Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نقش فریادی اپریل تا جون 2023 > میرواہ کی راتیں اور جنس نگاری

نقش فریادی اپریل تا جون 2023 |
پنجاب لٹریری فورم
نقش فریادی اپریل تا جون 2023

میرواہ کی راتیں اور جنس نگاری
Authors

ARI Id

1695782983289_56118461

Access

Open/Free Access

Pages

29

میرواہ کی راتیں اور جنس نگاری

کومل شہزادی

اردوادب میں اصناف سخن ہو اصناف نثر دونوں میں جنس کو بطور موضوع برتا جارہا ہے۔بالخصوص ناولوں میں یہ رجحان ابتدا سے ہی ہے بیسویں صدی کے ناولوں پر نظر ڈالی جائے یا اکیسویں صدی کی دودہائیوں کے ناولوں پر ہمیں جنس کا رجحان لازم ملتا ہے۔رفاقت حیات کا شمار اکیسویں صدی میں ہوتا ہے۔علاوہ ازیں اکیسویں صدی کے ناول نگاروں میں  محمد حفیظ خان کے ناول انواسی اور آدھ ادھورے لوگ دیکھ لیجیے اور محمد اقبال دیوان کا ناول کہروڑ پکا کی نیلماں جس میں جنسی رجحان نظر آتا ہے۔

''میرواہ کی راتیں ''ناول کے مصنف رفاقت حیات ہیں ۔جو ایک عمدہ ناول نگار ہیں اور ان کے اس ناول نے ناول کی دنیا میں اپنا ایک مقام بنایا ہے ۔ یہ 15 اپریل 1973 کو محراب پور ، ضلع نوشہرہ سندھ میں پیدا ہوئے یہ ناول 2019ء میں عکس پبلی کیشنز سے شائع ہوا ۔جو 144 صفحات پر مشتمل ہے ۔ناول کا مرکزی کردار جس کے ذریعے ناول میں دیہی علاقے کی بھرپور عکاسی کی گئی ہے ۔نذیر جو کام کی غرض سے اپنے چاچا اور چاچی کے ہاں رہائش پذیر ہے   ۔ نذیر میر پور ماتھلیو سے ٹھری میرواہ آیا کیونکہ وہ اپنے والدین  کی آتھ اولادوں میں چوتھے نمبر پر تھا ، اس لیے اس کے حصے میں ماں باپ اور بڑے بھائی اور سب سے چھوٹے بھائی کے حصے میں آیا تھا ۔ پانچ برس کی عمر میں جب اسے اسکول میں داخل کروایا گیا تو پہلے ہی دن  ایک لنگڑے استاد نے کسی وجہ کے بغیر اسے تین زور دار تھپڑ رسید کیے ۔ اب یہ علم نہیں تھا کہ یہ استاد کے تھپروں کا اثر تھا یا اس کی طبیعت کا من موجی پن تھا کہ وہ آٹھویں  جماعت سے آگے نہیں پڑھ سکا ۔اسکول کو خدا خافظ کہنے کے بعد اس نے آوارہ گردی کا شغل اپنایا ۔وہ صبح  سے شام تک میر پور ماتھیلو کے گلی محلوں کی خاک چھانتا پھرتا ۔اپنی والدہ کی ڈانٹ ڈپٹ کو وہ خاطر میں نہیں لاتا تھا  مگر اپنی آوارہ گردی کی وجہ سے وہ اکثر اپنے بڑے بھائیوں کے ہاتھوں مار کھاتا ۔اس کے والد میر پور ماتھیلو کے مشہور حلوائی تھے اور وہاں ان کی مٹھائی کی بہت بڑی دکان تھی ۔اس کے تین بڑے بھائی دکان پر والد کا ہاتھ بٹاتے تھے  ۔نذیر  کی آوارہ گردی سے تنگ آکر اس کے والد نے اسے بھی دکان پر والد نے اسے بھی ساتھ رکھ لیا ۔اس کی عمر کا یہ وہی دور تھا جب اپنی ہم عمر لڑکیوں کو بلا کسی سبب اسے اچھی لگنے لگی تھیں ۔راہ چلتے ہوئے کسی حسین دوشیزہ کی ایک جھلک ہی اسے راستے سے بھٹکانے کے لیے کافی ہوتی تھی ۔ وہ اپنے والد اور بھائیوں کے بتائے ہوئے کام فراموش کرکے اس حسین دوشیزہ کو اس کے گھر تک پہنچانے کا فریضہ انجام دینے لگا ۔بعد میں جب اس کے بھائی اور والد کام میں ہونے والی تاخیر کے متولق دریافت کرتے تو وہ بغلیں جھانکنے لگتا ۔ ایسے میں اس کے بھائی اور والد کے طمانچے اس کے چودہ طبق روشن کردیتے ۔گھر پہنچ کر وہ اپنی ماں کو بھائیوں اور والد کی اس کارگزاری کے بارے میں بتا تا تو وہ دکھ اور افسوس  سے اس کے سرخ گالوں پر اپنے نرم ہاتھ رکھ کر انہیں سہلانے لگتی ۔نذیر کے بھائی اور والد اسے کبھی شہر بدر نہ کرتےاگر وہ وہ میر پور ماتھیلو کے بدنام چکلے پر نہ جاتا ۔یہ ہی وجہ اسے چاچا غفور کے ہاں بھیج دیا گیا ۔یہ ہی ناول کا وہ مرکزی کردار ہے جو ظاہری طور پر نارمل انسان نظر آتا ہے لیکن اس کی پیچیدہ شخصیت پر منہ زور جبلی خواہشوں کا غلبہ محسوس ہوتا ہے ۔

''ناول نگار نے اس کردار کے ذریعے عصر حاضر میں فرد کی تنہائی ،رشتوں

کی ماذیت اور سماجی اقدار کی شکست کا احساس ابھارا ہے ۔ یہ بلاشبہ اس عہد کے

بڑے اور غورطلب مسائل و موضوعات میں سے ایک ہے ۔"١

معاشرے میں ایک پوشیدہ برائی جو جنسیات ہے ،ناول نگار نے اسے بہترین انداز میں نذیر جیسے کردار سے نمایاں کی ہے ۔جنس اور جنس سے متعلق انگنت موضوعات پر ناول وضاحت سے ملتے ہیں ۔ناول نگاروں نے جنس نگاری کے رجحان میں ذاتی دلچسپی لے کر اس کی پیروی کی اور ایسی شاہکار کہانیاں قلمبند کی گئی ۔ناول نگار نے ''میرواہ کی راتیں '' میں ایک نوجوان کی نفسیات کی بڑی عمدہ ترجمانی کی ہے ذہنی الجھنوں ، نفسیاتی دباؤ، جسمانی مطالبات کا بہترین خاکہ پیش کیا ہے ۔نذیر کا کردار جس نے جنسی ماحول بنانے میں اہم رول ادا کیا ہے ۔جنسی الجھن ایک ایسا مسئلہ ہے جسے زندگی میں اکثر و بیشتر افراد دو چار ہیں۔اس میں جہاں ہر عمر کے افراد شامل ہیں وہیں کم عمر کے نوجوان بھی ہیں جیسے کے ناول کے کردار نذیر سے نمایاں ہورہا ہے ۔رفاقت حیات نے نذیر کے کردار سے تمام سندھی دیہی معاشرے کی عکاسی جہاں کرتا نظر آتا ہے وہیں اس نوجوان میں چھوٹی سی عمر میں پیدا ہونے والی جنسی کشش کو بھی بخوبی تذکرہ کیا ہے ۔جو اس قدر ذہنی طور پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اپنے سے بڑی عورتوں سے جنسی خیالات رکھنے سے گریز نہیں کرتا ۔جیسے احتراما رشتہ چاچی کا اور شادی شدہ عورت شمیم جو اس سے کافی بڑی ہے ۔ان کی محبت کا اسیر ہوجاتا ہے ۔نذیر کی اتنی کم عمری میں اپنے سے بڑی خواتین میں دلچسپی اس کے ذہنی الجھاؤ کو اچھے سے ظاہر کرتا ہے ۔بعدازاں وہ چاچی اور چاچا کے ہاں آتے ہی ایسے ہی جنسی خیالات اپنی چاچی خیرالنسا کے بارے میں رکھتا ہے اور جب جب موقعہ ملتا ہے وہ اپنے خیالوں میں جنسی تسکین کا ذریعہ لازم بناتا ہے ۔دوسری طرف چاچی بھی ناول میں کہیں کہیں نذیر کی جانب مائل ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔''وہ اس کے سرخ ہونٹوں کی سرخی کو اچھی طرح جانتی تھی کیونکہ اکثر خوابوں میں وہ اس کے سرخ ہونٹوں کو چوم چکی تھی ۔

''نذیر اکثر چاچی کو دیکھ کر یہ ہی سوچتا تھا کہ چاچا چاچی سے پچس سال بڑا ہے اور چاچی خوبصورت اور کیسے ان کی آپس میں نباہ ہوجاتی ہے ۔اور نذیر چاچی کو جب جب دیکھتا تب تب اس کے جذبات اس کے قابو میں نہ رہتے ۔چاچی کے ساتھ اس کا ٹکراؤ شمیم سے ہوتا ہے ۔چاچا نذیر کو ضروری کام پڈعیدن بھیجتا ہے ۔اسٹیشن سے ہی اس کی نظر پردہ نشین پر پڑتی ہے جو اس کو بہت آگے کا سفر کرواتی ہے اوراس کی رسائی میں نذیر کیا کچھ نہیں کرتا "

 

اسٹیشن پر ٹرین پر سفر کرتے اس کی نظر ایک پردہ نشین عورت پر پڑتی ہے ۔جو برقعے میں ہونے کے باوجود بھی نذیر کے دل ودماغ پر اپنے نقش چھوڑ جاتی ہے ۔یہاں تک کے نذیر تمام سفر بھی ان خواتین کی ٹو میں لگا رہتا ہے اور جوگی پاٹھ تک ان کا پیچھا بھی کرتا ہے کہ کسی طرح وہ اس پردہ نشین کے گھر کا پتہ چلا سکے ۔

'' نذیر کے لیے تو عورت محض بلاوا اور بڑھاوا دینے والا جسم تھا

اور بس۔''٢

شمیم کے حصول کی تگ ودو کے درمیان بھی نذیر کا اپنی چاچی سے آنکھ مچولی سے باز نہیں آتا ۔چاچی کے ساتھ اس کے تعلقات کچھ یوں ناول میں تذکرہ ہوئے ہیں جس سے نذیر کا کردار عجیب قسم کی جنسی ناآسودگی اور الجھن کا شکار نظر آتا ہے ۔جو اپنی چاچی خیر النساء کو بھی نہیں چھوڑتا اُس کے متعلق بھی ذہن میں عجیب سی جنسی کشش محسوس کرتا رہتا ہے اور  جنسی خیالوں میں مگن رہتا ہے ۔جیسے ایک جگہ چاچی نذیر کو اٹھنے کا کہتی ہے تو نذیر  نے جما ہی لی اور چپلیں پہن کر غسل خانے کی طرف چلا گیا ۔اندر آکر وہ گیلے فرش اور بھیگی ہوئی دیواروں کو دیکھنے لگا ۔ اس کی نظر کیل میں اٹکے ہوئے بلاؤز کی طرف اٹھی ۔''وہ گلابی ریشمی کپڑے  سے بنا ہوا اور ہاتھ سے سلا ہوا بلاؤز تھا ۔ وہ انگلیوں سے اسے ٹٹولنے لگا۔بلاؤز کو چھونا اسے اچھا لگ رہا تھا ۔''٣

 اس کو دیکھتے ہوئے نذیر جیسے انسانوں کی محدود سوچ کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے جدھر احترام کے رشتوں کی پاسداری بھی نہیں ملتی ۔اکثر دیہات میں ایسے دیکھنے کو عام ملتا ہے کہ جن رشتوں سے ایسے خیالات ممنوع ہوتے ہیں ادھر زیادہ تر اُسی میں مبتلا نظر آتے ہیں ۔مصنف نے نذیر کے ذریعے اس کی عمدہ عکاسی کی ہے کہ سندھ کے دیہی معاشرے میں یہ صورت حال بھی پائی جاتی ہے ۔اور اس کے متعلق اتنا برا تاثر بھی دیکھنے کو نہیں ملتا ۔جیسے ایک جگہ ناول نگار نے اس کی عکاسی کی ہے ۔

                                                      '' کچھ دیر بعد چاچا غفور نذیر کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا ،''سلائی مشین پر تیرا ہاتھ صاف ہوگیا ہے  اب میری دکان تیرے حوالے ۔

یہ بات سن کر چاچی زیر لب مسکرائی ۔اسی طرح نذیر کو جب جب موقعہ ملتا نذیر چاچی کو دیکھ کر اپنے ذہن میں جنسی خواہش کا خیال لانے سے باز نہ رہتا ۔چاچی گھر کے کام کررہی ہو یا کہیں بھی ہو ہر جگہ کو تارنا اس کی عادت میں ہو چکا تھا ۔جیسے '' چاچی خیر النسا ناشتے کے برتن اٹھانے کے لیے جھکی تو وہ خود کو اس کے سینے کی لکیر دیکھنے سے باز نہیں رکھ سکا ۔''۴

 دیہاتی منظر بھی ناول نگار نے ساتھ ساتھ ناول میں بیان کیا ہے کہ دیہات میں کھلی فضا کے میں بیٹھنے کا رواج ہے جیسے ہی دھوپ جائے یہ چارپائیاں بجھا لیتے ہیں اور رات سونے کے لیے بھی وہی چارپائیاں استعمال کرتے ہیں۔جیسے ایک جگہ نذیر کو یہ کام کرتے دیکھایا گیا ہے ۔''معمول کے مطابق اس نے کمرے سے چارپائی نکال کر صحن کی دھوپ میں بجھائی،پھر چاچے کو سہارا دے کر باورچی خانے سے نکالا اور صحن میں چارپائی پر لٹا دیا ۔''۵نذیر کے بیمار ہونے پر اُس کی چاچی کا اتنا خیال رکھنا نذیر کو مزید چاچی کی طرف مائل کرتا رہا ۔نذیر جب چاچی کو میرواہ چھوڑنے کا کہتا ہے تو چاچی بھی حیرت میں مبتلا ہوجاتی ہے ۔چاچی کو نذیر کی اپنے میں دلچسپی کا پوری طرح احساس ہوگیا تھا ۔اس نے نذیر کو میرواہ چھوڑنے سے منع کیا ۔اور نذیر بھی اس بات پر آمادہ ہوگیا کہ تم مجھے بہت اچھی لگتی ہو ۔نذیر خود سے کہتا رہا کہ پہلے بار اسے محبت ہوئی ہے اور اپنے چاچے کو رقیب جانتے ہوئے نفرت کا اظہار کرنے لگا ۔چاچی خیرالنسا جس رات نذیر کے پاس آتی ہے اور نذیر حیرت میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ چاچی اس وقت یہاں کیا کررہی ہے ۔تو اس نے چاچی سے پوچھا تو چاچی نے کہا کہ میں تیرے چاچے کو نیند کی گولی دے آئی ہوں وہ صبح تک نہیں جاگے گا ۔نذیر نے اپنی محبت کا اظہار کیا تو چاچی نے بھی آگے سے کچھ یوں کہا :''میں جانتی ہوں یہ گناہ اور بے حیائی ہے ،مگر تو بھی جان

لے کہ تو مجھے اچھا لگتا ہے ۔اسی لیے آج رات میں نے بڈھےکو نیند کی گولیاں کھلا دیں۔''5

چاچی بھی اس بات کا اظہار نذیر سے کرتی ناول میں نظر آتی ہے کہ آدھی عمر کا فرق ہے ۔نذیر نے تشویش کا اظہار کیا کہ جو گولی چاچے کو دی ہے وہ اُس کو صبح اٹھ کہ پتہ نہ لگ جائے لیکن چاچی نے کہا نہیں لگتا وہ اُسی کی کھانے والی گولیوں میں شامل کردی تھی ۔چاچی نے اس محبت کو گناہ کہا لیکن نذیر اسے گناہ نہیں سمجھتا تھا ۔اس کا خیال تھا کہ تو اپنی مرضی سے میری چاچی نہیں بنی۔نذیر ایک نئی لذت سے آشنا ہونا چاہتا تھا ۔انہوں نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں جھانکا اور ہنسنے لگے ۔برآمدے میںبچھی ہوئی چارپائی پر ایک دوسرے کے پہلو میں لیٹ گئے ۔اور ان کے کے ترسے ہوئے جسم نہ جانے کب تک ایک دوسرے میں مدغم ہانپتے کانپتے رہے ۔غسل خانے سے نکل کر چاچی نے اسے آخری بوسہ دیا اور نذیر نے آہ بھری کہ اس نے اپنے لیے ایک یاد کو محفوظ کرلیا ہے ۔

''جنس کے بھرپور تجربے سے اس کی اسی چاچی خیر النسا نے گزارا۔

نذیر اور خیرالنساء کے پیچ در پیش معاملات اور ان کے اندیشہ

ہائے دورودراز کے باوجود یہ دونوں کردار اپنی ناآسودگیوں

کی تکمیل ایک شدید جنسی عمل سے کرتے ہیں۔۔۔۔جو

اپنے انجام و عواقب سے بے نیاز ہوتا ہے ۔''٦

المختصر اردوادب میں جنسی رجحان پر بے شمار ناول لکھے جاچکے ہیں اسی طرح رفاقت حیات کا ناول اس سلسلے میں اہم ہے۔

 

 

حواشی

١۔اختر رضا سلیمی ،ادبیات ،اسلام آباد  اکادمی ادبیات پاکستان ،شمارہ نمبر 123۔24،جنوری تا جون 2020 ءص 60

٢۔رفاقت حیات ،میرواہ کی راتیں،لاہور :عکس پبلی کیشنز ،2019ء، ص58

٣۔ایضا،ص112

۴۔محمد سلیم ،آبشار ،انڈیا :اردوسخن پاکستان ،شمارہ 4، ص285

۵۔بحوالہ میرواہ کی راتیں ،ص12

٦۔ایضا ،ص13/14

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...