Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نقش فریادی اپریل تا جون 2023 > 1۔ کہانی پڑھی جارہی ہے

نقش فریادی اپریل تا جون 2023 |
پنجاب لٹریری فورم
نقش فریادی اپریل تا جون 2023

1۔ کہانی پڑھی جارہی ہے
Authors

ARI Id

1695782983289_56118470

Access

Open/Free Access

Pages

55

 کہانی پڑھی جارہی ہے

(سید ماجد شاہ)

 چوک میں جہا ز کی ڈمی نصب کی جا چکی تھی۔لڑکی نے چوک سے یو ٹرن لینے کے لیے ،گاڑی کی رفتار آہستہ کی ۔جب گاڑی چوک سے نیم دائرہ بنا کر مڑ رہی تھی تو فرنٹ سیٹ پر بیٹھے ، لمبے بالوں والے لڑکے نے کہا،‘‘ میں ایک منتر نما ایکویشن سے یہ جہاز اڑا سکتا ہوں۔

 لڑکی نے کنکھیوں سے دیکھا جہاز آدھا پینٹ کیا جاچکا تھا۔

 لڑکی، جس کے جسم میں جاری تمام کیمیائی عمل بحالتِ اعتدال کام کر رہے تھے ،جیسے ایک بیس بائیس سال کی مائل بہ فربا خوشحال گھرانے کی لڑکی میں کام کرتے ہیں۔

 اس نے لڑکے کی کپکپاتی مخروطی انگلیوں کو غور سے دیکھا، جن پر سگریٹ کے سرمئی داغ ، تیز گندمی رنگ پر نمایاں تھے۔پھر لڑکی نے بائیں ہاتھ سے اپنی سرخ ٹی شرٹ کا بٹن کھولتے ہوئے پورے یقین سے کہا، ‘‘ میں اس پر اڑنا چاہوں گی۔’’

 گاڑی کا اے سی بند تھا ۔ شیشے تھوڑے نیچے کیے گئے تھے تاکہ سگریٹ کا دھواں خارج ہو سکے، اس عمل سے دھواں باہر ضرور نکل رہا تھا لیکن رد ِ عمل کے طور پر باہر کی شدید گرمی گاڑی میں بھر گئی تھی۔

 جب لڑکی یہ جملہ بول رہی تھی۔‘‘ میں اس پر اڑنا چاہوں گی۔’’تو اس کے لہجے میں مذاق کا عنصر رائی برابر بھی شامل نہیں تھا، کیونکہ جب وہ مذاق کے موڈ میں ہوتی تھی تو اس کی آنکھوں میں شرارت کی لہر ابھر کر بھوؤں کو کمان بنا دیتی اور کمانیں ماتھے پر لطیف شکنیں پیدا کردیتیں۔ اس پر ہونٹوں کے ابھار میں اضافہ اور گالوں کے تھوڑا اٹھ جانے سے اس کا چہرہ مزید پُررونق ہو جاتا تھا۔

 تب ، جب وہ یہ جملہ بول رہی تھی ایسا کچھ نہیں ہوا تھا، بلکہ اس کے چہرے پر ایسی سنجیدگی تھی ،جیسے میتھس کے لیکچر میں کوئی مشکل فارمولا سمجھتے وقت ہوا کرتی تھی۔

 کار پارک ہوئی،لڑکا گاڑی سے اتر کر وہیں کھڑا ہو گیا۔ اس کی نیم وا آنکھیں جہاز کو دیکھ رہی تھیں۔ لڑکی سڑک چیر تی ہوئی، آہنی جنگلہ پھلانگ کر ، چوک کے درمیانی احاطے میں داخل ہوگئی۔

 ایسی لڑکی جو دیکھے جانے کے قابل تھی لوگوں نے اسے دیکھا۔ ایک منچلے نے گاڑی تب تک چوک میں روکے رکھی، جب تک لڑکی نے جنگلا نہیں پھلانگ لیا، اسے پتا تھا، چھوٹی شرٹ اور جینز میں ملبوس لڑکی ، جب پھلانگتی ہے تو کیا کچھ دیکھتا ہے۔ سو اس نے باقیوں سے زیادہ، جیومیٹری کی مختلف اشکال سے لطف اٹھایا ۔۔۔۔اور چل دیا۔

 آج کل شہر میں ٹک ٹاکرز کی وجہ سے کوئی بھی الٹی سیدھی حرکت کرنے والوں کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیتا، سو کسی نے یہ جاننے کی کوشش نہ کی کہ وہ،وہاں کیا کرنے جارہی ہے۔

 لڑکی نے دیکھا ،جہاز کا دروازہ نہیں تھا صرف پینٹ سے افقی اور عمودی لکیریں کھینچ دی گئی تھیں۔اس نے ادھر ادھر کا جائزہ لیا۔ پینٹ کرنے والوں کی سیڑھی پر نظر پڑی۔۔۔۔ وہ بغیر سوچے کہ اس میں انجن نہیں ہوگا، جہاز پر چڑھ گئی اور کسی ماہر بازی گر کی طرح،اس کے پروں کے بیچ ،توازن برابر رکھنے کے لیے ہاتھ پھیلا کر کھڑی ہوگئی۔

 ۴۴ لڑکے نے نیم وا آنکھوں کی درزوں کو مزید باریک کر لیا ،اتنا باریک جیسے شیشہ درکنے سے لکیر بن جاتی ہے۔ اس کے ہونٹوں کی جنبش یوں تھی، جیسے وہ بائنری نمبر کی کوئی ایکویشن حل کرتے ہوئے جنبش دیا کرتا تھا۔

 لڑکی نے سرخ ڈورے لیے غزالی آنکھیں کشادہ کیں۔ اسے محسوس ہوا جہاز میں حرکت ہوئی ہے اور وہ بلند ہونے لگا ہے، اس سے اٹکی سیڑھی، اسی رفتار سے گری ہے ،جس رفتار سے زمین اسے کھینچ رہی تھی ۔ اس نے سوچا، فزکس کے سارے اصول کام میں جت گئے ہیں۔اس نے انتہائی بلندی پر جا کر شہر کو دیکھا۔اتنی بلندی سے ، جہاں سے شہر ساکن نظر آرہاتھا۔بس! جیومیٹری کے مختلف نمونے تھے۔دائرے،نیم دائرے،نقطے ،تکون ،قوسیں ،افقی عمودی لکیریں وغیرہ۔۔۔۔ پھر وہ واپس آگئی۔جب اسے یقین ہوگیا کہ جہاز واپس آ کر بالکل غیر متحرک ہو گیا ہے تو اس نے زمین پر کودنے کے لیے وہ جگہ منتخب کی جہاں سے زمین اور جہاز کا فاصلہ سب سے کم تھا۔ وہ کودی،اس نے خود کو سنبھالا،اور جنگلا پھلانگ کر کار کی جانب چل دی ۔

 چوک سے گزرتی گاڑیوں سے دیکھنے والوں نے اسے خوب جی بھر کر دیکھا۔

 کہنے والے نے کہا ۔۔۔۔دنیا صرف دو آنکھوں کے زاویوں کا کھیل ہے۔ اب آج کے واقعے کو دیکھ لو!جہاں دو طرح کے مشاہدے ہوئے ہیں۔

 ایک، کچھ لوگوں نے لڑکی کا مشاہدہ کیا، دوسرا لڑکی نے بلندی سے زمین کا مشاہدہ کیا ، لیکن سچ یہی ہے کہ دونوں میں بال برابر بھی فرق نہیں ہے۔

 ۔۔۔۔کہانی ختم ہوئی۔۔۔۔

 کہانی خوشبو کے اصولوں پر پھیلتی چلی جارہی ہے۔لوگ سن رہے ہیں اور رائے دے رہے ہیں۔

 بیل گاڑی والا، جو بیل گاڑی کی ایجاد کے ہزاروں سال بعد پیدا ہوا تھا لیکن بیل گاڑی کی حرکت کے اصولوں سے ناآشنا تھا۔ اس کی حیرت کا تجربہ، فقط گاؤں میں ہونے والی سرکس کی حد تک تھا۔اس نے کہا یہ سب نظر کا دھوکا ہے۔

 طبیعات کا ایک ماہر ، جو بیل گاڑی کی ایجاد کے ہزاروں سال بعد پیدا ہوا تھا اور اس زمانے کے لوگوں پر ہنستا بھی تھا ، جو ہزاروں سال پہلے بیل گاڑی کی ایجاد کو ترقی کی آخری منزل سمجھتے تھے ۔۔۔۔انجن، دروازے اور رن وے کے نہ ہونے پر بڑا شاکی تھا۔

 اس کہانی پر مذہبی حلقہ ابھی تک صرف دو حصوں میں تقسیم ہوا تھا۔ایک گروہ جو ،نئی روشنی سے زیادہ خوفزدہ نہیں تھا،قدرے اونچی آواز میں اسے سائنسی توہم پرستی قرار دے رہا تھا۔

 دوسرا گروہ اسے کرامت سے تعبیر کر رہا تھاکیونکہ کرامت کو حیض الاولیا بھی کہا جاتا ہے، جو کبھی بھی کہیں بھی سرزد ہو سکتی ہے۔بار بار اور فرمائش پر دوبارہ کرامت کا ظہور،ولی کے بس میں بھی نہیں ہوتا یہ توفقط عطا ہوتی ہے۔

 یقین والا، بولا ، سچے عاشق پانی پر چل سکتے ہیں، ہوا میں بغیر پروں کے اڑ سکتے ہیں ،یہ تو پھر بھی جہاز تھا ۔ ڈمی ہوا تو کیا ہوا؟بہر حال آخری تجربے والے جملے اضافی ہیں۔جن میں جیومیٹری کی اشکال اور خصوصاً نظر کے زاویوں کو کائنات کی اصل بتایا گیا ہے۔

 ایک نے کہا ، ورچوئل ریئلٹی میں یہ عین ممکن ہے۔ اپنی من پسند دنیا آپ پیدا کی جاسکتی ہے۔یہ سرا سر سائنسی معجزہ ہے اور ممکن ہے۔

 ایک متھ کا ماہر بولا، یہ آنے والے کل کی سائنس ہے ۔۔۔۔لیکن ۔۔۔۔لیکن جب اس آنے والے کل پر لاکھوں صدیوں کی مٹی پڑ جائے گی،دنیا بڑی تباہی کے بعد دوبارہ سوچنے لگے گی ، تب یہ واقعہ پھر سے متھ اور توہم پرستی میں بدل جائے گا۔یہاں یہی عمل دہرایا جا رہا ہے۔ پہلے الٹے سیدھے خواب دیکھنا۔۔۔پھر خوابوں کا سائنسی اصولوں پر قائم ہو کر ممکن ہونا۔۔۔۔پھر تباہی۔۔۔پھر انسان کا ان اصولوں سے بے خبر ہو کر، ایسے واقعات کو متھ اور وہم سمجھنا۔

 اس وقت علم جنسیات کا ایک تنتری ،جو ریاضی کی جمالیات کا منکر ہے ،بول رہا ہے۔ وہ لڑکی کے تجربے اور لڑکی کا مشاہدہ کرنے والوں کے تجربے کو مساوی قرار دینے پرخاصا برہم ہے۔ وہ ان جملوں کولطیف جسمانی زیر و بم کی توہین قرار دے رہا ہے۔

 باقی لوگ منتظر ہیں۔تنتری چپ ہو تو وہ کچھ بولیں۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...