Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نقش فریادی اپریل تا جون 2023 > اصطلاحات سازی کے فروغ میں انجمن ترقیِ اردو پاکستان کا کردار

نقش فریادی اپریل تا جون 2023 |
پنجاب لٹریری فورم
نقش فریادی اپریل تا جون 2023

اصطلاحات سازی کے فروغ میں انجمن ترقیِ اردو پاکستان کا کردار
Authors

ARI Id

1695782983289_56118462

Access

Open/Free Access

Pages

34

اصطلاحات سازی کے فروغ میں انجمن ترقیِ اردو پاکستان کا کردار

ڈاکٹر محفوظ احمد ثاقب

1857ء کی جنگِ آزادی نے جہاں برصغیر پاک وہند کی تاریخ میں ان مٹ اثرات مرتب کیے وہاں اردو زبان و اب پر بھی گہرے نقوش چھوڑے۔ 1857ء کی جنگِ آزادی کے سبب پیدا ہونے والی ابتری حالت، مایوسی اور ناامیدی کا ایک ہی حل تھا کہ ایک طرف تو انگریز سرکار سے مثبت تعلقات کشید کیے جائیں تو دوسری طرف جدید علوم و فنون پر مضبوط گرفت حاصل کی جائے۔ مذکورہ اغراض کے تحت  سرسید احمد خاں نے محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس منعقدہ علی گڑھ کی بنیاد ڈالی۔  محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس میں مذید توسیع کے لیے علی گڑھ میں 31 دسمبر 1902ء کو تیرھویں  سالانہ کانفرنس منعقد کی گئی ۔ یہ کانفرنس  مورخہ 31 دسمبر 1902 تا 4 جنوری 1903 جاری رہی۔اس کانفرنس میں متفقہ طور پر محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے مذید تین شعبہ جات( سیکشن سوشل ریفارم، سیکشن امورِ متفرقات ، لٹریری سیکشن )کی منظوری دی گئی۔ ان تین نئے شعبہ جات میں سے لٹریری سیکشن کو  بعد میں انجمن ترقیِ اردو  ھند( دھلی) کے نام سے جانا جانے لگا۔ انجمن ترقی اردو کے قیام کے بارے میں مولانا شبلی نعمانی لکھتے ہیں کہ :

"انجمن 4 جنوری 1903 ء کو سالانہ محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس میں قائم ہوئی " (1)

ابتداء میں تو یہ محض ایک علمی شعبہ تھا مگر تاریخ نے یہ ثابت کیا کہ یہ ایک متحرک مجلس تھی جس نے اردو زبان و ادب اور دیگر جدید  علوم میں کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ انجمن ترقی ِ اردو کو دھلی صدر مقام پر جنوری 1903 میں قائم کیا گیا ۔

            انجمن ترقیِ اردو بنا کسی مذہبی  یا علاقائی تعصب کے اپنے علمی سفر پہ گامزن تھی۔ مگر 1947ء کی تقسیم نے انجمن ترقیِ اردو کو ایک دفعہ پھر شدید متاثر کیا۔ متعصب ہندوؤں نے انجمن ترقیِ اردو کو نہ صرف لوٹا، بلکہ عمارت کو آگ لگا دی، تالے توڑ کر کاغذات پھاڑ دیے۔  جب حالات بہتر ہوئے تو مولوی صاحب نےانجمن کا دفتر دیکھا تو مکمل طور پہ تباہ ہوچکا تھا۔ مولوی صاحب نے پھٹے ہوئے کاغذات اور دستیاب مواد اکٹھا کیا اور 1948ء میں مع موادپاکستان کے شہر کراچی کی طرف ہجرت کرلی۔ یہاں سے پاکستان میں انجمن ترقیِ اردو کے ایک نئے باب کا آغاز ہوا۔ مولوی صاحب نے اسی ہمت، جوش اور لگن کے ساتھ  ترقیِ اردو کے لیے اپنا تن، من دھن سب کچھ قربان  کرنے کی ٹھان لی۔ 

مولوی عبد الحق صاحب نے ستمبر 1948ء میں انجمن ترقیِ اردو پاکستان کی بنیاد رکھی۔ مولوی صاحب کی بڑی خواہش تھی کہ اس انجمن کا افتتاح قائدِ اعظم محمد علی جناح اپنے ہاتھ سے کریں مگر قائدِ اعظم کی زندگی نے ان سے وفا نہ کی۔ بعد ازاں اس انجمن کا افتتاح سر لیاقت علی، اور عبد الرب نشتر نے کیا۔ اس انجمن کے پہلے صدر سر شیح عبدالقادر اور سیکریٹری مولوی عبد الحق  مقرر ہوئے۔ سر عبد القادر کا 1950ء میں انتقال ہوگیا اور یوں مولوی صاحب دوسرے باقاعدہ صدر بن گئے۔ ۔ انجمن ترقیِ اردو ایک خیراتی ادارہ تھا جسے حکومتِ وقت کی مالی اعانت نہ ہونے کے برابر میسر تھی۔ ابتداء  انجمن کو اپنی وسیع تر سرگرمیوں کے باوجود  مالی  مشکلات کا اس قدر سامنا تھا کہ جنوری 1952 میں انجمن کے ملازمین  کو گزشتہ دو ماہ کی تنخواہیں قرض لے کردی گئیں۔انجمن کی مالی زبوں حالی کے بارے میں  شہزاد منظر لکھتے ہیں کہ :

 "بابائے اردو نے 11 جنوری 1953ء  کو مجلسِ نظمانہ کے جلسے  میں کہا کہ انجمن کی مالی حالت بہت سقیم ہے۔ ملازمین کو دو ماہ کی تنخواہیں قرض لے کردی گئی ہیں ۔انجمن کے رسالے  خاص علمی ہیں سو ان کے خریدار بہت کم ہیں ۔ یہی حال انجمن کی مطبوعات کا ہے " (2)

1952ء میں انجمن ترقیِ اردو کو حکومتِ پاکستان سے کوئی مالی امداد نہ ملی اندیشہ تھا کہ کہیں انجمن  ترقیِ اردو ختم ہی نہ ہوجائے۔ سو مجلسِ نظما  نے مالی معاملات پر غوروخوض کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی۔ اس کمیٹی کا فوری اجلاس بلایا گیا۔جس میں جناب پیر الٰہی بخش، نواب صدیق خاان،پروفیسر ابوبکرحلیم، حلیم محمد احسن، مولوی سید ہاشمی فرید آبادی، خان بہادر بد ر الدین جی اور پیر حسام الدین رشدی نے شرکت کی۔ کمیٹی نے ایک وفد وزیر، اعظم پاکستان خواجہ ناظم الدین کی خدمت میں بھیجا تاکہ مالی معاونت مل سکے۔ علاوہ وزیں مالیاتی کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا کہ ہمیں انجمن سینما مالکان، انجمن ہوٹل مالکان، انجمن بس مالکان اور انجمن لاٹری   کی طرف بھی مالی امداد کے لیے وفد بھیجا جائے۔چنانچہ وفد نے  ان سے مل کر چندہ اکٹھا کیا اور یوں انجمن ترقیِ  اردو کا  کام  جاری رکھنا ممکن ہوا۔  مولوی صاحب نے اسباب کی قلت کے باوجوددو رسالے "  سہ ماہی اردو" اور "  پندرہ روزہ رسالہ "قومی زبان " جاری کیے۔ علاوہ ازیں انجمن ترقیِ اردو کے زیرِ سایہ اردو کالج بھی قائم کیا گیا۔ مولوی صاحب اس کالج کے پہلے پرنسپل بنے۔ انجمن ترقیِ اردو نے اپنا ذاتی چھاپہ خانہ قائم کرکے بیش بہا  کتب شائع کیں ۔

  انجمن ترقیِ اردو  پاکستان کے قیام میں جن اغراض و مقاصد کو   زیرِ نظر رکھا گیا تھا ان میں سب سے اہم  اردو زبان کو ذریعہ ءِ تعلیم بنانا اور اسے سرکاری زبان  درجہ دینا تھا۔  انجمن ترقیِ اردو نے اس مقصد کے لیے سب سے پہلے  علمی و فنی اصطلاحات سازی  کی  طرف توجہ دی۔  اردو اصطلاحات سازی کے لیے بے شمار مجالس  قائم کیں ( جن کا ذکر آگے کیا گیا ہے )۔  انجمن ترقیِ اردو   نے اردو اصطلاحات سازی کے اصول اور طریقہ کار کو وضع کرنے کے لیے سہ ماہی رسالہ " اردو" اور قومی زبان بھی جاری کیا۔ ابتداء میں ایک طرف اردو زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے پر بے شمار مساعی بروئے کار لائی گئیں تو دوسری طرف اردو زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کے لیے بھرپور اقدامات کیے گئے ۔  انجمن ترقیِ اردو نے  اسٹیٹ بینک آف پاکستان،محکمہ میکانیات، محکمہ جنگلات، محکمہ انجینئرنگ، محکمہ رفاءِ عامہ، اردو اکادمی پنجاب کی طرف ان کے متعلقہ اردو اصطلاحات مع مترادفات( جن کو انگریزی زبان سے اردو کے قالب میں ڈھالا گیا تھا) بھیجیں  تاکہ ان کی تصحیح یا مذید اضافہ بھی کیا جاسکے اور ان کو دفاتر میں لاگو بھی کیا جاسکے۔ علاوہ ازیں انجمن ترقیِ اردو پاکستان  نے اصطلاحات سازی کے بے شمار مجالس قائم کیں جنھوں نے گے چل کر  بےشمار  انگریزی  دفتری اصطلاحات کو اردو میں ترجمہ کرکے دفترِ نظامت کراچی، مجلسِ دستور ساز کراچی، ازارتِ داخلہ، محکمہ ہوا بازی، محکمہ ریلوے، محکمہ متدم شماری، طیران گاہ، محکمہ امدادِ باہمی و بازارات، محکمہ رفاءِ عامہ، محکمہ پولیس، اسٹیٹ بینک آف پاکستان، دفتر رینٹ کنٹرولر، ریڈیو پاکستان اور بے شمار غیر سرکاری اداروں   کی طرف ترجمہ شدہ اصطلاحات کے مسودات ارسال کیے گئے۔ اس میں مشاورت کے ساتھ ترمیم و اضافہ کیا جاتا رہا۔ اور بالآخر حتمی اصطلاحات کو ان اداروں میں لاگو کرنے کی سفارشات پیش کی گئیں۔  یوں تو انجمن ترقیِ اردو پاکستان نے اردو زبان و ادب کی ترقی میں بے شمار مساعی  بروئے کار لائیں  مگر راقم کا دائرہ کار لغات و اصطلاحات تک محدود ہے اس لیے انجمن کی صرف  لغات و اصطلاحات کی کوششوں کا نیچے ذکر کیا جارہا ہے۔

اسٹوڈنٹس انگریزی اردو ڈکشنری مرتبہ مولوی عبد الحق، کراچی، انجمن  ترقیِ اردو پریس،

اردو انگریزی ڈکشنری مرتبہ مولوی عبد الحق، کراچی، انجمن  ترقیِ اردو پریس، سنِ اشاعت: 1ء، کل صفحات: 

"لغتِ کبیر ( جلد  اول، جلد  )" مرتبہ مولوی عبد الحق،  ایضاً، ایضاً، سن ِ اشاعت: 1973ء، کل صفحات: 473

" لغتِ کبیر ( جلد دوم )" ایضاً، ایضاً، ایضاً، سنِ اشاعت: 1977ء، کل صفحات: 315 

فرہنگ اصطلاحاتِ بینکاری مرتبہ  زاھد حسین ، سنِ اشاعت: 1951ء، کل صفحات: 213

"فرہنگ اصطلاحاتِ پیشہ وراں ( جلد  سوم) "مرتبہ مولوی ظفر الرحمان دھلوی، ایضاً، ایضاً ،سنِ اشاعت 1977ء، کل صفحات: 248

"فرہنگ اصطلاحاتِ پیشہ وراں ( جلد  چہارم ) "ایضاً، ایضاً، ایضاً، سنِ اشاعت:1978ء، کل صفحات: 259

"فرہنگ اصطلاحاتِ پیشہ وراں ( جلد  پنجم ) "ایضاً، ایضاً، ایضاً، سنِ اشاعت: 1979ء، کل صفحات: 208

"نوادر الالفاظ  "مرتبہ سراج الدین خان آرزو، ایضاً، ایضاً، سنِ اشاعت: 1951ء، کل صفحات: 500

وضعِ اصطلاحات مرتبہ مولوی وحید الدین سلیم سنِ اشاعت: 2017ء، طبعِ ہفتم، کل صفحات: 392

"اردو زبان میں علمی اصطلاحات کا مسئلہ  " مولوی عبد الحق، ایضاً، ایضاً، سنِ اشاعت: 1949ء، کل صفحات: 56

" قاموس الکتبِ اردو جلد اول( مذھبیات)" کراچی، انجمن  ترقیِ اردو پریس، سنِ اشاعت: 1961ء، کل صفحات: 1390

" قاموس الکتبِ اردو جلد دوم (تاریخیات ) ایضاً، ایضاً، سنِ اشاعت : 1975ء، کل صفحات: 515

" قاموس الکتبِ اردو جلد سوم ( عمرانیات)"، ایضاً، ایضاً، سنِ اشاعت: 1978ء، کل صفحات: 815

"فلکیات، فرہنگ اصطلاحاتِ علمِ پیئت" رضی الدین صدیقی، ایضاً، ایضاً، سنِ اشاعت: 1949ء، کل صفحات: 121

مولوی عبد الحق 1961ء تک انجمن ترقیِ اردو کے صدر رہے۔ آ پ کے انتقال کے بعد اختر حسین تیسرے صدر بن گئے۔ بعد ازاں قدرت اللہ شہاب، نور الحسن جعفری، میجر آفتاب احمد خان ، ڈاکٹر محمود حسین،  معین الحق اور جمیل الدین نھی ذمہ داریاں نبھائیں۔ مولوی عبد الحق صاحب نے جس لگن، جانفشانی اور دیانت داری سے اپنی ساری زندگی اردو زبان و ادب کی ترقی کے لیے وقف کی انجمن ترقیِ اردو اس کا انھیں صلہ نہ دے سکی بلکہ الٹا ان کی ذات پہ کیچڑ اچھالا گیا، انھں ایزائیں دی گئیں۔ مولوی صاحب کے رنج و الم کو جمیل الدین عالی نے " انجمن ترقیِ اردو کا المیہ " کے نام سے شائع کیا۔ یہ کتاب انجمن ترقیِ اردو سے ہی شائع ہوئی۔ اس کتاب میں آفتاب احمد خان، حکیم احسن اللہ، ڈاکٹر محمود حسین اور قدرت اللہ شھاب کی سازشوں کو براہین کے ساتھ آشکار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے :

" حکیم صاحب کی دیدہ دلیری دیکھیے کہ وہ عبد العلی خان صاحب مددگار معتمد کو حکم دیتے ہیں کہ مولوی صاحب کے تمام خطوط کھول کر پڑھا کرو اور ان میں جو کچھ لکھا ہو وہ ہم سے بیان کرو۔ جب مددگار صاحب نے اس حکم کی تعمیل سے معذوری ظاہر کی تو انھیں معلمِ اخلاق جناب میجر آفتاب حسن صاحب ایم ایس سی ( علیگ ) بی ایس سی ( لندن ) پرنسپل انجمن ترقیِ اردو کی خدمت میں بھیجا ۔ جناب ِ پرنسپل نے ہدایت فرمائی کہ حکیم صاحب کے حکم کی تعمیل کرو اور خط کھول کر پڑھا کرو اس میں کوئی ہرج نہیں "(3)

1991ء میں انجمن ترقیِ  کراچی پاکستان کا دفتر اردو لیاقت باغ، گلستانِ جوہر کراچی میں  منتقل ہوگیاجیاں  انجمن ترقیِ اردو آج بھی اپنی خدمات سر انجام دے رہی ہے۔

حوالہ جات

1۔ محسن الملک، نواب " رپورٹ محمڈن اینگلو ایجوکیشنل سالانہ سولھویں کانفرنس باب ماہِ دسمبر وجنوری 1903ء" علی گڑھ، مطبع احمدی، 1903، ص: 326

2۔شہزاد منظر ، ادیب سہیل  " تاریخِ انجمن بابائے اردو مولوی عبد الحق کے بعد " کراچی : انجمن ترقیِ اردو پاکستان ، 2004ء، ص: 33

3۔ عبد الحق، مولوی، بابائے اردو " انجمن ترقیِ اردو کا المیہ " کراچی، انجمن ترقیِ اردو پاکستان ، 1985ء، ص: 8

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...