Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نقش فریادی اپریل تا جون 2023 > غزل گو شہزاد احمد از اسد عباس عابد

نقش فریادی اپریل تا جون 2023 |
پنجاب لٹریری فورم
نقش فریادی اپریل تا جون 2023

غزل گو شہزاد احمد از اسد عباس عابد
Authors

ARI Id

1695782983289_56118465

Access

Open/Free Access

Pages

42

غزل گو شہزاد احمد  از اسد عباس عابد

وجیہہ ضمیر ایم فل اردو ، سرگودھا یونیورسٹی

2018 میں ادارہ "مثال" فیصل آباد سے ڈاکٹر اسد عباس عابد کی کتاب "  غزل گو شہزاد احمد" منصہ شہود پر آئی ہے

دو سو تراسی صفحات پر مشتمل یہ کتاب پانچ ابواب پر مبنی ہے ۔ اس کتاب میں ڈاکٹر اسد عباس عابد نے غزل گو شاعر شہزاد احمد کی زندگی کے گمشدہ گوشوں کو منظر عام پا لانے کی عمدہ کاوش ہے وہ اس کتاب کے شروع میں رقمطراز ہیں کہ

" شہزاد شناسی میں پائی جانے والی کمی کو دور کرنے کا ارادہ میں نے پہلی مرتبہ کتاب "شہزاد احمد کے شعری افکار " میں ظاہر کیا تھا ۔ اس سلسلے کی دوسری کڑی " غزل گو شہزاد احمد" کی صورت میں قارئین کے سامنے ہے"

شہزاد احمد ساٹھ کی دہائی کے بعد  کی ایک توانا  آواز  تھے جس دور میں نیا تجربہ کرنا گویا مشکل تھا ۔

اب ہم اس کتاب کی ابواب بندی کی طرف بڑھتے ہیں

" پہلا باب " شہزاد احمد :سوانح اور شخصیت پر مبنی ہے

کسی کی شخصیت پر لکھنے سے پہلے ایک محقق کو متوازی رویہ اختیار کرنا پڑتا ہے تاکہ وہ تحغیر جانبدارانہ تحقیق کر سکے بسا اوقات محقق شخصیت پرستی میں اتنا بڑھ جاتے ہیں کہ زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں جبکہ کبھی اس قدر کج روی کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ بڑی سے بڑی شخصیت کا قد بونا محسوس ہونے لگتا ہے ایک محقق کو تعصب اور حمایت سے بالا تر ہو کر تحقیق کرنی چائیے ۔ ڈاکٹر اسد عباس عابد نے  پہلے باب میں شہزاد احمد کی حیات زندگی سے متعلق گراں قدر معلومات فراہم کی ہیں وہ لکھتے ہیں کہ

" شہزاد احمد موجودہ ادبی شخصیات میں سے قابل قدر اور لائق احترام شخصیت ہیں ،جو قومی اور بین الاقوامی دونوں سطح پر شاعر ، مترجم ، نفسیات دان اور فلاسفر کی حیثیت سے جاننے جاتے ہیں "

جو انسان اتنی خصلتوں کا مالک ہو ان کی شخصیت کو نظر انداز کرنا کج روی ہے ۔ شہزاد احمد نے جس دور میں غزل کہنا شروع کی وہ دور کیسا تھا اس کے ادبی ، سیاسی اور سماجی رجحانات کیا تھے اس پر انھوں نے پردہ اٹھانے کی کوشش کی ہے تاکہ شہزاد احمد کی شخصیت کو سمجھا جا سکے

دوسرا باب بعنوان: شہزاد احمد اور بیسویں صدی میں جدید غزل کے رجحانات " ہے اس باب میں بیسویں صدی کے غزل گو شعرا اور غزل کی بدلتی کروٹوں پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ اس باب میں شہزاد احمد کے ساتھ ساتھ ان شعرا کا بھی ذکر کیا گیا جنھوں نے غزل کی سر زمین کو بنجر نہیں ہونے دیا بلکہ نے نئے پھل پھول اُگانے کی کوشش کی یہ کاوش بہت حد تک کامیاب بھی ہوئی گلستاں ادب میں ان نت نئے پھل اور پھولوں کی خوشبو چہار سُو پھیل گئی وہ لکھتے ہیں کہ

" نئے عدل گو شعرا کی موجودہ صورت حال سے پیش گوئی کی جا سکتی ہے کہ آنے والے دور میں غزل کے دریا کو خشک نہیں ہونے دیں گے "

تیسرا باب  بعنوان: شہزاد احمد کی غزل کے فکری پہلو " ہے۔ جس میں اسد عباس عابد نے شہزاد احمد کی غزل گوئی کے فن اور اسلوب پر بات کی ہے ۔ شہزاد احمد کی شعری مجموعوں کی تعداد غالباً سولہ ہے کم ہی کسی شاعر نے اتنے شعری مجموعوں کا خزانہ چھوڑا ہو شہزاد احمد نے اپنی شاعری میں بہت عمدگی سے تشبہات اور استعارات کا استعمال کیا ہے  جو یقینا ان کی شاعری میں حسن کا موجب ہیں ۔

ڈاکٹر اسد عباس عابد رقمطراز ہیں کہ

" ایک شاعر کے لیے رمز و ایما ، تشبیہات اور استعاروں میں بات کرنا شعری روایت سے آگاہی کی پہلی دلیل ہے جس سے کلام میں اختصار اور جامعیت پیدا ہوتی ہے اور ساتھ ساتھ معنی و مفہوم کے لیے امکانات عیاں ہوتے ہیں "

شہزاد احمد کی راتوں میں حدت ہے یہ حدت جسم و روح جو جلا کر رکھ دیتی ہے ان کی شاعری کا بھیگا بھیگا لمس انسانی روح کو بھگو دیتا ہے اور یہ قلبی واردات کا نتیجہ ہے

"لوٹ آئیں ترے لمس سے مہکی ہوئی شاخیں

پھر آگ لگا دی تیری سانوں سے ہوا میں "

 

شہزاد احمد بنیادی طور پر نئی شاعری کے آخری آدمی ہیں جب ساٹھ ستر  کی دہائی میں کا نیا دور آیا تو شہزاد احمد نے نئی شاعری کی بنیاد رکھ دی تھی یوں سمجھیے وہ نئی شاعری کے بنیاد گزاروں میں سے ہیں ان کی شاعری نئی شاعری کے بنیادی سوالوں کا جواب ہے اگر چہ شہزاد احمد کے ہاں تجربے کی پختگی اور نا پختگی بھی ہے مگر ان کی شاعری میں تشکیک کا رویہ بتدریج پایا جاتا ہے ۔ ساٹھ ستر کی دہائی میں نئی غزل کہنا جرات مندانہ کام تھا کیوں کہ اس دور میں شعرا غزل کی تکرار سے تھک چکے تھے وہ یہ تھکان اتارنا چاہتے تھے یہ ہی وجہ ہے کہ مشرقی ادب مغربی ادب سے متاثر ہو رہا تھا اور اسی قالب میں خود کو ڈھالنے کی کوشش کی جا رہی تھی

اس باب میں ڈاکٹر اسد عباس عابد نے شہزاد احمد کی غزل کی فنی پختگی کی طرف توجہ دلائی ہے چند اشعار ملاحظہ ہوں جان اشعار کا انھوں نے انتخاب کیا وہ عمدہ انتخاب ہے

" سمعی تمثالوں کے لیے ہمیں جو لفظیات شہزاد احمد کی شعری کائنات میں نظر آتی ہیں ، وہ معنوی سطع پر جامد اور ٹھوس ہیں "

" اس کی آہٹ پر فضا ایسے مہک جاتی ہے

جس طرح چونک اٹھے ایک صدا پر جنگل "

 

گھر میں ہے یوں آج بھی وہی خوشبو بسی ہوئی

لگتا ہے یوں کہ جیسے وہ آ کر نہیں گیا

ابھی چوما نہیں جس گل کو میں نے

مری سانسوں کو مہکانے لگا ہے "

 

اڑتے ہوئے رنگوں جو جو دیکھا ، تو لگا

سورج کی کرن جھیل سے نکلی نہا کر "

میں تیرا کچھ بھی نہیں ہوں مگر اتنا تو بتا

دیکھ کر مجھ کو ، تیرے ذہن میں آتا ہے کیا "

منظور تھا تیرا ذکر کرنا

اور چھیڑ دیں میں نے سب کی باتیں"

 

اب کیا کہوں کہ رات مری کس طرح کٹی

کچھ عجیب ذائقے چپک سے گئے ہیں ذبان سے "

آخری باب بعنوان: شہزاد احمد سوانح ، فکر و فن (حاصل مطالعہ) پر مبنی ہے ۔ اس باب کے آگے دو حصے ہیں جس کا نام " شہزاد احمد کی غزلوں کا عروضی علم " اور دوسرا ان کا کتابیات کا ذکر کیا گیا ہے

علم عروض سے کی مدد سے شاعری کی کسوٹی کی جاتی ہے یعنی پیمانہ ہے ۔

جو ادب کا طالب علم شہزاد احمد پر کام کرنا چاہتا ہے اس کے لیے یہ کتاب پیش بہا خزانہ ہے ۔ اسد عباس عابد نے شہزاد احمد کی شخصیت کو ایک کوزے میں بند کرنے کی عمدہ کوشش کی ہے قوی امید ہے کہ اس کتاب  سے نئے محققین مستفید ہو سکیں گے ۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...