Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نقش فریادی اپریل تا جون 2023 > اردو آفرینش سے آغاز تک

نقش فریادی اپریل تا جون 2023 |
پنجاب لٹریری فورم
نقش فریادی اپریل تا جون 2023

اردو آفرینش سے آغاز تک
Authors

ARI Id

1695782983289_56118459

Access

Open/Free Access

Pages

17

اردو آفرینش سے آغاز تک

ڈاکٹر شاکر کنڈان

من نمی گویم اناالحق یا ر می گوید بگو : چوں نہ گو یم ،چوں مرا دلدار می گوید بگو

آنچہ نتواں گفت اندر صَومعَہ با زاہداں : بے تحاشہ بر سرِبازار می گوید بگو

بندۂ قدوس گنگوہی خدا را خود شناس : ایں ندا از غیب با اصرا ر می گوید بگو

                اوپردیئے گئے عنوان میں لفظ اردو اپنی دو حیثیتوں کا اظہار کر رہا ہے۔ ایک حیثیت لغوی اور دوسری اصطلاحی ہے۔ یہ لفظ کس زبان سے ہماری زبان میں وارد ہؤا اس میں کئی اختلافات موجود ہیں۔اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ یہ لفظ ترکی زبان کا ہے لیکن اسی نظریے سے اختلاف کرتے ہوئے کہہ دیا گیا کہ ترکی میں یہ لفظ فارسی زبان سے آیا ہے۔ ویدیوں نے اسے وید کا لفظ بتایا۔سندھیوں نے اسے سندھ سے جوڑا۔کسی نے اسے اطالوی کا مؤرد قرار دیاتو کوئی دور کی کوڑی کوریا سے اٹھا لایا۔اس لفظ کو جب بطور اصطلاح استعمال کیا گیا تو زمان ومکاں کے ایسے ایسے نظریے سامنے آئے کہ عقل ہی نہیں بلکہ سوچ بھی دنگ رہ گئی لیکن ان دونوں حوالوں میں لشکر سے اس لفظ کے تعلق اور اس کا ایک زبان ہونے سے کہیں کوئی اختلاف سامنے نہیں آیا۔

                لشکر اور زبان دونوں کا وجود انسان سے ہے،گویا ‘‘اردو آفرینش سے آغاز تک’’کے موضوع کی تفسیرکے لئے تین سوالوں کے جواب دینا لازمی قرار پاتا ہے۔(۱) انسان (۲) زبان (۳) لشکر یعنی فوج

                انسان نے کیسے جنم لیا اس پر سب سے پہلی بحث جسے تاریخ نے اپنا حصہ بنایا چھ صدی قبل مسیح تھیلس Thales)) نے کی۔ بعد از اں چوتھی صدی قبل مسیح تک اناکزیمانڈرAnaximander))ایمپی ڈوکلس edocles) Emp) اور ارسطوAristotle))جیسے فلسفیوں نے اپنے اپنے فکر و ادراک سے اس پر بات کی۔اٹھارویں صدی میں ارازمیک ڈارون Erosmic Darwin)) بوفون(Buffon)اور لامارک(Lamark) نے ارتقائے حیات کے حوالے سے تھیلس کے خیالات کی تقلید کی لیکن ۱۸۵۹ء میں جب ڈارون نے اپنی کتاب (The Origin of Species)میں اپنے نظریات کا اظہار کیا کہ : ‘‘پہلے جمادات تھے اُن میں نمو پیدا ہوئی تو نباتات پیداہوئے ، نباتات میں جبلت پیدا ہوئی تو حیوانات پیدا ہوئے اُن میں شعور پیدا ہؤا تو بنی نوع انسان کا وجود ہؤا۔’’ ۱؂ اور پھر اسی کتاب میں آگے چل کر اُس نے لکھاکہ : ‘‘جدید انسان نے کسی بندر نما مخلوق سے ارتقا کر کے موجودہ شکل اختیار کی’’ ۲؂ اس نظریہ کے خلاف بہت کچھ لکھا اورکہاگیایہاں تک کہ ‘‘۳۰ جون ۱۸۶۰ کوآکسفورڈ یونیورسٹی میں منعقدہ ایک تقریب کے دوران بشپ ولبر فورس p (Bisho

Wilber Force)نے سٹیج پر براجمان ڈارون سے پوچھا کہ ‘‘بحیثیت اجداد بندروں سے تمہارا رشتہ دادا کی طرف سے ہے یا دادی کی طرف سے۔’’ ۳؂ بعد ازاں (Weis man) کا جرمی مادۂ حیات کا نظریہ ،ڈی وریز(DeVries)کا جستی تغیرِ نوع کا نظریہ اور مینڈل (Mandel)کے‘‘علمِ توالد و تناسل’’(Genesiologt)کا نظریہ سب ہی ڈارون کے نظریہ کی پیداوار ہیں جن کے رد میں لوئی پاسچر(Louis Pasteur)نے ایک جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا‘‘یہ دعویٰ کہ بے جان اشیاء زندگی کووجود بخشتی ہیں انسانیت کی بھلائی کے لئے تاریخ کے صفحات میں دفن کر دیا گیا ہے۔’’ ۴؂ بلکہ دورِ جدید نےD.N.A (DeoxyriboNucleic Acid)کوانٹم جمپ (Quantam Jump) کیمبری دھماکہ (Cambrian Explosion) کروموسومز Chromosomes))اورجینز(Genes) وغیرہ کی حیرت انگیز دریافتوں نے ڈارون اور اس کے مقلدین کے نظریات کو سائنس کی رُو سے مکمل طور پر رد کرتے ہوئےFact of Creationکا نظریہ پیش کر کے انسان کو بندر کی نسل سے جدا کرتے ہوئے اس کی عزت بحال کر دی۔

                سائنس سے ہٹ کرجب مذہبی طور پرانسان کے وجود میں آنے کے عمل کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ قرآنِ مجیدمیں اس کا جواب تقریباً۲۵ مقامات پر بڑی تفصیل سے دیا گیا ہے۔ انسان کی تخلیق سے قبل بھی اﷲتعالیٰ نے فرشتوں سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ:‘‘میں مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں پھر جب اسے پوری طرح بنا دوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم اس کے آگے سجدے میں گر جاؤ’’ ۵؂ اور پھر جب انسان کو تخلیق کر لیا تو فرمایا۔ ‘‘ہم نے انسان کو مٹی کے ست سے بنایاہے۔پھراسے ایک محفوظ جگہ ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کیا۔ پھر اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی، پھر لوتھڑے کو بوٹی بنا دیا ۔ پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں، پھر ہڈیوں پرگوشت چڑھایا،پھر اسے ایک دوسری ہی مخلوق بنا کر کھڑا کیا ۔’ ’ ۶؂ اس پر مستزاد‘‘اﷲ کی فطرت وہی ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا۔’’ ۷؂ ارشاد فرما کراﷲتعالیٰ نے تمام شکوک و شبہات کو رد فرما دیا۔ اس کی تفصیل ہمیں احادیث میں بھی ملتی ہے اور بائبل میں بھی اس کی گواہی ان الفاظ میں دی گئی ہے۔‘‘خدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔۔۔اور خدا نے انہیں برکت دی اور کہا کہ پھلو پھولو اور بڑھو اور زمین کو معمور و محکوم کرو۔’’ ۸؂

                انسان کب پیدا ہؤا؟ کے جواب میں بھی کئی مفروضے گھڑے گئے جن میں ڈارون کاآسٹرالوپی تھیکس (Australopithecus) سے ہومو سیپیئن (Homo sapians) تک کے چار مراحل میں پانچ سال کاعرصہ ۹؂، آئزک ایسی موف (Isaaq eisi Moof) کا ہومو ہیلیئن سے ہومو سیپیئن تک بیس لاکھ سال کا عرصہ ۱۰؂، ڈاکٹر ہیلزکا۵۴۱۱قبل مسیح میں دنیا کی پیدائش کا مفروضہ ۱۱؂، کوامے انتھونی اور ہنری لوئی گیٹس کا آسٹریلیا میں۴۰ہزار سال پہلے کے با شعور انسان کی موجودگی کا نظریہ ۱۲؂، ایل اے نیٹسن کا پانچ لاکھ سال پہلے کے با شعور انسان کا مفروضہ ۱۳؂ ، علمِ طبقات الارض کا نظریہ کہ‘‘انسان کو دنیا میں آئے کم از کم بیس ہزار سال اور زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ سال’’۔ ۱۴ ؂فضل احمد حبیبی کا حضرت آد م ؑ سے حضور نبی کریمﷺ کی بعثت تک ۱۲ ہزار سال کا کیلنڈر ۱۵؂ ، شایاں بریلوی کی دس ہزار سال قبل مسیح میں حجری عہد ہونے کی حمایت ۱۶؂ ، یہودیوں کا چار ہزار سال ق م،نصاریٰ کا پانچ ہزاربرس ق م اور اسی طرح سات ہزار برس کا مفروضہ سب جھوٹ ہیں۔ کیونکہ ایسی کوئی نسبت رسول اﷲﷺ سے منقول نہیں اور نہ ہی قرآنِ مجیدمیں کوئی ذکرہؤا ہے۔ہاں! بائبل اس معاملے میں رہنمائی کرتی ہے یا دیگر کئی کتب سلسلہ بہ سلسلہ نسب کی عمریں واضح کر کے تقریباًساڑھے پانچ ہزارسال قبل مسیح کی نشاندہی کرتی ہیں جس سے کم از کم لاکھوں سال کے نظریے کی نفی ہوتی ہے۔

٭ دوسرا سوال ہے زبان ۔زبان کے وجود میں آنے کے حوالے سے بھی ماہرینِ لسانیات نے کئی نظریے پیش کئے جن میں (۱) ماما نظریہ (Mama Theory)(آسان ہجا میں زبان کا آغاز) (۲) بو وو نظریہ(Bow Wow Theory)(کتے کی بولی اور حیوانی آوازوں کی نقل اتارنا) (۳) پُو پُو نظریہ (Pooh Pooh Theory) (شدتِ جذبات کے باعث کچھ آوازوں کے منھ سے نکلنے والی آوازیں جیسے آہ،واہ، ہائے)

(۴) ڈِنگ ڈَنگ نظریہ (Ding Dong Theory) (اشیاء کی جھنکار اور بصری پیکروں کی نقل۔ اسے لفظ اور معنی کے باطنی تعلق کا نام بھی دیا گیا ہے) (۵) یا ہے ہو نظریہ (Ya-He-Ho Theory) (محنت و مشقت کی حالت میں ہانپتے کانپتے ہوئے آوازوں کا نکلنا) (۶) تا تا نظریہ (Ta Ta Theory)(مل جُل کر گانے بجانے سے نکلنے والی آواز۔اسے Sing Song Theory بھی کہتے ہیں) (۷) ہے یو نظریہ(Hey You Theory) (باہمی تفاعل اور تشخص سے بننے والے الفاظ یعنی تو، میں، وہ وغیرہ) (۸)اشارات و حرکات کانظریہ(Gesture Theory) (۹) ارتباطی نظریہ(Contact Theory) (بھوک پیاس، جنسی خواہشات کی ترسیل) جیسے کئی نظریات جدید علمائے لسانیات نے پیش کئے۔یہی نہیں بلکہ ان نظریات کو سچ ثابت کرنے کے لئے ‘دی جنگل بک’ میں مونگلی کے کردار، ٹارزن وغیرہ کے کردار اور اکبرِاعظم کے تجربے کو پیش کیا گیا۔ جبکہ قدیم فلسفیوں نے جو نظریات پیش کئے وہ اُن سے بالکل مختلف ہیں اور وہ فطرت کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جیسے سقراط کی رائے تھی کہ دیوتاؤں نے دنیا کی اشیاء کے موزوں نام رکھے۔دیو مالا کی رُو سے‘‘اوڈن’’ دیوتا نے زبان کی تخلیق کی۔قدیم ہند میں برہما کو زبان کا خالق سمجھا جاتا رہا۔ یہودی عقیدے کے مطابق آدم نے خدا کی ہدایت سے اشیاء کے نام مقرر کئے۔ مسیحی یورپ میں صدیوں تک ‘عہد نامہ عتیق’کی زبان عبرانی کوآسمانی زبان ہی نہیں بلکہ اُم اللسان سمجھا جاتا رہا۔کچھ مسلمانوں کا یہ خیال ہے کہ جنت میں حضرت آدم و حوا کی زبان عربی جبکہ جنت سے نکلنے کے بعد سریانی تھی۔

                قرآنِ مجیدکے مطابق زبان کا جنم کب اور کیسے ہؤا،اس کا جواب کئی مقامات پر تفصیل سے دیا گیا ہے جیسے سورت الرحمٰن کی آیت نمبر ۲ اور ۳ : ‘‘خَلَقَ الاِنسان۔عَلَّمَہُ البَیان۔’’اسی طرح سورۃالبقرہ کی وہ آیات کہ تخلیقِ آد م سے قبل ہی اﷲ تعالیٰ نے فرشتو ں سے آدم کی پیدائش کے بارے میں گفتگو ، آدم کو تمام علوم سکھاکر فرشتوں کو جواب دلوانا، یہ ساری گفتگو عالمِ ارواح ہی میں سہی لیکن کیایہ اشاروں کنایوں سے ہوئی تھی؟ پھر تخلیقِ آدم کے بعد اُسے اپنا خلیفہ بنانا، پیغمبری اور رسالت کے مقام پر فائز کرنا ، ‘‘آپؑ پر دس صحائف کا نازل فرمانا’’۱۷؂۔ آپؑ کی حیات میں ہی ‘‘حضرت شیثؑ کو نبوّت اور رسالت عطا فرما کراُن پر۵۰ صحائف کا نزول’’۱۸؂، حضرت آدم ہی کی حیات میں آپؑ کی اولاد کا چالیس ہزار نفوس تک پھیل جانا، توبہ کی قبولیت میں پایۂ آسمان پرلکھا ہؤا کلمہ‘‘لاا لہٰ الااﷲمحمد رسول اﷲ ’’کا دیکھنا، پھر نورِ محمدی کی حفاظت کے لئے ایک عہد نامہ تحریر کرنا ۔۱۹؂ اﷲتعالیٰ کا انسان کو قلم سے علم سکھانا، آدم کو تمام چیزوں کے نام بتا دینا اور بروایتے سات لاکھ زبانوں کا علم دینا اور اس خصوصیت سے نوازنا کہ ایک ایک چیز کا نام بتا کر جتنی زبانیں قیامت تک بولی جائیں گی اُن کا علم پہلے سے عطا کردینا۔۲۰؂ کیا یہ سب اس حقیقت کی طرف اشارہ نہیں کرتاکہ زبان کا استعمال تخلیقِ انسان سے پہلے سے رائج تھاجسے انسان کی روح کو تخلیق سے قبل ودیعت کر دیا گیا۔

                ڈاکٹر غلام جیلانی برق لفظ آدم کی تشریح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ ‘‘آدم کو اگر عبرانی لفظ تسلیم کریں تو یہ ادامہ سے مشتق ہے جس کے معنی زمین اور گندمی رنگ کے ہیں اور اگر عربی الاصل کہا جائے تو اَدم سے مشتق اس لفظ کے معنی امام، پیشوا، ہیں جبکہ آدم ہونے کی صورت میں نوعِ انسان کا باپ یعنی ابوالبشر اور پہلا آدمی ہے۔’’ ۲۱؂

                ہزارہا سال تک زبان کی ابتداء کو مذہب کی بنیاد سے منسلک کیا جاتا رہا۔غالباً پہلی بار ۹۳۰ء میں ابو ہاشم معتزلی نے اس رائے کا اظہار کیا کہ زبان انسان کی وضع کردہ ہے۔ بعد ازاں۱۷۷۲ء میں جرمن مفکر ہرڈر نے زبان کا ربانی تخلیق ہونے کی تردید کی۔ ۲۲؂ پھر یہ سلسلہ چل پڑا اور جہاں اﷲ تعالیٰ کی ذات کی نفی کی جانے لگی وہیں اس کی تخلیقات کو بھی رد کیا جانے لگااور آج وقت نے ہمیں جس مقام پر لا کھڑا کیا ہے کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔

٭            تیسرا سوال جو پیدا ہوتا ہے وہ لشکر یا عساکر ہے۔

                عساکر کے بارے جاننے کے لئے جب قرآنِ مجید فرقانِ حمید کا مطالعہ کرتے ہیں تو قتال، دشمن سے جنگ ،جنگ کے لیے تیاری،منظم گروہ بنانے،دشمنوں کے لئے ہتھیار اور پلے ہوئے گھوڑوں سے سامان درست رکھنے اور دشمن پر رعب جمانے کے حوالے جا بجا ملتے ہیں، بلکہ اﷲسبحانہ’تعالیٰ تو یہاں تک ارشاد فرماتے ہیں ‘‘ہانپتے ہوئے، دوڑنے والے گھوڑوں کی قسم، پھر ٹاپ مار کر آگ جھاڑنے والوں کی قسم ،پھر صبح کے وقت دھاوا بولنے والوں کی قسم، پس اس وقت گرد و غبار اڑاتے ہیں پھر اسی کے ساتھ فوجوں میں گھس جاتے ہیں۔’’۲۳؂ پھراﷲ تعالیٰ کے ہاں جنگ میں حصہ لینے والے فوجی کے تقدس کی انتہا دیکھیے کہ جنت کی بشارت کے ساتھ اسے ابدی زندگی کی نوید سنا دی جو کھاتا ہے پیتا ہے۔

                گویا فوج انسانوں کے ایک ایسے منظم گروہ کا نام ہے جو دشمنوں سے لڑتے ہیں اور فتح و شکست کا باعث بنتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عسکر اور عسکریت کا یہ سلسلہ کہاں سے شروع ہؤا۔               

                کائنات میں پہلا قتل حضرت آدمؑ کے بیٹے ہابیل کا تھا جو اس کے بڑے بھائی قابیل کے ہاتھوں ہؤا۔ اس قتل میں جارحیت تھی لیکن مدافعت نہیں تھی۔ جب اولادِ آدم میں اضافہ ہوا تو ایک بیٹے کی اولاد ایک قبیلہ اور دوسرے بیٹے کی اولاد دوسرا قبیلہ بن کر گروہوں کی صورت اختیار کر گئے یوں جس پہلی باقاعدہ جنگ کا ذکر ہمیں تاریخ میں ملتا ہے وہ ‘‘حضرت ادریسؑ کے جہاد کا ہے جو انہوں نے بنو قابیل سے کیا۔’’۲۴؂ یہ وہ زمانہ ہے جبکہ حضرت آدمؑ زندہ تھے کیوں کہ حضرت ادریسؑ(خنوخ) حضرت آدمؑ کی چھٹی نسل سے تھے۔آپ کو علمِ نجوم او ر منطق کا بانی بھی کہا جاتا ہے۔آپؑ پر تیس صحائف بھی نازل ہوئے اور آپ نے۱۸۰ شہر بھی آباد کئے۔اورپھراس بڑھتی آبادی کے ساتھ ساتھ آپس کی عداوتیں، دشمنیاں اور مخالفتیں لڑائی جھگڑے کا سبب بنتی رہیں۔ قائن بن انوش کے عہد میں ہتھیاربن گئے تھے جنہیں ان جھگڑوں میں استعمال کیا جانے لگا تھا۔پہلا شہر بھی آپ ہی نے آباد کیا تھا۔ آپ حضرت ادریسؑ کے پڑدادا اور حضرت آدمؑ کے پڑپوتے تھے۔

                سب سے پہلے جس تہذیب میں لازمی فوجی خدمت کو نافذ کیا گیا وہ سومیری تہذیب تھی۔ کیوں کہ میسو پوٹیمیا اور مصر میں جو قدیم تہذیبیں تھیں اُن کے لوگ قبیلوں میں بٹے ہوئے تھے اور‘‘جب وہ جنگ پر جاتے تو کنبوں کے سر براہ ایک کونسل کی صورت میں اکٹھا ہوتے اور اپنا بادشاہ مقرر کرتے۔’’۲۵؂ تب قبیلہ کے جوان جنگ میں جانے والی فوج کا حصہ بنتے اور مقرر کردہ بادشاہ اس فوج کا سپہ سالار ہوتا۔

                پروفیسر ڈورسی کے مطابق سومیری ‘‘ایلامی مہاجرین تھے۔۔۔اگر وہ افغانستان میں آباد ہوتے تو انہیں افغانی کہا جاتا۔ شاید وہ قبل از تاریخ کے منگول تھے۔۲۶؂

                سومیریوں کے بعدوادئ دجلہ و فرات میں آشوریوں کی تہذیب نمایاں ہوئی۔ ان لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سخت جان اور جنگجو تھے۔اُس زمانے میں‘‘ریاست ایک عسکری چھاؤنی کی طرح تھی۔ فوج کے سالار امیر ترین اور طاقتور ترین طبقہ کے لوگ ہوتے تھے۔’’ ۲۷؂

                                سومیریوں کا پہلا دور ۵ہزار سال سے ۴ ہزار سال قبل مسیح بتایا جاتا ہے اور دوسرا دور جسے مہذب دور کا نام دیا گیا ہے ۴ہزار سے ۳ہزار سال قبل مسیح تھا۔ اگر بعض روایات کو سامنے رکھتے ہوئے اس بات کو تسلیم کر لیا جائے کہ سومیری ہی دراوڑ تھے جو ہندوستان میں آ کر آ باد ہوئے تو ماننا پڑے گا کہ غیر مہذب دور طوفانِ نوح سے پہلے اور مہذب دور طوفانِ نوح کے بعد کا ہو گا۔جب کہ طوفانِ نوح کا زمانہ ۳۸۶۲سال قبل مسیح ’’ ۲۸؂ گردانا گیا ہے۔

                موضع بڑیلہ شریف ضلع گجرات میں حضرت قنبیط کی قبرجسے حضرت آدمؑ کے بیٹے کی بتایا جاتاہے اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ برِ صغیر میں طوفانِ نوح سے پہلے نسلِ آدم موجود تھی جس کے بارے میں قیاس کیا جا سکتا ہے کہ وہ لوگ غرقِ آب ہو گئے ہوں گے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا طوفانِ نوح پورے کرۂ ارض پر آیا تھا یا کسی خاص خطے میں ؟

                مذکورہ عہد میں مختلف علاقوں میں مختلف رسولوں کی بعثت کے امکانات کوبھی رد نہیں کیا جا سکتا۔اس سلسلے میں ہارون یحییٰ نے جن علاقوں میں طوفانِ نوح کے آ نے کی نشاندہی کی ہے ‘‘اُن میں بغداد، بابل، وادئ دجلہ و فرات کے میدان، اُر، دجلہ و فرات اور خلیج فارس شامل ہیں۔ ’’۲۹؂ اگراسے درست مان لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ برِ صغیر کے علاقے اس طوفان کی زد میں نہیں آئے اور یہاں آباد قومیں محفوظ رہیں۔

                طوفانِ نوح توریت کے عبرانی نسخے کے مطابق۱۶۵۶سال، سامری نسخے کے مطابق ۱۳۰۷ سال اور یونانی نسخے کے مطابق ۲۲۶۲ سال تخلیقِ آدم کے بعد آیا تھا۔

                ہماری تاریخ بہت الجھی ہوئی ہے اس میں اختلافات کی بنا پر اسے صحیح طریقے سے سمجھنا بعید از قیاس ہے ۔در اصل انسانی علم کی پوری تاریخ میں کائنات کے پھیلنے پھولنے کے قانون کے بارے میں دو تصورات سامنے آئے ہیں۔ ایک تصوّر ما بعد طبیعیاتی اور دوسرا جدلیاتی ہے، جن سے دو مختلف کائناتی تصوّرات کی تشکیل ہوتی ہے۔انسان کے بارے میں جب سوچتے ہیں تو اس کا ظہور ما بعد الطبیعیاتی ہے لیکن اس کا تسلسل جدلیاتی ہے، گویا متضادطاقتوں کے عمل سے یہ سلسلہ جاری ہے جس میں تضادات کا ہونا لازمی امر ہے۔

                سومیریوں کی آمد سے پہلے ہندوستان میں جو قوم آباد تھی اُسے پروٹوآسٹرالائیڈ نسل سے بتایا جاتا ہے جنہیں مؤرخین نے آسٹرک بھی لکھا ہے ۔ لہٰذا ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ‘‘ سومیریوں اور پروٹوآسٹرالائیڈ کے ٹکراؤ سے جو قوم پیدا ہوئی وہ دراوڑی کہلائی ۔’’ ۳۰؂

                آسٹرک نسل سے جو قومیں بتائی جاتی ہیں اُن میں سنتھالی اور منڈا وغیرہ قبائل شامل تھے۔ پروٹو آسٹرا لائیڈ یا آسٹرک نسل کو اگر ہندوستان کے ابتدائی آباد کار تسلیم کیا جائے تو وہ جو زبان بولتے تھے وہ ہماری اردو زبان کا نقطۂ آغاز تھاکیوں کہ میرا یہ نظریہ ہے کہ جس علاقے میں جو زبان بولی جاتی ہے اُس کا تعلق اُسی دھرتی سے ہوتا ہے،اس میں اضافے، کمی یا تبدیلی رونما ہوتی رہتی ہے اور نئی زبانیں وجود میں آتی رہتی ہیں۔جب ہم آسٹرک خاندان کی بولیوں کی بات کرتے ہیں تو اُن کی بولی جانے والی زبان کے جو الفاظ ہم تک پہنچے ہیں اُن میں سے چند ایک ملاحظہ ہوں: آپے (آپ)، باؤ ہو (بہو )، چاولے (چاول)، سوتو (ستو)، بارا بوری(برابری)، دھناؤ(دھنیہ)، تھاپا (تھپڑ)، بوڑی(بوڑھی)، جونم (جنم)، پریتی (پریت) وغیرہ ۔ ۳۱؂

                میرے خیال میں یہ عہد ۴ہزار سے ۵ ہزار قبل مسیح کا ہے۔ اسی عہد میں لکھی جانے والی پہلی کتاب کا سراغ ملتا ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ کتاب‘‘ ۴۲۵۰سال قبل مسیح۹۰ فٹ لمبے پائپرس رول پر دیوی دیوتاؤں اور عبادتوں نیز موت کے بعد دوسری دنیا اور روح کے سفر کے بارے میں لکھی گئی تھی۔ اس کا ترجمہThe book of dead کے نام سے ہو چکا ہے اور برٹش میوزیم میں اس کا ایک نسخہ موجود ہے۔’’ ۳۲؂

                دراوڑوں کی فاتحانہ آمد یا اس دھرتی پراس قوم کا جنم زبان کی تبدیلی کا باعث بنا۔اگر برِ صغیر میں سومیریوں کی آمد کو درست مانا جائے تو وہ پہلی مہذب قوم کہی جا سکتی ہے جو برِ صغیر پر حملہ آور ہوئی اور پہلے سے آباد قوم کو عسکری طریقے سے شکست دے کر اپنا تسلط جمایا۔سومیریوں اور پروٹوآسٹرا لائیڈ سے پیدا ہونے والی نسل جب آرام پرست ہو گئی تو دیگر اقوام نے بھی حملے شروع کر دیئے جن میں آرین سرِ فہرست تھے۔ اور یوں آریوں کی آمدبھی اپنے عہد کی تہذیب کے مدِ نظرعسکری برتری کا سبب تھی۔ہندوستان کے ابتدائی آباد کاروں کے حوالے سے مؤرخین نے عام طور پرتین نظریات پر بحث کی ہے ۔

                ایک نظریہ طوفانِ نوح کا ہے جس کے مطابق زمین پر آباد تمام لوگ آدمِ ثانی یعنی حضرت نوحؑ کی اولاد ہیں۔اُن کاکہنا ہے کہ تین ہزار پانچ سو سال قبل مسیح تک برِ صغیر میں آبادی کا نشان تک نہ تھا۔

                دوسرا نظریہ دراوڑ قوم کی فاتحانہ آمد کاہے ۔ یہ نظریہ اس بات کو مکمل طور پرتقویت دیتا ہے کہ لشکر یا عساکر ہی اردو زبان کے بانی ہیں۔‘‘ مؤرخین کا خیال ہے کہ وادئ سندھ میں۸ہزار قبل مسیح دراوڑ قوم فاتحین کی حیثیت سے داخل ہوئی۔’’۳۳؂

                تیسرا نظریہ افریقی اقوام کی ہندوستان میں آمد کا ہے جو محمد نعیم اﷲ خیالی کے مطابق‘‘۵ہزار سال قبل مسیح زمانہ ما بعد طوفانِ نوح حبشی(Nigrito)(اولادِ حام بن نوحؑ)سمندری ساحلوں سے سفر کرکے یہاں پہنچی تھی۔’’ ۳۴؂

                ہم زبان اورعساکر کو انسان سے جدا نہیں کر سکتے ۔ ز با ن بھی انسان کے وجود سے پہلے موجود تھی اور عسکریت بھی، کیوں کہ فرشتوں نے جب اﷲتعالیٰ کے زمین پر اپناخلیفہ پیدا کرنے پر اعتراض کیا تو وہ زمین پر پہلے سے آبادجنوں کے ظلم و فساد کو دیکھتے ہوئے یہ خیال کرتے تھے کہ جوقوم زمین پر پیدا کی جا رہی ہے وہ بھی فساد اور جنگ و جدل کرے گی ۔

بات آریوں تک آ گئی تھی جو ہندوستان پر قابض ہوکر تہذیبی اور لسانی تبدیلی کا سبب بنے۔اُن کا یہ تسلّط عسکری برتری یا عسکریّت کے باعث تھا اور لسانی تبدیلی وقت کی مروّجہ زبان کے فروغ میں ممد و معاون ثابت ہوئی۔وہی زبان لمحہ بہ لمحہ ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے آج اردو زبان کے روپ میں ہمارے سامنے ہے۔

                چوں کہ ہندوؤں کے ہاں ویدوں کو سب سے پہلی کتب ہونے کا درجہ حاصل ہے جس کا تعلق ایک روایت کے مطابق وہ حضرت نوحؑ سے جب کہ عام طور پربراہِ راست کرشن بھگوان سے جوڑتے ہیں جنہیں بیاس جی اور اُس کے چیلوں نے یکجا کیا ۔یہ عہد پندرہ سو سال قبل مسیح گردانا گیا ہے ویسے اس سے پہلے توریت کا نزول بھی ہو چکا تھا۔

                بہر حال ویدوں میں بہت سے الفاظ ایسے ہیں جو آ ج بھی ہماری زبان کا حصہ ہیں جیسے ‘‘دھرم(مذہب) ، مت (عقیدہ)، گیان(علم۔عرفان) چِت(چیتا، ادراک)، من (طبیعت)، رس (ذائقہ)، وہم (اپنی ہستی کو ذات سے جدا ماننا )، جوگ (درویشی) وغیرہ’’ ۳۵؂

                شاید اسی کو بنیاد بنا کراجے مالوی نے ‘‘اردو’’ لفظ کو خالص ویدک لفظ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ اُس کے نزدیک لفظ اردو دو الفاظ ‘‘اُر ’’ اور ‘‘دو ’’ کا مرکب ہے ۔اُر معنی دل اور دُو معنی جاننا ہیں۔اس سے مراد روح اور جان کو جاننا جسے حقیقت میں خدا کو جاننا مراد لیا گیا ہے۔۳۶؂ اور اسی باعث وہ اردو زبان کوویدک زبان کہتے ہیں جس کا مطلب ہے تصوّف کی زبان۔ واﷲاعلم بالصواب

میں اپنی اِن گزارشات کا اختتام اپنے اِن اشعار پر کرنا چاہوں گاجو ایک عسکری شخصیّت کا عکس ہیں۔:

 تذکرے عشق کے بات اخلاص کی : ہم نے نوکِ سناں سے بھی اکثر لکھی

 جنگ میں خون کے رنگ پیارے لگے : وقت پر بات انسا نیّت کی کہی

 ہم نے ا پنوں میں بانٹی محبت مگر : رزم میں جب گئے ظلم کو مات دی

 جانے کتنے محاذوں پہ جنگِ وفا : زندگی کے لئے زندگی سے لڑی

 انگلیوں کو قلم کر کے شاکر سدا

کچھ عجب رنگ میں کی ہے صورت گری 

ماخذات

۱۔             محمد حمید اﷲ بھٹ، پیش لفظ ، مشمولہ: قدیم لکھنؤ کی آخری بہار از مرزا جعفر حسین ، قومی کونسل برائے فروغِ اردوزبان دہلی،۱۹۸۱ء،ص۳

۲۔            ہارون یحییٰ، معجزاتِ قرآنی، مترجم: شیر محمد، فضلی سنز پبلی کیشنز کراچی بار چہارم، ۲۰۰۶ء ، ص۸۸

۳۔            افتخار عالم خان، ڈارون اور اُس کا نظریۂ ارتقا، ترقی اردو بیورو، نئی دہلی ،۱۹۹۱ء ،ص۵۱

۴۔            ایضاً ، ص۸۳

۵۔            القرآن:سورۃ ص ،آیت:۷۱۔۷۲،ترجمہ:تفہیم القرآن از مولانا ابوالاعلیٰ مودودی ،جلد :۴، ادارہ ترجمان القرآن ،لاہور، س ن ص۳۴۸

۶۔            القرآن:سورۃ المومنون۔آیت:۱۲۔۱۴، ترجمہ: ایضاً، جلد،۳ ، ص ، ۲۷۰

۷۔           القرآن: سورۃالروم ،آیت: ۳۰ ، ا یضاً، جلد:۳ ،ص: ۷۴۳

۸۔            توریت: تکوین، باب:۱ ، آیت :۲۷۔۲۸

۹۔            ہارون یحییٰ ، معجزاتِ قرآنی ، ایضاً ، ص۸۸

۱۰۔           آئزک ایسی موف ، علم اور سائنس کا سفر ، مترجم: محمد ارشد رازی ،مشعل بکس لاہور،۲۰۰۳ء ، ص ۴

۱۱۔           مہرشی سوامی دیانندسرسوتی، رگوید آدی بھاشیہ بھومکا، مترجم: نہال سنگھ آریا، ودیا درپن ،میرٹھ ،۱۸۹۸ء ، ص ۱۰

۱۲۔           کوامے انتھونی و ہنری لوئی گیٹس جونیرٔ ،عالمی ثقافت کی لغت ، ص ۶

۱۳۔          ایل اے نیٹسن ،ذرائع نقل و حمل کی ابتداء ،مترجم: مہ جبین اختر، قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان ،دہلی، ۲۰۰۳       ء ،ص ۲

۱۴۔          سید احمد دہلوی،مولوی، علم اللسان ،مطبع محبوب المطابع دہلی ،۱۸۹۵ء ، ص ۵

۱۵۔          سہ ماہی عقیدت، سرگودھا ،شمارہ۔۳ ،جولائی ۲۰۰۵ء ، ص ۳۹

۱۶۔           شایاں بریلوی ، تاریخ شعرائے روہیل کھنڈ، جلد ۔۱ ، کراچی ،۱۹۹۱ء ، ص ۲

۱۷۔          مختار احمد ،آئینۂ تاریخ ،(حضرت آدم سے محسنِ اعظم تک)،مکتبہ اشرفیہ مرید کے ، ۱۹۸۸ء ، ص ۴۶

۱۸۔          ابنِ کثیر، قصص الانبیاء ،مترجم:مفتی محمد فیض احمد اویسی ،زاویہ پبلشرز، لاہور ،۲۰۰۶ء ، ص ۵۸

۱۹۔           عبدالعزیز ہزاروی، مولانا، تذکرۃالنبیًین، پرنٹنگ محل کراچی ، ۱۹۸۷ء ، ص ۷۰

۲۰۔          مسعود مفتی ، سفیرانِ خدا ، ص ۲۰۳

۲۱۔           غلام جیلانی برق، ڈاکٹر ،معجم القرآن ، شیخ غلام علی اینڈ سنز ، لاہور ،س ن ، ص ۲۱

۲۲۔          گیان چند جین ،ڈاکٹر ،لسانی جائزے ،مغربی پاکستان اردو اکیڈمی لاہور ، ۲۰۰۵ء ،ص ۲۵

۲۳۔          القرآن: سورۃ العادیات ، آیت:۱ تا ۵

۲۴۔          مختار احمد، آئینۂ تاریخ ،ایضاً ، ص ۵۰

۲۵۔          ولیم میک گاگی ،انسانی تہذیب کے پانچ ادوار ،مترجم:حسن عابدی ، مشعل بکس لاہور ،س ن ، ص ۷۳

۲۶۔          جان جی جیکسن ، انسان۔خدا اور تہذیب ،مترجم :یاسر جواد،نگارشات پبلشرز لاہور ، ۲۰۱۶ ، ص ۷۳

۲۷۔         محمد عبدالرسول ، صاحبزادہ ،تاریخ تہذیبِ انسانی، جلد ۔۱ ،یونیورسٹی آف سرگودھا ،۲۰۰۸ ، ص ۸۳

۲۸۔          ضیا تسنیم بلگرامی ، سوانح انبیاء ، جلد۔۱ ، کتابیات پبلیکیشنز کراچی ، س ن ،ص ۷

۲۹۔          ہارون یحییٰ ،تباہ شدہ اقوام ، ترجمہ: ڈاکٹر طاہر حمید تنولی ، اسلامک ریسرچ سنٹر پاکستان ،لاہور، ۲۰۰۲ء ، ص ۲۶

۳۰۔          نثار صفدر بلوٹی ،قومی زبان اور دورِ ھاضر ، اربابِ ادب پبلی کیشنز لاہور ،س ن ،ص ۴۱

۳۱۔          شانتی رنجن بھٹاچاریہ، آسٹرک خاندان کی بولیاں اور اردو،مشمولہ سہ ماہی زبان و ادب،پٹنہ،جنوری ۔مارچ ۱۹۸۳، ص ۵۶

۳۲۔          وہاب اشرفی ، پروفیسر، تاریخِ ادبیاتِ عالم،جلد۔۱ ، پورب اکادمی اسلام آباد ،۲۰۰۶ء ص ۳۳۔۳۴

۳۳۔         سجاد حیدر پرویز، ڈاکٹر،مختصر تاریخ زبان و ادب سرائیکی ،مقتدہ قومی زبان پاکستان اسلام آباد ،۲۰۰۹ء ص ۶

۳۴۔         محمد نعیم اﷲ خیالی ،اردو الفاظ ایک بین الاقوامی رابطہ ،بہرائچ ۱۹۸۸ء ،ص ۲۷

۳۵۔         حسن نظامی ، خواجہ ،ہندو مذہب کی معلومات ، اقبال پرنٹنگ ورکس دہلی ، ۱۹۲۳ء

۳۶۔          اجے مالوی،ڈاکٹر، ہے رام کے وجود پرہندوستاں کو ناز ،سروج شنکر پبلی کیشنز مالوی نگر آباد (یو پی) ،۲۰۱۱ء ، ۱۲

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...