا تھا، ابھی صرف چھ سواریاں بیٹھی تھیں جب کہ گنجائش اٹھارہ کی تھی۔ وہ پھر ماضی میں گم ہو گیا۔

 پروفیسر ڈاکٹر سمیر علو ی کے گھرمیں بیٹھا وہ سوچ رہا تھا کہ سر کو کس طرح کہے کہ وہ کھانا نہیں کھائے گا۔لیکن سر کی عادت بھی اسے پتاتھی۔ اُس نے سوچا کہ یہاں تو فرار ممکن نہیں، چلو کھانا کھا لیتے ہیں اور یہاں سے نکلتے ہی قے کر دیں گے۔پروفیسر صاحب ، جو کہ اُس کے اُستاد تھے اُس کی ایک ایک حرکت کو دیکھتے رہے۔ سر کی بیٹی پانی لائی تو بوتل کے ساتھ دو گلاس تھے لیکن سلمان نے پانی اُسی گلاس سے پیا جس سے سر نے پانی پیا تھا۔ پھر جب کھانا آیا تو اُس نے سر کے ساتھ ایک پلیٹ میں کھانا کھایا، حالانکہ دوسری پلیٹ بھی موجود تھی۔جب سر نے چائے کا کہا تو اُس نے انکار کر دیا کہ میں چائے نہیں پیتا۔اُس وقت تو سر خاموش رہے لیکن جب دو دن بعد اُسے سفیر کے ساتھ دوبارہ سر کے گھر جانا پڑ گیا تو سر نے اُسے اور سفیر دونوں کو گالیوں سے نوازا، اُن کی گالیوں میں بھی محبت تھی۔وہاں جب اُس نے پانی تک پینے سے انکار کر دیا تو سر نے کہا:

 ‘‘سفیر ! اِس کنجر کو سمجھاؤ ، دوست اور دشمن میں تمیز کرے۔اِس کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے، یہ بتاتا بھی نہیں اور اپنا بیڑہ غرق کر رہا ہے۔’’

 سفیر نے کہا : ‘‘ سر جی ! اِس نے میرے گھر آنا بھی چھوڑ دیا ہے۔سمجھ میں نہیں آتا کہ اِسے کیا ہو گیا ہے؟ ’’

یہ سفیر ہی تھا جو اُسے بابا جی کے پاس لے گیا تھا۔ ‘‘یار تو اپنا سارامسئلہ اُنہیں بتانا، اگر اُنہوں نے تیرے اُوپر نظر کر دی تو سمجھ تیرا مسئلہ بالکل حل ہو جائے گا۔’’

 اُس نے بابا جی کے پاس جانا شروع کر دیا۔ بابا جی کسی طرح بھی اللہ و الے نہیں لگتے تھے، کتابوں کی دکان تھی اُن کی۔ اُس سے گزر بسر ہو رہی تھی، سلمان اُن کے پاس گھنٹوں بیٹھا رہتا۔وہاں وہ جی بھر کر پانی پیتا،تین بار چائے پیتا اورکبھی کبھار کھانا بھی کھا لیتا۔بابا جی سے اُس کی تفصیلاً بات ہوتی ، وہ ایک ایک بات اُنہیں بتاتا۔اُنہوں نے اُسے کہا کہ وہ جہاں سے بھی چاہے،کھانا کھائے، پانی پیے،اُسے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔خوا ہ مخواہ خود کو بھی تکلیف نہ دے اور گھر والوں کو بھی نہ ستائے۔وہ جب تک وہاں بیٹھا رہتا، اُن کی باتیں اُس کے دل پر اثر کرتیں اور جب وہاں سے اُٹھتا پھر اُس کا وہی حال ہوتا۔اب تو اُس کی بیوی بھی اُسے سمجھا سمجھا کے تھک گئی تھی۔

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کنڈیکٹر کی آواز اُسے پھر حال میں لے آئی۔اُس نے دیکھا گاڑی سواریوں سے بھر چکی تھی۔اُس نے کنڈیکٹر کو کرایہ دیااور سوچنے لگا کہ آج اِس بات کو چار سال ہو گئے ہیں۔وہ ایک ذہین آدمی تھا لیکن آج وہ ایک پراگندہ سوچ کا مالک ، لٹا ہوا اور ٹُوٹا پھوٹا آدمی تھا۔وہ سوچتا کہ کاش وہ بھی ایک پرسکون زندگی گزار سکتا۔وہ جانتا تھا کہ اِس مصیبت سے وہ خود اپنے آپ کو نکال سکتا ہے۔کوئی دوسرا ایک حد سے زیادہ اُس کی مدد نہیں کر سکتا لیکن شاید وہ بہت آگے نکل گیا تھا ۔ اب واپسی ناممکن تھی یا پھر کوئی انہونی ہو جاتی۔

 کبھی وہ سوچتا پتا نہیں کہاں مجھ سے ایسی غلطی یا گناہ سرزد ہو گیا تھا جس کی مجھے یہ سزا ملی۔ پھر وہ خود ہی جواب دیتا۔ کہ اُس نے تو آج تک نادانستہ طور پر بھی کسی کا بُرا نہیں چاہا۔کہاں یہ کہ جان بُوجھ کرکسی کو تکلیف دی جائے۔پھروہ سوچتا کہ شاید اللہ کی رضا یہی ہے کہ وہ اِسی حال میں رہے۔تو پھر اُسے راضی بارضا رہنا چاہیے۔لیکن پھر وہ ہر ایک کو اپنے دکھ کیوں بتاتاہے۔ کیا وہ اللہ کی رضا پہ راضی نہیں ہے ؟

 اُنہی دنوں اُسے بنک کے کام سے لاہور جانا پڑ گیا۔رات کو اُس نے جانا تھا تو شام کو اُس کی ہمسائی نازیہ روتے ہوئے اُس کے گھرآئی۔اُس کے بیٹے کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا۔ اُسے آپریشن کے لیے رقم کی ضرورت تھی۔سلمان نے تھوڑی دیر سوچا اور پھر اُس نے اپنے پاس رکھے پچاس ہزار روپے نازیہ کو دے دیے ۔یہ پیسے اُس نے لیپ ٹاپ خریدنے کے لیے پس انداز کیے تھے ۔عالیہ کو اور ماں کو بتا کر وہ گھر سے نکل آیا۔ گاڑی مقررہ وقت پر چل پڑی۔ گاڑی رات کو کلر کہار انٹر چینج پہ رُکی تو وہ ٹانگیں سیدھی کرنے کے لیے گاڑی سے نیچے اُتر آیا۔اُس کے سامنے ایک نوجوان آدمی کھڑا تھا۔وہ اچانک کہیں سے نمودار ہوا تھا۔اُس نے ایک بار سلمان کی طرف جو دیکھا تو سلمان کو زمین آسمان گھومتے نظر آئے۔ اُس کی آنکھوں میں مقناطیسی کشش تھی ۔پھر وہ گویا ہوا :

 ً ‘‘سلمان صاحب ! مطمئن ہو کر زندگی گزاریں۔ابھی جو نہیں آئی اُس کے بارے میں سوچ سوچ کر ہلکان نہ ہوں، ویسے بھی ابھی آپ کا نمبر دُور ہے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...