Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نقش فریادی اپریل تا جون 2023 > دخترِ نیل: ڈاکٹر ولا جمال العسیلی (تعارف و تبصرہ)

نقش فریادی اپریل تا جون 2023 |
پنجاب لٹریری فورم
نقش فریادی اپریل تا جون 2023

دخترِ نیل: ڈاکٹر ولا جمال العسیلی (تعارف و تبصرہ)
Authors

ARI Id

1695782983289_56118466

Access

Open/Free Access

Pages

45

دخترِ نیل:ڈاکٹر ولا جمال العسیلی(تعارف و تبصرہ)

تبصرہ نگار: مُنیر عباس سِپرا

(پی ایچ۔ڈی سکالر شعبہ اُردو، منہاج یونیورسٹی لاہور)

عرب ممالک میں اُردو  سے محبت کرنی والی ایک ایسی شخصیت موجود ہے جنہوں نے ایم۔اے اُردو، پھر ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی اُردو میں حاصل کی۔مصر سے تعلق رکھنے والی عرب نژاد اُردو شاعرہ، افسانہ نگار ،کالم نگار، سفر نامہ نگار ڈاکٹر ولا جمال العسلی ہیں ۔

ڈاکٹر ولا جمال نے پی ایچ۔ڈی کی ڈگری کے حصول کے لیے مقالہ بہ عنوان "فہمیدہ ریاض کی شاعری "لکھا۔اس وقت عین شمس یونی ورسٹی مصر کے شعبہ اُردو میں تدریسی خدمات سرانجام دے رہی ہیں ۔

مادری زبان عربی بولنے والی ڈاکٹر ولا جمال کی اُردو سے والہانہ محبت ہم اُردو والوں کے لیے ایک قابل فخر بات ہے۔وہ اُردو سے پیار کا اظہار کچھ یوں کرتی ہیں :

اس کے ہر لفظ میں ہے اس لیے سمٹی خوشبو

دختر نیل کی سانسوں میں گھلی ہے اُردو

یہ شعر ان کی کتاب "دخترِ نیل " میں بہ طور انتساب شامل ہے۔اسی کتاب کے پیش لفظ میں وہ اُردو سے پیار کا اقرار کچھ یوں بھی کرتی ہیں:

"میں اُردو سے عقیدت کی حد تک محبت رکھتی ہوں ۔اُردو کے لیے خود کو وقف کر دیتی ہوں ۔اپنی زندگی میں اسے سب  سے زیادہ اہمیت دیتی ہوں۔"(پیش لفظ:ص14)

  نے اُردو سے اپنی محبت کا ثبوت کچھ اس طرح دیا ہے کہ متنوع اور فکر انگیز موضوعات کو مختلف اصناف میں طبع آزمائی کرکے پیش کیا ہے۔لیکن ان کی وجہ شہرت شاعری بن چکی ہے۔ان کا شاعری کا پہلا مجموعہ "سمندر ہے درمیان" کے نام سے شائع ہوا، یہ کتاب غزلیات پر مشتمل ہے جو ستمبر 2019ء میں منظر عام پر آئی تھی۔

ان کی تحقیق و تنقید پر مبنی دو کتب "اردو شاعری میں قومیت اور وطنیت کے تصورات "اور "عربی و اردو میں معاصر شاعری " منظر عام پر آ چکی ہیں۔اس کے علاوہ انہوں نے عربی سے اردو اور اُردو سے عربی کے تراجم بھی کیے ہیں ۔

 گزشتہ سال پاکستان سے ان کی شاعری کے دوسرے مجموعے کا دوسرا ایڈیشن(پہلا ایڈیشن انڈیا سے شائع ہو چکا ہے) ولا جمال کی پاکستانی دوست، اُردو محقق، ماہر تعلیم، میری پی ایچ۔ڈی ہم جماعت "صفیہ ہارون" کے تعاون سے شائع ہوا ہے۔اس کتاب کا نام بہت معنی خیز ہے۔"دخترِ نیل" کے نام سے شائع ہونے والے اس مجموعہ میں غزلیات، نظمیات اور قطعات شامل ہیں۔یہ جولائی 2022ء میں دانیال شاہد پبلشر(لاہور، چیچہ وطنی)  نے شائع کیا ہے۔

ولا جمال کی شاعری میں کئی رحجان موجود ہیں۔ ان کا والہانہ انداز میں اظہار ،اپنی محبت کا اقرار ، محبوب کی بے رخی بے وفائی، اپنی ناآسودگی، یک طرفہ محبت اور اضطرابی کیفیت کا بیان  بہت کم خواتین کی شاعری میں دیکھنے کو ملتا ہے۔پروین شاکر کی طرح ڈاکٹر ولا جمال العسیلی نے بھی صنفِ نازک کے متذکرہ بالامسائل کو آشکار کرنے کے لیے "ضمیرِمتکلم"کا استعمال کیا ہے۔جس کی وجہ سے قارئین  کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانے میں غیرمعمولی طور پر کامیاب دکھائی دیتی ہیں ۔جن  جذباتی و نفسیاتی مسائل کا انھوں نے اپنی شاعری میں ذکرکیاہے، ہوسکتاہے، وہ سارے مسائل خوداُنھیں درپیش نہ ہوئے ہوں، مگران کی شاعری کوپڑھنے، اور سمجھنے سے یہ اندازہ بخوبی طورپرلگایاجاسکتاہے کہ اجتماعی طورپرصنفِ نازک کاہرزمانے ہر تہذیب  میں اُن مسائل سے سامنا رہا ہے، جن کا ذکرمختلف پیرایوں میں انہوں نے اپنی شاعری میں کیا ہے۔چند اشعار ملاحظہ فرمائیں :

نہیں ہے دور مری روح کے قریب ہے وہ

جھلک اسی کی تو مجھ میں دکھائی دیتی ہے

 

اپنےپن کا مطلب بھی تو لوگوں کو معلوم نہیں

میرا اپنا وہ ہے جس کو اپنوں کی پروا نہیں

 

رشتوں کے بکھرنے کا سبب ہم سے نہ پوچھو

تم خود ہی بتاؤ کہ وفا کیوں نہیں کرتے

 

تو مجھے آواز دے گا اور نہ پہچانوں گی میں

کیاتری آواز  اتنی اجنبی ہو جائے گی

 

ولا جمال کی شاعری کا مرکزی نکتہ صرف اور صرف ایک لفظ  ’’محبت‘‘ ہے۔ ان کے ہاں کائنات کے ہر رنگ ہر انگ میں محبت  محسوس ہوتی ہے، بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ محبت کے بغیر یہ کائنات ہی مکمل نہیں ہوتی، تو یہ کہنا بھی بےجا نہ ہوگا۔ اور یہی" محبت" ولا جمال العسیلی کی شاعری کا محور و مرکز ہے، جس کے گرد اس کی نسائیت، حساسیت، جذباتیت، انسانیت، کرب و ملال، حسن و عشق، ہجر و وصال، وفا، بے وفائی وغیرہ گھومتی ہوئی دکھائی دیتی ہے ۔یہی جذبہ اُن کی شاعری میں رچا بسا دکھائی دیتا ہے۔

اسی حوالے سے مختلف غزلیات کے کچھ اشعار ملاحظہ کریں:

 

جسے کسی کی محبت نہ راس آئے ولا

وہ شخص دنیا میں بےحد غریب ہوتا ہے

 

ہے ترستی ولا محبت کو

دل میں ہیں ساری حسرتیں دل کی

 

مجھ کو پروا نہیں زمانے کی

میری تجھ تک رسائی لازم ہے

آکے کہتا ہے وہ تصور میں

وصل میں رونمائی لازم ہے

 

عشق میں کوئی خبر اب مجھے اپنی ہی نہیں

ایسی حالت تو کسی اور کی دیکھی ہی نہیں

تیرے چہرے میں کشش کیا ہے خدا ہی جانے

دیکھتی جاؤں نظر اب میری ہٹتی ہی نہیں

 

یہ سچ ہے تجھ سے پیار مجھے بے حساب ہے

تیرے بغیر سانس بھی لینا عذاب ہے

خود کہہ رہے ہیں عشق کی راہوں کے پیچ وخم

منزل بہت حسین ہے رستہ خراب ہے

 

ولا جمال کا کلام پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے لفظوں کو مقصدیت کا جامہ پہنا کر شاعری کی ہے ، اور وہ صرف ایک ہی مقصد ہے کہ محبتوں کو عام کیا جائے ۔ انہوں نے وفا و جفا، حسن و جمال، اور شاعری کو باہم پیوست کرکے پیش کیا ہے۔ انہوں نے محبت ہی کو اپنی شاعری کا مقصد ٹھہرایا ہے اور ان کے ہاں محبت کے  سارے رنگ، سارے درجے ملتے ہیں۔اس کے علاوہ ولاء جمال کی شاعری میں مصر کی تہذیب کا رنگ واضح طور پر ملتا ہے۔ نہ صرف حاضر دور کی بلکہ ہر گزرے زمانے کی ساری تہذیبی زندگی کا عکس بھی نظر آتا ہے۔

ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں اس کی اپنی ایک تہذیبی و ثقافتی پہچان بھی ہوتی ہے۔ جن عوامل یا رسوم یا مشاغل کا مختصراً طور پر ذکر انہوں نے اپنی شاعری میں کیا ہے۔ اہرام مصر، دریا نیل، فرعون و موسیٰ وغیرہ یہ سب تلمیحات اور اُس معاشرے کے تہذیبی نشانات ہیں۔ جو ان کی شاعری میں کہیں نہ کہیں ضرور پائے جاتے ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری میں اسلامی تہذیب وثقافت کا رنگ بھی دکھائی دیتا ہے۔ اس حوالے سے چند اشعار پیش ہیں :

مرے لیے ہو بھلا اس میں کیا کشش اے ولا

صنم ہے ہند کا اہرام مصر تھوڑی ہے

 

ہیں جیسے مصر کے اہرام پختہ

یہ میرا عزم بھی محکم بہت ہے

 

چیر کر سینہ ہوئے جو پار موسیٰ نیل کا

کر گیا فرعون کو غرقاب دھارا نیل کا

مصر آؤ دوستو تم کو اگر فرصت ملے

کم سے کم اک بار تو دیکھو نظارہ نیل کا

 

پلٹ کے آیا نہیں پھر کوئی صلاح الدین

اسی کی یاد میں روتی ہے مسجد اقصیٰ

ولا کے دل پہ ہے تحریر شہر اقدس کا نام

اور اس کی روح میں بستی ہے مسجد اقصیٰ

 

 ان کی شاعری میں اپنے اپنے عہد کے مذہبی تہذیبی عناصر ملتے ہیں۔

ولا جمال نے عشق، محبت، ہجر، فراق، حسن، وفا، بے وفائی وغیرہ پر تو بہت اچھے اشعار کہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنے کلام سے سماجی مسائل کو بھی اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔معاشی عدم استحکام، غربت، افلاس، بیماری وغیرہ جیسے سنگین مسائل کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنا کر سماجی درد مندی کا ثبوت دیا ہے۔اشعار ملاحظہ فرمائیں:

 

غریب ماں کو سلانا ہےبھوکے بچوں کو

پھر آج رات کو پانی ابالنا ہوگا

 

نہ جانے کیسی وبا آئی ہے زمانے میں

پہننا پڑتا ہے اب تو لباس چہروں پر

 

جہاں تک ان کی شاملِ کتاب نظموں کا تعلق ہے ان میں زیادہ تر نثری نظمیں ہیں چند ایک پابند اور آزاد نظمیں بھی ہیں ۔ان کی منظومات میں حسن و عشق اور رومانویت و الفت کا عروج نظر آتا ہے۔محبت کا والہانہ انداز میں اظہار ان کی نظموں کی خاصیت ہے۔

ولا جمال عصر حاضر کی شاعرات میں اپنے منفرد لب و لہجے اور عورتوں کے جذباتی اور نفسیاتی مسائل پیش کرنے کے باعث اردو شاعری کو اک نئی جہت دیتی نظر آتی ہیں۔ وہ بےباک لہجہ استعمال کرتی ہیں، اور انتہائی جرات کے ساتھ سماجی گھٹن کے خلاف احتجاج کرتی نظر آتی ہیں۔ وہ اپنے جذبات و خیالات پر شرم و حیا کے پردے نہیں ڈالتیں ۔ ان کی نظموں کے عنوانات تو مختلف ہیں لیکن موضوعِ سخن اکثریت کا ایک ہی ہے وہ "محبت" ہے۔اس حوالے سے اس کتاب (دختر نیل)  میں  یہ نظمیں شامل ہیں: پیاری سزا،  دل پھینک، توبہ، الہام، تو ہے، عشق کا احساس، خوابوں کی کرچیاں، وہ خوشبو، روداد دل، آئی لو یو، کال ویٹنگ، آواز دو جانم آؤ ذرا، سچا پیار، کچھ نہیں ملا وغیرہ وہ نظمیں ہیں جن میں صرف محبت کے گیت گائے گئے ہیں۔ ان کی نظموں میں نغمگی،تجربات کی صداقت،اور خوشگوار تازہ بیانی ملتی ہے۔

ایک مختصر ترین نظم(Micro Poem)"کیوں نہ"ملاحظہ فرمائیں:

پیار سے کیوں ڈرنا

نہ میں نے سوچا تھا

نہ تم نے سوچا تھا

ہونا تھا، ہو گیا

 

ان کی ایک اور محبت سے سرشار نظم "الگ انداز " ملاحظہ کریں:

 

اچھا لگتا ہے

تیرا مجھ سے پیار کرنے کا انداز

تیری آواز کا دلکش لہجہ

میرے نام کے حروف اور تیرے تلفظ کا طریقہ

مجھے الجھاتے ہیں

تیرے الفاظ، تیری غزلیں

مجھے دیکھتے ہوئے تیری نظریں

تیری ہنسی، تیری توجہ، تیرا عطر

تیرے ساتھ جینے کی ہر چیز حد سے باہر ہے

پیار تیرے ساتھ

ہر چیز مجھے ایک الگ زندگی کی طرف لے جاتی ہے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...