Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

قوانین حدود و قصاص اور اسلامی ریاست |
Asian Research Index
قوانین حدود و قصاص اور اسلامی ریاست

مقدمہ
ARI Id

1707476245802_56118782

Access

Open/Free Access

Pages

ج‌

مقدمہ

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ۔الْحَمْدُ للّٰهِ وکفیٰ وسلام علیٰ عبادہ الذین الصطفیٰ۔اما بعد:

اسلام ایک مکمل دستور زندگی اور ضابطہ حیات ہے۔ اس کے قوانین جہاں ناقابل ترمیم ہیں، وہاں ان میں حالات کی تبدیلی کے ساتھ لچک بھی پائی جاتی ہے۔ زندگی کے نئے پیش آمدہ مسائل و پیچیدگیوں کے حل کی کنجی اسلام کے پاس ہے، کیونکہ اس کے اصول ابد ی و آفاقی ہیں۔ اسلام نے معاشرے کی اخلاقی اقدار کے تحفظ کے اصول و ضوابط بیان کیے ہیں اور یہ بتلایا ہے کہ معاشرہ کی اخلاقی اقدار کاتحفظ لازم ہے۔ اگر کوئی اس کا خیال نہیں کرے گا تو معاشرہ اس کے حقوق کو تحفظ بھی فراہم نہیں کرے گا اور اس پر حد(سزا) بھی جاری کرے گا۔ دوسرا اسلام نے لوگوں کو فرائض کی ادائیگی کا حکم دیا ہے اور ان کے حقوق کی گفتگو انہی فرائض کے ضمن میں آ گئی ہے ۔ جب لوگ فرائض کی ادائیگی میں دلچسپی لیں گے تو خود بخود ان کے حقوق کا تحفظ ہوتا رہے گا۔ یہی وہ بنیادی فرق ہے جو اسلامی اور وضعی قوانین میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔ اسی کی بنیاد پر جرم و سزا کے قوانین سامنے آتے ہیں ۔ انہی قوانین کی بنیاد پر ہی معاشرے کی اخلاقی اقدار کو محفوظ بنایا جاتا ہے۔ دنیا میں امن وسکون اسی اسلامی فلسفہ کا ہی مرہون منت ہے۔

 دین اسلام میں گناہوں سے دور رہنے اور ان سے بچنے کے ضابطے درجہ بدرجہ تفصیلاً بیان ہوئے ہیں ،لیکن پہلے تربیت کے مواقع فراہم کیے گئے ہیں ، پھر آخری درجے پر سزا کا حکم دیا گیا ہے۔ اس عملی کام کے علاوہ نظری طور پر اسلام کے بنیادی عقائد بھی انسان کی بھر پور تربیت کرتے ہیں اور اسے زندگی کے کسی معاملے میں بہکنے سے بچاتے ہیں۔ خاص طور پر عقیدہ توحید کا یہ تصورکہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے ،ہر کسی کے افعال کو دیکھ رہاہے اور دوسرا آخرت میں جواب دہی کا تصور اس معاملے میں بہت نمایاں ہے۔

آج دنیا اکیسویں صدی کے تیسرے عشرہ میں اپنے آپ کو عروج پہ محسوس کرتی ہے ۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی بدولت ایجادات و انکشافات نے انسان کے لیے ترقی کی نئی نئی راہیں کھول دی ہیں ۔ انسان زمین سے آسمان تک پہنچ چکا ہے لیکن اس کے باوجود انسانیت امن وسکون کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ قتل و غارت ، فحاشی و عریانی ، شراب نوشی ، چوری ، راہزنی اور دین کی تحقیر و تنقیص عام ہے۔ کسی کی جان ومال اور عزت و آبرو محفوظ نہیں ۔ تمام وضعی قوانین امن قائم کرنےسے عاجزاور جرائم کی روک تھام میں ناکام نظر آتے ہیں۔ ان حالات کو مدنظر رکھ کر انسانی ذہن خود بخود شرعی قوانین کی طرف جاتاہے کہ جن کی بدولت آج سے ساڑھے چودہ سوسال قبل بھی انسانیت کو اس قسم کے حالات سے چھٹکارا ملاتھا۔ قوانین حدودو قصاص کی تنفیذ سے عرب میں امن و امان کی مثالی فضا قائم ہوئی اور جرائم میں حیرت انگیز کمی آئی۔ انہی قوانین کے سبب سات صدیوں تک دنیا میں امن وامان برقرار رہا ۔ برصغیر میں مغلیہ دور اور خلافت عثمانیہ میں بھی ان قوانین سے استفادہ کیا گیا ۔ آج پوری دنیا میں عموماً اورپاکستان میں خصوصاً ان قوانین کے نفاذ کی اشد ضرورت ہےتاکہ معاشرے کوپر امن، خوشحال اورمثالی بنایا جاسکے ۔

 اسلام قوانین حدود وقصاص کی تنفیذ کے لیے معاشرہ کی اخلاقی اقدار کے تحفظ و اصلاح پر بہت زور دیتا ہےکیونکہ اسلام کا مطمح نظر عدل و انصاف کا قیام ، برائی وفحاشی کا خاتمہ ، مساوات کا قیام ، رواداری،انصاف کی فوری فراہمی ، امن کا قیام ، امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور بنیادی حقوق وفرائض کی تنفیذ ہے اور اس کے لیے اسلام ترغیب و ترہیب کا اسلوب اختیار کرتا ہے۔ امر بالمعروف وعن المنکر کی تلقین کرتاہے ، تعاون علی البر پر زور دیتا ہے اور معاشرے کی اخلاقی اقدار کو نقصان دینے والے عناصر کو راہِ راست پر لانے کے لیے آخری حربے کے طور پر سزاؤں کے نفاذ کو لازمی قرار دیتاہے لیکن اگر سارے معاشرے کی حالت ہی خراب ہو ، معاشرے کی اکثریت بے راہروی کا شکار ہو تو ان سزاؤں کی تنفیذ سے اصلاح کرناممکن نہیں بلکہ کتنا ہی سخت قانون بنا لیا جائے، اس سے جرائم کا بالکل خاتمہ ممکن نہیں، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے معاشرے کو پاکیزہ بنانے کی تدابیر اختیار کی جائیں اور جو چیزیں افراد کو غلط کاموں پر ابھارتی اور جرائم کے ارتکاب کی جانب مائل کرتی ہیں، ان پر پابندی عائد کی جائے۔ قانون جرائم کو روکنے میں معاون تو ہوسکتا ہے، لیکن محض قانون سے ان کا سدِّ باب ناممکن ہے۔ اگر جرائم کے تمام محرکات اور ترغیبات کو علی حالہٖ باقی رکھا جائے اور کوئی سخت تر قانون منظور کرلیا جائے تو جرائم میں تو کوئی کمی نہیں آئے گی،البتہ قانون کے غلط انطباق اور استعمال کے اندیشے بڑھ جائیں گے۔ عدالتوں کے موجودہ طریقہ کارکی بنا پر اس بات کا خدشہ رہے گا کہ غریب اپنے دفاع سے عاجز اور سزاوار ٹھہریں جبکہ مال دار اور طاقت ور اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے سزا سے بچ جائیں۔ اسی طرح اسلام کے کسی ایک حکم کا مطالبہ اور دیگر احکام سے صرفِ نظر درست رویّہ نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے اسلامی نظام کو ایک کُل کی حیثیت سے قبول کرنا ہوگا، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً۔﴾[البقرہ، 208:2 ]

"اے ایمان والو ! پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جاؤ۔ "

اسلامی تعلیمات کے اثرات کا مشاہدہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پورے کے پورے اسلام کو نافذ کیا جائے۔ جس طرح کوئی مشین اسی وقت صحیح طریقے سے کام کرے گی، جب اس کے تمام پرزے اپنی اپنی جگہ نصب ہوں۔ اگر اس میں سے کوئی ایک پرزہ نکال لیا جائے تو مشین صحیح ڈھنگ سے وہ کام نہیں کرے گی جس کے لیے اسے بنایا گیا ہے اور نہ اس نکالے گئے پرزے سے وہ کام لیا جاسکتا ہے جو پوری مشین کے کرنے کا تھا۔ اسی طرح اسلام کے کسی ایک قانون کو نافذ کردیا جائے اور اس کے دیگر احکام پر عمل نہ کیا جائے، تو اس سے بھی مطلوبہ فوائد حاصل نہیں ہو سکتے۔

قوانین کے نفاذ کے باوجود عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ جہاں انفرادی اور معاشرتی پہلو سے  برتی گئی کوتاہی ہے ، وہاں پولیس کی مجرمانہ غفلت ، وکلاء کا غیرموثر کردار ، عدلیہ کا غلط طریقہ کار اور بین الاقوامی طور پر ان قوانین کو تسلیم تو کجا ان میں ترمیم کے حوالے سے حکومت و سیاستدانوں پررہنے والا دباؤ بھی ہے۔ ذرائع ابلاغ ، انسانی حقوق کی نام نہاد تنظیموں اور این جی اوز نے بھی ان قوانین کے عمل درآمد میں رکاوٹیں پیدا کیں ۔ مصنف نے اس کتاب میں اسلامی قوانین جرم و سزا کو بیان کرنے کے بعد ان پر عمل درآمد کے ریاستی اقدامات اور ان کے عدم نفاذ کی وجوہات اور بہتری کی تجاویز بیان کی ہیں تاکہ ان قوانین پر عمل پیرا ہوکر معاشرے کو افراتفری ،بے چینی، بدامنی، فحاشی وعریانی اور جرائم سےمحفوظ رکھا جاسکے۔ لوگوں میں صحیح و غلط کی پہچان پیدا کرکے ، پولیس کو فعال بنا کر، وکلاء کے کردار کو مؤثر بنا کر اورعدالتی طریقہ کار میں آسانیاں پیدا کرکے مجرم کو کیفر کردار تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ اس طرح معاشرے کی اخلاقی اقدار کا تحفظ بھی ہوجائے گااورجرائم کی بیخ کنی بھی۔ نتیجہ کے طورپر پورامعاشرہ امن کا گہورا بن جائےگا۔

یہ کتاب"قوانینِ حدود و قصاص اور اسلامی ریاست "چار ابواب پر مشتمل ہے : باب اول میں حدود و قصاص کا مفہوم اور اس کے معاشرتی اثرات بیان کئے گئے ہیں۔ باب دوم میں اسلامی فلسفہ حدود و تعزیرات اور صدرِ اسلام میں ان کی عملی تنفیذ کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ باب سوم میں قوانینِ حدودو قصاص کی تنفیذ سے متعلق ریاستی اقدامات کا تذکرہ ہے اور چوتھے باب میں پاکستان میں قوانینِ حدود و قصاص کے نفاذ کی تاریخ اور اس میں حائل رکاوٹوں کا تذکرہ ہے ۔

حضور اقدس  ﷺ نے انہیں مفید  حدود وقصاص کےاہم   قوانین  کی بنیاد پر ایک فقید المثال   ریاست قائم فرمائی۔ اس وقت  دنیا میں ستاون اسلامی ممالک  میں سےیہ قوانین مکمل یا جزوی طور پر افغانستان ، ایران ،برونائی، بنگلہ دیش، پاکستان،سعودی عرب، سوڈان، شام ،عراق ، مصر ،ملیشیا اور  لیبیا  وغیرہ میں  آج بھی    نافذالعمل ہیں۔ زیر نظر کتاب کا بنیادی مقصد چونکہ پاکستان میں ان قوانین کی تطبیق کا جائزہ لینا ہے ، اس لیے ضروری سمجھا گیا ہے کہ صدر اسلام میں ان کی تطبیق کا تذکرہ کرکے ان کا فہم  حاصل کیا جائے۔

بندہ ناچیز کو بنیادی طور پراس موضوع  میں دلچسپی  ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ   ایم۔ فل میں" حدود وقصاص اور دیت کی تنفیذ میں ریاست کا کردار"  اور پی۔ ایچ۔ ڈی میں "حدوداللہ کے بارے میں الہدایہ اور المحلیٰ کے مباحث کا تقابلی مطالعہ" جیسےموضوعات پر اپنے خیالات رقم کرنے کا موقع بفضل تعالیٰ ملا۔ اس  دوران   مجھےاسلامی قوانینِ حدودوقصاص  سے بنیادی آگاہی حاصل  ہوئی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میں بھی"کل یوم ھوفی شان"  کا عملی مشاہدہ کرتے ہوئے علمی ارتقاء کے متعددمراحل سے گزرا اور خیالات میں گراں قدر مثبت و منفی تبدیلیاں آئیں۔ مجھے یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ پاکستان میں قوانین حدودوقصاص کی تاریخ کو مرتب کیا جائے، اس میں حائل رکاوٹوں کو جانچا جائےتاکہ مکمل طور پر ان قوانین کی عملی تنفیذکو ممکن بنایاجا سکے اور معاشرے کو اخلاقی معیار کی اعلیٰ سطح تک لے جایا جا سکے۔ اس مقصد کے لیے اس کتاب کے لیے بنیادی مباحث ایم فل کے مقالہ سے اخذکیےگئے ، البتہ ان میں متعدد مقامات پر اضافہ و ترامیم ہوئیں۔چوتھا باب مکمل طور پر نئے سرے سے لکھاگیا۔

 تحقیق ایک معاشرتی عمل ہے اور معاشرے سے ہٹ کر اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ناممکن تو نہیں لاحاصل ضرور ہے۔اس زیرنظر تحقیق میں بھی مجھے بہت سے اساتذہ اور دوستوں کی رفاقت حاصل رہی،جن کا  اگر شکریہ ادا نہ کیا جائے تو کفران نعمت کے مترادف ہوگا۔سب سے پہلے میں حضرت خواجہ خلیل احمد دامت برکاتہم العالیہ کا شکرگزار ہوں کہ آپ نے اپنی لائبریری اس علمی کام  کے لیے میرےلیے کھول دی  اور جن محققین اور فقہاء تک میری رسائی نہ تھی ،ان تک رسائی کا وسیلہ بنے۔ مولانا زاہد الراشدی کا  شکرگزار ہوں، جنہوں نے بےپناہ مصروفیت  کے باوجود  اس کتاب کے حوالے سے چند کلمات تبریک لکھے۔ڈین فیکلٹی آف اسلامک اینڈ عریبک اسٹڈیز،دی اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور،پروفیسر ڈاکٹر شیخ شفیق الرحمٰن،ڈائریکٹر سیرت چئیر،دی اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور، پروفیسرڈاکٹرحافظ شفیق الرحمٰن،چیئرمین شعبہ فقہ وشریعہ،دی اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور،استاذمحترم پروفیسرڈاکٹر عبدالغفار،ہیڈآف دی ڈیپارٹمنٹ شعبہ اسلامیات وعربی،گومل یونیورسٹی ،ڈیرہ اسماعیل خان،استاذ محترم اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر حافظ عبدالمجید،اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ ادیان عالم و بین المذاہب ہم آہنگی، دی اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور  ، ڈاکٹر زوہیب احمد ،لیکچرر شعبہ علوم اسلامیہ، دی اسلامیہ یونیورسٹی  آف بہاولپور، ڈاکٹر صہیب جمیل ،برادرکبیرمفتی عبدالرحیم اور دیگر رفقاء  کار کا دل کی گہرائیوں سے ممنون ہوں جنہوں نے متعد د مواقع پر اپنے قیمتی مشوروں سے نوازا ،جن کی بدولت کتاب کے بنیادی ڈھانچے اور مواد کی ترتیب بہتر ہوئی ۔ ایڈووکیٹ ہائیکورٹ وفیڈرل شریعت کورٹ مظہر اقبال بھٹہ اور ڈسٹرکٹ بار ایسوی ایشن لیہ   کا مشکور ہوں  جنہوں نے قانونی نکات کو سمجھنے میں معاونت فرمائی ۔  اس موقع پر   اپنے اہل خانہ کا شکریہ  ادا کرتا ہوں جنہوں نے مجھ پر گھریلو ذمہ داریوں کا زیادہ بوجھ نہ ڈالا ، جس کی وجہ سے کتاب کی بروقت تکمیل ممکن ہو سکی۔ فجزا ھم اللہ خیرا واحسن الجزاء

 

ڈاکٹر عبدالغفار

شعبہ فقہ و شریعہ

فیکلٹی آف اسلامک اینڈ عریبک اسٹڈیز،دی اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور، پاکستان

06 اکتوبر 2023ء

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...