Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

قوانین حدود و قصاص اور اسلامی ریاست |
Asian Research Index
قوانین حدود و قصاص اور اسلامی ریاست

حد کا لغوی معنی
ARI Id

1707476245802_56118787

Access

Open/Free Access

حد ایک کثیر المعنی لفظ ہے ۔ ماہرین لغت ، محدثین اور فقہائے کرام نے اس کے کئی معنی بیان کیے ہیں ، جیسا کہ مشہور لغت دان ابن فارس(م:395ھ) حد کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں
"الحد: الحاء والدال أصلان: الأوّل المنع، والثاني طَرَف الشيء.فالحدّ: الحاجز بَيْنَ الشَّيئين. وفلان محدودٌ، إذا كان ممنوعاً. و"إنّه لَمُحارَفٌ محدود"،كأنه قد مُنِع الرِّزْقَ.ويقال للبوَّاب حَدّاد،لمنْعِه النَّاسَ من الدخول۔"1
"مادہ " حا اور دال " اس کی دو اصل ہیں پہلے کا معنی ہے روکنا اور دوسرے کا معنی ہے کسی شے کا کنارہ ، پس حد کا معنی ہے دو چیزوں کے درمیان آڑ ۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ "وفلان محدودٌ "جب کہ اس شخص کو روک دیا گیا ۔ " إنّه لَمُحارَفٌ محدود "جیسا کہ وہ رزق سے روک دیا گیا ہے اور دروازے پر کھڑے ہونے والے کو حداد کہا جاتا ہے اس لیے کہ وہ لوگوں کو اندر آنے سے روکتا ہے۔ "
حد آڑ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، جیسا کہ ابن منظور افریقی (م:711ھ)نے بیان کیا ہے
"الحَدُّ الفصل بين الشيئين لئلا يختلط أَحدهما بالآخر أَو لئلا يتعدى أَحدهما على الآخر وجمعه حُدود وفصل ما بين كل شيئين حَدٌّ بينهما۔"2
"حد دو چیزوں کی درمیانی آڑ کو کہتے ہیں تاکہ دونوں آپس میں خلط ملط نہ ہو جائیں۔ یا ان دونوں میں سے ایک دوسری پر زیادتی نہ کرے اور حد کی جمع حدود ہے۔ دو چیزوں کی درمیانی آڑ ان کے لیے حد ہوتی ہے۔ "
لفظ حد بطور روکنا بھی لیا جاتا ہے، راغب ا صفہانی(م:502ھ) اس حوالے سے بیان کرتے ہیں
"الحد الحاجز بین الشیئین الذی یمنع اختلاط احدھمابالاخر۔"3
" حدسے مراد وہ شے ہے جو دو اشیا کو باہم ملنے سے روک دے۔ "
دو چیزوں کی درمیان آڑ کو حد کہتے ہیں ، جیسا کہ علامہ زبیدیؒ(م:1205ھ) تاج العروس میں لکھتےہیں
"الحَدُّ الفَصْلُ الحِاجِزُ بَيْنَ الشيئين لئلّا يَختلِط أَحدُهما بالآخَرِ،أَو لئلّا يَتعدَّى أَحدُهما على الآخَرِ۔"4
"دو چیزوں کی درمیانی آڑ کو حد کہتے ہیں تاکہ دونوں آپس میں خلط ملط نہ ہو جائیں، یا ان دونوں میں سےوہ ایک دوسری پر زیادتی نہ کرے۔ "
حد دوچیزوں کو ملنے سے روکنے والی یا دو چیزوں کوجد ا کرنے والی ہے ۔ معروف محدث ابن حجر عسقلانی ؒ (م:852ھ)حد کواسی معنی میں استعمال کرتے ہیں
"وَأَصْلُ الْحَدِّ مَا يَحْجِزُ بَيْنَ شَيْئَيْنِ فَيَمْنَعُ اخْتِلَاطَهُمَا وَحَدُّ الدَّارِ مَا يُمَيِّزُهَا ۔"5
"حد سے مراد وہ شے ہے جو دو اشیا کو باہم ملنے سے روک دے اور حد الدار یہ ہے کہ جو ایک گھر کو دوسرے سے جدا کر دے ۔ "
حق اللہ کے طور پرمقرر شدہ سزا حد کہلاتی ہے ، جیسا کہ مشہور فقیہ علامہ مرغینانی ؒ (م:593ھ) لکھتے ہیں
"فی الشرع عقوبۃ لاجل حق اللہ فیخرج التعزیر لعدم التعزیر والقصاص لانہ حق آدمی۔ "6
"شریعت میں حد اس مقررہ سزا کو کہتے ہیں جو حق اللہ کے طور پر متعین کی گئی ہو ، تعزیر اس سے خارج ہے کیونکہ تعزیر مقرر نہیں اور قصاص بھی اس سے خارج ہے کیونکہ قصاص حق العبد ہے۔ "
حق اللہ کے طور پر واجب کی گئی شرعی سزا حد کہلاتی ہے، جیسا کہ علامہ کاسانی ؒ(م:587ھ)نے بیان کیا
"الحد في الشَّرْعِ:عِبَارَةٌ عن عُقُوبَةٍ مُقَدَّرَةٍ وَاجِبَةٍ حَقًّا للّٰهِ تَعَالَى۔"7
"شریعت میں حد اس شرعی سزا کو کہتے ہیں جو بطور حق اللہ واجب ہو ۔ "
پس ثابت ہو ا کہ حد سے مراد ایسی آڑ یا رکاوٹ یا جدا کرنے والی چیز جس سے آگے بڑھنا اور تجاوز کرنا منع ہے ۔ یہ اللہ کی طرف سے مقرر کردہ سزا ہے جس کی کسی صورت میں خلاف ورزی جائز نہیں ہے، جو شخص بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کرے گا اسے سزا کے طور پر حد لگائی جائے گی۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...