Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نقش فریادی اپریل تا جون 2023 > 1۔ زبان اور نئے بیانئے کی تشکیل کا مسئلہ

نقش فریادی اپریل تا جون 2023 |
پنجاب لٹریری فورم
نقش فریادی اپریل تا جون 2023

1۔ زبان اور نئے بیانئے کی تشکیل کا مسئلہ
Authors

ARI Id

1695782983289_56118458

Access

Open/Free Access

زبان اور نئے بیانئے کی تشکیل کا مسئلہ

ڈاکٹر صلاح الدین درویش

کہا جاتا ہے کہ انسان کی سب سے عظیم ترین دریافت زبان ہے جو کبھی تصویر کی صورت میں ہوا کرتی تھی،پھر تقریر کی صورت میں ترقی کرتی چلی گئی اور آخر میں تحریر کے فن نے زبان کے ذریعے انسانی عزم و ہمت کی طویل ترین تاریخ کو محفوظ بنانا شروع کر دیا۔یہی زبان قبائلی ،قومی اور ریاستی سطح پر وحدت کی علامت بننے کے ساتھ سیاسی، سماجی اور معاشی رابطہ کاری کے عمل کے ذریعے ان سب کے درمیان فکری روابط کو مؤثر بنانے کا باعث بنتی چلی گئی۔زبان کی اِس فکری بنیاد نے علوم کے مختلف شعبون میں مباحث و نظریات کے متنوع دفاتر کے انبار لگا دیے۔ علم کے ہر شعبے نے مختلف علوم کے دیگر مباحث و نظریات سے اِسی زبان ہی کے طفیل استفادہ کیا۔ یوں تمام علوم کے درمیان زبان ایک مضبوط ترین پُل کی صورت اختیار کرتی چلی گئی۔اِس حوالے سے زبان کی تاریخ کو بیان کرنا اِس مضمون کا مقصود نہیں ہے۔ ماہرینِ لسانیات اور اینتھراپالوجسٹ(Anthrapologist) اپنے بہترین تحقیقی مقالے دنیا کے سامنے پیش کر چکے ہیں۔ اِس مضمون میں صرف زبان کے ثقافتی مضمرات سے بحث کی جائے گی۔

ثقافت کسی قوم کے تمدنی اظہارات کا نام ہے۔ جس میں رسوم و رواج، میلے ٹھیلے،مذہبی عبادات کے طریقے،ادب و شعر کی دنیا، فنونِ لطیفہ،نشست و طعام کا سلیقہ، رہن سہن، آرائش و زیبائش کا ذوق، لباس، گھرداری سے لے کر کاروبار اور گلیوں محلّوں میں بسر ہونے والی زندگی کا مخصوص انداز سب شامل ہے۔ طبقاتی تنوع بھی اِسی ثقافت کے مختلف رنگوں کا اظہار ہوتا ہے۔ یہی اُصول شہری و دیہی زندگی میں ثقافت کے فرق کو بھی نمایاں کرتا چلا جاتا ہے۔ شہری و دیہی طرزِ زندگی میں فرق کے باعث ثقافت کے مذکورہ تمام عناصر میں بھی فرق پایا جاتا ہے۔دنیا بھر میں کہیں کثیرُ الثقافتی ریاستیں ہیں تو کہیں ایک قوم واحد مشترکہ ثقافت رکھتی ہے۔ اٹھارہویں صدی کے اختتام تک پوری دنیا میں بادشاہی کا رواج تھا اور دنیا بھر میں ریاستی سطح پر ثقافتیں علاقائی حوالوں سے گذشتہ کئی سو برسوں سے اپنی شناختوں میں بغیر کسی بڑی تبدیلی کے برقرار تھیں۔ طاقتور ریاستوں کی کمزور ریاستوں پر چڑھائی اور مقامی اشرافیہ نے فاتح اشرافیہ کی ثقافت کا لباس لیا لیکن اشرافیہ محلات سے باہر ثقافتوں پر غیر مقامی اثرات بہت کم اثر انداز ہوئے۔ خود فاتحین بھی اپنی نسل اور ثقافتی تفأخر کے تحفظ کے لیے اس بات کے خواہشمند نہ تھے کہ مقامی لوگ اُن کی پیروی یا نقل کریں۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ کسی غیر مقامی ثقافت کے انجذاب کے لیے ضروری تھا کہ مفتوح اور فاتح کی زبانوں میں بھی اشتِراک ہو۔ بیشتر صورتوں میں فاتخ اور مفتوح کی زبانوں میں فرق ہوتا تھا جس کے باعث دونوں ثقافتوں کے مابین اجنبیت ہمیشہ برقرار رہتی تھی۔ فاتحین کے رخصت ہوتے ہی مفتوحہ ریاستوں میں بادشاہ، اشرافیہ سے لے کر عوامُ الناس تک تعطُّل شدہ ثقافتی عمل ایک مرتبہ پھر بحال ہو جاتا تھا اور آہستہ آہستہ فاتحین کی ثقافت کا جو تھوڑا بہت غلبہ ہوتا تھا اُس سے نجات مل جاتی تھی۔ تاہم ریاستی سطح پر سرکاری بندوبست کے باعث سیاسی، سماجی اور معاشی حکمتِ عملیوں کے نتائج مقامی ثقافتوں پر کسی حد تک ضرور اثر انداز ہو کر مقامیت کا حصہ بن جاتے تھے۔ لیکن مقامی زبان/ زبانوں کی صرفی و نحوی ساخت پر مطلق اثر نہیں ہو پاتا تھا ۔تاہم فاتحین کی زبان کے الفاظ کا محدود ذخیرہ مقامی زبان/ زبانوں میں ضرور شامل ہو جاتا تھا کہ جنہیں اپنے مقامی تلفظ میں ڈھال لیا جاتا تھا۔

زبان خود کسی ثقافت کا عنصر یا مظہر نہیں ہوتی بلکہ ثقافتی عناصر و مظاہر کے ذریعے تشکیل پانے والے بیانئے کو معنوی سطح پر مربوط بنانے کا ایک آلہ(Tool) ہے۔ثقافت کے تمام عناصر کہ جن کا ذکر مضمون کے شروع میں کیا گیا ہے وہ تجریدی حالت یں بکھرے رہے ہیں۔ اُن کے ساتھ جُڑے وقوعات زمانی ترتیب کے لحاظ سے الگ الگ حالتوں یا صورتوں میں منظرِ عام پر آتے رہتے ہیں لیکن زبان اُن سب کے درمیان معنوی ترتیب پیدا کرکے اُسے ثقافتی بیانئے کے طور پر سماج کا حصہ بنا دیتی ہے۔ میرے اِس منطقے یا دعوے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے خود زبان کی تشکیل کے بارے میں جان لیا جائے۔زبان لفظیات،صوتیات اور جملے کی ساخت تک کا سفر کیسے طے کرتی ہے؟ اور کیسے ہی دنیا میں آتے ہی بچہ زبان سیکھنے ،جاننے اور بولنے کا سلسلہ شروع کر دیتا ہے؟ اِن سوالات کے جوابات سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے مَیں نے تین امریکی ماہرین کو منتخب کیا ہے کہ جن کا تعلق بیسویں صدی کے ساتھ ہے۔ وہ ہیں جون۔ایل۔لاک(John.L.Loke)،بی۔ایف۔سکنر(B.F.Skinner) اور نوم چومسکی(Noam Chomsky) ۔

جان۔لاک بائیولنگوسٹ(Bio-linguist) ہے۔زبان سیکھنے کے ابتدائی حوالے سے اس کا کہنا ہے کہ بچہ ابتدا ئی چند ہفتوں میں غوں غاں جیسی بچگانہ آوازیں نکالنے لگتا ہے جن کے کوئی معنی نہیں ہوتے۔ایک ایک سال کی عمر تک پہنچ کر قابلِ پہچان الفاظ ادا کرنا شروع کر دیتا ہے۔ لاک کے نزدیک سیکھے جانے والے ابتدائی الفاظ کے ساتھ ہی اُس کی زبان دانی کا ابتدائی سفر شروع ہو جاتا ہے۔ بچے میں زبان سیکھنے کے ارتقا کو لاک نے حیاتیاتی ارتقا کے ساتھ مشروط رکھا ہے۔اس بات کا تجزیہ انہوں نے دیگر جانداروں کی صوتی زبانوں سے بھی کیا ہے کہ جس میں اُنہوں نے صوتیات اوربصریات کے تعلق کو واضح کیا ہے۔ اُن کے نزدیک زبان کے استعمال کا تعلق دماغی سرگرمیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خیالات/احتمالات/ادراکات سے ہے اور پھر اشکال اور جذبات کے ردِ عمل کے تعلق سے زبان سیکھنے کی مہارت کو فروغ ملتا رہتا ہے۔ پھر بات چیت کے دوران جو افعال بچوں اور بڑوں کی شرکت سے سر انجام پاتے ہیں، وہ زبان کی ابتدائی نشو و نما میں بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔بچے کسی بھی قسم کے ادراک کے لیے ہمیشہ باہر کی طرف دیکھتے ہیں اور باہر کی مختلف آوازوں /افعال میں خود بھی شریک ہو جاتے ہیں۔ چہرے کے تأثرات اور آواز کے مابین جو تعلق ہوتا ہے دماغ کے صوتی خلیے اس میں اہَم کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ بچہ جو دو سال کی عمر میں ۵۰۰ سے ۶۰۰ الفاظ سے آگاہ ہو جاتا ہے ،اُن الفاظ کو ادا کرنے کی لیاقت جملوں کی ادائیگی میں مہارت بھی پیدا کرتی چلی جاتی ہے۔یوں لاک کے مطابق ہر فرد اپنی ذات کے حوالے سے تشخیص بھی خود کرتا ہے اور اس میں کافی قدر آزاد بھی ہوتا ہے جسے لاک نے انسان کا فطری حق قرار دیا ہے تاہم عالمِ انسان کا حصہ ہونے کے باعث وہ معاشرے کے دوسرے افراد سے بہت زیادہ مختلف بھی نہیں ہو پاتا۔وہ اپنی زبان کے استعمال کے تجربے سے معمولی خیالات کے ذریعے اپنے دماغی تحرُّک کے باعث ایک وقت آ جاتا ہے کہ اپنے متعلقہ پیچیدہ مسائل کی گرہوں کو کھولنے کے قابل ہو جاتا ہے۔

بی۔ایف۔سکنر امریکی ماہرِ نفسیات نے لاک کے نظریے کو ایک اور انداز میں بیان کیا ہے کہ بچہ اپنی پیدائش کے ساتھ ہی زبان کو سیکھنے کے لیے فطری طور پر کوئی پروگرامنگ لے کر دنیا میں نہیں آتا۔ بچہ بیرونی دنیا کے محرکات کے مطابق جیسے جیسے اظہار کرنا سیکھتا چلا جاتا ہے ویسے ویسے اُس کی زبان پر قدرت میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ بیرونی دنیا کے محرکات کے لیے ردِ عمل کی چار صورتیں ہوتی ہیں یعنی مُثبت،ردِ عمل،منفی ردِ عمل اور جزا و سزا۔منفی ردِ عمل کی صورت میں سزا اور مُثبت ردِ عمل کی صورت میں جزاایک ایسا عمل ہے کہ جس کے نتیجے میں زبان کی تشکیل ہوتی ہے۔ بچہ جب ماں سے کہتا ہے کہ مجھے بھوک لگی ہے تو مثبت ردِ عمل کی صورت میں اسے دودھ ملتا ہے ،وُہی بچہ اگر کوئی قیمتی چیز گرا کر توڑ دیتا ہے تو منفی ردِ عمل کی صورت میں اسی ماں کی طرف سے اسے سزا یا ناپسندیدگی کا اظہار ملے گا۔گویا Feed Back کے بغیر زبان کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔یہی فیڈ بیک زبان سیکھنے کے عمل کو تواتر کے ساتھ جاری رکھتا ہے۔ یوں بچے بچوں اور اپنے سے بڑوں اور بہت بڑوں سے جو کچھ بذریعہ زبان سیکھتے ہیں، اس کی نقالی کے ذریعے سیکھتے ہیں۔تاہم اس صورتحال میں کسی فرد کی موضوعیت کا دوسرے فرد کی صورتحال سے تعلق ہونا بھی شرط ہے۔کن باتوں پہ مسکرایا جاتا ہے،طنزیہ یا خوش ہو کر اور کن باتوں پر افسردگی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ایسی تمام باتوں کے لیے جذبوں کے اظہار کا فیڈ بیک بھی موجود ہوتا ہے۔سکنر نے اِسے Neutral Operant کہا ہے۔

معروف امریکی ماہرِ لسانیات نوم چومسکی نے لاک اور سکنر کے برعکس Universal Grammerکا نظریہ پیش کیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ انسان فطری طور پر اپنے دِماغ میں زبان کے بنیادی اُصول /گرائمر لے کر دنیا میں آتا ہے۔اُس کا یہ دماغ شفاف سلیٹ یعنی Tabula Rasaکی مانند نہیں ہوتا کہ جس میں پیدائش کے بعد جو لکھا جاتا ہے وُہی زبان کی تشکیل کا باعث بنتا چلا جاتا ہے۔لاک اور سکنر Tabula Rasaجیسے قدیم خیال کی جدید نظریہ سازی کو چومسکی نے مسترد کر دیا ہے۔ ان کے پیشِ نظر یہ سوال بہت اہَم تھا کہ کوئی بچہ اِتنی چھوٹی سی عمر میں آخر زبان بولنے اور سمجھ کر ادا کرنے کا پیچیدہ ترین عمل کیسے سیکھ جاتا ہے؟ یہاں تک کہ الفاظ سے لے کر جملوں کی ادائیگی تک بچوں کو کسی دقّت یا دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔یہ وہ سوال تھا کہ جس کی وجہ سے اُنہوں نے بیرونی محرکات کے تمام لسانی محرکات کو مسترد کر دیا۔ ان کا خیال ہے کہ دنیا کے کسی بھی خطے کے کسی بھی بچے میں زبان سیکھنے کی فطری Language Acquisition Device پیدائشی طور پر دِماغ میں موجود ہوتی ہے۔ LADایک ایسی ڈیوائس ہے کہ جو دنیا بھر کی تمام زبانوں کو ساخت کرنے میں مددگار ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزی ،اُردو،فرانسیسی،جرمن،فارسی،ترکی وغیرہ تمام زبانوں کا سٹرکچر بھی ایک ہے۔تمام زبانوں میں اسماء،افعال اور صفات پائی جاتی ہیں کہ جن سے مل کر دنیا بھر کی ہر زبان میں جملے بنتے ہیں۔ چومسکی کا کہنا ہے کہ بچے زبان کے استعمال میں حیرت انگیز طور پر کبھی غلطیاں نہیں کرتے ۔ جب بھی وہ کوئی بات کرتے ہیں تو بغیر کسی گرائمر کی غلطی کے درست بات کرتے ہیں۔مثال کے طور پر اگر وہ کہتا ہے کہ مَیں آج سکول نہیں جاؤں گا تو یہ جملہ Universal Grammerکے اصول کے عین مطابق ہے۔وہ کبھی نہیں کہے گا کہ سکول جاؤں گا مَیں آج گا نہیں۔چومسکی کے نزدیک بچہ صرف لفظ سیکھتا ہے لیکن جملے گرائمر کے اصول کے عین مطابق بناتا ہے۔ایسا ہونا Universal Grammerکے نظریے کو درست ثابت کرتا ہے۔

مندرجہ بالا سطور میں دنیا کے تین بڑے ماہرینِ لسانیات کے زبان سیکھنے کے حوالے سے نظریات کا جو خلاصہ پیش کیا گیا ہے اس کا مقصد یہ تھا کہ ہم اِس بات سے آگاہ ہو سکیں کہ پیدائش کے ساتھ ہی کچھ عرصہ کے زبان سیکھنے کا جو عمل یا Processہے وہ اپنی بنیاد میں ثقافتی عمل نہیں ہوتا۔آوازوں،اشکال اور جذبات کے اظہار کو الفاظ کے ذریعے اُن کے درمیان امتیازات کو قائم کرنا ہوتا ہے۔ جملے کی ساخت بیرونی محرکات کے باعث ہو،مثبت یا منفی یا جزا و سزا کے تصور کے باعث ہوتی ہو یا پھر یونیورسل گرائمر کے اُصولوں کی بنیاد پر ہوتی ہو۔ہر صورت میں زبان ثقافت کے مختلف پہلوؤں کو بیان کرنے کا ٹول یا آلہ قرار پاتی ہے۔ اس ٹول کے بغیر کسی بھی ثقافت کے بیانیے کی تشکیل ممکن نہیں ہے۔سیاست اور معیشت سے لے کر تمام سائنسی و عمرانی علوم و فنونِ لطیفہ کی انڈر سٹینڈنگ زبان کے اِسی ٹول کے باعث قابلِ فہم اور بامعنی ہوتی ہے۔ وہ کوئی سیاسی منشور ہو، سماجی نظریہ ہو،مجسمے یا پینٹنگ کی صورت گری ہو یا موسیقی کی کوئی دُھن ہو،کسی عمارت کے در و دیوار و نقوش ہوں، علمِ ریاضی کی مساوات ہو یا کوئی برقی مشین ہو ،ان تمام مظاہر کی نوعیت،حیثیت اور مقام کے علمی،فکری اور فنی تعین کے لیے زبان ایک ٹول کا کام دیتی ہے۔ورنہ زبان بذاتِ خود نہ کوئی سیاسی منشور ہے،نہ سماجی نظریہ ہے، نہ کوئی مجسمہ ہے، نہ کوئی پینٹگ ہے،نہ کوئی شعر یا افسانہ ہے، نہ علمِ ریاضی کی مساوات ہے، نہ یہ کوئی موسیقی کی دُھن ہے، نہ کوئی عمارت ہے اور نہ ہی کوئی برقی مشین ہے۔

ہماری سیاسی و سماجی زندگی اور علوم و فنون کے تمام شعبوں بشمول جغرافیہ ،مذہب،رنگ ،نسل،قومیت اور جملہ تمام کارگزار یوں سے مل کر ایک ثقافتی تاریخ بھی مرتب ہوتی رہتی ہے۔ یہ ثقافتی تاریخ کسی نہ کسی نظریے/سوچ/فکر کے تابع مرتب کی جاتی ہے جسے ہم ثقافتی بیانیہ کہتے ہیں۔ یہ ثقافتی بیانیہ ثقافتی مظاہر سے باہر موجود ایک ٹول یعنی زبان سے تشکیل پاتا ہے۔ اِسی زبان کے ذریعے مختلف ثقافتی مظاہر کے درمیان ایک بامعنی ارتباط پیدا کرکے ثقافتی نظریہ سازی کی جاتی ہے۔ یہ نظریہ/بیانیہ شخصی بھی ہو سکتا ہے،ریاستی بھی،گروہی بھی ،نسلی،قومیتی اور مذہبی بھی۔ ثقافت کے یہ نظریات /بیانیے ریاستی،گروہی،نسلی ،قومیتی اور مذہبی ترجیحات/مقاصد کے ترجمان اور نمائندہ ہوتے ہیں۔زبان تمام بیانیوں /نظریات کی تشکیل میں بطور ٹول استعمال ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ہی وقت میں متخالف اور متحارب ریاستی،مذہبی،قومی،نسلی بیانیے ایک ہی زبان اور اس کے قواعد اور اُصولوں کے مطابق تشکیل پا جاتے ہیں۔اِن بیانیوں میں پایا جانے والا یہ فرق زبان کی وجہ سے نہیں بلکہ بیانیوں/نظریات کے مقاصد/ترجیحات میں پائے جانے والے فرق کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔زبان کو بعض صورتوں میں اہلِ علم ثقافتی مظہر بھی قرار دیتے رہے ہیں جیسے عربوں کے لیے عربی،ایران کے لیے پہلوی،برہمنوں کے لیے سنسکرت اور ماضی قریب کی تاریخ میں جرمنوں کے جرمن زبان کو اِن اقوام کا ثقافتی مظہر سمجھا جاتا رہا ہے ۔لیکن میری پیش کردہ معروضات کی روشنی میں اگر بہ تحقیق دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اِن تمام زبانوں کے پس منظر میں نسلی،قومی اور مذہبی عصببیتوں کی جھوٹی اور نمائشی آفاقیت کے فریب کو چھپانے کے لیے گھڑی گئی جس کا مقصد ہم نسل،ہم مذہب اور ہم قوم لوگوں کو ہم زبان ہونے کی عصبیت بھی دھوکا دینا تھا۔کیا وہ نہیں جانتے تھے کہ اُسی نسل ،قوم یا مذہب سے تعلق رکھنے والے ہم نسل،ہم مذہب اور ہم قوم اُسی زبان کے ایک ہی ٹول سے نئے ثقافتی،نسلی،قومی و مذہبی بیانیوں کی تشکیل کرکے اُن کے خلاف بغاوت یا انقلاب برپا کرکے یا تحریر و تقریر سے اُن کے بیانیوں کی دھجیاں اُڑانے کی پوری لیاقت رکھتے تھے؟ مطلب یہ ہے کہ جس زبان میں کوئی نظریہ/بیانیہ یا تھیسِس تشکیل پاتا ہے اُسی زبان میں اُس کا اینٹی تھیسِس بھی تیار ہو جاتا ہے یا ہو سکتا ہے۔ اس بات سے پتہ چلتا ہے کہ زبان قدر کے تعین سے بھی محروم ہوتی ہے۔ اقدار کا تعین بیانیہ کرتا ہے زبان نہیں۔چنانچہ یہ قدریں بھی طے شدہ نہیں ہوتیں بلکہ ہر بیانیہ کی قدریں الگ ہوتی ہیں۔آفاقی یا حتمی قدروں کا تعلق ثقافتی بیانیوں کی عصبیت سے ہوتا ہے۔ عصبیت سے مراد ہی مختلف بیانیوں میں موجود قدروں کا فرق ہے لہذا آفاقی قدروں کا تصور بھی فریب ہے۔اِسی لیے ڈریڈا نے کسی بھی متن کی حتمیت اور آفاقیت کو چیلنچ کرنے کے لیے ردِ تشکیل کے نظریے کو پیش کیا تھا۔

اب ہم اس بات پر بھی غور کر لیتے ہیں کہ کسی بھی سیاسی،سماجی،ثقافتی،نسلی یا قومی اور ریاستی بیانیے کی تشکیل کا زبان کے ساتھ کیا تعلق ہے۔جیسے کہ عرض کیا گیا ہے کہ زبان کسی بھی بیانیے کی تشکیل کا بنیادی ٹول ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اِس ‘‘ٹول’’ کے ذریعے جب کسی بیانیے کی ساخت/کنسٹرکشن کی جاتی ہے تو اُسے ہم بیانیے کی متن کاری/ اُسلوب /سٹائل کہیں گے۔زبان کا فنکارانہ استعمال معنی کے تعین اور اُس کی توسیؑ میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ ہر بیانیہ اپنے ثقافتی،سیاسی،نسلی یا مذہبی ترجیحات اور مقاصد کے لیے اور بیانیے کے مربوط معنوی نظام کی تشکیل کے لیے خاص زبان کا انتخاب کرتا ہے۔یہ خاص زبان بیانیے کے مقاصد کی صورت گری کے لیے خاص الفاظ ،الفاظ کی تراکیب ،ضربُ الامثال،استعارات،تشبیہات،محاورات اور روزمرہ کے انتخاب سے مشروط ہوتی ہے۔زبان کے لیے یہ سارے ذیلی ٹولز مل کر متن سازی کا کام کرتے ہیں اور اسلوب یا سٹائل کی انفرادیت کو محکم بناتے ہں۔ بیانیے میں معنوی سطح پر زور پیدا کرنے یا منطقی استدلال کو مربوط بنانے کے لیے سیاسی، سماجی،معاشی ،ثقافتی،نسلی،مذہبی یا سائنسی شواہد ،معلومات،واقعات،مختلف متون کے حوالہ جات اور دیگر مددگار مواد پیش کرکے بیانیے کی فنی اور فکری ساخت کو حتمی شکل دے دی جاتی ہے۔یوں بیانیہ اپنی متنیت Textualityمیں مکمل ہو جاتا ہے۔ہر بیانیے کی انفرادیت اُس کی فنی و فکری ساخت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اِس متنیت سے متعین ہوتی ہے۔ زبان کے ٹول کا بہتر یا کمزور استعمال فنی اور فکری دونوں حوالوں سے بہتر یا کمزور متنیت کو سامنے لانے کا باعث بنتا ہے۔

ہر بیانیہ کیونکہ معنوی اور اسلوبیاتی اعتبار سے مختلف ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی ایک موضوع پر متعدد بیانیے تشکیل پاتے ہیں۔ ہر بیانیے میں استعمال ہونے والی زبان اِس لیے مختلف ہوتی ہے کیونکہ ہر بیانیے کے مقاصد اور ترجیحات کا جہان دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ ہر بیانیہ اپنی معنوی تفہیم اور توسیع کے لیے اپنے زبان کی کرافٹ،ڈیزائن،اسلوب،ساخت بھی خود کرتا ہے۔بیانیہ اپنی زبان کی کرافٹ سے جس قدر قریب ترین ہوتا ہے اُسی قدر اُس کی تفہیم بیانیے کی ترجیحات اور مقاصد کے قریب ترین ہوتی ہے۔گویا ہر بیانیہ اپنی زبان بھی خود ایجاد کرتا ہے۔اسی لیے بیانیے کو زبان پر تفوق حاصل ہوتا ہے۔بیانیہ ایک فکری عمل ہے کہ جس کے متن کو ساخت کرنے کے لیے زبان ایک ٹول کا کام دیتی ہے۔مضمون کے پہلے حصے میں یہ بات بیان کی جا چکی ہے کہ زبان کے ٹول کے بغیر کسی بھی متن کی تشکیل ممکن نہیں ہے۔ لیکن متن ہی نہ ہو تو زبان کا ٹول کہاں دَھرا ہے ،کہاں نہیں دَھرا ایک لا یعنی بات بن جاتی ہے۔متن تحریری ہو یا کلامی/تقریری ہر دو صورتوں میں فکری کارگزاری کا نام ہے کہ جس کی تحریری یا کلامی ساخت کے لیے متن کی فکری اساس کے پیشِ نظر زبان کو بطور ٹول استعمال میں لایا جاتا ہے۔زبان کا یہ استعمال متن کو اسلوب بھی فراہم کر دیتا ہے۔

                ہر بیانیے کی متنی زبان کیونکہ منتخب اور بیانیے کے مقاصد/ترجیحات کے تحت مخصوص ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُس بیانیے سے جڑے یا ماننے والے یا اُسے مقدس سمجھنے والے یا اُسے اپنا نجات دہندہ کہنے والے اُس بیانیے کی منتخب زبان سے انحراف کبھی نہیں کرتے۔منتخب زبان سے انحراف کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ کسی اور بیانیے کی تشکیل میں کھپنا شروع ہوجائے گا۔یہی وجہ ہے کہ کسی بیانیے پر نقد کی زبان بیانیے سے قطعی مختلف ہو جاتی ہے۔نقد کی یہ زبان بیانیے کی صورتحال اور معنی کی متوازی ایک اور صورتحال اور معنی کا بیانیہ جاری کر دیتی ہے۔نقد کی یہ زبان بھی اپنی متن کاری اور اسلوب کے اعتبار سے ناقد کے اپنے بیانیے کے باعث منفرد اور منتخب ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ مذہبی،سیاسی،نسلی یا قومی یا ثقافتی بیانیوں کی شرحیں ایک ہی زبان کے ذریعے معنوی توسیع کرتی ہیں۔کسی ایک بیانیے کی شرح کی زبان جب بیانیے کی متنخب اور منفرد زبان سے باہر نکلے گی تو وہ اُصولی طور پر بیانیے کے معنوی مقام سے انحراف کر جائے گی۔یہی وجہ ہے کہ ایسی شرح/تفسیر/توضیح کسی بیانیے کے حاملین میں غیر پسندیدہ اور قابلِ گرفت قرار پاتی ہے۔ مراد یہ ہے کہ بیانیے کی منتخب اور منفر زبان دراصل بیانیے کی شناخت ہوتی ہے۔بیانیے کے متن کی ساری تشکیل کیونکہ منتخب /منفرد زبان سے ممکن ہوئی ہوتی ہے اس لیے جہاں بیانیے کی نظریاتی /اُصولی /فکری اساس بیانیے کی شناخت ہوتی ہے وہاں بیانیے کی منتخب زبان بھی بیانیے کی شناخت بن جاتی ہے۔یاد رہے کہ یہاں زبان کو کسی مخصوص بیانیے کی شناخت کہا گیا ہے ورنہ زبان کی اپنی کوئی شناخت نہیں ہوتی،یہ بیک وقت ہر نوع کے متنوع بیانیوں کی تشکیل میں بطور ٹول استعمال ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اکبرؔ الٰہ آبادی کا شعری بیانیہ یورپی تہذیب و تمدُّن کے متوازی مشرقی اور خاص طور پر ہند اسلامی تہذیب و اقدار کے دفاع کا بیانیہ ہے تو اُنہوں نے اپنے بیانیے کے دفاع کے لیے جب اُردو زبان کو بطور ٹول استعمال کیا تو اُنہوں نے اپنے بیانیے کی تفہیم کے لیے طنز و مزاح کی اپنی زبان بھی خود ایجاد کی۔یہی ایجاد اُن کے اسلوب کو منفرد بناتی ہے۔ اگر کوئی اور شاعر اکبرؔ الٰہ آبادی کو اِس زبان کی نقالی کرے گا تو لامُحالہ اکبرؔ الٰہ آبادی کے متن کی نقالی بھی اُس کی شاعری میں در آئے گی۔ علامہ اقبالؔ نے جب اکبرؔ الٰہ آبادی کے رنگ/ اُسلوب /زبان میں چند شعر کہے تو لوگوں نے اِس بات کو سخت ناپسند کیا کیونکہ اکبرؔ الٰہ آبادی کے رنگ/ اُسلوب /زبان میں شعر کہنے سے مراد یہی تھا کہ اقبالؔ اپنے بیانیے کی منفرد اور منتخب زبان کو چھوڑ کر اکبرؔ الٰہ آبادی کے بیانیے کی پیروی کرنے لگے ہیں۔اگرچہ دونوں کے فکری بیانیوں میں کچھ ایسا بنیادی فرق بھی نہیں ہے۔اکبرؔ الٰہ آبادی نے اپنے طنزیہ مزاحیہ شعری اسلوب میں براہِ راست ہندوستان میں موجود انگریز نوآبادکاروں کے خلاف فکری صف آرائی کو اپنے بیانیے کے مقاصد میں شامل کیا تھا ۔جبکہ علامہ اقبالؔ نے ہندوستان کے انگریز نو آبادکاروں کے بجائے اپنے سنجیدہ شعری اسلوب میں عالمی مغربی استعمار کی مخالفت کو اپنے شعری بیانیے کا مقصد بنایا تھا۔ گویا اِن دونوں شاعروں نے اپنے بیانیوں کے لیے جو زبان ایجاد کی تھی اور جن سے اِن دونوں کے اسلوبیات متعین ہوئے ،وہ زبان اور اسلوب اِن دونوں شاعروں کے فکری بیانیوں کی انفرادیت اور شناخت کا باعث بھی بن گئے۔حالانکہ اِن دونوں شاعروں نے مذہبی،نسلی،ثقافتی اور تہذیبی عصبیتون کو اپنے زمانی سیاق میں اپنے اپنے بیانیوں کی فکری جہات میں شامل کیا تھا لیکن دونوں کے مذہبی،نسلی،ثقافتی اور تہذیبی مقاصد کے فرق کے باعث دونوں کے بیانیوں میں لکیر بھی کھنچ گئی۔

دوسری طرف ایسے بیانیے بھی ہیں جو نسلی،مذہبی یا قومی یا ثقافتی عصبیتوں سے رجوع کرنے کی بجائے اِن بیانیوں کے خلاف اور متوازی اپنے افکار و نظریات کو پیش کرتے ہیں۔ ایسے تمام بیانیے لبرل بیانیے کہلاتے ہیں۔ یہ بیانیے علوم و فنون کے جن شعبوں سے رجوع کرتے ہیں اُن کی کوئی نسلی، مذہبی،قومی،جغرافیائی /علاقائی یا ثقافتی عصبیت نہیں ہوتی۔اِن علوم و فنون کا تعلق پورے عالمِ انسان کی ترقی و خوشحالی سے ہے۔ یہ وہ علوم ہیں کہ جو دنیا بھر کے تعلیمی اداروں میں بغیر کسی نسلی،گروہی،ثقافتی،مذہبی یا قومی عصبیت کے داخلِ نصابات ہیں۔علوم و فنون کے اِن تمام شعبوں سے منسلک انسانیت ابھی تک انسانوں کی تقسیم در تقسیم عصبیتی بنیادوں سے پورے طور پر نکلنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔اِس صورتحال کی اپنی سیاسی وجوہات بھی ہیں جو معاشی اور انسانی ترقی کے لبرل ثمرات کو انسانیت کے حضور پیش کرنے کی بجائے نسلی،قومی،ثقافتی اور مذہبی عصبیتوں کے طاقتور مراکز /سرمایہ داری ممالک کی جھول میں مسلسل ڈال رہی ہیں۔اِن طاقتور عصبیتی مراکز کے مقابلے میں جو معاشی اور سیاسی اعتبار سے کمزور مراکز/تیسری دنیا کے ممالک ہیں وہ عصبیتوں کا مقابلہ اپنے انتہا پسند اور متشدد عصبیتی بیانیوں سے کرنے کی تگ و دَو میں لگے ہوئے ہیں۔اِن ممالک میں جو بھی لبرل بیانیہ عدم عصبیت کی بنیاد پر زبان کے ٹول سے کوئی نیا بیانیہ تشکیل دیتا ہے تو اُسے استعماری ایجنڈے کا گماشتہ کہہ کر تحقیر و ملامت کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے۔وہ اِس حقیقت سے آگاہ نہیں ہیں کہ معاشی اور سیاسی طور پر جو ممالک مضبوط ہیں اُن کی معاشی اور سیاسی ترقی کا راز لبرل علوم و فنون ہیں۔ اُن کی طاقتور عصبیتی مرکزیت کا مقصد محض یہ ہے کہ مقابلے میں تیسری دنیا کے ممالک ایسی عصبیتی سرگرمیوں میں سر کھپاتے پھریں کہ جو اپنی بنیاد میں سراسر غیر پیداواری ہیں۔

 

 

 

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...